Topics

ٹھاکر صاحب اور ملنگ بابا


                ٹھاکر صاحب اور ملنگ بابا دونوں ماتا جی کے پاؤں کے قریب کھڑے تھے۔ اتنے میں ان کے اوپر اوڑھی ہوئی چادر میں ہلکی سی جنبش ہوئی۔ اور آہستہ آہستہ یہ چادر روشن ہونی شروع ہو گئی۔ یہاں تک کہ ساری چادر روشنی بن کر جگمگانے لگی۔ پھر یہ روشنی ایک دم سے بجلی کی طرح چمکی۔ اور اگلے لمحے وہاں کچھ نہ تھا۔ نہ چادر تھی نہ ماتا جی کی لاش تھی۔ حیرت سے ٹھاکر صاحب کی آنکھیں پھٹ گئیں۔ وہ دم بہ خود رہ گئے۔ اتنی واضح نشانی آج پہلی بار ان کی آنکھوں نے دیکھی تھی۔ انہوں نے حیران حیران نظروں سے ملنگ بابا کی جانب دیکھا۔ ملنگ بابا نے مسکرا کر کہا۔ “بالک اب یہ گھر تیرے پاس صندل دیوی کی امانت ہے۔”یہ کہا اور نظروں سے غائب ہو گئے۔ ٹھاکرصاحب حیران نظروں سے کھڑے کمرے کا جائزہ لینے لگے۔ جب ذرا حواس درست ہوئے تو بھاری قدموں سے باہر آئے۔ تانگہ کھڑا تھا بیٹھ کر گھر آئے۔

                رات گہری ہو چکی تھی لنگر ختم ہو چکا تھا۔ سب اپنے اپنے کمرے میں جا چکے تھے۔ ٹھاکر صاحب بھی اپنے کمرے میں داخل ہوئے۔ بیوی ننھی کندن کو چھاتی سے لگائے دودھ پلا رہی تھی۔ ٹھاکر صاحب سیدھے بچی کی جانب بڑھے۔ اس کا چہرہ اور ٹھوڑی غور سے دیکھی۔ وہاں تل نہ تھا۔ انہوں نے بچی کو پیار کیا اور دل میں کہنے لگے یہ تو میری کندن ہے صندل نہیں۔ اس واقعہ نے ان کا ذہن بوجھل کر دیا تھا۔ وہ بیوی کی باتوں کے جواب میں ہوں ہاں کرتے کرتے سو گئے۔ صبح کے وقت خواب میں کیا دیکھا کہ ایک دفتری کمرہ ہے۔ جس میں ایک میز کرسی رکھی ہے۔ اس کرسی پر ایک بزرگ بیٹھے ہیں۔ اتنے میں ماتا جی چلتی ہوئی آتی ہیں۔ ماتا جی کا تو حلیہ ہی بدلا ہوا تھا۔ وہ بہت تندرست بہت جوان اور خوبصورت لگیں۔ ماتا جی کے ساتھ ملنگ بابا بھی تھے جو ماتا جی کو لے کر آ رہے تھے۔ انہوں نے ماتا جی کو ان بزرگ کے سامنے پیش کیا اور کہنے لگے۔ “سرکار کرشنا، ماتا جی آ گئیں۔”ان بزرگ نے ماتا جی کی جانب دیکھا۔ ماتا جی نے نہایت ادب سے انہیں پرنام کیا۔ سرکار کرشنا نے رعب دار آواز میں پوچھا۔”ہم نے تمہیں جو کام سونپا تھا اس کی رپورٹ پیش کرو۔”ماتا جی نے ادب سے ہاتھ باندھ کر کہا سرکار کرشنا میں اپنا کام کر آئی ہوں۔ حویلی کے کاغذات ٹھاکرصاحب کے سپرد کرآئی ہوں اور صندل دیوی کا بت بھی انہیں دکھا آئی ہوں۔ سرکار اب تو ٹھاکرصاحب پر ہے کہ وہ کتنی جلدی اس حویلی میں منتقل ہوتے ہیں۔ سرکار کرشنا بولے۔”ملنگ باباٹھاکر صاحب سے کہہ دو کہ جلد سے جلد اپنے گھر چلے جائیں۔”ٹھاکر صاحب نے خواب دیکھ کر یہ فیصلہ کر لیا کہ اب مجھے جلد ازجلد نئے گھر میں منتقل ہونا ہے۔ انہوں نے اس واقعہ کا ذکر کسی سے نہ کیا۔ کیونکہ ان کے دادا کہا کرتے تھے کہ قدرت کے راز قبل از وقت کھولنے سے کاموں میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ اور کام دیر سے ہوتا ہے کیونکہ جو کام ایک ذہن سے کرنے کا ہے اس میں بہت سارے ذہنوں کی سوچ داخل ہو جاتی ہے اور کام کو آگے بڑھنے نہیں دیتی۔ انہوں نے اپنے بھائی مندراج بابو سے ذکر کیا کہ میں نے وہ بڑھیا والا مکان خرید لیا ہے۔ بھائی نے چھوٹتے ہی پوچھا۔”کیا تمہاری ملاقات اس بڑھیا سے ہوئی تھی؟”۔ٹھاکر صاحب بولے۔”نہیں، اس کا انتقال تو بہت پہلے ہی ہو چکا ہے۔ اس کا ایک دور پرے کا رشتہ دار میرے پاس مکان کی پیشکش لے کر آیا تھا جو نہایت ہی معقول تھی۔ میں نے سوچا کہ آسانی ہو جائے گی۔ آپ کابھی بڑھتا کنبہ ہے۔ پھر وہ حویلی بھی ہماری حویلی کی طرح اچھی خاصی بڑی ہے۔ اگر اس کی صفائی کرائی جائے اور کچھ مرمت وغیرہ ہو جائے تو اچھی نکل آئے گی۔”مندراج بابو بولے۔”تو یہ گھر بھی اتنا بڑا ہے کہ بڑھتی نسلوں کو اپنے اندر سمیٹ سکتا ہے۔ مگر تمہارا کہنا بھی درست ہے۔ اچھا موقع گنوانا نہیں چاہئے۔ تمہیں نیا گھر مبارک ہو۔ تم چاہو تو کل سے ہی وہاں مزدوروں کو صفائی اور رنگ و روغن پر لگا دیا جائے۔”

                غرضیکہ دوسرے دن سے ہی آٹھ دس مزدور اس حویلی کی صفائی پر مامور کر دیئے گئے۔ ٹھاکر صاحب نے صندل دیوی والا کمرہ بند کر کے چابی اپنے پاس رکھ لی۔ تا کہ کوئی بھی اس میں جانے نہ پائے ویسے بھی سارے گھر میں وہی ایک کمرہ سب سے زیادہ صاف ستھرا تھا۔ باقی تو سارا گھر جھاڑ جھنکار اور دھول سے اٹا پڑا تھا۔ وہ جانتے تھے اگر ان کے بڑے بھائی نے یا کسی اور نے یہ مورتی دیکھ لی تو صندل کا راز کھل جائے گا اور انہیں بڑھیا کی روحانی قوت کا اندازہ ہو چکا تھا۔

                آٹھ دس مزدوروں نے دن بھر محنت کر کے دس بارہ روز میں حویلی کو رہنے کے قابل بنا دیا۔ اب ٹھاکر صاحب بیگم اور بچوں کو لے کر آئے تو چودھرائن کی خوشی کا تو ٹھکانہ ہی نہ تھا۔ وہ کبھی اس کمرے میں جاتیں کبھی اس کمرے میں۔ یوں لگتا تھا جیسے ان کے اندر کسی نے خوشی کی بجلیاں بھر دی ہیں۔ ٹھاکر صاحب بھی اپنے بال بچوں کو خوش دیکھ کر پھولے نہیں سماتے تھے۔ پندرہ بیس دن بعد بڑے دھوم دھام سے نئے مکان کی خوشی میں تمام محلے والوں کو دعوت دی گئی۔ غرضیکہ یہ مکان ٹھاکر صاحب اور ان کی فیملی کے لئے اس قدر مبارک ثابت ہوا کہ دو ڈھائی مہینوں میں ان کا دم توڑتا ہوا کاروبارپھر سے چمک اٹھا۔ سب کو یقین تھا کہ اس گھر پر ابھی تک بڑھیا کا سایہ ہے۔

                صندل دیوی والا کمرہ اسی طرح بند تھا۔ ابھی تک کسی کا دھیان اس طرف نہیں گیا تھا۔ ویسے بھی یہ کمرہ راہداری کے ایک کونے میں تھا۔ باقی تمام کمرے راہداری کے دونوں جانب تھے۔ ایک رات چودھرائن کی آنکھ کھلی۔ وہ ٹائیلٹ جانے کیلئے اٹھیں۔ ابھی واپس نکلی ہی تھیں کہ انہیں راہداری میں روشنی کا جھماکہ سا نظر آیا اور ساتھ میں عجیب سی خوشبو سونگھائی دی اور وہ غیر اختیاری طور پر راہداری کی جانب لپکیں کیا دیکھتی ہیں کہ ایک عورت کے ہاتھ میں شمع ہے اور وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی صندل دیوی والے کمرے تک پہنچتی ہے۔ پھر کمرے کی دیوار سے اندر داخل ہو گئی۔ چودھرائن یہ دیکھ کر کمرے میں واپس آئیں اور بستر پر لیٹ کر سوچنے لگیں۔ یہ ضرور اس نیک بڑھیا کی روح ہو گی جو ابھی تک اپنے گھر میں منڈلاتی پھرتی ہے۔ یہ سوچ کر انہیں کچھ اطمینان ہوا ان کے دل سے خوف دور ہو گیا اور وہ سو گئیں۔ صبح اٹھ کر انہوں نے ٹھاکر صاحب سے اس کا ذکر کیا اور کہنے لگیں۔”چلو اس کمرے کو کھول کر دیکھتے ہیں جس میں وہ روح داخل ہوئی تھی۔”ٹھاکر صاحب نے بڑی مشکل سے انہیں روکا “بیگم روح کا معاملہ ہے ہمارے رہنے کے لئے اتنے سارے کمرے ہی کافی ہیں۔ اس کے ایک کمرے پر بھی ہمیں قبضہ جمانے کی کیا ضرورت ہے اسے اپنی دنیا میں رہنے دو۔ ہم اپنی دنیا میں جی رہے ہیں۔”چودھرائن سمجھدار خاتون تھیں کہنے لگیں۔”تم ٹھیک کہتے ہو روحوں کے کام میں دخل اندازی کرنے سے وہ ناراض ہو گئیں تو ہمارا جینا محال کر دیں گی۔”اب اکثر ایسا ہوتا کہ رات کے اندھیرے میں اچانک روشنی پھیل جاتی مدھم مدھم چراغ کی روشنی میں ایک نوجوان لڑکی کا ہیولا چلتا پھرتا دکھائی دیتا۔ چودھرائن اکثر اسے دور سے گزرتا ہوا دیکھتیں۔ انہیں کبھی اس کا چہرہ دکھائی نہ دیا۔ وہ ہمیشہ صندل دیوی والے کمرے میں داخل ہو جاتی۔ چند ماہ اسی طرح گزر گئے ننھی کندن اب چھ ماہ کی ہو چکی تھی اور اب بیٹھنے لگی تھی۔ ایک دن بہت عجیب و غریب واقعہ پیش آیا ۔ ہواں کچھ یوں کہ اس رات چودھویں کا چاند اپنی پوری آب و تاب سے فلک پر جگمگا رہا تھا۔ٹھاکر صاحب نے بیگم کو آواز دی۔”بیگم آؤ باہر کیسی ٹھنڈک ہے۔”بیگم باہر آئیں تو انہوں نے بچوں کو بھی آواز دی۔ سب ہی صحن میں بیٹھے چاندنی رات کا لطف اٹھانے لگے۔ ملازم نے خشک میوے اور چائے میز پر لگا دی۔ دو تین گھنٹے ہنستے کھیلتے گزر گئے۔ پھر بچے جا کر اپنے اپنے کمروں میں سو گئے۔ کندن کو آیا پہلے ہی سلا آئی تھی۔ چودھرائن نے اٹھ کر کمرے میں جانے کیلئے راہداری میں قدم رکھا۔ سب سے پہلا کمرہ صندل دیوی والا تھا۔ ابھی وہ اس کے دروازے تک ہی پہنچی تھیں کہ ایک دم سے وہی ہیولا سامنے آ گیا۔ اس کا سارا جسم نورانی تھا۔ اس نے چودھرائن کے سامنے ہاتھ بڑھایا اور ان کے ہاتھ پر ایک بتاشہ رکھ دیا۔ چودھرائن نے غیر اختیاری طور پر یہ بتاشہ منہ میں ڈال لیا۔ پھر یہ ہیولا کمرے میں داخل ہو گیا۔ چودھرائن کمرے میں آئیں۔ چند لمحے بعد ہی ان کے شوہر بھی آ گئے۔ انہوں نے اپنے شوہر کو سارا قصہ سنایا۔ ٹھاکر صاحب فوراً سمجھ گئے کہ یہ بتاشہ پوجا کے تھال کا ہے۔ قدرت نے بتاشے کی صورت میں میاں بیوی دونوں کے اندر صندل کی تخلیقی روشنیاں منتقل کر دیں ہیں۔ اب قدرت کے امر کے ظہور کا وقت آ گیا ہے۔ چاندنی رات نے ان کے لطیف تاروں کو پہلے ہی چھیڑ دیا تھا۔ کھڑکی سے چھن چھن کے اندر آنے والے چاندنی میں انہیں بیوی کا ڈھلا ہوا مجسمہ دکھائی دیا۔ اور دل کے تاروں پر زندگی کے نغمات بکھرنے لگے۔ اسی رات چودھرائن نے خواب دیکھا کہ چاندنی رات کا بہت ہی حسین منظر ہے۔ چاروں طرف سے پہاڑوں سے گھری ہوئی چھوٹی سی خوبصورت وادی ہے۔ جس کے اندر دریا کی لہریں جگمگا رہی ہیں۔ اس دریا میں ایک خوبصورت کشتی پر جو پھولوں سے سجی ہوئی ہے، ٹھاکر صاحب اور وہ دونوں دریا کی سیر کر رہے ہیں۔ کشتی خود ہی خراماں خراماں پانی پر چلی جا رہی ہے۔ چودھرائن کشتی کے صوفے نما سیٹ پر لیٹ جاتی ہیں۔ شوہر پاس بیٹھے ہیں اتنے میں آسمان سے نور کا ایک قطرہ ستارے کی طرح ٹوٹ کر ان کی جانب آتا ہے اور ان کے جسم میں جذب ہو جاتا ہے۔


 

                صبح ہوتے ہی یہ خواب انہوں نے اپنے شوہر سے بیان کیا۔ پورے نو مہینے بعد ٹھاکر صاحب کے یہاں لڑکی پیدا ہوئی۔ ان نو مہینوں میں عجیب بات یہ تھی کہ چودھرائن کو وہ روح کبھی دکھائی نہ دی۔ انہوں نے دو تین مرتبہ اپنے شوہر سے اس کا ذکر بھی کیا وہ کہنے لگے۔”بھئی! اوپر والے کے کام تو اوپر والا ہی جانتا ہے۔”اور بات آئی گئی ہو گئی۔

                بیٹی پیدا ہوئی تو دائی نے وہیں سے باہر بیٹھے ہوئے ٹھاکر صاحب کو آواز دی۔”ٹھاکر صاحب ایک اور لچھمی نے آپ کے گھر جنم لیا ہے۔”ٹھاکر صاحب نے منہ اوپر کر کے کہا۔”ہے بھگوان تیرا شکر ہے۔”تھوڑی دیر میں دائی اسے کپڑے میں لپیٹ کر ان کے پاس لائی۔ ٹھاکر صاحب نے بیٹی کو گود میں لینے سے پہلے دائی کے ہاتھ پر پیسے رکھے۔ گود میں لیا تو ان کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔ سفید نرم شال میں صندل دیوی کا بت زندہ ہو کر ان کے بازوؤں میں تھا۔ وہی آنکھیں ، وہی ناک ، وہی دہانہ اور سب سے حیرت انگیز نشانی وہ ٹھوڑی کا تل تھا۔ چند لمحوں تک وہ حیرت زدہ آنکھوں سے اسے گھورتے رہے پھر گود میں لئے بیوی کے پاس تیزی سے گئے اور جاتے ہی خوشی سے بولے، “بیگم تم نے دیکھا اسے یہ ننھی گڑیا میری صندل ہے صندل۔ اس کی تھوڑی کا تل دیکھا تم نے؟ بالکل دیوی لگتی ہے میری صندل اوپر والے کی دین ہے۔ اسی کی دین ہے۔”ان کی آواز فرط مسرت سے بھرا گئی۔ ان کی نگاہوں میں بڑھیا کا وہ آخری وقت گھوم رہا تھا جس نے صندل دیوی کے اس گھر میں جنم لینے کی پیش گوئی کی تھی۔ دل ہی دل میں انہوں نے کہا۔”اس کے بھید وہی جانتا ہے۔”یہ کہہ کر انہوں نے بچی کے کان میں آہستہ سے کہا۔ “تم میری صندل ہو۔”اور اس کی ماں کے پہلو میں لٹا دیا۔

                جب سے انہوں نے یہ مکان لیا تھا ایک مرتبہ بھی صندل دیوی کا کمرہ کھول کر نہ دیکھا تھا۔ وہ ڈرتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس نیک بڑھیا کی آتما انجانے میں خفا ہو جائے۔ وہ بڑھیا کی پیش گوئی کے ظہور کے انتظار میں تھے۔ اس سے قبل وہ مورتی کو ظاہر کرنا نہیں چاہتے تھے۔ باہر آ کر مسلسل ان کا دماغ گذشتہ باتیں دہرانے لگا۔ یہاں تک کہ انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ بیوی چلنے پھرنے لگیں تو انہیں ضرور اس کمرے میں لے جا کر صندل دیوی کا بت دکھائیں گے اور ساری باتیں بتا دینگے۔ وہ چاہتے تھے کہ بیوی چلنے پھرنے کے قابل ہو لیں پھر صندل کو اور بیوی کو اس کمرے میں لے جاؤں۔ ٹھاکر صاحب کے لئے ایک ایک دن گزارنا مشکل ہو رہا تھا مگر وقت کی رفتار میں تو کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی وہ تو اپنی چال چلتا رہتا ہے۔ البتہ آدمی کے اپنے اندر ہی مدو جزر اٹھتے رہتے ہیں۔ جس کے اتار چڑھاؤ پر اس کے احساسات کی ناؤ بہتی رہتی ہے۔ اپنے ہی حواس کے اتار چڑھاؤ کو وہ وقت کی رفتار سمجھ بیٹھتا ہے۔ اور وقت کے گھٹنے بڑھنے کی شکایت کرتا ہے۔ حالانکہ ہر سال بارہ مہینے کا اور ہر دن رات چوبیس گھنٹوں کا ہوتا ہے۔

                صندل سب کی آنکھوں کا تارا بن گئی۔ ابھی تو کندن بھی ننھی سی تھی مگر صندل میں جانے کیا بات تھی کہ جو بھی اس کی طرف دیکھتا پیار کئے بغیر نہ رہتا۔ اس کے تل میں نگاہوں کے لئے ایک خاص کشش تھی۔ اس دن ان کی بیگم نے غسل کیا۔ نئے کپڑے پہنے۔ شام کو کام سے آ کر کھانا کھانے کے بعد جب ٹھاکر صاحب نے صندل کو گود میں لیا تو بیگم کا ہاتھ پکڑے صندل دیوی کے کمرے کی چلے۔ چابی گھمائی، تالا کھولا۔ دروازے کے بالمقابل دیوار میں جہاں ایک طاق تھا۔ اس میں بت کے نیچے پوجا کا تھال تھا۔ ٹھاکر صاحب نے دروازہ کھولتے ہی سیدھی سامنے نگاہ ڈالی۔ انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ ان کی زبان ایک لمحے کو گنگ ہو گئی۔ نہ وہاں بت تھا نہ پوجا کا تھال کمرے کے طاق میں ایک بڑا سا فریم تھا۔ جس میں دو سفید کبوتروں کی تصویر تھی۔ ٹھاکر صاحب کی بیگم یہ تصویر دیکھتے ہی اس کی طرف بڑھیں۔”آہا کیسی خوبصورت تصویر ہے۔ اسے تو میں اپنے ڈرائنگ روم میں لگاؤں گی۔”سکوت ٹوٹا تو ٹھاکر صاحب کے بھی ہوش ٹھکانے لگے۔ انہوں نے جیسے بیوی کی بات ہی نہیں سنی۔ کہنے لگے بیگم کیا تم نے یہ کمرہ پہلے کھلوایا تھا؟ وہ سوالیہ نظروں سے شوہر کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں۔”اے لو مجھے کیا پڑی تھی۔ اتنے سارے کمرے ہیں گھر میں وہ بھی ہماری ضرورت سے زیادہ ہیں۔ پھر تین چار دفعہ اس روح کو بھی اس کمرے میں آتے جاتے دیکھا تو میں نے چھیڑنا مناسب ہی نہ سمجھا مگر آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟”ٹھاکر صاحب بولے۔”بچوں نے تو نہیں کھولا ہو گا یہ کمرہ۔”اب چودھرائن اور زیادہ حیران ہوئیں چابی تو آپ کے پاس تھی۔ بچے کیسے کھولتے اگر انہیں کھولنا ہوتا تو ہم سے پوچھتے کیوں کیا بات ہے؟ کیا رکھا تھا اس کمرے میں؟ ٹھاکر صاحب بولے بیگم اس طاق میں صندل دیوی کا بت تھا۔ اور اس کے پاؤں کے پاس پوجا کا تھال تھا۔ چودھرائن بولیں۔”اے ہے ٹھاکر صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ سوائے پوتر روح کے اور کوئی یہاں نہیں آیا۔”ٹھاکر صاحب نے واپس پلٹتے ہوئے کہا صبر کرو اپنے کمرے میں چل کر ساری کہانی سناتا ہوں۔ چودھرائن نے جلدی سے طاق میں پڑی کبوتروں کی تصویر اٹھا لی۔ یہ فریم تو میں اپنے ڈرائنگ روم میں لگاؤں گی۔ ٹھاکر صاحب اس قدر حیران اور پریشان تھے کہ انہیں روک بھی نہ سکے۔ بس دوبارہ کمرہ بند کر کے تالا لگا کر آگے بڑھ گئے۔ بیگم کہتی ہی رہیں۔”اے اب اس میں ہے کیا۔ جسے بند کر رہے ہو۔”مگر وہ تو بس اپنے ہی خیالات میں گم تھے۔

                کمرے میں واپس آ کر بیگم نے تصویر کونے میں رکھی اور وہ بھی پلنگ پر ان کے پاس آ بیٹھیں۔ قصہ کیا ہے۔ ذرا بتاؤ تو سہی۔ ٹھاکر صاحب نے کندن کی چھٹی والے دن کا سارا حال سنادیا۔ کہنے لگے۔”صندل کی پیدائش تک تو مجھے کچھ کہنے کی اجازت نہ تھی۔ میں نے سوچا تھا کہ جب اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں گا تب ہی کسی سے کچھ کہوں گا۔ میں تمہیں وہ بت دکھانے لایا تھا۔ وہ بتاشہ اس پوجا کے تھال کا تھا۔ اس میں سے ایک بتاشہ مجھے بھی کھلایا گیا تھا۔”چودھرائن بولیں۔”تم ٹھیک کہتے ہو مگر وہ بت اور تھال گیا کہاں؟ ذرا لڑکوں سے پوچھو۔ یوں تو رہ بیچارے کبھی ایسی کوئی بات بغیر پوچھے نہیں کرتے۔ پھر بھی اپنی تسلی ضروری ہے۔”یہ کہہ کر انہوں نے زور سے بیٹوں کو آواز دی۔”راہول، سنیل، عاجل ادھر آنا۔”تینوں لڑکے سترہ سال، پندرہ سال اور گیارہ سال کی عمر کے تھے۔ ماں کی آواز سن کر دوڑے چلے آئے۔ ماں نے پوچھا، “بیٹے، وہ کونے والا کمرہ جو ہمیشہ بند رہتا ہے کسی نے کبھی کھولا تو نہیں؟ تینوں لڑکے حیرانی سے ماں کا منہ تکنے لگے۔ “امی آپ نے ہمیں کبھی کہا تو نہیں کھولنے کو۔ اس میں تو تالا لگا رہتا ہے۔”ٹھاکر صاحب بولے۔”بیٹے جاؤ اپنا کام کرو۔ میں تمہاری ماں کو دکھا دوں گا وہ کمرہ۔”تینوں لڑکے چلے گئے۔

                اب چودھرائن کا ذہن اس معمے کو حل کرنے میں لگ گیا۔ بولیں۔”وہ جو روح میں نے کئی دفعہ دیکھی تھی وہ بالکل جوان لڑکی لگتی تھی۔ ضرور وہ صندل دیوی کی آتما ہو گی تب ہی تو جب میں امید سے ہوئی تھی۔ پھر میں نے اس روح کو نہیں دیکھا۔ تم سے بھی تو اس کا ذکر کیا تھا یاد نہیں کیا؟”ٹھاکر صاحب بولے۔”یاد ہے مگر پھر بھی اس مورتی کا معمہ تو حل نہیں ہوا نا۔ وہ آخر گئی کہاں؟”چودھرائن بولیں۔”وہ مورتی تو آپ کو دکھانے کے لئے رکھی گئی ہو گی تا کہ آپ صندل کو پہچان لیں۔ پھر ملنگ بابا نے غائب کر دی۔ اب جیتی جاگتی صندل جو ہمارے پاس ہے۔”یہ بات ٹھاکر صاحب کے بھی دل کو لگی۔ کہنے لگے۔”واقعی ایسا ہی ہوا ہے۔”اور وہ مطمئن ہو گئے۔

                ٹھاکر صاحب ماورائی اور روحانی علوم پر بڑا یقین رکھتے تھے۔ دراصل چھوٹے ہونے کی وجہ سے وہ اپنے دادا کے لاڈلے رہے تھے۔ بڑھاپے میں ویسے بھی آدمی شفیق ہو جاتا ہے۔ وہ ٹھاکر صاحب سے بہت ہی محبت کرتے تھے۔ انہیں ہر وقت اپنے ساتھ رکھتے۔ انہیں روحانی علوم سیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ وہ اپنا شوق پورا کرنے کے لئے اکثر صوفیوں سنتوں کی مجلسوں میں جایا کرتے تھے۔ ٹھاکر صاحب نے تین چار سال کی عمر سے اپنے دادا کے ساتھ ان مجلسوں میں جانا شروع کر دیا تھا۔ ان دنوں ان مجلسوں میں ہندو، سکھ، مسلمان سب ہی ہوتے تھے۔ سب ہی آپس میں پیار و محبت کا درس دیتے۔ ٹھاکر صاحب کی عمر بارہ سال کی تھی۔ جب ان کے دادا کا انتقال ہوا۔ تب تک انہیں اس بات کا پتہ چل چکا تھا کہ جسم کے اندر روح یا آتما ہی اصل انسان ہے۔ جس کا تعلق پرماتما سے یا غیب کی دنیا سے ہے۔ اگر روح سے رابطہ قائم کر لیا جائے تو اس کے ذریعے سے غیب کے اسرار سامنے آ جاتے ہیں۔ اور پرتما کو بھی پہچانا جا سکتا ہے۔ اس طرز فکر کے ساتھ وہ اپنے دادا کے بتائے ہوئے طریقے سے ریاضتیں بھی کرتے تھے۔ شروع جوانی میں انہوں نے اتنی توجہ نہیں دی مگر لڑکوں کی پیدائش کے بعد سے وہ روزانہ اپنے دادا کے بتائے ہوئے طریقے سے مراقبہ کرتے اور ذکر و اذکار کرتے تھے۔ ان کا ہندو جوگیوں کی مجلس میں بھی آنا جانا رہ چکا تھا۔ سب کا کہنا تھا کہ روح کے ناطے سے سب انسان آپس میں روحانی رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ پھر تفریق کیسی۔ ٹھاکر صاحب کی یہی وسعت نظری تھی جو انہیں لوگوں میں مقبول بنائے ہوئے تھی۔ کیا ہندو، کیا سکھ، کیا مسلمان سب انہیں آنکھوں پر بٹھاتے تھے۔ اور اپنے مسائل کے لئے ان سے دعا کی درخواست کرتے تھے۔ اوپر والا ان کی دعائیں سنتا بھی تھا۔

                مندراج بابو کی طبیعت ٹھاکر صاحب سے بالکل مختلف تھی۔ ان کی سوچ متعصب تھی۔ پوجا پاٹ بہت کرتے تھے۔ ایک وقت کی بجائے مندر میں کئی دفعہ آتے جاتے حاضری دیتے تھے۔ اور ان کا ذہن وظیفوں اور جاپ میں بہت چلتا تھا۔ پنڈتوں کے بتائے ہوئے جاپ میں ہر وقت مشغول رہتے تھے۔ چھوت چھات کا ضرورت سے زیادہ خیال رکھتے۔ یہاں تک کہ دھوبی کے دھلے ہوئے کپڑے بھی اس وقت تک نہ پہنتے جب تک کہ وہ دوبارہ کھنگا لے نہ جائیں۔ بیوی تو اب ان چیزوں کی عادی ہو چکی تھی۔ مگر بہوئیں بہت چیں بچیں ہوتی تھیں کہ خواہ مخواہ دگنا کام کرواتے ہیں۔ مسلمانوں سے ان کی دوستی ذرا نہیں تھی۔ وہ دان خیرات دیتے وقت بھی اس بات کا خیال رکھتے کہ ہندو کو ہی ملے جب کہ ٹھاکر صاحب میں یہ بات نہ تھی۔ وہ سب کو ایک نظر سے دیکھتے بلا تفریق مذہب و ملت سب کی حاجت روائی کرنے کی کوشش کرتے۔


 


Jogun

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


روح کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ روح عورت یا مرد ہوتی ہے۔ روح روح ہوتی ہے اور کیونکہ روح صرف روشنی ہوتی ہے اور روشنی کے لئے حد بندیاں قائم نہیں کیں جا سکتیں۔ روشنی ہر جگہ ہے۔ روشنی کے لئے در و دیوار معنی نہیں رکھتے۔ روشنی ٹائم اور اسپیس سے آزاد ہے۔ جب کوئی مرد یا عورت روح سے واقف ہو جاتی ہے تو اس کے اوپر سے ٹائم اور اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ ہزاروں سال پہلے کے واقعات اور ہزاروں سال بعد کے آنے والے واقعات کو دیکھ لیتا ہے۔ چونکہ ماضی، حال، مستقبل اس کے سامنے آ جاتا ہے اس لیے وہ اس بات سے واقف ہو جاتا ہے کہ کائنات میں اللہ کے علاوہ کسی کی حاکمیت نہیں ہے اور جب کوئی بندہ اللہ کی حاکمیت یقین کے ساتھ قبول کر لیتا ہے تو اس کر اندر سے غم و پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں اور وہ سکون کے گہوارے میں محو خرام ہو جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سعیدہ خاتون عظیمی کی اس کاوش کو عوام الناس کے لئے مقبول بنائے اور جو لوگ اس کتاب کا مطالعہ کریں ان کے ادراک و فہم میں جلا بخشے۔

                آمین

خواجہ شمس الدین عظیمی

مرکزی مراقبہ ہال

سرجانی ٹاؤن، کراچی