Topics
جلیل القدر پیغمبر حضرت سلیمان ؑ
اور ملکہ سبا کے قرآن کریم میں بیان کئے گئے قصہ میں عجائبات اور اسرار و رموز
ہیں۔ اس واقعہ میں ایک مقام ایسا ہے جو پورے قصہ کا نکتہ عروج اور غیر معمولی توجہ
کاطالب ہے۔ رب العالمین کا ارشاد ہے :
” کہا اے اہلِ دربار ! تم میں سے
کون ہے جو اس کے تخت کو لے آئے گا اس سے پہلے کہ وہ سب میرے پاس مطیع و فرماں
بردار ہو کے آئیں۔ جنات میں سے ایک فرد عفریت نے کہا، میں اس تخت کو آپ کے پاس لے
آؤں گا اس سے پہلے کہ دربار برخاست ہو اور میں اس معاملہ میں طاقت ور ، امانت دار
ہوں۔ ایک شخص جس کے پاس کتاب کا علم تھا ، بولا کہ میں تخت کو آپ کے پاس لے آتا
ہوں اس سے پہلے کہ آپ کی آنکھ جھپکے۔ پس جب اس نے دیکھا تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا
تو کہا، یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر ادا کرتا ہوں یا
ناشکری کرتا ہوں اور جس نے شکر ادا کیا بے شک اس نے شکر ادا کیا اپنی ذات کے لئے
اور جس نے ناشکری کی تو بے شک میرا رب بے
نیاز ، بڑے کرم والا ہے۔“ (النمل : ۳۸۔۴۰)
آئیے ان آیات کا سائنسی تجزیہ کرتے
ہیں اور علمائے باطن کے علم یعنی روحانی سائنس کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے
ہیں۔
۱۔ حضرت سلیمان ؑ اہلِ دربار کو
ملکہ سبا کا تخت لانے کا حکم دیتے ہیں جو سائز اور وزن کے اعتبار سے غیر معمولی
ہے۔ دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ بادشاہ کو اہلِ دربار کی صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ ہوتا
ہے۔ حضرت سلیمان ؑ براہ راست کسی کو تخت لانے کا حکم دے سکتے تھے لیکن دربار میں
حاضرین کے سامنے اعلانیہ حکم میں یہ حکمت نظر آتی ہے کہ حضرت سلیمان ؑ اللہ کی عطا
کردہ مخصوص صلاحیت یا ”علم“ دربار کے سامنے لانا چاہتے ہیں۔
۲۔شرط یہ رکھی گئی کہ ملکہ اور اس
کے اہلِ دربار کی آمد سے قبل تخت لایا جائے۔ دربار کے مقام یعنی بیت المقدس اور
سلطنت سبا کادرمیانی فاصلہ 1500 میل (2414 کلو میٹر) بتایا گیا ہے۔
۳۔ایک طاقتور جن ، عفریت کہتا ہے
کہ میں تخت کو دربار میں حاضر کر سکتا ہوں اس سے پہلے کہ دربار برخاست ہو۔ بہرحال
یہ طے شدہ ہے کہ عفریت جن یہ کام ملکہ کی آمد سے قبل سر انجام دے سکتا تھا۔
۴۔دربار میں موجود نوعِ انسان میں
ایک فرد (قرآن میں اس فرد کے نام کے بجائے علمی خصوصیت کے حوالہ سے تعارف ہے۔
روایات میں نام آصف بن برخیا بتایا گیا ہے) جس کے پاس کتاب کا علم ہے، عرض کرتا ہے
کہ میں تخت حاضر کر سکتا ہوں اس سے پہلے کہ آپ کی پلک جھپکے۔۔۔ اور فوراً عملی
مظاہرہ بھی ہو گیا۔۔حضرت سلیمانؑ کی پلک جھپکنے سے قبل نقش و نگار سے مزیں تخت
دربار میں موجود تھا۔
پلک جھپکنے کا دورانیہ :
۱۔ پلک جھپکنے کا دورانیہ عام
حالات میں 300،400 ملی سیکنڈ یا اوسطاً 350 ملی سیکنڈ ہوتا ہے جو ایک سیکنڈ کا
قریباً ایک تہائی ہے۔ 350 ملی سیکنڈ پلک جھپکنے کا پورا دورانیہ ہے۔آنکھ کھلتی ہے،
پردہ کی حرکت ڈیلے پر پڑتی ہے تو یہ ایک نصف ہوا یعنی 175 ملی سیکنڈ۔ اس کے بعد
پردہ ہٹتا ہے اور آنکھ کھلتی ہے تو یہ دوسرا نصف ہے۔۔۔ اس کا دورانیہ بھی 175 ملی
سیکنڈ ہے۔ غور طلب یہ ہے کہ جس شخص نے دعویٰ کیا کہ وہ پلک جھپکنے سے قبل تخت حاضر
کر سکتا ہے اس کے پاس صرف 175 ملی سیکنڈ (جس کو منٹ کے وقفہ سے بیان نہیں کیا جا
سکتا ) یا اس سے بھی کم وقت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ پردہ آنکھ کے ڈیلے پر پڑے تو کھلنے
سے پہلے تخت موجود ہو۔
قارئین ! ذرا غور کریں کہ پلک
جھپکنے کے وقفہ کو استعارہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ورنہ اتنے منفی وقت میں
ہزاروں میل سے بھاری بھر کم تخت ِ شاہی کو منتقل کرنے کی رفتار شعوری جمع تفریق
اور حسابی قاعدوں ماورا ہے۔
۶۔ امریکی خلائی ادارہ ناسا کے
محققین دعویٰ کرتے ہیں کہ ابھی تک آدمی نے ان کے بقول کوئی تیز رفتار ترین شے
ایجاد کی ہے تو وہHelios-2
نامی سیٹلائٹ ہے جو 15 جنوری 1976 کو زمین سے خلا میں چھوڑا گیا۔ اس کا ہدف سورج
کے قریب مدار تھا تاکہ سورج کی مقناطیسی خصوصیات کا گہرا جائزہ لیا جا سکے ۔ تین
سال تک سیٹلائٹ نے معلومات جمع کیں۔ اس کے بعد سے یہ اب تک بےکار حالت میں سورج کے
قریبی مدار میں محو گردش ہے۔ محققین نے اس کی رفتار43.63میل فی
سیکنڈ یا 70 کلو میٹر فی سیکنڈ بتائی ہے جو زمینی ماحول کے اعتبار سے غیر معمولی
حد تک تیز رفتار ہے لیکن روشنی کی رفتار ( یعنی تین لاکھ میٹر فی سیکنڈ یا اے لاکھ
چھیاسی ہزار دو سو بیاسی میل فی سیکنڈ) کے سامنے بے معنی ہے۔
علم الکتاب کیا ہے__؟
علم الکتاب __ یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ روحانی سائنس ہے۔ حضرت سلیمان ؑ کے
واقعہ میں روحانی سائنس کی جانب متوجہ کیا گیا ہے۔
موجودہ دور میں سائنسی علوم کا
مرکز محض مادہ بنا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے سائنسی علوم کو محدود کر دیا گیا ہے اور اس میں تخریبی ذہن
اور لالچ شامل ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسی ایجادات کی بہتات اور سہولیات کی
فراوانی کے باوجود آدمی بے سکون ہے۔
بہرحال علم الکتاب کے تحت ٹائم
اسپیس کی نفی اور اشیا کی بغیر کسی مادی وسیلہ کے ایک مقام سے دوسرے مقام منتقلی (Teleportation) ممکن ہے۔
موجودہ دور میں سائنس ابھی تک
رفتار کے مسئلہ پر قابو نہیں پا سکی ۔ محققین نے روشنی کی رفتار کو آخری حد قرار
دیا ہے جبکہ اس رفتار کا سوواں حصہ بھی حاصل نہیں ہو سکا۔ روحانی علوم میں حواس کی
رفتار روشنی کی رفتار سے تیز ہے۔
روحانی سائنس کی روشنی میں:
” سیدنا حضور ﷺ کا علم ”علم الکتاب
“ ہے۔ یہی علم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وارث اولیاء اللہ کو منتقل ہوتا ہے
اور اسی علم کے ذریعے کرامات صادر ہوتی ہیں۔ یہ ایک ایسی سائنس ہے جو روحانیت کا
ورثہ ہے۔ علم الکتاب ، علم ِ لدنی ہے۔ علم ِ لدنی میں وہ تمام علوم زیرِ بحث آتے
ہیں جن علوم کی بنیاد پر کائنات تخلیق ہوئی۔ علم الکتاب کو حاسل کرنا تفکر کے
ذریعے ممکن ہے۔ تفکر کا اصل اصول معلوم کرنے کے لیے روح سے وقوف ضروری ہے۔“
غور طلب مقام ہے کہ اگر عل الکتاب
، تفکر کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے تو تفکر کی حقیقت اور صحیح طرزوں سے واقف
ہونا ضروری ہے۔
تفکر کیا ہے؟ عام زبان میں تفکر کو
انا کا نام دیا جاتا ہے۔ اس طرح کی تخلیق ستارے بھی ہیں اور ذرے بھی۔ یعنی جتنی
مخلوقات ہیں، ان کا تعلق کسی بھی نوع سے ہو ، بنیادی طور پر مختلف قسم کے تفکر
ہیں۔ ایک ذرہ سے لے کر ستارہ تک اور نباتات و جمادات سب دراصل تفکر ہیں۔
انسان بھی ایک تفکر ہے اور فرشتہ
اور جنات بھی تفکر ہیں۔ بندہ بھی تفکر ہے اور تخت بھی۔ بندہ کا تفکر یا انا کی
لہریں تخت کے تفکر میں جذب ہو گئیں۔
جن مقداروں اور کیفیات سے تخت وجود
میں آیا ہے وہ سب مقداریں بندہ کے تفکر کا حصہ بن گئیں۔ نتیجتاً بندہ نے تخت کی ان
مقداروں کی جہاں بھی حرکت دی تخت وہاں ظاہر ہو گیا۔
شہنشاہ ہِفت اقلیم نانا تاج الدین
ؒفرماتے ہیں:
”تفکر ، انا اور شخص ایک ہی چیز
ہے۔ الفاظ کی وجہ سے ان میں معانی کا فرق نہیں کر سکتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
آخر یہ انا ، تفکر اور شخص ہیں کیا؟ یہ وہ ہستی ہیں جو لاشمار کیفیات کی شکلوں اور
سراپا سے بنی ہیں مثلاً بصارت ، سماعت ، تکلم ، محبت ، رحم ، ایثار ، رفتار ،
پرواز وغیرہ۔ ان میں ہر ایک کیفیت ایک شکل اور سراپا رکھتی ہے۔ قدرت نے ایسے بے
حساب سراپا لے کر ایک جگہ جمع کر دیئے ہیں کہ الگ الگ پرت ہونے کے باوجود ایک جان
ہوگئے ہیں۔ ایک انسان کے ہزاروں جسم ہوتے ہیں۔ علیٰ ھذالقیاس جنات اور فرشتوں کی بھی یہی ساخت ہے۔ یہ تینوں ساخت اس
لئے مخصوص ہیں کہ ان میں کیفیات کے پرت دوسری انواع سے زیادہ۔“
ہزاروں میل کی مسافت سے تخت کا
بغیر کسی وقفہ کے منتقل ہوجانے کا فارمولا عظیمی صاحب نے اس فرمایا ہے:
”ٹائم اسپیس کی حد بندیوں میں جکڑے ہوئے شعور کے لیے یہ امر
قابلِ غور ہے کہ سینکڑوں میل کی مسافت طے کر کے ملکہ سبا کا تخت ، خیال کی رفتار
سے پلک جھپکتے میں حضرت سلیمان ؑ کے دربار میں پہنچ گیا یعنی بندہ کے خیال کی
لہریں تخت کے اندر کام کرنے والی لہروں میں جذب ہو کر تخت کو منتقل کرنے کا ذریعہ
بن گئیں۔“
روشنی کی رفتار 3,00,000 کلو میٹر فی سیکنڈ بتائی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ
رفتار عام شعوری حساب سے بہت تیز ہے لیکن اس کی تیزی ، سستی میں بدل جاتی ہے جب ہم
کائناتی فاصلوں کی بات کرتے ہیں۔
پتہ نہیں کتنے ہی ایسے ستارے ہیں جن کی روشنی
لاکھوں سال محوِ سفر ہے اور ہم تک نہیں پہنچی اور یہ بھی نہیں پتہ کہ پہنچے گی بھی
یا نہیں۔
”سائنس دان روشنی کو زیادہ سے
زیادہ تیز رفتار قرار دیتے لیکن وہ اتنی تیز رفتار نہیں ہے کہ زمانی مکانی فاصلوں
کو منقطع کر دے۔ البتہ انا کی لہریں لاتناہیت میں بیک وقت ہر جگہ موجود ہیں۔ زمانی
مکانی فاصلے ان کی گرفت میں رہتے ہیں۔ بالفاظ دیگر اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ان
لہروں کے لئے زمانی مکانی فاصلے موجود ہی نہیں ہیں۔ روشنی کی لہریں جن فاصلوں کو
کم کرتی ہیں ، انا کی لہریں ان ہی فاصلوں کو بجائے خود موجود نہیں جانتیں۔“ (کتاب : تذکرہ بابا تاج الدینؒ)
نوعِ آدم کی یہ اولین ترجیح یہ
ہونی چاہیئے کہ آسمانی کتابوں اور آخری الہامی کتاب قرآن کریم میں بیان کردہ
تسخیری فارمولوں میں غور و فکر کرے اور دنیا کو سکون آشنا اور گل و گلزار بنا دے۔
تسخیری فارمولوں اور علم الکتاب کی
حیثیت امت مسلمہ کے لیے وہی ہے جو جسم کے لئے جان کی ہے۔
انسان روح ۔ روح امرِ رب ہے، امر
اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہے اور یہ ارادہ وجہ تخلیق کائنات ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
”یہ لوگ تم سے روح کے متعلق سوال
کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے اور تمہیں اس قلیل علم دیا گیا
۔“ (بنی اسرائیل : ۸۵)
غور کرنے کا مقام ہے کہ انسان ،
اللہ تعالیٰ کے امر میں سے ہےلیکن بظاہر کتنا مجبور و لاچار ہے۔ مجبور اور لاچار
ہونے کی وجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ ہم علم الکتاب سے ناواقف ہیں۔ یہی نا واقفیت وہ
متعفن پھوڑا ہے جس نے ہمیں تسخیر کائنات کے فارمولوں سے محروم کر دیا ہے۔ ہمیں چاہیئے
کہ ہم قرآن میں تفکر کر کے اس گم کردہ راہ کو تلاش کریں اور اللہ تعالیٰ کے
انعام و اکرام سے فیض یاب ہو کر سر فرازی
اور بلندی حاصل کریں۔ ضروری ہے کہ ترجمہ سے قرآن پڑھیں اور قرآن پڑھنے کے لیے زبان
سیکھیں۔
اللہ تعالی ہم سب کو اسوہ رسولِ
مقبول ﷺ پر گامزن ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین!