Topics

ہمزاد


                مندراج بابو کو ہمزاد قابو کرنے کا بڑا شوق تھا۔ انسان جس کام کا ارادہ کرتا ہے۔ اوپر والا اس کا سبب بنا ہی دیتا ہے۔ ایک دفعہ امراؤتی سے ایک پنڈت اپنے کسی دوست سے ملنے دیولالی آئے۔ ان دنوں ڈاک کا انتظام اور ایک دوسرے سے رابطہ قائم کرنے کا اہتمام اتنا تیز تو تھا جیسا آج کل ہے۔ بس دوست سے ملنے کو جی چاہا اور قافلے کے ساتھ چل پڑے۔ ان دنوں جب کوئی مسافر باہر سے آتا تھا تو سب سے پہلے مسجد یا مندر میں پڑاؤ کرتا۔ پھر وہاں سے مطلوبہ جگہ اپنی آمد کا پیغام بھجواتا۔ یہ پنڈت بھی دیولالی پہنچ کر مندر میں مقیم ہوئے اس مندر میں مندراج بابو بھی جاتے تھے۔ اتفاق سے مندراج بابو جب مندر پہنچے تو پنڈت نے سب سے پہلے انہی سے اپنے دوست کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ “وہ تو سارا پریوار پندرہ بیس دنوں کے لئے دہلی اپنے رشتے داروں کے ہاں گیا ہوا ہے۔ اتنے دن آپ میرے گھر مہمان رہیں۔”اس طرح وہ پنڈت مندراج کے ہاں آ گئے۔ چند ہی دنوں میں دونوں کا ذہن ایک دوسرے سے مل گیا اور دونوں میں اچھی دوستی ہو گئی۔ باتوں باتوں میں مندراج بابو نے اپنے دل کا حال بھی کہہ سنایا کہنے لگے۔”مجھے بڑے عرصے سے ہمزاد قابو کرنے کا شوق ہو رہا ہے اس سلسلے میں کئی کتابیں پڑھیں۔ مگر مجھے آج تک کوئی بھی استاد یا کوئی شخص نہیں ملا جو مجھے ہمزاد قابو کرنے کا عمل سکھا دے۔ صرف کتابیں پڑھ کر عمل کرنے میں خوف آتا ہے۔ پھر ہر کتاب میں مختلف عمل ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کون سا کیا جائے۔”وہ یہ سن کر مسکرائے اور بولے۔”اگر آپ مجھ پر بھروسہ کریں تو میں آپ کو اس کا عمل بتا سکتا ہوں۔”اب کیا تھا مندراج بابو کی تو دل کی مراد پوری ہو رہی تھی۔ بے صبری سے پوچھا۔”آپ کو اس کا تجربہ ہے؟”بولے۔”میرے گرو نے مجھے یہ عمل بتایا تھا وہ اس کے عالم تھے۔ مگر میں نے نہیں کیا۔”مندراج بابو نے پھر پوچھا۔”آپ نے کیوں نہیں کیا۔”وہ بولے۔”اس لئے کہ میں اپنے گرو کو دیکھ دیکھ چکا تھا۔ ہمزاد کی وجہ سے ان کو کئی مشکلات بھی تھیں۔”مندراج بابو بولے۔”خیر میں اب ان مشکلات کو جان کر اپنا ارادہ بدلنا نہیں چاہتا کیونکہ ایک مدت سے میں اس کا خواہش مند ہوں۔”پنڈت نے کہا۔ “مندراج بابو آپ نے مجھے اپنے گھر مہمان رکھا۔ اتنی خدمت کی اب آپ اس عمل کے جاننے کے مستحق ہو گئے۔”یہ کہہ کر انہوں نے ہمزاد قابو کرنے والا عمل بتا دیا۔ جو اچھا خاصا محنت طلب تھا۔ آدھی رات کو شمشان گھاٹ جا کر عمل کرنا تھا اور بھی جاپ تھے۔ بہرحال مندراج بابو نے شوق میں آ کر دوسرے دن سے ہی یہ عمل شروع کر دیا تا کہ پنڈت کے سامنے ہی شروعات ہو جائے۔ آٹھ دن بعد پنڈت کے دوست بھی آ گئے۔ وہ انہیں اپنے گھر لے گئے۔ یہ عمل تین ماہ کرنا تھا۔ چونکہ مندراج بابو عرصے سے وظیفوں اور عملیات میں زندگی گزار رہے تھے جب انہوں نے ہمزاد قابو کرنے کا عمل شروع کیا تو ایک ہفتے بعد ہی انہیں کامیابی کے اشارے ملنے شروع ہو گئے۔

                یہ عمل اندھیرے میں اور تنہائی میں حصار باندھ کر کرنا تھا۔ پہلے ہفتے میں انہیں ایک بہت بڑا اژدھا اپنی جانب لپکتا ہوا دکھائی دیا۔ مگر چونکہ حصار تھا وہ اندر قدم نہ رکھ سکا۔ پھر ساتھ پنڈت بھی موجود تھے۔ خیریت رہی۔ دوسرے ہفتے ایک سانڈ اپنے سینگ بڑھاتا ہوا ان کی طرف دوڑا پہلے دن تو وہ خوب ڈرے مگر حصار کی وجہ سے محفوظ تھے۔ ویسے بھی کسی چیز کی لگن آدمی کو باہمت بنا دیتی ہے۔ پنڈت نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ خوب جم کر بیٹھنا۔ ڈر گئے تو سارا کام خراب ہو جائے گا۔ حصار کے اندر تو کوئی پرندہ پر نہیں مار سکتا۔ مگر آخر انسان ہے۔ تنہائی اور پھر اندھیرا، ایسے میں درندوں کو اتنے قریب دیکھ کر پتہ پانی ہو ہی جاتا ہے۔ پہلے دن تو ان پر خوف کے مارے لرزہ طاری ہو گیا۔ عمل ختم کر کے بیوی کے کمرے میں دوڑ گئے۔ بے سدھ ہو کر پلنگ پر گر پڑے۔ بتیسی کے کٹ کٹ کرنے کی آواز پر بیگم ہڑبڑا کر اٹھ گئیں۔ جلدی جلدی آس پاس پڑی ساری رضائیاں ان پر ڈال دیں۔ ساتھ ساتھ استاد صاحب کو برا بھلا کہتی جاتیں۔ “کس جان لیوا دھندے میں پھنسا دیا ہے۔”وہ تو شکر ہے پنڈت کا کمرہ بہت دور تھا ان کو بھنک نہ پڑی ورنہ کام خراب ہو جاتا مگر پھر دوبارہ ایسی سنگین حالت نہ ہوئی۔ تیسرے ہفتے دو شیر ٹہلتے ہوئے حصار تک آ گئے۔ استاد کی شرط یہ تھی کہ آنکھیں نہ کھولنا۔ اس عالم میں اور اس عالم میں بہت فرق ہے۔ تمہارے ارادے کے بغیر اس عالم کی کوئی شے تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ چالیسیوں دن وہ ہمزاد سامنے آن کھڑا ہوا۔ خوب گھٹا ہوا سر، گول گول چمکیلی آنکھیں، خوب چوڑا طباق سا چہرہ، اس پر لمبا تڑنگا جسم، ہاتھ باندھ کر جب اس نے کہا “جناب میں آپ کا ہمزاد ہوں۔ میرے لئے کیا حکم ہے؟”تو مندراج بابو کے حلق میں آواز ہی پھنس گئی۔ جانے ان کے ذہن میں ہمزاد کا نقشہ کیا تھا اور وہ کیا نکلا۔ اب ہمزاد کہے جا رہا تھا۔”میرے لئے کیا حکم ہے؟”اور مندراج بابو صاحب دریائے حیرت میں غوطے کھا رہے تھے۔ خیر جب ذرا ابھرے تو اوسان درست کرتے ہوئے فرمایا۔”یار مجھے میرے کمرے میں پہنچا دے”۔ دوسرے ہی لمحہ وہ کمرے میں تھے۔ اب مندراج بابو کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا جلدی سے بیگم کو آواز دی اور سارا ماجرا سنایا۔ اتنے میں پھر ہمزاد سر پر سوار تھا۔ “کوئی کام بتاؤ۔”بیگم سے بولے۔”نیک بخت الٰہ دین کا چراغ ہاتھ لگ گیا ہے جلدی جلدی سے اپنی حسرت نکال لے۔”وہ بولیں۔”مجھے کندن کا سیٹ لا دے۔”ابھی ایک منٹ نہیں گزرا تھا کہ کندن کا جڑاؤ ہار بندے، کنگن سب موجود اپنی طرف سے تو انہوں نے ایسی چیز بتائی جس کا حصول مشکل تھا۔ مگر ہمزاد کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ اس نے تو ایک منٹ میں ڈھونڈ نکالا اب کیا تھا۔ بیگم کبھی ہار گردن سے لگائیں، کبھی بندے کانوں سے چھوائیں، ساتھ ساتھ بہوؤں بیٹیوں کو بھی آوازیں دیتیں جاتیں۔ ادھر ایک ہنگامہ مچ گیا سارا گھر جمع ہو گیا کوئی کچھ کہتا، تو کوئی کچھ کہتا، کسی نے چزی کی فرمائش کی، کسی نے سینڈل کی، مندراج بابو نے سوچا یہ کام تو صحیح نہیں ہے مجھے پہلے اپنے استاد جی کو اطلاع دینی چاہئے۔ انہوں نے سب کو کمرے سے باہر چلے جانے کو کہا اور پنڈت کو بلوا بھیجا۔ وہ آئے اور اتنی جلدی ایسی بڑی کامیابی دیکھ کر بڑے خوش ہوئے۔ مندراج بابو ان کے چرنوں میں گر گئے۔ گرو جی میں آپ کی کیا سیوا کروں؟ وہ بولے بھگوان کا دیا سب کچھ ہے بس کل میں اپنے دوست سے رخصت لے لوں گا۔ مجھے گھر پہنچوا دینا تمہارے لئے رکا ہوا تھا۔ دو تین دن تو ہمزاد کو سب نے خوب مصروف رکھا۔ کبھی اسے سارے گھر میں جھاڑو کرنے کو کہتے، کبھی بڑے بڑے فرنیچر کی ترتیب بدلنے کو کہتے، غرضیکہ سارا وقت گھر میں عجیب چکر رہا۔ تیسرے دن گھر کی ساری بہوؤں نے صلاح کی کہ آج خوب بادل چھائے ہوئے ہیں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہیں آج تو ہم پکوڑے کھائیں گے۔ مندراج بابو بہوؤں کی بات بھلا کیسے ٹال سکتے تھے۔ فوراً ہمزاد کو پکوڑے لانے کا حکم دیا۔ ایک دو منٹ بعد ہی کمرے میں گرم گرم پکوڑوں کا تھال رکھا تھا۔ ساری اس پر جھپٹ پڑیں خوب مزے لے لے کر کھائے۔ وہ تھال بڑی بہو نے صحن میں رکھ دیا۔ ان دنوں فلش سسٹم نہیں تھا۔ بھنگن آ کر ٹائیلٹ صاف کیا کرتی تھی۔ صبح بھنگن آئی تو صحن میں پڑا تھال دیکھ کر حیرت سے چلا اٹھی۔ “ مالکن یہ میرا تھال یہاں کیسے آیا؟”

                آواز سنتے ہی تینوں بہوئیں صحن میں آ گئیں اور بولیں۔”کیا ہے؟”کہنے لگی۔”مالکن کل شام میں پکوڑے تل رہی تھی۔ میرے دیکھتے دیکھتے ہی پکوڑوں کا تھال سامنے سے غائب ہو گیا اور اب یہ خالی یہاں پڑا ہے۔ تمہارے ہاں کوئی بھوت پریت تو نہیں؟”

                تینوں بہوؤں کا چہرہ دیکھنے کے قابل تھا۔ سب کی ناک چڑھ گئی جیسے گندی بدبو سونگھ لی ہو۔ بھاگی بھاگی سسر کے پاس آئیں۔”باپو باپو غضب ہو گیا اس ہمزاد نے تو ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا کم بخت نے بھنگن کے ہاتھ کے پکوڑے کھلا دیے ہمارا تو دھرم بھر شٹ ہو گیا۔”وہ بولے۔”بھئی اسے کیا پتہ کون بھنگن ہے اور کون ساہوکار۔ وہ تو بس ادھر کا مال ادھر کرنا جانتا ہے۔ تم نے پکوڑے مانگے اسے جو قریب ترین پکوڑوں کا تھال دکھائی دیا اس نے تمہیں پہنچا دیا۔ کیا پتہ اب کھانا گھر کا پکا کھانا ہے یا باہر کا؟”سب بہوئیں بولیں۔”نہ بابا نہ اب ہم اس سے کھانے کی کوئی چیز نہیں منگوائیں گے۔”مندراج بابو تو اب ہمزاد کے چکر میں پڑ کر مندر جانا بھی بھول گئے تھے وہ کچھ کرنے ہی نہیں دیتا تھا۔ جیسے ہی ایک کام ختم کرتا۔ دوسرے کیلئے تیار ہو جاتا۔ اسے کہتے ذرا ٹھہر جاؤ تو بمشکل پانچ منٹ چپ چاپ گزرتے پھر سر پر سوار۔”کچھ کام بتاؤ؟”بھگوان کیا کروں؟ کس مشکل میں پڑ گیا سوچ سوچ کے مندراج بابو کو ایک ترکیب سوجھی بولے ایک بیس فٹ لمبا بانس لا کر صحن والے کونے میں گاڑھ دے جس کے پاس نیم کا درخت ہے۔ اور جب تک کوئی کام نہ کہوں اس پر چڑھتا اترتا رہ۔ اس طرح ان کی جان چھوٹی اور اطمینان کا سانس لیا۔

                ہمزاد اکثر انہیں پیسے لا کر دیتا۔ ایک دن وہ بیٹھے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے کہ کمرے میں مٹی گرنے کی آواز آئی۔ دیکھا تو جو مٹی زمین پر گر رہی ہے زمین پر پڑتے ہی موتیوں میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ اس طرح ایک دن ان کی گود میں ایک پتھر آن پڑا اور گرتے ہی ہیرے میں تبدیل ہو گیا اب انہیں معاش کی فکر نہیں رہی تھی۔ مگر پھر بھی وہ دکان پر ضرور جاتے اب تو انہوں نے بیٹوں کو بھی الگ الگ دکان لے کر دے دی تھی۔ البتہ رہتے سب اسی حویلی میں تھے۔ مندراج بابو کی زندگی اب مزے سے گزر رہی تھی۔ انہوں نے اپنے محلے میں بڑی سی جگہ لے کر شاندار مندر بنوا لیا تھا۔ جو ہمزاد کی مدد سے بڑی جلدی بن گیا تھا۔ لوگ بڑے حیران ہوئے اور انہیں بہت ہی گیانی سمجھنے لگے۔ ایک ماہ میں اتنے شاندار مندر کا بن جانا دیولالی جیسے چھوٹے سے گاؤں میں ممکن نہ تھا۔ یہاں تو دوسرے شہروں سے چیزیں لانے لے جانے میں ہفتوں لگ جاتے۔ ان دنوں زیادہ کام بیل گاڑیوں پر ہوتا تھا۔ مندر میں ایسے پگھر استعمال ہوئے تھے۔ جو دیولالی کے آس پاس کہیں نہیں تھے۔یہی دیکھ کر تمام لوگوں پر مندراج بابو کی دھاک بیٹھ گئی۔ لوگوں کے نزدیک وہ پرماتما کا اوتار تھے۔ گاؤں کے سیدھے سادھے لوگوں میں وہ بادشاہ بن بیٹھے تھے مگر مندر کا مالک ہونے کی وجہ سے ان کا سارا التفات صرف ہندوؤں تک ہی تھا غیر مذہبوں کو تو وہ نیچ کہہ کر ان کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔

                ٹھاکر صاحب چند بار ان کے ہاں گئے۔ تو انہوں نے بڑی تبدیلی محسوس کی۔ سار اگھر اپنے میں ہی لگا رہا۔ بھائی بھی سارا وقت دنیا کی باتیں کرتے رہے۔ دو تین بار جانے جانے کے بعد انہوں نے ہمزاد کا ذکر کیا۔ ٹھاکر صاحب فقیر طبیعت آدمی تھے۔ بولے۔”بھائی صاحب اس غرض سے عبادت کرنا کہ کسی موکل یا جن وغیرہ کے ذریعے وسائل میں کشادگی ہو جائے گی۔ وسائل تو ویسے بھی انسان کے پابند ہیں پرماتما اپنے بندوں کی ضروریات پوری کرنے والا ہے۔ مگر مندراج بابو بولے۔ “میاں، تم کچھ بھی کہو مگر یہ بات تو ماننا پڑے گی کہ ہمزاد کی وجہ سے ہی ہمارے دن پھرے ہیں۔”ٹھاکر صاحب بولے۔”بھائی صاحب، پہلے بھی ہمارا گھر گاؤں میں سب سے بڑا تھا، پہلے بھی لوگ عزت کرتے تھے، اب کوئی نئی بات تو نہیں ہے۔”وہ بولے۔”پتہ نہیں تم کس دنیا میں رہتے ہو دیکھتے نہیں جب سے یہ شاندار مندر بنا ہے چلتے پھرتے لوگ نمسکار کرتے ہیں۔ جو پہلے کبھی نہ تھا۔ اب بھلا پہلے میری حیثیت تھی مندر بنانے کی یا گاؤں کے لوگ اس قابل تھے کہ چندہ اکٹھا ہو جاتا اور اتنی جلدی مندر بن جاتا۔”ٹھاکر صاحب بولے۔ “بھائی جان ذرا سا تو گاؤں ہے اتنی تھوڑی سی آبادی کے لئے ایک ہی مندر کافی تھا۔ نیا مندر بننے سے پرانا مندر ویران ہو جائے گا پھر اس مندر کے بننے سے ہندوؤں کو ہی فائدہ ہے اس طرح تو ہمارے مسلم ہمسایوں کے ساتھ ہمارا اور بھی فاصلہ بڑھ جائے گا۔”مندراج بابو تنک کر بولے۔ “ہمیں ان سے کیا واسطہ۔ ہم تو ان پر اپنی دھاک بٹھانا چاہتے ہیں۔”ٹھاکر صاحب نے بھانپ لیا۔ نشے میں مست آدمی کی عقل میں حکیمانہ بات نہیں سما سکتی۔ وہ چپ چاپ پر نام کر کے واپس چلے آئے بوجھل قدموں سے گھر میں داخل ہوئے۔ دروازہ کھولتے ہی صندل پر نظر پڑی سال بھر کی ننھی سی جان فرش پر بیٹھی گڑیا سے کھیل رہی تھی۔ باپ کی آہٹ پاتے ہی باپو باپو کرتی ان کی جانب لپکی۔

                ٹھاکر صاحب کے بے جان جسم میں جیسے روح آ گئی۔ تیزی سے بیٹی کی جانب لپکے گود میں اٹھا کر اس کی ٹھوڑی کے تل کو چوم لیا۔ میری صندل میری گڑیا۔ جب بھی وہ صندل کو سینے سے لگاتے۔ ان کے اندر سے آواز گونجتی۔ صندل امرت کا پیالہ ہے۔ دل اندر ہی اندر دعا کرتا۔ پربھو۔ میری صندل کو آتما کے علوم سے نوازنا۔ اسے اپنی مخلوق کا ہمدرد بنانا۔ وہ اسے زور سے بھینچ لیتے۔ جیسے اپنے دل کی آرزوؤں کا نقش اس کے دل پر کنداں کر رہے ہوں۔

                چودھرائن کا تقریباً سارا وقت بچوں کی دیکھ بھال میں گزرتا تھا۔ انہیں بچوں کی تعلیم و تربیت کا بہت زیادہ خیال تھا۔ بچپن سے وہ انہیں روزانہ شام کو بزرگوں کے قصے سناتیں۔ رامائن اور ولیوں کے قصے سناتیں تا کہ بچپن سے ان کے اندر غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کا ذوق پیدا ہو۔ ٹھاکر صاحب بھی کبھی کبھی بچوں کو گھیر گھار کر بیٹھے رہتے۔ اور اپنے دادا کے بتائے ہوئے اور دیکھے ہوئے ماورائی قصے دلچسپ انداز میں سناتے۔

                صندل اب تقریباً چار سال کی ہو چکی تھی۔ گاؤں کے اسکول میں اپنی بہن کندن کے ساتھ جاتی۔ دو بڑے لڑکے تو اب تعلیم سے فارغ ہو چکے تھے۔ البتہ چھوٹا بیٹا عاجل ابھی ہائی اسکول میں پڑھ رہا تھا۔ دونوں بڑے لڑکوں کو اٹھا کر صاحب نے اپنے ساتھ دکان میں لگا لیا۔ خیال تھا کہ ایک دو سال ذرا پاؤں جما لیں تو پھر ان کی شادی کر دی جائے۔ صندل اور کزن کو گھر کا ایک خادم اسکول لاتا لے جاتا تھا۔ ایک دن وہ دونوں بچیوں کو اسکول سے گھر واپس لا رہا تھا کہ راستے میں پرانی قبر کے پاس ایک ملنگ بابا ملے۔ یہ قبر سڑک کے کنارے چند گز کے فاصلے پر تھی۔ سب اسے پرانی قبر کہتے تھے۔ کوئی بھی اس کی حقیقت نہیں جانتا تھا مگر اس بوسیدہ قبر کو سب بڑی عزت سے دیکھتے۔ زیادہ تر یہ مشہور تھا کہ اس کے اند رکوئی بزرگ دفن ہیں۔ چونکہ ان کا نام و نشان کسی کو معلوم نہ تھا۔ جس کی وجہ سے قبر ویران ہی پڑی رہتی تھی۔ اس کے پتھر بھی اب بوسیدہ ہو چکے تھے۔ نوکر لڑکیوں کو لے کر سڑک پر جا رہا تھا۔ قبر سڑک سے تقریباً آٹھ نو گز کے فاصلے پر کھیتوں کے اندر تھی۔ مگر سڑک سے صاف دکھائی دیتی تھی۔ ابھی یہ لوگ قبر کے پاس سے گزر ہی رہے تھے کہ ایک دم ملنگ بابا سامنے آ گئے۔ ان کے ہاتھوں میں پھولوں کا ہار تھا۔ انہوں نے ہار صندل کی جانب بڑھادیا اور بہت پیار سے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولے۔ “بالک لے یہ ہار اس قبر کو پہنا دے۔”جانے ملنگ بابا کی آنکھوں میں کیا جادو تھا کہ چلتے قدم بھی رک گئے اور وہ چپ چاپ بچیوں کا ہاتھ پکڑے سیدھا قبر کی طرف مڑ گیا۔ صندل نے یہ ہار قبر پر ڈال دیا۔ اور تینوں واپس لوٹ آئے۔ وہ ملنگ بابا غائب ہو گئے۔

                اب یہ روز کا معمول تھا کہ ملنگ بابا صندل کو تازہ گلاب کا ہار دیتے اور صندل چپ چاپ یہ ہار قبر پر چڑھا دیتی۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ روزانہ خادم بھی ساتھ ہوتا تھا مگر گھر پہنچ کر تینوں ہی جیسے اس واقعہ کو بھول جاتے تھے۔ ان کی زبان پر کبھی اس کا ذکر نہیں آیا۔ اسی طرح کئی سال گزر گئے۔ اب صندل تقریباً آٹھ سال کی اور کندن نو سال کی تھی۔ اب اکثر دونوں اکیلی اسکول چلی جاتی تھیں۔ ایک دن اتفاق سے کندن کی طبیعت ٹھیک نہ تھی۔ صندل کو اکیلے ہی اسکول جانا پڑا۔ واپسی پر جیسے ہی وہ قبر کے پاس پہنچی اسے ملنگ بابا کہیں دکھائی نہ دیئے۔ وہ ایک لمحہ کو رکی اِدھر اُدھر دیکھا جب کوئی نظر نہ آیا تو اکیلی ہی قبر کی جانب چل دی۔ اس کے ذہن میں مسلسل یہی تھا کہ مجھے قبر پر پھول چڑھانے ہیں۔ ایک کشش تھی جو اسے کھینچے چلی جا رہی تھی۔ ملنگ بابا کا کوئی نشان نہ تھا۔ جیسے ہی وہ قبر کے بالکل پاس پہنچی اس نے پھر مڑ کر دیکھا کہ شاید ملنگ بابا پھولوں کا ہار لئے آ جائیں مگر وہاں کوئی نہ تھا۔ وہ اب بالکل قبر پر کھڑی تھی۔ اس نے دونوں ہاتھ اسی طرح اٹھائے جس طرح پھولوں کا ہار چڑھاتی تھی اور اسی وقت اس کے ہاتھوں میں ہار آ گیا۔ خوشی سے اس کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔ اس نے ہار ڈالنے کے لئے ہاتھ نیچے کیے ہی تھے کہ قبر کھلی تو ایک بوڑھا شخص اس کے اندر بیٹھا ہوا تھا۔ صندل نے بے اختیار اس کے گلے میں ہار ڈال دیا۔ اس بزرگ نے صندل کی طرف دیکھا اس کی آنکھوں سے روشنی نکل کر صندل کی آنکھوں میں داخل ہو گئی۔ پھر قبر دوبارہ اسی طرح بند ہو گئی اور صندل چپ چاپ گھر لوٹ آئی۔ یوں لگتا تھا کہ قدرت نے صندل کی زبان پر تالے لگا دیئے ہیں۔ یہ واقعہ صندل نے چھپا لیا یا شاید بھول گئی کسی سے اس کا ذکر نہیں کیا۔

                صندل کے دونوں بڑے بھائیوں راہول اور سنیل کی شادی ہو چکی تھی دونوں کی بیویاں اسی گاؤں کی لڑکیاں تھیں۔ جو آتے ہی گھر میں گھل مل گئیں۔سب ایک ہی جگہ رہتے تھے گھر کی فضا خوشگوار تھی۔ بڑی دلہن کا نام مالا تھا۔ دونوں غریب گھر کی لڑکیاں تھیں مگر ان کے ماں باپ شریف تھے اور خاندانی لوگ تھے جن کا اثر دونوں لڑکیوں میں تھا۔ دونوں بہت خدمت گزار اور محبت کرنے والی تھیں۔ کندن اور صندل کا تو دونوں اپنے بچوں جیسا خیال رکھتیں۔ دونوں کی گود خالی تھی۔ صندل اور کندن کی موجودگی میں کسی کو بچوں کی کمی کا احساس بھی نہ تھا۔ ٹھاکر صاحب اور چودھرائن بہوؤں پر جان چھڑکتے تھے۔ انہیں اپنے تیسرے بیٹے عاجل کی بھی شادی کی فکر تھی۔ اب وہ بھی ماشاء اللہ جوان ہو گیا تھا۔ دیکھنے میں اپنے دونوں بڑے بھائیوں سے قد بُت میں لمبا ہونے کی وجہ سے بڑا لگتا تھا۔ تھابھی تینوں بھائیوں میں سب سے زیادہ خوبصورت۔ وہ گاؤں کی بہت سی لڑکیوں کا خواب تھا۔ چودھرائن ان دنوں جہاں چار عورتوں میں بیٹھتی وہیں عاجل کی شادی کا ذکر چل جاتا۔ کوئی نہ کوئی اسن سے پوچھ بیٹھتا ، بہن سنا ہے عاجل کا رشتہ ہونے والا ہے۔ چودھرائن کو گاؤں کی کئی لڑکیاں پسند تھیں۔ انہوں نے مالا اور کاجل سے بھی اس کا تذکرہ کیا کہ عاجل سے اس کا عندیہ معلوم کرے مگر عاجل ابھی شادی کے لئے تیار ہی نہ تھا۔ اس کی عمر اتنی نہ تھی کہ زبردستی کی جاتی۔ اسے کالج میں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ دیولالی میں کوئی کالج نہ تھا۔ البتہ دھامن گاؤں میں ایک کالج تھا۔ دھامن گاؤں دیولالی سے تقریباً ساٹھ میل دور تھا۔ روزانہ کا آنا جانا بہت مشکل تھا۔ ٹھاکر صاحب اور چودھرائن نے کافی زور لگایا کہ بیٹا اپنا خیال بدل دے مگر جب وہ نہ مانا تو اسے کالج میں داخلہ دلا دیا اور کالج کے ہوسٹل میں ایک کمرہ بھی اسے مل گیا۔ سارے گاؤں میں یہ خبر پھیل گئی۔ جس دن صبح عاجل ہوسٹل جانے والا تھا۔ اسی رات کو ساری بستی کے لوگ مبارکباد دینے آئے اور اس کے ساتھ لے جانے کے لئے کچھ نہ کچھ لیتے آئے۔ کوئی جو کے میٹھے بھنے ہوئے دانے لایا۔ کوئی پستے والی گُڑ کی بھیلیاں۔ کوئی آٹے کی تلی ہوئی میٹھی ٹکیاں، کوئی چنے۔ کوئی منگ پھلی۔ غرضیکہ کھانے پینے کی اشیاء اس قدر ہو گئیں کہ عاجل کا چھ ماہ کا راشن ہو گیا۔ پرماتما کی دیا پر ٹھاکر صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ مندراج بابو نے جب سنا کہ عاجل کالج پڑھنے جا رہا ہے تو وہ اس خبر سے ذرا خوش نہ ہوئے۔ انہوں نے بڑا زور لگایا۔ بھائی کو کالج کی پڑھائی کے ہزار نقصانات بتائے۔ مگر جب کوئی بات نہ بنی تو ناراض ہو کر بیٹھ گئے۔ ٹھاکر صاحب نے سوچا بیٹے کی ضد ہے۔ پھر علم تو روشنی ہے۔ روشنی جتنی زیادہ ہو گی راستہ اتنا صاف دکھائی دے گا۔ یہ سوچ کر انہوں نے بیٹے کو خوشی خوشی دعائیں دے کر رخصت کیا۔ بلکہ وہ خوش تھے کہ سارے بستی والوں کی دعائیں ان کے بیٹے کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے سوچا میں بھائی کو بعد میں منا لوں گا۔ مندراج بابو کے ناراض ہونے کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی۔ جس کا علم ٹھاکر صاحب کو تھا۔ دراصل مندراج بابو اپنی چھوٹی بیٹی کا رشتہ عاجل سے کرنا چاہتے تھے۔ انہیں ڈر تھا کہ کالج میں پڑھ کر لڑکا ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ ٹھاکر صاحب کا ذہن کسی طرح اپنے بھائی سے نہ ملتا تھا۔ انہوں نے اس رشتے کا ذکر تو کیا کبھی خیال تک نہ کیا تھا۔ مگر وہ ایک دو مرتبہ بھائی کی گول مول باتوں سے اندازہ لگا چکے تھے۔

                عاجل کے جانے کے آٹھ دن بعد ٹھاکر صاحب بھائی کے ہاں گئے کہ خفگی کو زیادہ طول دینا تعلق کی ڈور کو توڑنا ہے۔ مندراج بابو خلاف معمول بہت التفات سے ملے۔ کہنے لگے۔ بھئی ناراضگی کیسی ہم تو اس رشتے کو اور زیادہ مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ میرا خیال ہے عاجل میری تارا کے لئے اچھا رہے گا۔ باپو کی روح بھی اس رشتہ سے بہت خوش ہو گی۔ ٹھاکر صاحب اچانک بھائی کے منہ سے یہ صاف صاف باتیں سن کر بھونچکے رہ گئے۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے ہاں ذات پات امیری غریبی کا بہت چکر ہے۔ پھر بھائی عاملوں کے چکر میں بھی رہتے ہیں۔ بڑے بھائی کو منہ پر تو وہ کھل کر کچھ کہہ نہ سکے۔ مگر یہ ضرور کہا کہ بھائی جان شادی کا تو لڑکا لڑکی کی زندگی کی معاملہ ہے۔ اس کے فیصلے کا حق بھی انہیں کو ملنا چاہئے۔ ابھی تو پڑھنے گیا ہے۔ چار سال میں کورس ختم ہو جائے گا پھر ہی اس سے شادی کی بات ہو گی۔

                ایک سال یونہی گزر گیا۔ عاجل ہر تیسرے ماہ گھر آ کے دو تین دن رہ کر سب سے مل جاتا۔ جب بھی آتا صندل اور کندن کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور لے کر آتا۔ کبھی چوڑیاں، کبھی دوپٹہ، کبھی کاپی پنسلیں۔ صندل اور کندن خوشی خوشی سہیلیوں کو دکھاتیں۔ جب سے صندل نے قبر والے بابا کے گلے میں ہار ڈالا تھا۔ اس دن سے پھر ملنگ بابا ہار لے کر نہیں آئے۔ اب ایسا ہوتا کہ تقریباً روز ہی صندل اور کندن اسکول سے واپسی پر جب قبر پر جاتیں تو صندل کے پاؤں کے پاس کوئی نہ کوئی پیسہ ضرور پڑا ملتا۔ کبھی پیسہ ، کبھی ادھنا، کبھی چونی۔ وہ ہر روز اٹھا لیتی اور ماں کو آ کر دے دیتی ۔ ایک دو دن تو ماں نے سوچا کہ یونہی راستے میں مل گیا ہو گا۔ کسی کاگر گیا ہو گا۔ کوئی خیال نہ کیا۔ مگر جب روز ہی صندل ماں کے ہاتھ پر پیسے جمانے لگی تو اسے تشویش ہوئی۔ پوچھنے پر صندل اور کندن نے بتا دیا۔ کہ ہم قبر والے بابا کو سلام کرنے جاتی ہیں۔ وہ جاتی دفعہ پیسے دے دیتے ہیں۔ کندن بولی ماں میں خود روز دیکھتی ہوں۔ صندل کے پاؤں کے پاس سکہ پڑا ہوتا ہے۔ یہ اٹھا لیتی ہے۔ اب ماں کا ماتھا ٹھنکا کہ یہ بزرگ کون ہیں۔ گاؤں والے تو انہیں جانتے ہی نہیں۔ شام کو ٹھاکر صاحب دکان سے آئے تو انہوں نے اس کا ذکر کیا۔ ٹھاکر صاحب کچھ دیر سوچ میں پڑ گئے۔ پھر اپنے ذہن سے یادوں کے پردے اٹھاتے ہوئے بولے۔ “بیگم وہ تو ایک بہت ہی بوسیدہ قبر ہے۔ اس پر تو کوئی نام و نشان ہی نہیں ہے۔ میں تو بچپن سے ایسے ہی دیکھتا آیا ہوں۔ یہ میرے باپ کے زمانے میں بھی اسی طرح تھی، مجھے یاد ہے۔ جب ایک مرتبہ میں اپنے باپو کے ساتھ ادھر سے گزر رہا تھا تو یہ قبر میں نے دیکھی تھی۔ اور باپو سے پوچھا تھا کہ باپو یہ کھیتوں میں کس کی قبر ہے۔ باپو بولے بیٹا یہ اسی طرح ہم بچپن سے دیکھ رہے ہیں۔ شاید کھیتوں کے مالک کی ہو گی کسی زمانے میں کیونکہ اکثر گاؤں والے اپنی زمین میں دفن ہونا پسند کرتے تھے۔ اب ٹھاکر صاحب نے اس خادم کو بلایا۔ اور اس سے ساری بات پوچھی۔ اس نے سارا قصہ سنایا کہ کس طرح ملنگ بابا انہیں قبر کے پاس ملنے آتے اور پھولوں کا ہار صندل کو قبر پر چڑھانے کے لئے دیتے تھے۔ ملنگ بابا کا نام سنتے ہی ٹھاکر صاحب ایک دم چونک اٹھے۔ وہ نہایت تیزی سے بولے۔ اس کی صورت شکل کیسی تھی۔ تو نے اب تک مجھے کیوں نہ بتایا۔ خادم مالک کی تیز آواز سے سہم کر رہ گیا۔ اس نے ہاتھ باندھ کر خوفزدہ لہجے میں کہا۔ “مالک مجھ سے بھاری غلطی ہو گئی۔ مگر آج تک یہ بات جیسے میرے ذہن سے باکل صاف ہو گئی تھی۔ گھر آ کر مجھے اس کا کبھی خیال تک نہ آیا۔ یہی بات ضرور چھوٹی بیگم صاحبہ کے ساتھ ہوئی ہو گی۔ جو انہوں نے اب تک اس کا ذکر نہیں کیا۔”پھر اس نے ملنگ بابا کا حلیہ بتایا ٹھاکر صاحب منہ ہی منہ میں بڑبڑا اٹھے یہ تو وہی ہے ، یہ تو وہی ہے۔ انہوں نے خادم کو جانے کو کہا اور بچیوں کو بھی اپنے کمرے میں بھیج دیا۔ اب صرف ان کی بیوی ان کے پاس رہ گئیں تھیں۔ انہوں نے اپنی بیوی سے کہا۔ “بیگم جانتی ہو کہ یہ کس ملنگ بابا کا ذکر کر رہے ہیں یہ وہی ملنگ ہے جس نے مجھے صندل دیوی کا بُت دکھا کر یہ حویلی میرے حوالے کی تھی۔ بیگم جب صندل پیدا ہوئی تو صورت میں دیوی کی ہو بہو شبیہ دیکھ کر میں جان گیا تھا کہ بڑھیا کی ہر بات ہو کر رہے گی۔ قدرت صندل سے کوئی خاص کام لینا چاہتی ہے۔ مگر اس کام کے لئے تیاری بھی ضروری ہے۔ بیگم یوں لگتا ہے کہ اب صندل کی تربیت شروع ہو گئی ہے۔ ہمیں اس میں پورا تعاون کرنا چاہئے تا کہ وقت ضائع ہونے سے بچ جائے اور تربیت بھی اوپر والوں کی مرضی کے مطابق ہو جائے۔”بیگم بولیں۔”وہ تو ٹھیک ہے مگر میں اپنی معصوم بچی کو اکیلی قبر پر نہیں جانے دوں گی۔”ٹھاکر صاحب نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا۔ “بیگم بھگوان جب کسی کو اپنے کام کیلئے چن لیتا ہے تو اس کے لئے راستے بھی وہ خود متعین کرتا ہے۔ وہ اپنے بھگت کی ہر طرح سے رکھشا کرتا ہے۔ وقت آنے پر تم خود دیکھ لو گی۔ میں آج سے پھر دوبارہ اسی خادم کو بچیوں کو اسکول لانے لیجانے پر معمور کرتا ہوں۔”یہ کہہ کر انہوں نے خادم کو آواز دی اور ہدایت کر دی کہ بچیوں کو اسکول پہنچا دیا کرے اور واپسی پر اگر وہ قبر پر جانے کی ضد کریں تو جانے دیں۔ مگر کوئی غیر معمولی واقعہ پیش آئے تو ہمیں ضرور اس کی اطلاع دے۔ خادم بچپن سے اسی گھر میں پلا بڑھا تھا۔ اب تو اس کی عمر بچپن سے نکل چکی تھی اور وہ سمجھدار ہو چکا تھا۔ وہ گاؤں کی روایت کے مطابق جنات اور آسیب وغیرہ پر بہت اعتقاد رکھتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے اپنی زندگی میں دو تین غیر معمولی چیزیں دیکھی بھی تھیں۔


 


Jogun

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


روح کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ روح عورت یا مرد ہوتی ہے۔ روح روح ہوتی ہے اور کیونکہ روح صرف روشنی ہوتی ہے اور روشنی کے لئے حد بندیاں قائم نہیں کیں جا سکتیں۔ روشنی ہر جگہ ہے۔ روشنی کے لئے در و دیوار معنی نہیں رکھتے۔ روشنی ٹائم اور اسپیس سے آزاد ہے۔ جب کوئی مرد یا عورت روح سے واقف ہو جاتی ہے تو اس کے اوپر سے ٹائم اور اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ ہزاروں سال پہلے کے واقعات اور ہزاروں سال بعد کے آنے والے واقعات کو دیکھ لیتا ہے۔ چونکہ ماضی، حال، مستقبل اس کے سامنے آ جاتا ہے اس لیے وہ اس بات سے واقف ہو جاتا ہے کہ کائنات میں اللہ کے علاوہ کسی کی حاکمیت نہیں ہے اور جب کوئی بندہ اللہ کی حاکمیت یقین کے ساتھ قبول کر لیتا ہے تو اس کر اندر سے غم و پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں اور وہ سکون کے گہوارے میں محو خرام ہو جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سعیدہ خاتون عظیمی کی اس کاوش کو عوام الناس کے لئے مقبول بنائے اور جو لوگ اس کتاب کا مطالعہ کریں ان کے ادراک و فہم میں جلا بخشے۔

                آمین

خواجہ شمس الدین عظیمی

مرکزی مراقبہ ہال

سرجانی ٹاؤن، کراچی