Topics
سائنسی تجربات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ نباتات، جمادات، حیوانات اور انسانی زندگی ایک برقی نظام کے تحت رواں دواں ہے۔ انسانی جسم سے حاصل ہونے والی بجلی کی طاقت ایک ٹارچ یا جیبی ریڈیو چلانے کے لئے کافی ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا کہ کسی درخت کے پتے پر مکھی بیٹھ کر اس کے ریشوں کو حرکت دیتی ہے تو اس پتے میں برقی رو دوڑنے لگتی ہے۔
ارسطو نے بتایا ہے کہ تار پیڈو(Torpedo) مچھلی اپنی برقی قوت سے انسان کو چونکا سکتی ہے۔ اپنی خوراک حاصل کرنے کیلئے ریت میں چھپ جاتی ہے اور جب مچھلیاں پاس آتی ہیں تو اپنے اندر کام کرنے والی برقی رو سے انہیں بیہوش کر دیتی ہے۔
ء۱۸۸۵ کا واقعہ ہے کہ ایڈبرگ میں ایک سیاہ لڑکا پایا گیا جس کے جسم پر انگلی چھو جانے سے بجلی کا کرنٹ محسوس ہوتا تھا۔ اس لڑکے کی عام نمائش ہوئی۔ ڈاکٹر جانسن نے اس کو اپنے پاس ملازم رکھ لیا اور اس پر تجربات کئے۔ انہوں نے دیکھا کہ اس لڑکے کے سر کے نزدیک خاص کر زبان چھونے سے زیادہ زور کا دھکا محسوس ہوتا ہے۔ ڈاکٹر اسٹون اور بہت سے ماہرین برق نے اسے دیکھا تو حیرت سے ان کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ ڈاکٹر اے ڈبلیو ملٹن، افریقہ کے مشہور سیاح کا بیان ہے کہ انہوں نے غصہ میں ایک نیگرو کو مارنا شروع کر دیا تو دیکھا کہ جہاں جہاں کوڑا اس کے جسم پر لگا تو وہاں سے بجلی کے شرارے نکلے۔ یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ انسان کے جسم میں سوئی چبھونے اور گرم و سرد پانی میں بھگونے سے ایک ہلکی برقی رو پیدا ہوتی ہے۔ معمولی آواز، روشنی، ذائقہ اور بُو کے احساسات سے بھی انسانی جسم میں برقی رو پیدا ہوتی ہے۔
قدرت کا یہ عجیب سربستہ راز ہے کہ انسان کے اندر بجلی پیدا ہوتی رہتی ہے اور پورے جسم میں سے دَور کر کے پیروں کے ذریعے ارتھ ہو جاتی ہے۔
نماز کے لئے وضو کرنا ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی بندہ وضو کی نیت کرتا ہے تو روشنیوں کا بہاؤ ایک عام ڈگر سے ہٹ کر اپنی راہ تبدیل کر لیتا ہے۔ وضو کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے اعضاء میں سے برقیے نکلتے رہتے ہیں۔ اور اس عمل سے اعضائے جسمانی کو ایک نئی طاقت اور قوت حاصل ہوتی ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
’’بے شک بندہ جب وضو کر لے اور اچھی طرح کر لے پھر نماز کے لئے کھڑا ہو جائے تو اللہ اس کی جانب توجہ فرماتا ہے ، اس سے سرگوشی فرماتا ہے اور اس کی جانب سے توجہ نہیں پھیرتا جب تک کہ وہ شخص خود اپنی توجہ پھیر لے دائیں بائیں توجہ کر لے۔‘‘
ہاتھ دھونا
جب ہم وضو کے لئے ہاتھوں کو دھوتے ہیں تو انگلیوں کے پوروں میں سے نکلنے والی شعاعیں ایک ایسا حلقہ بنا لیتی ہیں جس کے نتیجے میں ہمارے اندر دَور کرنے والا برقی نظام تیز ہو جاتا ہے اور برقی رو ایک حد تک ہاتھوں میں سمٹ آتی ہے۔ اس عمل سے ہاتھ خوبصورت ہو جاتے ہیں۔ صحیح طریقہ پر وضو کرنے سے انگلیوں میں ایسی لچک پیدا ہو جاتی ہے جس سے آدمی کے اندر تخلیقی صلاحیتوں کو کاغذ یا کینوس پر منتقل کرنے کی خفیہ صلاحیتیں بیدار ہو جاتی ہیں۔
کُلّی کرنا
ہاتھ دھونے کے بعد ہم کُلّی کرتے ہیں۔ کُلّی کرنے سے جہاں منہ کی صفائی ہوتی ہے وہاں دانتوں کی بیماریوں سے نجات ملتی ہے۔ جبڑے مضبوط ہو جاتے ہیں اور دانتوں میں چمک دمک پیدا ہو جاتی ہے۔ قوت ذائقہ بڑھ جاتی ہے اور آدمی ٹانسلز کی بیماری سے محفوظ رہتا ہے۔
وضو کرتے وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مسواک کی تاکید فرمائی ہے۔ آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے کہ
’’مسواک منہ کو صاف اور بینائی کو تیز کرتی ہے۔ مسواک آدمی کے اندر فصاحت پیدا کرتی ہے۔‘‘
ناک میں پانی ڈالنا
کُلّی کرنے کے بعد ناک میں پانی ڈالا جاتا ہے۔ ناک انسانی جسم میں ایک نہایت اہم اور قابل توجہ عضو ہے۔ ناک کی زبردست صلاحیت یہ ہے کہ آواز میں گہرائی اور سہانا پن پیدا کرتی ہے۔ ذرا انگلیوں سے ناک کے نتھنوں کو دبا کر بات کرنے کی کوشش کیجئے۔ آپ کو فرق معلوم ہو جائے گا۔ ناک کے اندر پردے آواز کی خوبصورتی میں ایک مخصوص کردار ادا کرتے ہیں۔ کاسۂ سر کو روشنی فراہم کرتے ہیں۔ ناک کے خاص فرائض میں صفائی کے کام کو بڑا دخل ہے۔ یہ پھیپھڑوں کے لئے ہوا کو صاف، مرطوب، گرم اور موزوں بناتی ہے۔ ہر آدمی کے اندر روزانہ تقریباً پانچ سو مکعب فٹ ہوا ناک کے ذریعے داخل ہوتی ہے۔ ہوا کی اتنی بڑی مقدار سے ایک بڑا کمرہ بھرا جا سکتا ہے۔ برف باری کے موسم میں منجمد اور خشک دن آپ برف پوش میدان میں اسکئینگ (Skiing) شروع کر دیں لیکن آپ کے پھیپھڑے خشک ہوا سے کوئی دل چسپی نہیں رکھتے۔ وہ اس کی ایک رمق قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ انہیں اس وقت بھی ایسی ہوا کی ضرورت ہوتی ہے جو گرم اور مرطوب فضا میں ملتی ہے یعنی وہ ہوا جس میں اسّی فیصد رطوبت ہو اور جس کا درجۂ حرارت نوّے درجہ فارن ہائیٹ سے زیادہ ہو۔
پھیپھڑے جراثیم سے پاک، دھوئیں یا گرد و غبار اور آلودگیوں سے مصفا ہوا طلب کرتے ہیں۔ ایسی ہوا فراہم کرنے والا معمولی ائیر کنڈیشنر (Air-conditioner) ایک چھوٹے ٹرنک کے برابر ہوتا ہے لیکن ناک کے اندر نظام قدرت نے اس کو اتنا مختصر اور مجتمع (Integrated) کر دیا ہے کہ وہ صرف چند انچ لمبا ہے۔
ناک ہوا کو مرطوب بنانے کے لئے تقریباً چوتھائی گیلن نمی روزانہ پیدا کرتی ہے۔ صفائی اور دوسرے سخت کام نتھنوں کے بال انجام دیتے ہیں۔ ناک کے اندر ایک خوردبینی جھاڑو ہے۔ اس جھاڑو کے اندر غیر مرئی روئیں ہوتے ہیں جو ہوا کے ذریعے معدہ کے اندر پہنچنے والے مضر جراثیم کو ہلاک کر دیتے ہیں۔ جراثیم کو اپنے مشینی انداز میں پکڑنے کے علاوہ ان غیر مرئی روؤں کے پاس ایک اور دفاعی ذریعہ ہے جسے انگریزی میں Lysoziumکہتے ہیں۔ اس دفاعی ذریعہ سے ناک آنکھوں کو Infectionسے بچاتی ہے۔
جب کوئی نمازی وضو کرتے وقت ناک کے اندر پانی ڈالتا ہے تو پانی کے اندر کام کرنے والی برقی رو ان غیر مرئی روؤں کی کارکردگی کو تقویت پہنچاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ بے شمار پیچیدہ بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔
چہرہ دھونا
چہرہ دھونے میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ اس سے عضلات میں لچک اور چہرہ کی جلد میں نرمی اور لطافت پیدا ہو جاتی ہے۔ گرد و غبار سے بند مسامات کھل جاتے ہیں, چہرہ روشن، پرکشش اور بارعب ہو جاتا ہے۔ دوران خون کم یا زیادہ ہو تو اس کے اندر اعتدال پیدا ہو جاتا ہے۔ منہ دھوتے وقت جب پانی آنکھوں میں جاتا ہے تو اس سے آنکھوں کے عضلات کو تقویت پہنچتی ہے، ڈھیلے میں سفیدی اور پُتلی میں چمک غالب آ جاتی ہے۔ وضو کرنے والے بندے کی آنکھیں پرکشش، خوبصورت اور پُرخمار ہو جاتی ہیں۔ چہرہ پر تین بار ہاتھ پھیرنے سے دماغ پر سکون ہو جاتا ہے۔
کہنیوں تک ہاتھ دھونا
کہنیوں تک ہاتھ دھونے میں یہ مصلحت پوشیدہ ہے کہ اس عمل سے آدمی کا تعلق براہ راست سینے کے اندر ذخیرہ شدہ روشنیوں سے قائم ہو جاتا ہے اور روشنیوں کا ہجوم ایک بہاؤ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس عمل سے ہاتھوں کے عضلات مضبوط اور طاقتور ہو جاتے ہیں۔
مسح کرنا
کاسۂ سر کے اوپر بال آدمی کے اندر اینٹینا (Antenna) کا کام کرتے ہیں۔ یہ بات ہر باشعور شخص جانتا ہے کہ آدمی اطلاعات کے ذخیرے کا نام ہے۔ جب تک اسے کسی عمل کے بارے میں اطلاع نہ ملے وہ کوئی کام نہیں کر سکتا۔ مثلاً کھانا ہم اس وقت کھاتے ہیں جب ہمیں بھوک لگتی ہے، پانی اس وقت پیتے ہیں جب ہمارے اندر پیاس کا تقاضا ہوتا ہے، سونے کے لئے بستر پر اس وقت لیٹتے ہیں جب ہمیں یہ اطلاع ملتی ہے کہ اب ہمارے اعصاب کو آرام کی ضرورت ہے۔ خوشی کے جذبات و احساسات ہمارے اوپر اس وقت مظہر بنتے ہیں جب ہمیں خوشی سے متعلق کوئی اطلاع فراہم کی جا تی ہے اسی طرح غیظ و غضب کی حالت کا انحصار بھی اطلاع پر ہے۔
وضو کرنے کی نیت دراصل ہمیں اس بات کی طرف متوجہ کر دیتی ہے کہ ہم یہ کام اللہ کے لئے کر رہے ہیں۔ وضو کے ارکان پورے کرنے کے بعد جب ہم سر کے مسح تک پہنچتے ہیں تو ہمارا ذہن غیر اللہ سے ہٹ کر اللہ کی ذات میں مرکوز ہو چکاہو تا ہے۔ مسح کرتے وقت جب ہم سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں تو سر کے بال (Antenna) ان اطلاعات کو قبول کرتے ہیں جو ہر قسم کی کثافت، محرومی اور اللہ سے دوری کے متضا د ہیں۔ یعنی بندہ کا ذہن اس اطلاع کو قبول کرتا ہے جو مصدر اطلاعات (اللہ تعالیٰ )سے براہ راست ہم رشتہ ہے۔
گردن کا مسح
ماہرینِ روحانیات نے انسانی جسم کو چھ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک حصہ ’’حبل الورید‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’میں رگ جان سے زیادہ قریب ہوں‘‘۔ یہ رگ ِجان (حبل الورید) سر اور گردن کے درمیان میں واقع ہے۔ گردن کا مسح کرنے سے انسانی جسم کو ایک خاص توانائی حاصل ہوتی ہے جس کا تعلق ریڑھ کے اندر حرام مغز اور تمام جسمانی جوڑوں سے ہے۔ جب کوئی نمازی گردن کا مسح کرتا ہے تو ہاتھوں کے ذریعے برقی رو نکل کر رگ جان میں ذخیرہ ہو جاتی ہے اور ریڑھ کی ہڈی کو اپنی گزرگاہ بناتے ہوئے جسم کے پورے اعصابی نظام میں پھیل جاتی ہے جس کے ذریعے اعصابی نظام کو توانائی ملتی ہے۔
پیروں کا مسح کرنا یا دھونا
جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں کہ دماغ اطلاعات قبول کرتا ہے اور یہ اطلاعات لہروں کے ذریعے منتقل ہوتی ہیں۔ اطلاع کی ہر لہر ایک وجود رکھتی ہے۔ وجود کا مطلب متحرک رہنا ہے۔ قانون یہ ہے کہ روشنی ہو یا پانی اس کے لئے بہاؤ ضروری ہے اور بہاؤ کے لئے ضروری ہے کہ اس کا کوئی مظہر بنے اور وہ خرچ ہو۔ جب کوئی بندہ پیر دھوتا ہے تو زائد روشنیوں کا ہجوم (Poison) پیروں کے ذریعے ارتھ (Earth) ہو جاتا ہے اور جسم انسانی زہریلے مادوں سے محفوظ رہتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اُن خواتین کے نام جو بیسویں صدی کی آخری دہائی