Topics

شہنشاہ جنات کے نام ایک پیغام


                شہنشاہ جنات سلیم الطبع جن تھا۔ وہ صندل کی ویسے بھی بڑی عزت کرتا تھا۔ اس نے فوراً اسے طلبی کی اجازت دے دی۔ صندل نے تنہائی میں شہنشاہ جنات سے مل کر تمام واقعہ اس کے گوش گزار کیا اور کہا کہ میں نوع انسانی کی جانب سے یہ کیس ان تمام شریر جنات پر کرنا چاہتی ہوں تا کہ آئندہ کے لئے اس قسم کے واقعات کا سدباب ہو سکے۔ شہنشاہ جنات نے فرمایا۔ صندل دیوی، آپ کو جسٹس مقرر کرنے کا ہمار امقصد یہی ہے کہ قوم اجنہ اور نوع انسانی کے درمیان ایک ایسی فضا قائم ہو جائے جس میں دونوں نوعیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقرر کردہ اپنے اپنے فرائض کو پہچان لیں۔ میری جانب سے آپ کو پوری پوری اجازت ہے کہ جہاں بھی آپ جنات اور انسانوں کے درمیان خلاف فطرت کوئی بات دیکھیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے منافی کوئی بات دیکھیں آپ ان کی اصلاح کے لئے مناسب قدم ضرور اٹھائیں۔ صندل دیوی، کسی بھی بادشاہ کی حکومت دیرپا اسی وقت تک رہ سکتی ہے جب اس کے ملک میں امن و امان ہو۔ ملک میں بدامنی کا دور دورہ ہو تو بادشاہ کی حکومت بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ کوئی بھی بادشاہ اپنی حکومت سے آسانی کے ساتھ دستبردار ہونا نہیں چاہتا۔ ایسی صورت میں بادشاہ پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملک کو خوشحال اور پرسکون رکھے تا کہ رعایا اس سے خوش رہے۔ بادشاہ کی حکومت رعایا کی خوشی میں ہے۔

                صندل شہنشاہ جنات کی بصیرت افروز باتیں سن کر بہت متاثر ہوئی۔ اس نے خوشی سے مسکرا کر اور سر جھکا کر ان کی باتوں پر خوشی کا اظہار کیا اور بولی،”شہنشاہ جنات کا اقبال بلند ہو۔ آج میں جان گئی کہ بادشاہ تو بہت سے ہو سکتے ہیں مگر بادشاہت کے لائق ہر کوئی نہیں ہو سکتا۔”

                شہنشاہ جنات نے رتنا کے کیس میں ملوث تمام جنات کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ مقدمے کی کارروائی باقاعدہ طور پر دوسرے دن سے شروع ہوئی۔ دوسری رات صندل جب عالم جنات میں پہنچی تو اسے اطلاع دی گئی کہ اس کیس کی تمام کارروائی شروع سے آخر تک شہنشاہ جنات بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ مگر وہ کورٹ میں نہیں آئینگے بلکہ اسکرین پر اپنے محل میں تمام کارروائی کو ملاحظہ کرینگے۔ صندل نے کورٹ میں قدم رکھتے ہی اپنے رب کو یاد کیا تا کہ تائید الٰہی اس کے کاموں میں شامل ہو جائے۔ صندل نے یہ کیس رتنا کی جانب سے پیش کیا۔ رتنا جو مر چکی تھی اور مرنے کے بعد جسم مثالی یا روشنیوں کے جسم کے ساتھ زندہ تھی۔ جسم مثالی کی آنکھ جنات کو دیکھ سکتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ صندل نے رتنا کی جانب سے کیس پیش کیا تا کہ وہ اپنے ساتھ گزری ہوئی حقیقت کو بیان کرے۔

                رتنا کورٹ میں لائی گئی۔ اس نے اپنے بیان میں کہا کہ گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی ناگ پچھمی کا تہوار گاؤں میں زور و شور سے منایا گیا۔ اس نے اپنے بزرگوں سے یہ سنا تھا کہ اس دن ناگوں کو دودھ پلایا جاتا ہے اور ناگ دودھ پلانے والے کو ڈستے نہیں ہیں۔ اس سے پہلے بھی وہ چند بار ناگ پچھمی کے دن ناگوں کو دودھ پلا چکی تھی۔ اس سال اس مخصوص رات کو ایسا ہوا کہ اس کے دل میں بہت شوق پیدا ہوا کہ وہ ناگوں کو دودھ پلائے ۔ وہ اپنے تمام گھر والوں کے ساتھ کمرے میں تھی۔ اس نے ناگوں کو بلانے کے لئے بین بجائی۔ کیونکہ سب لوگ اس دن بین بجا کر ناگوں کو بلاتے ہیں۔ میں نے بھی بین بجائی تو ایک بڑا سیاہ ناگ صحن کے اندر دکھائی دیا۔ کمرے سے اس کی بہن کی نظر صحن میں اس ناگ پر پڑی تو اس نے رتنا سے کہا ۔”دیدی، وہ دیکھو کتنا بڑا سیاہ سانپ ہے۔”جس جگہ کٹورے میں دودھ رکھا تھا سانپ نے اسے نہیں دیکھا۔ وہ صحن کے بیچوں بیچ اس طرح کھڑا ہو گیا کہ اس کا پھیلا ہوا چوڑا پھن کمرے کی کھڑکی کے عین مقابل تھا۔ رتنا کھڑکی میں سامنے ہی کھڑی تھی۔ اس کی پشت پر دوسرے لوگ تھے۔ رتنا نے سانپ کو غور سے دیکھا۔ اس کے دل میں سانپ کی ایک کشش سی محسوس ہوئی۔ وہ یہ کہہ کر کمرے سے باہر آ گئی کہ ماں میں اس سانپ کو دودھ پلاؤں گی۔ اسے باہر جاتا دیکھ کر اس کا باپو ہردیال چلایا۔”رتنا رک جا اتنے بڑے ناگ کے قریب نہ جا۔”مگر رتنا یہ کہتی ہوئی صحن میں نکل آئی کہ باپو دودھ پلانے کو ناگ کہاں ڈستے ہیں۔ آج تو ناگ پچھمی کا تہوار ہے ناگوں کو بھی اس کا علم ہے۔

                یہ کہہ کر وہ کٹورے کی جانب بڑھی۔ جو ناگ سے کافی فاصلے پر تھا۔ اس نے وہ کٹوارہ اٹھا کر سانپ کے ذرا قریب رکھ دیا۔ اور جلدی سے واپس پلٹنے کے لئے مڑی تو دیکھا کہ صحن میں بیسیوں ناگ پڑے ہیں۔ یہ دیکھ کر خوف سے اس کی چیخ نکل گئی۔ گھر والے جیسے سکتے میں آ گئے۔ ان کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کریں۔ اب رتنا جدھر قدم بڑھاتی وہ جگہ ناگوں سے بھری ہوتی۔ رتنا اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے بولی،”مائی لارڈ۔ اس دم مجھے یوں محسوس ہوا جیسے ناگ زمین سے نکل رہے ہیں۔ مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ زمین سے نکلتے دکھائی بھی نہ دیتے تھے۔ بلکہ جدھر بھی صحن میں نظر کرتی تھی سانپوں کو موجود پاتی سب کی نظر مجھ پر تھی۔ میری حالت ایسی تھی جیسے میں مدہوش ہوں یا نشہ پلائی گئی ہوں۔ میرے باپو کی آواز آئی۔”رتنا بھگوان کا نام لے کر ناگ پچھمی کا واسطہ دے۔”

                میں نے نیم بے ہوشی کے عالم میں سب کچھ کہا۔ اس کالے ناگ کی نگاہوں سے آگ کی تیز گرمی کی لہر میری آنکھوں میں داخل ہونے لگی۔ جس نے رفتہ رفتہ میرے حواس کو معطل کر دیا۔ آخری بات جو ہوش و حواس کی مجھے یاد ہے وہ یہ ہے کہ ایک انتہائی تیز گرم آگ کی لہر میری آنکھوں کے اندر لپک گئی۔ جس کو میری آنکھوں نے اک لمحے کو لُو کی طرح دور سے آتا دیکھا اور یہ لہر آنکھوں میں داخل ہو گئی۔ مجھے اپنی آنکھوں میں آگ داخل ہونے کا احساس ہوا اور پھر مجھے یوں لگا جیسے میرا سارا بدن آگ کے شعلوں میں گھر چکا ہے۔ میں خوب زور سے چیخی چلائی اور پھر میرے اندر سے یہ جسم ایک ہوا کے جھونکے کی طرح باہر نکل آیا۔ میرا جسمانی احساس ختم ہو گیا مگر میں اس روشنیوں کے جسم کے ساتھ وہیں پر صحن میں چڑیا کی طرح اوپر معلق کھڑی رہی ،دیکھتی رہی اور اس ناگ پہچان لیا کہ یہی وہ ظالم ہے جو اجل بن کر میرے سامنے آیا ہے۔ پھر میں نے کمرے کے اندر اپنا ماتا پتا اور سب گھر والوں کو روتے پیٹتے دیکھا۔ میں صحن میں کمرے میں اور گلی میں ہر طرف بیک نظر دیکھ سکتی تھی۔ یہ جان کر مجھے حیرت بھی ہوئی کہ اب میری نظر سب طرف دیکھنے لگی ہے۔ پھر میں نے صندل دیوی کو بھی دیکھا جنہوں نے تمام ناگوں کو سزا دینے کا وعدہ کیا اور تب مجھے معلوم ہوا کہ یہ جنات ہیں۔”

                رتنا کا بیان سن کر کٹہرے میں کھڑے ہوئے تمام جنات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صندل نے رتنا سے پوچھا۔”کیا تم ان جنات کو پہچان سکتی ہو؟”

                اس نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تمام وہی ہیں جو اس وقت موقعہ واردات پر موجود تھے اور اس نے قاتل ناگ کو بھی پہچان لیا۔

                پھر جنات کی جانب سے مقدمے کی پیروی کرنے والے وکیل نے رتنا سے سوال کیا۔”رتنا جی، کیا پہلے آپ اس بات سے واقف نہیں تھیں کہ ناگ کی فطرت میں ڈسنا ہے۔ پھر آپ صحن میں تنہا کیوں نکل آئیں؟”

                رتنا بولی،”مائی لارڈ، سانپوں کی فطرت سے میں خوب واقف تھی اور اسی فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے میرا باپو مجھے رک جانے کے لئے چلایا تھا۔ مگر میرا یہ یقین تھا کہ ناگ پچھمی کے دن دودھ پلانے والے کو ناگ نہیں ڈستا۔ یہ میرا پانچ سالوں کا تجربہ ہے۔ مائی لارڈ، اگر یہ سانپ ہوتا تو ہرگز بھی نہ ڈستا اور اگر یہ تمام جنات جو اس قاتل جن کے دوست ہیں ، ناگ ہوتے تو مجھے یقین ہے کہ یہ سب مجھے صحن میں جانے کے لئے راستہ دے دیتے کیونکہ آدمی کے اندر یقین کی شکتی بھگوان کی قوت ہے اور بھگوان کی قوت کو توڑنا کسی بھی مخلوق کے لئے ممکن نہیں ہے۔”رتنا کی اس بات پر وکیل نے پھر جراح کی ۔ “رتنا جی، اگر آپ کو اتنا ہی اپنی شکتی پر بھروسہ تھا اور یقین تھا تو پھر جنات نے آپ کو کیسے نقصان پہنچایا۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کے یقین میں کمی تھی اور اس درجے کے یقین کو لے کر آپ کاناگوں کے سامنے جانا مناسب نہ تھا۔”

                رتنا نے نہایت دلیری کے ساتھ بلند آواز میں کہا،”وکیل صاحب! مجھے آپ کے بیان سے اتفاق نہیں ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ میں ناگوں کے سامنے نہیں کھڑکی سے صرف ایک ناگ کو دیکھ کر صحن میں آئی تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ میرا یقین ناگوں پر تھا۔ جنات کا میرے ذہن میں دور دور تک کوئی خیال نہ تھا۔ اور میں آج بھی اپنے یقین پر قائم ہوں اور دعوے کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ اگر جنات کی بجائے ناگ اس وقت ہوتے تو چونکہ میں انہیں دودھ پلا رہی تھی وہ مجھے کبھی نہ ڈستے اور میری جان نہ لیتے۔”

                رتنا کا جواب سن کر وکیل نے معذرت کی اور اس کے جواب کو قبول کیا۔ پھر صندل نے اپنا بیان دیا۔ اس نے کہا کہ اس کیس میں ہمارا مقصد یہ ہے کہ جو جنات انسانوں کو اپنا بھیس بدل کر دھوکہ دیتے ہیں اور ناحق نقصان پہنچاتے ہیں ان کے اس جرم کا آئندہ ہمیشہ کے لئے سدباب کیا جائے۔ کورٹ کی جانب سے قاتل ناگ کا روپ اختیار کرنے والے جن کو ایک ہزار برس تک آگ کے شعلوں میں جلانے کی سزا دی گئی۔ باقی جنات کو اس کا ساتھ دینے پر آدھی سزا دملی۔ یعنی ان تمام کو پانچ سو برس تک آگ میں جلائے جانے کی سزا دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی شہنشاہ جنات کی جانب سے رتنا کے والدین کو قصاص یا خون بہا کے طور پر ایک تھال سونے کی اشرفیوں کا دیا گیا۔ یہ تھال صندل کی معرفت دیا گیا۔ صندل نے شہنشاہ جنات سے یہ گزارش کی کہ یہ تھال تمام لوگوں کے سامنے اسے دیا جائے۔

                تیسرے دن شام کو صندل نے خادم کو اس کام پر لگایا کہ رتنا کی موت والے دن جو جو لو گ موجود تھے۔ ان سب کو جمع کر لیں۔ سب لوگ رتنا کے گھر صحن میں جمع ہو گئے۔ صندل صحن میں کھڑی ہو گئی۔ اس نے لوگوں کو مخاطب کر کے مقدمے کی کارروائی اور فیصلہ مختصراً بیان کیا اور شہنشاہ جنات کی جانب سے رتنا کے والدین کو ملنے والے انعام کی خبر دی۔ اسی وقت ایک جن تھال لے کر جوخوان پوش سے ڈھکا تھا، حاضر ہوا مگر اس جن کو سوائے صندل کے اور کوئی نہ دیکھ سکا۔ اس جن نے تھال صندل کے ہاتھ میں دیا۔ لوگوں نے دیکھا جیسے صندل کے ہاتھوں میں تھال خود بخود آ گیا کیونکہ جن تو ان کی نگاہوں سے روپوش تھا۔ صندل نے رتنا کے ماتا پتا کو قریب بلایا۔ اس تھال کا خوان پوش ہٹایا۔ سونے کی زرد چمک نے سب کی نگاہوں کو خیرہ کر دیا۔ صندل نے پھر سے خوان پوش ڈھک دیا۔ اور نہایت خلوص کے ساتھ یہ خوان شہنشاہ جنات کی جانب سے انعام کے طور پر انہیں پیش کیا۔ تمام لوگوں نے خوش ہو کر تالیاں بجائیں اور سب لوگوں نے صندل دیوی کے لئے نعرے لگائے اور بہت سی دعائیں دیں۔ صندل نے سب کو یقین دلایا کہ بھگوان کی کرپا سے اب شریر جنات کو یہ جرأت نہیں ہو گی کہ وہ انسانوں کے یقین کو پامال کریں۔ پھر اس نے اوپر آکاش کی جانب ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا کہ اوپر والا سب کا خالق ہے۔ اسی کی قوت و شکتی سب مخلوق کے اندر کام کر رہی ہے۔ جو آدمی جس قدر اوپر والے رب سے ناطہ جوڑ کر اس کے قریب ہو جاتا ہے وہ اسی قدر اس کی شکتی سے قوت پاتا ہے۔

                عالم جنات میں صندل کی خدمات سے سلطان بابا بہت خوش تھے۔ ایک روز انہوں نے نہایت ہی شفقت کے ساتھ اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگے،”بیٹی، اوپر والا جب کسی بندے سے خوش ہوتا ہے تو خلق میں اس بندے کو مقبول کر دیتا ہے۔ خلق میں بندے کی مقبولیت اس بندے کے لئے اللہ پاک کی رضامندی کی نشانی ہے۔”ابھی سلطان بابا نے یہ جملہ پورا ہی کیا تھا کہ صندل نے اپنے آپ کو کمرے میں دیوار کے قریب پایا۔ سلطان بابا نے اسے رخصت کیا تو اس کا روشنی کا جسم دیوار کے اندر داخل ہو گیا۔ دیوار سے کمرے میں داخل ہو کر یہ جسم صندل کے مادی جسم میں داخل ہو گیا۔ صندل کے جسم میں حرکت ہوئی۔ اس نے اپنے رب کو سجدے کئے۔ اس کا شکر ادا کیا اور اپنے کمرے میں چلی آئی۔ بستر پر لیٹتے ہی اسے نیند آ گئی۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ ایک بہت شفاف قد آدم آئینہ ہے۔ جو دونوں طرف سے چمکدار ہے، آئینے کے آگے صندل جوگن کے لباس میں کھڑی ہے، مگر یہ لباس دنیا کی طرح کا معمولی کھدر کا نہیں ہے بلکہ نہایت ہی ملائم ریشم کا ہے، اس کی اوڑھنی نہایت ہی خوبصورت کڑھی ہوئی ہے اور اس کے ساتھ ہی صندل نے بہت قیمتی زیورات پہنے ہوئے ہیں۔ تمام زیورات قیمتی پتھروں کے ہیں۔ اس کے ماتھے کی بندیا ستارے کی طرح جھلمل کر رہی ہے۔ اس پر صندل کا روپ حوروں کو شرما رہا ہے۔ اس نے دیکھا آئینے کی دوسری جانب سلطان بابا کھڑے ہیں۔ ان کے جمال پر نظر نہیں ٹھہرتی۔ اسے یوں لگا جیسے اس کی ایک نظر تو ہر شے کو اوپر سے دیکھ رہی ہے۔ جس کی وجہ سے اس کی آنکھ سے کوئی بھی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اس نظر سے خود اپنے وجود کی حرکات و سکنات بھی دیکھ رہی ہے۔ اس نے دیکھا کہ آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی صندل کی نگاہیں آئینے پر جم گئیں۔ مگر اس آئینے کے بالمقابل کھڑے ہونے کے باوجود بھی آئینے میں اس کا اپنا عکس نہ تھا بلکہ آئینہ بالکل شفاف تھا۔

                صندل چند لمحے اسی طرح ساکت و جامد آئینے کے سامنے کھڑی آئینے کو گھورتی رہی۔ تھوڑی دیر بعد اس کی نگاہ آئینے کی گہرائی میں داخل ہو گئی۔ انتہائی گہرائی پر اس نے دیکھا کہ آئینے کی پشت پر کھڑے ہوئے سلطان بابا کا نور جمال آئینے کے اندر داخل ہو کر دوسری سطح پر باہر کی جانب ابھر رہا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نور نے شہباز کی صورت اختیار کر لی۔ آئینے میں شہباز کا عکس نمودار ہو گیا۔ صندل کی نگاہیں اسی طرح آئینے پر جمی ہوئی تھیں کچھ دیر بعد اس کی پلکیں جھپکیں۔ اس کے چہرے پر حیاء کی لالی پھیل گئی۔ یاقوتی ہونٹوں پر مسکراہٹ چھا گئی۔ اس نے شرما کر آئینے سے اپنی نظریں ہٹا لیں۔ اب وہ جدھر نگاہ ڈالتی وہیں پر شہباز کا عکس اسے مسکراتا نظر آتا۔ اس نے گھبرا کر آنکھیں بند کر لیں۔ ادھر کواب میں صندل نے آنکھیں کھول دیں، روح کا نشہ سرور بن کر اس کے تن بدن پر چھا گیا۔ کچھ دیر تک سرور کی اس کیفیت نے اسے بے خیال کر دیا۔ پھر آہستہ آہستہ کبھی سلطان بابا اور کبھی شہباز کی تصویریں ذہن میں آنے لگیں۔ اس کے ساتھ ہی خواب کے سین دوبارہ ذہن کے پردے پر ابھرنے لگے۔ اس کے ذہن نے سوا ل کیا۔ سلطان بابا کی روشنیاں آئینے کے ایک رخ میں جذب ہو کر دوسرے رخ پر شہباز کی صورت میں کیسے نمودار ہو گئیں۔ ذہن نے اپنے سوال کا خود ہی جواب دیا۔ شہباز پر سلطان بابا کا کامل تصرف تھا۔ وہ بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی۔”اے بھگوان، سب تیرے ہی روپ ہیں۔”ا س کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔

                اب محلے پڑوس کی عورتیں بڑی عقیدت سے صندل کے پاس آتیں۔ اپنے مسئلے بیان کرتیں۔ اپنی بیماریوں کا حال کہتیں اور صندل کی جھاڑ پھونک ، دم درود سے شفاء پاتیں۔ کوئی مسلمان آتا تو اس پر اللہ کا نام لے کر دم کر دیتی اور کوئی ہندو آتا تو بھگوان کا نام لے پھونک دیتی۔ اس کا کہنا تھا کہ سب کو پیدا کرنے والا ایک ہی ہے۔ اس ایک ہستی کے بہت سے اچھے اچھے نام ہیں۔ کوئی اسے کسی نام سے پکارتا ہے ، کوئی کسی نام سے۔ جو جس کو پسند ہوتا ہے اسی نام سے اسے بلاتا ہے۔ جب کوئی بندہ اپنے رب کے ساتھ اپنا تعلق جوڑ لیتا ہے تو وہ اپنے رب کو ہر نام کے ساتھ پہچان لیتا ہے۔ رب کے ساتھ تعلق جوڑنے سے اندر کا شیطان مر جاتا ہے۔

                ایک دن صبح صبح محلے کی ایک مسلمان عورت آئی۔ وہ بہت خوش تھی۔ کہنے لگی صندل دیوی آپ کی دعاؤں سے اللہ نے ہماری سن لی ہے۔ ہمارا حج پر جانے کا پروگرام بن گیا ہے۔ آپ کی دعاؤں کے ساتھ جانا چاہتے ہیں۔ صندل کے منہ سے بے خیالی میں نکلا۔”فکر نہ کرو۔ میں تم سے وہیں ملوں گی۔”وہ عورت خوش ہو کر چلی گئی۔ حج سے ایک رات پہلے صندل اپنے عبادت والے کمرے میں رب کے دھیان میں بیٹھی تھی کہ سلطان بابا سامنے آ گئے۔ کہنے لگے صندل کل حج کا دن ہے۔ اللہ نے تجھے اپنے گھر کا بلاوہ دیا ہے۔ تو کل برت(روزہ) رکھ کر سارا دن کمرے میں اپنے رب سے دھیان لگائے رکھنا۔ تیرا حج تیری آتما کا حج ہے۔ آتما ہندو یا مسلمان نہیں ہے بلکہ آتما تو صرف ایک رب کو پہچانتی ہے۔ جب کوئی بندہ اپنی آتما کو پہچان لیتا ہے اور اپنی آتما کے تقاضوں کے ساتھ اپنی زندگی کی تمام حرکات کو جوڑ دیتا ہے تو اس کا ہر عمل اس کی روح کے تابع ہو جاتا ہے۔ روح اللہ کے امر کو بندے تک پہنچاتی ہے۔ اپنی روح کا وقوف رکھنے والے بندے کے اندر اللہ تعالیٰ کا امر متحرک ہو جاتا ہے۔ امر کا شعور روح ہے۔ پس وہ اپنے خالق کو خوب پہچانتی ہے۔ وہ اپنے رب کے سوا کسی کو نہیں جانتی۔ صندل تو بڑی بھاگوان ہے ۔ اللہ تجھ سے خوش ہے۔

                دوسرے دن صندل نے حسب معمول صبح تڑکے اٹھ کر اشنان کیا۔ اپنی خوبصورت آواز میں بجھن گائے۔ سارا گھر آہستہ آہستہ اٹھ کر اس کے ساتھ بھجن گانے میں شامل ہو گیا۔ اس نے سب کے منہ میں پوجا کی تھال سے بتاشے ڈالے۔ ٹھاکر صاحب نے نہایت محبت سے ایک بتاشہ تھالی سے اٹھا کر صندل کے منہ میں ڈالنے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ صندل مسکرا کے بولی،”باپو، آج میرا برت ہے۔”ٹھاکر صاحب نے محبت کے ساتھ بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے دعائیں دیں۔ صندل نے ماں کے کان میں آہستہ سے کہا۔ ماں آج میرا برت ہے۔ میں سارا دن دھیان میں رہوں گی۔ مجھے کوئی نہ بلائے۔ یہ کہہ کر صندل دیوی والے کمرے میں چلی گئی۔ لوبان جلایا، کمرہ بند کیا اور عبادت میں مصروف ہو گئی۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کا ذہن یکسو ہو گیا۔ اس کے قلب سے اللہ ہو کی صدا جاری ہو گئی۔ اس صدا کے ساتھ ہی اس کے اندر والی صندل جسم سے باہر آ گئی۔ اس نے دیکھا کہ وہ احرام باندھے ہوئے ہے۔ یہ احرام سفید رنگ کا ٹخنوں تک کا لباس ہے۔ اس پر سفید رنگ کا اسکارف ہے۔ وہ سیدھی سلطان بابا کی قبر پر پہنچی۔ قبر کی پائنتی پر نیچے جانے کے لئے سیڑھیاں بنی تھیں۔ وہ ان سیڑھیوں سے اتر کر نیچے پہنچی۔ نیچے سلطان بابا کے محل کے دروازے پر پہنچتے ہی اس کی ملاقات سلطان بابا کے ساتھ ہو گئی۔ سلطان بابا نے بھی احرام باندھا ہوا تھا۔ اس نے سلطان بابا کو ادب سے سلام کیا۔ سلطان بابا نے صندل کا ہاتھ پکڑا، دونوں نے ایک ساتھ قدم اٹھائے اور اسی وقت کعبہ شریف سامنے آ گیا۔ وہ ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے دوسرے حاجیوں کے ساتھ شامل ہو گئے۔ طواف سے فارغ ہو کر جب وہ آب زم زم کی جانب جا رہے تھے تو پڑوس کی عورت جو حج پر جا رہی تھی وہ صندل سے ٹکرائی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ علیک سلیک ہوئی اور پھر اپنی اپنی راہ چل دیئے۔ شام تک صندل کی روح سلطان بابا کے ساتھ حج میں مشغول رہی۔ پھر سلطان بابا نے دو کھجوریں اس کے ہاتھ میں دیں اور کہا۔”صندل تجھے حج مبارک ہو۔ یہ کھجوریں لے اور اپنا روزہ کھول”جیسے ہی سلطان بابا نے کھجوریں صندل کے ہاتھ میں دیں اسی ووقت ایک دم سے اندر والی صندل جسم کے اندر سما گئی۔ اسے یوں لگا جیسے ایک لہر اس کے جسم میں داخل ہو گئی ہے۔ اس کے ساکت جسم میں حرکت آ گئی۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کے ہاتھ میں کچھ ہے۔ دیکھا تو سلطان بابا کی عطا کردہ کھجوریں اس کے ہاتھ میں تھیں۔ اس نے عقیدت سے انہیں چوم لیا اور پھر رب کا شکر ادا کرتے ہوئے ان کھجوروں سے روزہ کھولا۔ ابھی اس نے ایک کھجور منہ میں ڈالی ہی تھی کہ کمرے میں جیسے ایک بجلی سی کوندی۔ اس کا جھماکہ صندل کو اپنی روح کی گہرائی تک محسوس ہوا۔ اس کا دل کہہ اٹھا بے شک تیرا ہی نور ہر سو چھایا ہوا ہے۔ اس نے اپنے رب کو سجدے کئے اور کمرے سے باہر آ گئی۔


 


Jogun

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


روح کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ روح عورت یا مرد ہوتی ہے۔ روح روح ہوتی ہے اور کیونکہ روح صرف روشنی ہوتی ہے اور روشنی کے لئے حد بندیاں قائم نہیں کیں جا سکتیں۔ روشنی ہر جگہ ہے۔ روشنی کے لئے در و دیوار معنی نہیں رکھتے۔ روشنی ٹائم اور اسپیس سے آزاد ہے۔ جب کوئی مرد یا عورت روح سے واقف ہو جاتی ہے تو اس کے اوپر سے ٹائم اور اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ ہزاروں سال پہلے کے واقعات اور ہزاروں سال بعد کے آنے والے واقعات کو دیکھ لیتا ہے۔ چونکہ ماضی، حال، مستقبل اس کے سامنے آ جاتا ہے اس لیے وہ اس بات سے واقف ہو جاتا ہے کہ کائنات میں اللہ کے علاوہ کسی کی حاکمیت نہیں ہے اور جب کوئی بندہ اللہ کی حاکمیت یقین کے ساتھ قبول کر لیتا ہے تو اس کر اندر سے غم و پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں اور وہ سکون کے گہوارے میں محو خرام ہو جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سعیدہ خاتون عظیمی کی اس کاوش کو عوام الناس کے لئے مقبول بنائے اور جو لوگ اس کتاب کا مطالعہ کریں ان کے ادراک و فہم میں جلا بخشے۔

                آمین

خواجہ شمس الدین عظیمی

مرکزی مراقبہ ہال

سرجانی ٹاؤن، کراچی