Topics
کتب حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ صبح کی نماز کے لئے آپﷺ دیر سے تشریف لائے۔ نماز کے بعد لوگوں کو اشارہ کیا کہ اپنی اپنی جگہ بیٹھے رہیں پھر فرمایا کہ آج شب جب میں نے اتنی رکعتیں ادا کیں جتنی میرے لئے مقدر تھیں تو میں غنودگی کے عالم میں چلا گیا۔ میں نے دیکھا کہ جمالِ الٰہی بے پردہ میرے سامنے ہے۔ خطاب ہوا ’’یا محمد(صلی اللہ علیہ و سلم)! تم جانتے ہو فرشتگان خاص کس امر میں گفتگو کر رہے ہیں؟‘‘ عرض کیا ’’ہاں، اے میرے رب! ان اعمال کی نسبت گفتگو کر رہے ہیں جو گناہوں کو مٹا دیتے ہیں۔‘‘ پوچھا۔ ’’وہ کیا ہیں؟‘‘ عرض کیا ’’صلوٰۃ باجماعت کے لئے قدم اٹھانا، اس کے بعد مسجد میں ٹھہر جانا اور ناگواری کے باوجود وضو کرنا جو ایسا کرے گا اس کی زندگی اور موت دونوں میں خیر ہے۔ وہ گناہوں سے ایسا پاک ہو جائے گا جیسا اس دن تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا۔‘‘ پھر سوال ہوا ’’یا محمد(صلی اللہ علیہ و سلم)! در جات کیا ہیں؟‘‘ عرض کیا ’’کھانا کھلانا، نرمی سے باتیں کرنا، جب دنیا سوئی ہوئی ہو اٹھ کر صلوٰۃ قائم کرنا۔‘‘ پھر حکم ہوا ’’اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم)! مجھ سے مانگو۔‘‘ میں نے عرض کیا۔ ’’خداوندا! میں نیک کاموں کے کرنے اور برے کاموں سے بچنے اور غریبوں سے محبت کرنے کی توفیق چاہتا ہوں۔ میری مغفرت کر، مجھ پر رحم فرما۔ جب کسی قوم کو تو آزمانا چاہے، مجھے بے آزمائے اٹھا لینا،میں تیری محبت کا اور تجھ سے جو محبت رکھے اس کی محبت کا اور جو عمل مجھ کو تیری محبت کے قریب کر دے اس کی محبت کا خواستگار ہوں۔‘‘
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز کسوف (سورج گرہن کے وقت کی نماز) ادا فرما رہے تھے اور بہت دیر تک قرأت، رکوع اور سجود میں مشغول رہے۔ اسی اثناء میں صحابہؓ نے دیکھا کہ آپﷺ نے ایک بار ہاتھ آگے بڑھایا۔ پھر دیکھا کہ آپﷺ قدرے پیچھے ہٹے بعد میں لوگوں نے دریافت کیا تو فرمایا کہ اس وقت میرے سامنے وہ تمام چیزیں پیش گئیں جن کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے جنت اور دوزخ کی تمثیل اسی دیوار کے پاس دکھائی گئی۔ میں نے بہشت کو دیکھا کہ انگور کے خوشے لٹک
کو کھا سکتے تھے۔ پھر میں نے دوزخ کو دیکھا جس سے زیادہ کوئی بھیانک چیز میں نے آج تک نہیں دیکھی۔رہے ہیں، چاہا کہ توڑ لوں۔ اگر میں توڑ سکتا تو تم تاقیامت اس
حضرت ابوبکرصدیقؓ کی نماز
حضرت ابوبکرصدیقؓ جب نماز قائم کرنے کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو ان کے اوپر شدت سے رقّت طاری ہو جاتی تھی اور گداز سے معمور فضا میں غیر مسلم عورتیں اور بچے بھی رونے لگتے تھے۔
حضرت عمرؓ کی نماز
حضرت عمرؓ قیام صلوٰۃ میں اتنے زور سے روتے تھے کہ رونے کی آواز پچھلی صف تک پہنچتی تھی۔ فاروق اعظمؓ فجر کی نماز کی امامت فرما رہے ہیں۔ صحابہ کرامؓ صف در صف ایستادہ ہیں۔ دفعتاً ایک ازلی شقی اور بدبخت خنجر ہاتھ میں لیے ہوئے آگے بڑھتا ہے اور خلیفۂ ثانی کے شکم مبارک کو چاک کر دیتا ہے۔ عمر فاروقؓ غش کھا کر گر پڑتے ہیں۔ خون کا فوارہ ابل پڑتا ہے۔ اس ہولناک منظر میں بھی صفیں اپنی جگہ قائم رہتی ہیں۔ حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ آگے بڑھتے ہیں اور امامت کے فرائض پورے کرتے ہیں۔ دوگانہ نماز پوری ہونے کے بعد خلیفۂ وقت کو اٹھایا جاتا ہے۔
حضرت علیؓ کی نماز
حضرت علی کرم اللہ وجہہ جب نماز کا ارادہ کرتے تو آپؓ کے بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا اور چہرے کا رنگ بدل جاتا تھا۔ آپؓ فرمایا کرتے تھے ’’اس امانت کو اٹھانے کا وقت آن پہنچا ہے جسے آسمانوں اور زمین کے سامنے پیش کیا گیا لیکن وہ اسے اٹھانے کی ہمت نہ کر سکے۔‘‘
حضرت علیؓ کی ران میں ایک تیر لگا اور آر پار ہو گیا۔ جب تیر نکالنے کی کوشش کی گئی تو آپؓ کو بہت تکلیف محسوس ہوئی۔ کسی صحابیؓ نے مشورہ دیا کہ تیر اس وقت نکالا جائے جب آپؓ نماز میں ہوں۔ چنانچہ آپؓ نے نماز کی نیت باندھی اور اس حد تک یکسو ہو گئے کہ گرد و پیش کی کوئی خبر نہ رہی۔ تیر کو نہایت آسانی کے ساتھ نکال کر مرہم پٹی کر دی گئی اور آپؓ کو تکلیف کا قطعاً احساس نہ ہوا۔
حضرت حسنؓ کی نماز
حضرت حسنؓ نے فرمایا کہ نمازی کے لئے تین خصوصی عزتیں ہیں:
پہلی یہ کہ جب وہ نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اس کے سر سے آسمان تک رحمت الٰہی گھٹا بن جاتی ہے اور اس کے اوپر انوار بارش کی طرح برستے ہیں۔
دوسری یہ کہ فرشتے اس کے چاروں طرف جمع ہو جاتے ہیں اور اس کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں۔ اور
تیسری بات یہ کہ ایک فرشتہ پکارتا ہے کہ اے نمازی اگر تو دیکھ لے کہ تیرے سامنے کون ہے اور تو کس سے بات کر رہا ہے تو خدا کی قسم تو قیامت تک سلام نہ پھیرے۔
حضرت انسؓ کی نماز
نماز میں آپ کے اوپر اس قدر محویت طاری ہو جاتی تھی کہ قیام اور سجدہ کا وقفہ طویل سے طویل تر ہو جاتا تھا لوگ سمجھتے تھے کہ بھول گئے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی نماز
حضرت عبداللہ بن زبیرؓ جب صلوٰۃ (اللہ کے ساتھ ربط) قائم کرتے تھے تو کئی کئی سورتوں کی تلاوت کر جاتے تھے اور اس طرح قیام کرتے تھے کہ لگتا تھا کوئی ستون کھڑا ہے۔ جب سجدہ میں جاتے تو اتنی دیر تک سجدہ میں رہتے تھے کہ حرم شریف کے کبوتر ان کی پیٹھ پر آ کر بیٹھ جاتے تھے۔
حضرت اویس قرنی ؓ کی نماز
حضرت اویس قرنی ؓ ساری رات نہیں سوتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ تعجب ہے کہ فرشتے تو عبادت کرتے کرتے تھکتے نہیں اور ہم اشرف المخلوقات ہو کر تھک جائیں اور آرام کی نیند سو جائیں۔
حضرت زین العابدینؓ کی نماز
حضرت زین العابدینؓ ایک روز مسجد میں نماز ادا کر رہے تھے کہ یکایک مسجد کے چھپر میں آگ لگ گئی اور آناً فاناً بھڑک اٹھی۔ لیکن آپ بدستور نماز میں مصروف رہے۔ یہ واقعہ دیکھ کر لوگ جمع ہو گئے۔ بہت شور مچایا لیکن آپ کو خبر تک نہ ہوئی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے اور باہر تشریف لائے تو لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت ہم نے اتنی زور زور سے آوازیں دیں لیکن آپ نے پرواہ تک نہ کی۔ آپ نے فرمایا کہ تم مجھے دنیا کی آگ سے بچانے کی کوشش کر رہے تھے مگر میں اس وقت خدا کے دربار میں کھڑا ہوا تھا۔
حضرت رابعہ بصریؓ کی نماز
حضرت رابعہ بصریؓ دن رات کا اکثر حصہ نماز میں گزارتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ بخدا اتنی نماز کے قیام سے میری غرض ثواب حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ یہ چند رکعتیں اس لئے ادا کر لیتی ہوں تاکہ قیامت کے دن دوسرے انبیائے کرام کے سامنے سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ فرما کر سرخرو ہوں کہ یہ نماز میری امت میں سے ایک عورت کی ہے۔
حضرت سُفیان ثوریؒ کی نماز
حضرت سفیان ثوریؒ ایک دن خانہ کعبہ کے قریب قائم الصلوٰۃ تھے جب آپ سجدے میں گئے تو کسی دشمن نے پاؤں کی انگلیاں کاٹ دیں ۔سلام پھیرا تو خون پڑا ہوا دیکھا اور پھر پاؤں میں تکلیف محسوس کی۔ تب آپ کو معلوم ہوا کہ کسی شخص نے انگلیاں کاٹ ڈالی ہیں۔
حضرت مسلم بن بشارؒ کی نماز
حضرت مسلم بن بشارؒ کی شخصیت بہت بارعب تھی۔ آپ کے رعب کا یہ عالم تھا کہ آپ جب باہر سے گھر میں تشریف لاتے تو گھر والے آپ کے رعب کی وجہ سے بالکل خاموش ہو جاتے تھے لیکن نماز میں وہ اس طرح محو و مستغرق ہو جاتے تھے کہ بچوں کے شور کا آپ کو قطعاً علم نہیں ہوتا تھا۔
ایک دفعہ آپؒ اپنے کمرے میں نماز کی نیت باندھے ہوئے تھے کہ اتفاق سے اس کمرے کے کسی کونے میں آگ لگ گئی لیکن آپ نماز میں مشغول رہے۔ سلام پھیرنے کے بعد گھر والوں نے کہا کہ تمام محلے والے آگ بجھانے کے لئے جمع ہو گئے اور آپ نے نماز نہ چھوڑی حالانکہ ایسے وقت میں تو فرض نماز کی نیت توڑنا بھی جائز ہے۔ آپ نے فرمایا اگر مجھے خبر ہوتی تو ضرور نیت توڑ دیتا۔
ایک عورت کی نماز
حضرت عبداللہ بن مبارک علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں کہ مجھے وہ عورت خوب یاد ہے جسے میں نے بچپن میں دیکھا جو بہت عبادت گزار تھی۔ بحالت نماز اس عورت کے چالیس مرتبہ بچھو نے ڈنک مارا مگر اس کی حالت میں ذرہ برابر تغیر نہ ہوا۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئی تو میں نے کہا ’’اے اماں! اس بچھو کو تم نے کیوں نہیں ہٹایا؟‘‘ اس نے کہا’’اے فرزند! تو ابھی بچہ ہے۔ یہ کیسے جائز تھا، میں اپنے رب کے کام میں مشغول تھی اپنا کام کیسے کرتی؟‘‘
ایک بزرگ کی نماز
حضرت ابوالخیراقطع رحمتہ اللہ علیہ کے پاؤں میں آکلہ تھا۔ طبیبوں نے مشورہ دیا کہ یہ پاؤں کٹوا دینا چاہئے مگر وہ راضی نہ ہوئے۔ آپ کے مریدوں نے طبیبوں سے کہا کہ نماز کی حالت میں ان کا پاؤں کاٹ دیا جائے کیونکہ اس وقت انہیں اپنی خبر نہیں ہوتی۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو دیکھا کہ پاؤں کٹا ہوا تھا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اُن خواتین کے نام جو بیسویں صدی کی آخری دہائی