Topics

انبیائےکرا م کی طرزِ فکر

قانون یہ ہے کہ جب تک ہماری فکر اپنی پوری صلاحیتوں اور اپنی تمام تر توجہ کے ساتھ ایک نقطے کو تلاش نہ کر لے اور ہماری فکر کسی ایک جگہ پر قائم نہ ہو جائے ہم اس چیز کے صحیح مفہوم اور معنویت سے بے خبر رہتے ہیں۔ دماغی انتشار اور خیالات کی یلغار کے ساتھ ہم کوئی بھی کام کریں، اس کا صحیح نتیجہ مرتب نہیں ہوتا۔ دراصل کسی چیز کے اندر اس کا وصف اور اس وصف میں معنویت سے ہی کوئی نتیجہ مرتب ہوتا ہے مثلاً پانی سے پیاس اس لئے بجھ جاتی ہے کہ پانی کا وصف خشک رگوں کو سیراب کرنا ہے، آگ سے کھانا اس لئے پک جاتا ہے کہ آگ کا وصف یہ ہے کہ وہ اپنی حدت اور گرمی سے چیزوں کو گلا کر قابل ہضم بنا دیتی ہے۔ جب تک ہمارے ذہن میں فی الواقع کسی چیز کا وصف اور معنویت موجود نہیں ہوتی ہم اس چیز سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکتے۔ صلوٰۃ (نماز) کی حکمت اور معنویت پر اگر غور کیا جائے تو ایک ہی بات وجہ تسکین بنتی ہے کہ نماز اللہ تعالیٰ سے قریب  ہونے کا اور اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کا ایک مؤثر اور یقینی ذریعہ ہے۔ لیکن کسی چیز سے قریب ہونا اور کسی چیز کو پہچاننا اس وقت ممکن ہے جب آدمی اس شئے کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو جائے۔ جب تک آدمی کسی چیز کی معنویت میں خود کو گم نہ کر دے، اس وقت تک وہ اس کی کُنہ سے واقف نہیں ہوتا اور معنویت میں گم ہو جانا اس وقت ممکن ہے جب عقل و فہم اور سوچ کا ہر زاویہ کسی ایک نقطہ پر مرکوز ہو جائے۔ یعنی کسی چیز کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے وہ شعوری اور لاشعوری طور پر اس چیز سے اپنا ربط قائم کر لے۔ وہ زندگی کا کوئی کام اور زندگی کی کوئی حرکت کرے، ذہنی طور پر اس کی تمام تر توجہ اس چیز کی معنویت تلاش کرنے میں مصروف رہے۔ انبیائے کرامﷺ کے اندر یہی طرز فکر کام کرتی تھی۔ وہ ہر کام اور ہر عمل کا رخ ارادتاً اور طبعاً اللہ تعالیٰ کی طرف موڑ دیتے تھے۔ یعنی ان کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوتی ہے کہ ہمارا ہر کام اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔ انبیائے کرام نے اسی طرز فکر کی تبلیغ کی ہے اور اسی طرز فکر کو اپنانے کی پوری نوع انسانی کو ترغیب دی ہے اور اپنی ساری زندگی اسی طرز عمل میں گزاری ہے۔

Topics


Roohani Namaz

خواجہ شمس الدین عظیمی

نماز اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے۔ نماز ایک عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہے ۔ اہل اسلام کو اس فرض کی بہتر طور پر ادائیگی  کی ترغیب وتعلیم  کے لئے اہل تصوف نے بہت علمی کام کیا ہے ۔ تصوف کی تقریباً تمام اہم  کتابوں میں نماز کی اہمیت اور اس کے اثرات  پر گفتگو کی گئی ہے ۔ ان کو ششوں  میں اولیائے کرام  کے پیش نظر یہ مقصد رہاہے کہ امت مسلمہ  ذوق وشوق  اورخشوع  کے ساتھ اس رکن اسلام پر کاربندرہے ۔ سلسلہ عظیمیہ کے بزرگ بھی امت مسلمہ کے فرزندوں  کو قائَم بالصلوٰۃ  دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اسی مقصد کے پیش نظر خواجہ شمس الدین  عظیمی نے زیرنظر کتاب  تحریر کی ہے ۔ اس کتاب میں نما زکی روحانی، ذہنی ، جسمانی ، نفسیاتی  اورسائنسی  فوائد بیان کرتے ہوئے  نماز کی اہمیت  اورغرض وغایت  پر روشنی ڈالی ہے ۔ نیز انبیاء کرام  علیہم السلام  کی نماز ، خاتم النبیین  رسول پاک ّ کی نماز ، صحابہ کرام اورصوفیائے کرام کی نماز کے روح پرور واقعات بھی پیش کئے گئے ہیں ۔

انتساب

اُن خواتین کے نام جو بیسویں صدی کی آخری دہائی
ختم ہونے سے پہلے پوری دنیا کے اقتدار اعلیٰ پر فائز ہو کرنُورِ اوّل، باعث تخلیق کائنات، محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ و سلم
کے مشن کی پیش رفت میں انقلاب برپاکردیں گی۔


بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنْ ذُرِّ یَّتِیْ


اے میرے پروردگار!
مجھ کو اور میری نسل میں سے لوگوں کو نماز قائم کرنے والا بنا۔


اَلصَّلٰوۃُ مِعْراجُ الْمُؤْ مِنِیْنَ
صلوٰۃ مومنین کی معراج ہے


*****
معراج کا مفہوم ہے غیب کی دنیا میں داخل ہو جانا۔ مومن کی جب نماز کے ذریعے معراج ہوتی ہے تو اس کے سامنے فرشتے آ جاتے ہیں۔ نمازی آسمانوں کی سیر کرتا ہے اور سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رحمت سے اسے اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل ہو جاتا ہے۔