Topics
دنیا
کی روش رہی ہے کہ ایک طرف لوگ علم و حکمت کے خزانوں کے لیے دور دراز خطوں ، درس
گاہوں ، جنگل ، بیابان اور کوہ ودمن کی خاک چھانتے ہیں اور حاصل ہونے والے ٹوٹے
پھوٹے سنگریزوں کو شعور اور تہذیب کی معراج قرار دیتے ہیں لیکن جب قدرت کی مہربانی
سے کوئی اولی الا لباب ہستی زمین پر ظاہر ہوتی ہے اور صفات ِ الٰہیہ کے علوم کے
انمول جواہر مخلوق کے لیے پیش کرتی ہے تو مادی شعور کے حامل لوگ ان کی قدرو قیمت
جانے اور سمجھے بغیر خاک اور کنکر چھاننے میں مگن رہتے ہیں۔
خانوادہ
سلسلہ عظیمیہ ، واقف ِ اسرار کُن فیکون حضرت خواجہ شمس الدین عظیمیؒ نے وصال سے
قبل 27 جنوری 2025ء کو خطاب میں فرمایا،
”
میرا مشن کیا ہے۔۔۔؟ خاتم النبیین حضور پاک ﷺ کا چھوڑا ہوا علم جو حضور پاک ﷺ نے
قلندر باباؒ کو سکھایا ، حضور قلندر باباؒ نے مجھے سکھایا۔ میں چاہتا ہوں کہ مرے
بچے اس جائیداد کو ضائع نہ کریں۔ اس جائیداد کو ضائع نہ کریں۔ اس جائیداد کو ضائع نہ
کریں۔“
ان
الفاظ میں تفکر سے احساسِ ذمہ داری کے علاوہ بے پناہ دردِ دل کا احساس ہوتا ہے۔
انبیاء کرام ؑاور خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کے روحانی علوم کا یہ ورثہ ، ایسی
جائیداد ہے جو قرآن کریم میں بیان تخلیقی فارمولوں اور علمِ لدنّی پر مبنی حصے ”
معاد“ کا نایاب خزانہ ہے۔ اس خزانے میں باطنی علوم کی بے شمار جہتیں ہیں۔
حامل
علمِ لُدنّی حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ کی ذاتِ والا صفات سے جو علوم نوعِ آدم
اور نوعِ جنات کو میسر آئے ہیں، ان میں سے چند کا مختصر تذکرہ پیشِ خدمت ہے۔
۱ ۔علم رویا (خواب اور تعبیر کا
علم) : قرآن کریم میں خواب اور ان کی تعبیر کی تفصیل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خواب کو
نبوت کا چھیالیسواں حصہ فرمایا ہے۔ علمِ رویا نوعِ انسانی کو حاصل پیغمبران کرامؑ
کے روحانی علوم کے ورثے کا حصہ ہے۔ یہ علم ِ حضوری کی طرزوں پر کسی عارف باللہ کی
تربیت اور نگاہِ کرم سے سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا ہے۔۔ وہ عارف جسے خاتم النبیین
حضرت محمد ﷺ کی بار گاہ سے یہ علم عطا ہوا۔
محترم
عظیمی صاحبؒ فرماتے ہیں،
”
خواب کی تعبیر کا علم سیکھنے سے نہیں آتا ۔ یہ علم قدرت کی طرف سے عطا ہوتا ہے۔“
یعنی
یہ علم اکتسابی طرزوں سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ علمِ حضوری کا ایک باب ہے۔
خواب
کی تعبیر پر لکھی گئی عام کتابیں پڑھ کر تاثر ملتا ہے کہ دو افراد خواب میں گائے
دیکھتے ہیں تودونوں کے لئے معانی ایک ہیں۔ اس کے برعکس علمِ رویا سے واقف الشیخ
عظیمی صاحب ؑ نے اپنی نادرِ روزگار کتاب ” آپ کے خواب اور ان کی تعبیر “ میں لکھا
ہے کہ ایک شے مختلف افراد کے لیے یکسر معانی رکھتی ہے اور اس کا انحصار افراد کے
رجحانات اور طبائع پر ہے جیسے سانپ کسی کے لیے دولت ، کے لئے بیماری، کسی کے لیے
دشمن کا اشارہ اور کسی کے لیے کچھ ہو سکتا ہے۔ سانپ کو دیکھنے کے معانی سب کے لیے
ایک نہیں ہیں۔ صرف خواب کے علم سے واقف باطنی علوم کے ماہرین بتا سکتے ہیں کہ کس
فرد کے لیے کون سے معانی حقیقی ہیں۔
کتاب
” آپ کے خواب اور ان کی تعبیر“ میں علم ِ خواب کی حقیقت ، نوعیت ، خواب اور نیند
کے حواس ، خواب کی اقسام اور فنِ تعمیر کا احاطہ سلاست )روانی ( وضاحت اور روحانی
و سائنسی طرزوں پر کیا گیا ہے۔بلاشبہ یہ علم اللہ کے حکم پر مرشد کامل کی نظرِ کرم
سے منتقل ہوتا ہے اور اس کی علمی حیثیت سے صحیح طور پر واقف ہونا سالک کا بیش قیمت
سرمایہ ہے۔ کتاب ”آپ کے خواب اور ان کی تعبیر“کے مطالعے سے روشن ہے کہ یہ اسلاف کی
کتب سے ماخوذ تالیف نہیں بلکہ علمِ لُدنّی کے ایک عالمِ کا بے نظیر سرمایہ ہے۔
۲۔ ٹیلی پیتھی :ٹیلی پیتھی یعنی
انتقالِ خیال اسرارسے پُر علوم کی دنیا کا ایک علم ہے۔ ٹیلی پیتھی اور اس کی مشقوں
پر بہت سی کتب مختلف زبانوں میں تحریر کی گئی ہیں جو خیال کے ماخذ کا عرفان نہ ہونے
کی وجہ سے اس علم کی درست توجیہات پیش کرنے سے قاصر ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ ہر
آدمی کی شعوری سکت مختلف ہے۔ روحانی انسان ہی فرد کی شعوری استعداد کو جان کر
مشقیں تجویز کر سکتا ہے۔
محترم
عظیمی صاحبؒ نے معلوم تاریخ میں پہلی مرتبہ ٹیلی پیتھی کو پیغمبرانہ طرزِ فکر کی
روشنی میں پیش کی ہے تاکہ جیسے جیسے ظالب علم اسباق میں راسخ ہو اور وہ دیکھ لے کہ
کائنات کی ہر شے ربط میں ہے۔ ربط کی بنیاد یہ ہے کہ سب کا خالق اللہ ہے۔
الشیخ
عظیمی صاحببؒ کی تصنیف ” ٹیلی پیتھی سیکھئے “ مکمل پریکٹیکل ہے جسے کرنے والے کے
ذہن میں کوئی الجھن باقی نہیں رہتی البتہ اجازت ضروری ہے۔ یہ انتقالِ خیال پر
موجودہ دنیا میں واحد کتاب ہے جو اس علم کا سائنسی و علمی تعارف پیش کرتی ہے، ذہن
میں خیر کی طرزیں راسخ کرتی ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے والا انتقالِ کو انبیاء کرام علیہم
السلام کی حیوانات ، نباتات اور جمادات سے گفتگو اور قرآن کریم میں سورۃ التغابن
کی آیت کہ ” آسمانوں اور زمین میں ہر شے اللہ کی تسبیح کرتی ہے،“ کی روشنی میں
سمجھتا ہے۔ مختصر یہ کہ ہر فرد ، ذرّہ اور شے ذہن رکھتی ہے اور اپنے خیالات کو
کائنات کے نزدیک اور دور گوشوں میں منتقل کرتی ہے۔
۳۔ رنگ و روشنی سے علاج : کائناتکی
ہر شے مشمول آدمی ، حیوانات ، نباتات و جمادات ، رنگوں کی مخصوص مقداروں اور اقسام
سے تخلیق ہوئے ہیں۔ ہر رنگ معین مقداروں کا ایک فارمولا ہے۔ رنگوں کا تناسب بگڑنے
سے ذہنی، نفسیاتی یا جسمانی عارضے پیدا ہوتے ہیں۔ جس رنگ کی کمی بیشی ہوتی ہے ،
اسے معین مقدار کے مطابق کرنے سے توازن قائم ہو جاتا ہے۔
کلر
تھراپی یا کرو مو تھراپی پر پہلے بھی کام کیا گیا ہے اور کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن
یہ طریقِ علاج جسمِ مثالی میں تصرف کے علم پر منحصر ہے۔ جسمِ مثالی کیا ہے اور
مادی جسم کو بطور معمول کس طرح چلاتا ہے، کن رنگوں یا مقداروں سے مرکب ہے، جسمِ
مثالی میں کسی رنگ کی کمی اور بیشی کا کیا مطلب ہے اور یہ مٹی کے جسم پر کیسے اثر
انداز ہوتا ہے؟ اس پر بات نہیں کی گئی۔
نظریہ
رنگ و نور کے بانی عظیمی ؒنے رنگوں کی تخلیق، حقیقت ، اثرات ، خصوصیات ، جسمِ
مثالی میں رنگوں کا نفوذ ، اخراج اور اس کے طریقِ کار کے ساتھ ساتھ جسمِ مثالی میں
رنگوں میں توازن کو درست کر کے مریض کو شفا یاب کرنے کا علم بیان کیا ہے۔ ان کی
کتاب ” رنگ اور روشنی سے علاج“ میں عوام کی خدمت کے لیے تقریباً ہر چھوٹی بڑی
بیماری کا علاج ہے۔
ان
کی ایک اور کتاب ” کلر تھراپی“ رنگوں سے علاج کی سائن کا تفصیلی تعارف پیش کرتی
ہے۔ کلر تھراپی لامحدود علم ہے۔ گہرائی میں مطالعے سے انکشافات ہوتا ہے کہ اگر
تحقیق اور تجربات میں رنگ و روشنی کو مرکزیت دی جائے تو ایجاد و دریافت کی دنیا کا
در کھلے گا۔ دروازے کے پار کیا کچھ نوعِ آدم کا منتظر ہے!
نظریہ
رنگ و نور کے بانی عظیمی صاحبؒ فرماتے ہیں کہ اگر زیادہ سے زیادہ روشنیوں سے وقوف
اور ان کا علم حاصل کر لیں تو سائنسی ترقی میں ہزروں ” ہزاروں سال“ آگے نکل سکتے
ہیں۔
مغربی
دنیا کے ایک کثیر الاشاعت اخبار نے محترم عظیمی صاحب ؒکا انٹرویو کیا اور اس
انکشاف پر کہ کائنات رنگوں کے سوا کچھ نہیں اور یہ کہ رنگوں کے امتزاج سے مخلوقات
اور انواع وجود میں آتی ہیں، وہ بہت حیران اور متاثر ہوئے۔ انٹرقیو شائع کرنے سے
پہلے اخبار کا بورڈ بیٹھا لیکن علم و تحقیق پر مغرب کی اجارہ داری کھونے کے ڈر سے
انٹرویو شائع نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
رنگ
اور روشنی سے علااج مفت برابر ہے اور دنیا کے لیے ” احسنِ تقویم انسان“ کا تحفہ
ہے۔ یہ آدمی کو اسفل سافلین سے نکال کر جہاں بانی کے مقام پر فائز کر سکتا ہے۔
۴۔نیر نجات :ہزاروں سال قدیم علم
ہے۔ یہ وضاحت کرتا ہے کہ کائنات کی ہر تخلیق میں لہریں اور شعاعیں کام کرتی ہیں جن
کی مقداروں کی یکجائی کسی شے کا فارمولا بنتی ہے۔ اگر معلوم کر لیا جائے کہ شے میں
لہریں یا شعاعوں کا فارمولا کیا ہے تو اللہ کے حکم اس اپس شے میں حسبِ منشا تصّرف
کر سکتے ہیں۔
صاحبِ
طریقت عظیمی صاحب ؒنے کتابچہ بعنوان”نیر نجات“ تحریر فرمایا جس میں اس علم کا
تعارف،مبادیات، مشقوں اور عملی تصرّف کا احاطہ ہے۔ اختصار میں کاملیت اپنے کمال پر
ہے گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہے۔ اس کتابچے سے پہلے یہ علم تحریری طور
پر تاریخِ عالم میں کہیں موجود نہیں بلکہ انتہائی مخفی علمِ سینہ کے طور پر موجود
رہا ہے۔ کامل استاد کے بغیر اس کی تحصیل کی ممانعت ہے۔
۵۔ نظریہ رنگ و نور :یہ روحانی
سائنس کی خالصتاً علمی و نظریاتی کتاب ہے۔ مادی سائنس کی اصطلاح میں ہم “Pure Science”کے الفاظ سے
واقف ہیں۔ اس کی مثالیں نیوٹن کا ” نظریہ تجاذب“ اور آئن اسٹائن کا ” نظریہ
اضافیت“ ہیں لیکن مادی شعور کی جہاں انتہا ہے ، وہاں سے روحانی علوم کی الف ب شروع
ہوتی ہے۔” نظریہ رنگ و نور“ سالک کو مادے کے ہیر پھیر سے نکال کر مشاہدہ کراتا ہے
کہ ہر تخلیق نور کے غلاف میں بند ہے۔
”
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔“النور 35۔
نور
شے کی تخلیق کی بنیاد اور زندگی کے قیام کے لیے وسائل کی فراہمی کا ذریعہ ہے۔
وسائل سے ذہن میں عموماً کھانے پینے ، ہوا ، لباس ، رہن سہن جیسی چیزیں آتی ہیں
لیکن نظریہ رنگ و نور بتاتا ہے کہ وسائل کی فراہمی اور ان میں تسلسل کی اولین صورت
”خیال“ ہے۔ خیال کے مدارج اور نزول و صعود کا باقاعدہ نظام ہے۔ خیال کی لہر سے
حواس کی درجہ بندی ہوتی ہے اور ہم کائنات کی انفرادیت و اجتماعیت سے منسلک رہتے
ہیں۔ ” نظریہ رنگ و نور“ کو سمجھنے اور اس کے اطلاق سے مکانیت )اسپیس( کی حد بندی
سے آزاد ہو کر آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل سکتے ہیں۔
روحانی
علاج :عملیات و تعویزات کی سینکڑوں قدیم و جدید کتابیں موجود ہیں۔ عامل خواتین و
حضرات کی بھی کمی نہیں۔ صاحبِ علم و یقین عظیمی صاحبؒ فرماتے ہیں،
اصل عامل تو بہت ہی شاذ ہوتے ہیں البتہ بخشے
ہوئے عامل کافی پائے جاتے ہیں"۔"
بخشے
ہوئے عامل کسی عمل کو کسی کتاب سے پڑھ کر اس کی میکانیکی انداز میں تکرار کرتے ہیں
اور نتائج سے سروکار رکھتے ہیں، عمل کی روحانی سائنس کا علم نہیں ہوتا اس لئے وہ
مرض کو جڑ سے ختم کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔
اعداد
اور ہندسوں میں حکمت کیا ہے ، انوار کس طرح کام کرتے ہیں، مخلوقات کے نسمہ میں ان
تعویذات اور نقوش کی روشنیاں کیسے منتقل ہوتی ہیں اور اللہ کی مخلوق کی خدمت کے
لیے اس حیرت انگیز علم کی افادیت کیا ہے، کتاب ”روحانی علاج“ اس کی جامع دستاویز
ہے۔
کتاب
کا پیش لفظ بذاتِ خود نصاب ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ عمل کی بساط ”یقین “ہے اور
”قوتِ ارادی“ سے اس کا کیا رشتہ ہے۔ کتاب میں دو سو سے زیادہ بیماریوں کا علاج ہے۔
عظیمی صاحبؒفرماتے ہیں کہ یہ کتاب
خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ سے منظور شدہ ہے۔
قارئین
کرام! ابدالِ حق قلندر باباؒکے شاگردِ رشید محترم عظیمی صاحبؒ کا علمی ورثہ اور اس
ورثے کی جہتیں لامحدود ہیں۔
اللہ
نے اپنے حبیب ، خاتم النبیین حضرت محمد رسولﷺ کے صدقے ، اپنے ایک دوست ، اپنے
رازوں میں سے ایک راز ، حضور پاک ﷺ کے روحانی علوم کے وارثین میں سے ایک وارث کو
ہمارے درمیان بھیجا جن کی ہمیں الحمد اللہ، زیارت اور صحبت نصیب ہوئی لیکن اللہ نے
اپنے اس بندے کے ذریعے علم کے جو خزانے ظاہر فرمائے ، کیا ہمیں اس کی کچھ خبر ہے؟
مضمون
میں جن کتب اور علوم کا ذکر کیا گیا ہے ، ان کے ادراک کے لیے ان میں سے ہر کتاب پر
بین القوامی سطح کی یونیورسٹیاں قائم ہونا ضروری ہیں۔ مغرب نے ہمارے اسلاف کے علم کے
ساتھ یہی کیا ہے۔ آج وہاں ہر شعبے اور ان کے زیلی شعبوں پر تحقیقاتی یونیورسٹیاں
قائم ہیں اور ہم اغیار کے دستِ نگر ہیں۔
صاحبِ
تکوین حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کے وسیع و عریض علمی و فکری ورثے کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔
ہمیں اس جائیداد کو ضائع نہیں کرنا۔ اس کی حفاظت اسی صورت ممکن ہے جب مرشد کریم کی
طرزِ فکر۔۔۔مرید کی طرز فکر بن جائے۔