Topics

پرماتما کی روشنی کا بہاؤ


                صندل بولی،”میں نے جان لیا کہ پرماتما کی روشنی کا بہاؤ میرے دل کے اندر سے گزرتا ہے۔ اس بہاؤ کی قوت سے میرا دل شکتی حاصل کرتا ہے۔ میرے دل کو شکتی کی ضرورت ہے۔ اس لئے زیادہ سے زیادہ بند باندھ کر وہ اپنے اندر یہ روشنی ذخیرہ کرتا ہے۔ اس شکتی سے میری آتما کا جسم مضبوط ہو گا اور اندر چلنے پھرنے والا روشنیوں کا جسم بھگوان کی مرضی سے لوگوں کے لئے اچھے کام کرے گا۔ کیونکہ میرا من یہی کہتا تھا کہ مجھے اپنے من کی کسی بات پر کبھی شک نہیں ہو ا اور پھر ایک رات میرے من کے اندر سے صدا آئی کہ تو اگر پرماتما کا گیان حاصل کرنا چاہتی ہے تو یہ عیش و آرام کی زندگی چھوڑ دے۔ پرماتما کا گیان لینے کے لئے جوگن بننا پڑتا ہے۔ جنگل میں رہ کر تپسیا کرنی پڑتی ہے۔ میرے بزرگو، میرے بھائیوں! پہلے تو میں یہ سن کر سخت خوفزدہ ہو گئی مجھے اپنی بے داغ جوانی کا خیال آیا۔ گوری رنگت اور خوبصورتی کا خیال آیا اور پھر اس کے ساتھ ہی بھگوان جیسے محبت کرنے والے ماتا پتا کا دھیان آیا۔ میرے اوپر جان چھڑکنے والے بھائیوں کا دھیان آیا۔ میری ماں سمان پیاری بھابھیوں کا خیال آیا۔ میری سہیلی میری دوست جیسی بہن سے بچھڑنے کا خیال آیا۔”صندل آنسوؤں کے دھارے میں کہے چلی جا رہی تھی۔”اگلے ہی لمحے جب میں نے اندر نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ میرے اندر والی صندل اپنے رب کے حضور ماتھا ٹیکے ہوئے ہے۔ اس دم میں دنیا میں سب کو بھول گئی۔ حتیٰ کہ مجھے اپنا جسم بھی بھول گیا۔ مجھے یوں لگا جیسے میں اندر والی صندل ہوں۔ پروں کی طرح ہلکی پھلکی مجھے رب کی روشنی اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔ روشنی مجھے کھینچ کر کمرے کی دیوار سے باہر لے آئی اور میں نے ایک قدم اٹھایا اور جب یہ قدم نیچے رکھا تو میں نے دیکھا کہ میں جنگل میں کھڑی ہوں، وہاں ایک بزرگ بھی میرے پاس کھڑے ہیں ان بزرگ نے مجھے گلے لگا کر میری پیشانی چومی اور بولے آج سے تو یہیں رہے گی۔ یہ ہی تیرا گھر ہے پھر وہ مجھے اس جنگل میں چھوڑ کر چلے گئے۔ میں ایک غار میں بیٹھ کر رب کی عبادت کرتی رہی۔ وہ بزرگ اس دنیا کے نہیں تھے۔ انہیں پرلوک سدھارے کئی سو سال ہو چکے ہیں۔ جب کوئی درگھٹنا پڑتی وہ آ کر مجھے شکتی سے سہائتا دیتے۔

                یہاں آنے سے پہلے انہوں نے مجھے جوگن کا لباس دیا۔ پوتر جل میں اشنان کر کے جوگن کا لباس پہننے کا حکم دیا اور کہا۔ صندل اب تیرے باہر نکلنے کا سمے آ گیا ہے۔ گھر جا اور یاد رکھ تو اپنے رب کی جوگن ہے۔ جب میں اشنان کر کے جوگن کا لباس پہن کر باہر آئی تو میرے ماتھے پر انگلی سے ایک لکیر لگائی۔ پھر میں نے گھر آنے کئے قدم بڑھایا تو اپنے آپ کو گاؤں میں پایا۔ اب میں آپ کے سامنے ہوں۔”

                یہ کہہ کر صندل چپ ہو گئی۔ سب لوگوں کی نگاہ صندل پر تھی۔ جس کے چہرے کو زرد موٹی اوڑھنی نے چھپا رکھا تھا۔ صرف تھوڑی کا سیاہ تل اس طرح چمک رہا تھا جیسے آسمان پر تارہ۔ کچھ دیر تک سناٹا رہا۔ سب اپنی اپنی جگہ جانے کا سوچ رہے تھے۔

                پنڈت جی سوچتے ہوئے بولے،”صندل تیری باتوں پر ہمیں پورا یقین ہے۔ مگر اپنی پوتر تا کو ثابت کرنے کے لئے”میرا”کو بھی زہر کا پیالہ پینا پڑا۔ اگر تیرا گرو سچا ہے اور تو اس کی سچی بھگت ہے تو دکھا اپنی پیشانی پر اس کی لگائی ہوئی لکیر۔”مہا پنڈت کی بات ٹالنے کی ہمت کس میں تھی۔ ماں باپ کا کلیجہ حلق میں آ گیا۔ دونوں کے دل سے صدا نکلی۔ پربھو! ہمارے حال پر نظر کرم کرنا۔ صندل نے دل ہی دل میں سلطان بابا کو یاد کیا۔ ان کا نام لیتے یہ اس کے اندر تیز روشنی کی لہر دوڑ گئی۔ اس لہر کے اندر سے سلطان بابا کی محبت بھری آواز سنائی دی۔”صندل اپنی پیشانی کھول دے۔”اور صندل نے بھرپور یقین کے ساتھ چہرے سے اوڑھنی ہٹا دی۔

                سارے مجمع کی نظر صندل کے چہرے پر تھی۔ سب نے دیکھا صندل کی صندل جیسی شفاف پیشانی پر نور کی ایک لکیر جگمگا رہی ہے۔ اس سمے صندل کو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ آئینے میں اپنے آپ کو دیکھ رہی ہو۔ تمام مجمع کی نظر کی روشنی اس کے لئے آئینے کا کام کر رہی تھی۔ وہ لوگوں کی نظر کی روشنی کے اندر اپنا عکس دیکھ رہی تھی۔ اپنی پیشانی پر روشنی کی جگمگاتی لکیر دیکھ کر اسے انتہائی اطمینان ہوا۔ اس کا دل تشکر سے لبریز ہو گیا۔ ملکوتی مسکراہٹ اس کے سارے چہرے پر پھیل گئی۔ اس نے دوبارہ اوڑھنی اپنے چہرے پر ڈالی اور تیزی سے اپنے پتا جی کی جانب بڑھی۔”باپو مجھے گھر لے چلو۔”

                ٹھاکرصاحب کے چہرے پر آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔ انہوں نے اسے بازوؤں سے پکڑا اور چپ چاپ آگے بڑھ گئے۔ ان کے پیچھے پیچھے چودھرائن پلو سے اپنے آنسو پونچھتی ہوئی چلی اور پھر سارا گھر اٹھ کھڑا ہوا۔ باقی سب لوگ اسی طرح ہکا بکا بیٹھے ٹھاکرصاحب کے گھر والوں کو جاتا دیکھ رہے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ بغیر کچھ کہے سنے سارا مجمع چھٹ گیا۔ سب اپنے اپنے گھر چلے گئے۔

                شہباز مجمع میں ایک طرف کھڑا سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ وہ سوچ کر آیا تھا کہ آج صندل کو گاؤں والوں نے کچھ کہا تو وہ اپنی جان پر کھیل جائے گا۔ مگر ایسی نوبت ہی نہیں آئی۔ صندل نے جس خوبصورتی کے ساتھ پنچائیت میں گاؤں والوں کا مقابلہ کیا اس سے شہباز کے دل میں صندل کی اور زیادہ محبت بڑھ گئی۔ شہباز سوچنے لگا۔ صندل نے سلطان بابا کا نام نہ لے کر بڑی عقلمندی کی۔ مذہبی تعصب آدمی کو تنگ نظر بنا دیتا ہے۔ خصوصاً مندراج بابو تو سب سے زیادہ متعصب ذہن رکھتے ہیں۔ وہ دل میں لوگوں کی بھلائی اور امن و سکون کی دعائیں مانگتا ہوا اپنے گھر چلا آیا۔ صندل گھر پہنچ کر سیدھی صندل دیوی والے کمرے میں پہنچی۔ اپنے رب کو سجدہ کیا اور کچھ دیر عبادت کے بعد کمرے سے باہر آئی تو سارے گھر کے افراد صحن میں بیٹھے صندل کے منتظر تھے۔ سب نے باری باری صندل کو پیار کیا۔ گلے سے لگایا۔ مالا اور کاجل اسے گلے سے لگاتے ہوئے بولیں۔ صندل تو دیوی جیسی پوتر ہے۔ بھگوان تیری رکھشا کرنے والا ہے۔

                اگلے چند روز گھر گھر صندل کا ذکر ہوتا رہا۔ جو لوگ پنچائیت میں موجود نہیں تھے ان کے لئے یہ یقین کرنا مشکل ہو گیا کہ ایک نوجوان لڑکی بھی گیانی ہو سکتی ہے۔ حسد آدمی کی طبیعت میں داکل ہے۔ حسد کی وجہ سے شک کو اور تقویت ملتی ہے۔ اب صندل کی وجہ سے لوگوں کا آنا جانا رہتا۔ زیادہ تر عورتیں اسے آزمانے کی نیت سے آتیں۔ ساتھ ساتھ اس کی حکیمانہ باتیں سن کر سر بھی ہلاتی جاتیں۔ جیسے اقرار کر رہی ہوں مگر ان کے دل کا شبہ اور حسد چہرے سے جھلک جاتا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ آدمی اپنے چھوٹوں کی نصیحت قبول نہیں کرتا۔ صندل کی عمر ابھی درویشی کے لئے دنیا والوں کی نظر میں بہت چھوٹی تھی۔ ایک رات کھانے کے بعد محلے کی بہت ساری عورتیں چھت پر جمع تھیں۔ صندل بولی،”پرماتما نے انسان کو ایسی قوتیں دی ہیں کہ وہ چاہے تو بہت کچھ کر سکتا ہے۔”اس وقت آسمان ستاروں سے جگمگا رہا تھا۔ چھت پر اندھیرا ہونے کے باوجود ستاروں کی روشنی رات کو تاریکی میں مکمل طور پر ڈوبنے سے روکے ہوئے تھی۔ ایک عورت بولی،”دنیا میں تو چلو مان لیا کہ آدمی کچھ نہ کچھ کر ہی لیتا ہے۔ مگر چاند ستاروں پر تو اس کا کچھ بس نہیں چلتا۔”

                صندل آسمان کی جانب انگلی سے اشارہ کرتی ہوئی بولی،”چاچی وہ ستارہ دیکھ رہی ہو نا آپ؟”ساری عورتیں صندل کی انگلی کے اشارے کی جانب آسمان میں دیکھنے لگیں۔”چاچی بولی،”وہ جس سے نیلی روشنی جھلک رہی ہے؟”

                صندل بولی،”ہاں چاچی وہی ستارہ۔”اور اس وقت وہ ستارہ نہایت تیزی سے آسمان پر ایک بڑے دائرے کے اندر گھومنے لگا۔ ساری عورتیں بول اٹھیں،”صندل یہ ستارہ تو گھوم رہا ہے۔”چند منٹ بعد صندل نے اپنی انگلی بھی نیچے کر لی۔ ستارہ بھی اپنی جگہ ساکت ہو گیا۔ اب چاچی بولی،”صندل تو سچ کہتی ہے تیرے اندر بھگوان نے اپنی شکتی رکھی ہے۔”

                صندل بولی،”چاچی بھگوان نے اپنی شکتی ہر انسان کے اندر رکھی ہے۔ مگر کوئی اسے تلاش ہی نہیں کرتا۔ چاچی بھگوان پتھر کا بت نہیں ہے۔ بھگوان تو ایک نام ہے۔ ایک ذات ہے۔ ایسی ذات جو ساری کائنات پر چھائی ہوئی ہے۔ ساری کائنات اسی کی قوت سے چل رہی ہے۔چاچی یہ جو چاند ستاروں اور سورج میں جو روشنی ہم دیکھتے ہیں نا۔ یہ سب روشنی پرماتما کی ہے۔ وہ سب کا پیدا کرنے والا ہے۔ وہ نور ہے۔ اس کی کوئی صورت نہیں ہے۔ چاچی ذرا سوچو اگر وہ چاند، سورج ستاروں سے اپنا نور کھینچ لے تو سارے کے سارے بے نور ہو جائیں گے۔ اس کا نور ہی سب کی زندگی ہے۔ ہر جاندار کے اندر اس کی آتما ہے۔ آتما رب کا نور ہے۔ جب آتما نکل جاتی ہے تو جسم مر جاتا ہے۔ آتما کی شکتی سے ہی جسم چلتا پھرتا ہے۔ اپنی آتما سے رشتہ جوڑنے والا امر ہو جاتا ہے۔ آتما اپنے اندر ہے۔ اپنے اندر دھیان کرنے سے آتما خود بتاتی ہے کہ دنیا میں اچھی زندگی گزارنے کے لئے کیا کرنا چاہئے۔”

                ستاروں کی ہلکی ہلکی روشنی میں ڈوبے ہوئے ماحول میں صندل کی باتیں پراسراریت گھولنے لگیں۔ ساری عورتیں چپ چاپ بیٹھی تھیں۔ صندل ماحول کی ماورائی کیفیت کو برقرار رکھتے ہوئے آہستہ آہستہ گہری آواز میں کہنے لگی۔”سب لوگ آنکھیں بند کر کے اپنے اندر دیکھنے کی کوشش کرو۔ تمہیں اپنے اندر تمہارا اپنا وجود دکھائی دے گا۔ اندر والا وجود باہر والے جسم سے زیادہ ہلکا پھلکا ہے۔ یہ پرماتما کی روشنی سے بنا ہے۔ اس کی شکتی سے باہر والا جسم حرکت کرتا ہے۔ اندر ٹھنڈک ہے۔ سکون ہے۔ تحفظ ہے۔ خوشی ہے۔ باہر گرمی ہے۔ بے سکونی ہے۔ عدم تحفظ ہے۔ غم ہے۔ تم اپنی نظر اندر رکھو۔ تمہیں اپنی مطلوبہ چیز مل جائے گی۔”

                یہ کہہ کر صندل خاموش ہو گئی۔ سب عورتیں اپنے اندر دھیان لگا کر بیٹھ گئیں۔ صندل نے آنکھیں بند کیں تو دیکھا کہ آسمان سے روئی کے گالوں کی طرح روشنی سب پر برس رہی ہے۔ وہ جان گئی کہ اس کا رب اپنی رحمت برسا رہا ہے۔ اس کی آتما سجدے میں جھک گئی۔

                پنچائیت والے دن کے بعد مندراج بابو ٹھاکر کے گھر نہیں گئے۔ نہ ہی صندل کے پنچائیت میں سرخرو ہونے کی بدھائی دی۔ کچھ دنوں کے بعد ایک رات جب صندل اپنی عبادت و ریاضت میں مصروف تھی۔ اس کے جسم سے ایک اور صندل نکلی وہ صندل سیدھی سلطان بابا کی قبر مبارک پرپہنچی اور قبر کی پائنتی میں بنی ہوئی سیڑھی سے قبر کے اندر اتر گئی۔ نیچے اترتے ہی تیز روشنیوں کے عالم میں اس نے سلطان بابا کو اپنا منتظرکھڑا پایا۔ اس نے ادب سے سلام کیا اور سلطان بابا نے اس کی پیشانی کو چوما۔ کہنے لگے۔”عالم جنات میں تمہاری تقرری دوبارہ ایک نئے عہدے پر ہونے والی ہے۔ ہمیں وہاں جانا ہو گا۔”

                یہ کہہ کر صندل کا ہاتھ پکڑا۔ ہاتھ پکڑ کر دونوں نے ابھی ایک قدم ہی اٹھایا ہو گا کہ عالم جنات ان کے سامنے تھا۔ دوسرا قدم انہوں نے عالم جنات میں رکھا۔ فصیل شہر میں قدم رکھتے ہی ایک قوی ہیکل عفریت ان کی جانب بڑھا۔ وہ جھک کر کورنش بجا لایا اور کہنے لگا۔”آپ کو عالم جنات میں آنے کی مبارکباد پیش کی جاتی ہے۔”یہ کہہ کر اس نے پاس کھڑی ہوئی گاڑی میں انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ یہ انتہائی حسین بگھی تھی۔ جس میں دو سفید گھوڑے جتے تھے۔ بگھی میں بیٹھ کر صندل کو محسوس ہوا کہ اس کی رفتار انتہائی تیز ہے۔ اس نے اپنے چہرے پر ٹھنڈی ہوا کے جھونکے لگتے ہوئے محسوس کئے اس کے سنہری بال بکھر کر رخساروں پر جھولنے لگے۔

                کچھ دیر بعد وہ ایک عظیم الشان عمارت کے پاس پہنچے۔ یہاں آ کر بگھی کھڑی ہو گئی۔ یہ بہت ہی عالیشان سفید رنگ کی عمارت تھی۔ اس عفریت نے انہیں عمارت کے اندر پہنچا دیا یہ کورٹ کی عمارت تھی۔ اس کے ہال میں پہنچے تو دروازے میں داخل ہوتے ہی ہر طرف سے تالیوں کی آواز گونج اٹھی۔ صندل نے دیکھا کہ شہنشاہ جنات سامنے تشریف فرما ہیں۔ عالم جنات میں یوں تو صندل دیوی کے نام سے نہایت ہی مقبول تھی۔ مگر جج کی حیثیت سے وہ مجرموں کے لئے زبردست چیلنج بھی تھی۔ رب نے اسے ایسی شکتی عطا کی تھی کہ جس سے وہ مجرم کو پہچان لیتی۔ اس کی نظر مجرم کے اندر جرم کی سیاہی کو دیکھ لیتی۔ رفتہ رفتہ اس کی اس صلاحیت کا سارے عالم جنات میں چرچا ہو گیا۔ چھوٹے موٹے جرائم پیشہ تو خوف کی وجہ سے میدان چھوڑ گئے مگر عادی مجرموں کے لئے صندل مسلسل ایک خطرہ بنی ہوئی تھی۔ وہ ہر دم اسی تاک میں رہتے کہ کسی طرح صندل کو نقصان پہنچا سکیں۔ شہنشاہ جنات اپنی قوم کو خوب پہچانتے تھے۔ انہوں نے صندل کے لئے دو قوی ہیکل عفریت گارڈ مقرر کر دیئے تھے۔ جو ہر وقت اس کی حفاظت کرتے۔

                ایک دن ایک عجیب سا کیس عدالت میں پیش ہوا۔ دونوں فریقین کا دعویٰ ایک زمین پر تھا۔ جس کے متعلق یہ مشہور تھا کہ اس زمین کے اندر خزانہ دبا ہوا ہے۔ مزے کی بات تو یہ تھی کہ دونوں کے پاس زمین کی ملکیت کے کاغذات تھے اور ارد گرد کے لوگوں کی گواہی بھی دونوں کے حق میں تھی کہ یہ دونوں اس زمین پر آتے جاتے دیکھے گئے ہیں۔ دونوں کا کہنا تھا کہ ان کے دادا نے زمین میں خزانہ دبایا تھا تا کہ بڑے ہو کر یہ اسے اپنے استعمال میں لائیں۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ ان کے دادا کا انتقال ان کی پیدائش سے پہلے ہو چکا تھا۔ یہ خبریں انہیں اپنے ماں باپ سے ملی تھیں۔ ماں باپ بھی اس دنیا میں نہیں تھے اور لوگوں کو ان کے متعلق کچھ علم نہ تھا۔ فریقین دو تھے مگر ان دونوں کے دعوے ایک تھے۔ کمال کی بات یہ تھی کہ گورنمنٹ لیول پر چھان بین کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ ان دونوں کے آباؤ اجداد بالکل جدا ہیں۔ جو ایک دوسرے کو جانتے تک نہ تھے۔ دونوں فریق اس زمین سے بالکل بھی دستبردار ہونے کے لئے تیار نہ تھے۔ ان کا اصرار تھا کہ صندل دیوی اپنی شکتی سے انہیں ان کا حق دلوائے گی۔ جب عدالتی کارروائی میں دونوں دعویدار برابر ثابت ہوئے تو دونوں ہی پوری زمین کے حق دار بن گئے اور کوئی ایک فریق بھی اپنا حق چھوڑنے پر رضامند نہ تھا۔ دونوں ساری زمین کے مالک ہو نہیں سکتے تھے۔ اس صورتحال میں طے یہ پایا کہ صندل مجرموں کے ساتھ جائے وقوع پر جائے تا کہ کسی نتیجے پر پہنچے۔ صندل دونوں فریقین کے ساتھ زمین پر پہنچی۔

                جیسے ہی اس نے زمین پر قدم رکھا اسے اندازہ ہوا کہ کیس کی نوعیت ہی دوسری ہے ۔ وہ نہایت تمکنت کے ساتھ بڑے بڑے قدم اٹھاتی ہوئی زمین کے وسط میں کھڑی ہو گئی۔ اس کے ساتھ کورٹ کے پانچ وکلاء اور بھی تھے۔ اب اس نے نہایت رعب کے ساتھ زمین کو حکم دیا۔”اے زمین! کیا تو اپنے دعویدار کو پہچانتی ہے۔ ان دونوں میں سے جو بھی تیرا اصل مالک ہے۔ اس کی نشان دہی کر۔ تیرا مالک وہی ہو گا جو زمین پر آسانی کے ساتھ چل پھر سکے گا۔ جھوٹا دعویدار ایک قدم بھی نہ بڑھا سکے گا۔”

                اس کے بعد دونوں فریقین سے کہا گیا کہ آپ دونوں زمین پر چلیں۔ دونوں نے اپنے پاؤں اٹھانے کی بہت کوشش کی مگر ان کے پاؤں تو مقناطیس کی طرح زمین سے چپک گئے۔ دونوں کے چہروں پر خوف و شرمندگی کے آثار تھے۔ مگر اپنی شرمندگی کو چھپاتے ہوئے دونوں کہنے لگے کہ صندل دیوی نے اپنی قوت سے ان کے پاؤں مفلوج کر دیئے ہیں۔

صندل نے کہا،”تمہارا یہ دعویٰ ہے کہ زمین کے اندر خزانہ ہے۔”دونوں نے اثبات میں سر ہلا دیئے۔ صندل زور سے بولی۔”اے زمین اپنا خزانہ اگل دے۔”

                وہ تمام لوگ جس جگہ پر کھڑے تھے۔ اس جگہ کے سوا باقی ساری زمین میں جگہ جگہ شگاف ہو گئے اور زمین اندر سے روشن ہو گئی۔ جیسے کسی نے بلب جلا دیئے ہوں۔ ساری زمین میں کہیں بھی خزانہ دکھائی نہ دیا۔ سارے وکلاء حیرانگی سے صندل کا منہ تک رہے تھے۔ دونوں فریقین اب بھی خاموش تھے۔ صندل وکلاء کی جانب متوجہ ہوئی۔کہنے لگی،”معزز دوستو! یہ کیس محض من گھڑت ہے۔ زمین ان دونوں میں سے کسی کی نہیں ہے۔ ان دونوں نے زمین کے مالک کے ساتھ ساز باز کر کے یہ کیس بنایا ہے تاکہ مجھے آزمائیں۔”دونوں فریقین نے اعتراف کیا کہ انہوں نے زمین کے اصل کاغذات کو چھپا کر نئے کاغذات بنوائے۔ اس کیس سے ان کا مقصد صندل کو اس کے مقام سے نیچے گرانا تھا تا کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنے مجرمانہ مقاصد میں کامیاب ہو سکیں۔ پھر دونوں نے اپنی غلطی پر شرمساری ظاہر کی۔دونوں کے پاؤں ابھی تک زمین سے چپکے ہوئے تھے۔ صندل نے کہا،”اے زمین انہیں چھوڑ دے۔”زمین نے انہیں چھوڑ دیا۔ وہ دوڑ کر صندل دیوی کے قدموں میں گر گئے اور کہنے لگے۔”آج ہمیں اس بات کا یقین ہو گیا ہے کہ رب کی شکتی کو کوئی نہیں ہرا سکتا۔ اس کی قوت کو کوئی نہیں توڑ سکتا۔”

                 کچھ عرصے بعد مندراج بابو پر لوک سدھار گئے۔مندراج بابو کے انتقال کو تقریباً چھ ماہ ہو چکے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد دو تین دفعہ تو صندل کے گھر سے سب ہی لوگ وہاں گئے مگر اس کے بعد سب اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔

                ایک دن دوپہر کو خادم بازار سے جب گھر لوٹا تو سامان رسوئی گھر میں رکھ کر سیدھا صندل کے پاس آیا۔ کہنے لگا،”چھوٹی بی بی! ابھی بازار میں مندراج بابو کے بیٹے سے ملاقات ہوئی میرے خیریت پوچھنے پر وہ بڑا مایوسانہ انداز میں بولے۔”بس خیریت ہی ہے۔”میں نے جرأت کر کے دوبارہ پوچھا۔”سرکار خیریت تو ہے آپ خوش دکھائی نہیں دیتے۔”وہ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کہنے لگا۔”کیا پوچھتے ہو خادم حسین؟”جب میں نے ان کا حوصلہ بڑھایا۔”سرکار آپ تو جانتے ہیں ٹھاکر صاحب اور ان کا سارا پریوار آپ لوگوں کو خوش دیکھنا چاہتا ہے۔ ہم تو سب آپ کے لئے دعا کرتے ہیں۔ اگر آپ اجازت دیں تو ٹھاکر صاحب اور صندل دیوی کو آپ کے گھر جانے کا کہوں؟”وہ یہ سن کر بہت ہی مایوسانہ انداز میں بولے۔”ہاں کہہ دینا اور ہولے ہولے قدم اٹھاتے ہوئے چل پڑے۔”خادم بولا،”صندل دیوی جی! اگر آپ بڑے سرکار کے ساتھ وہاں ہو آئیں تو بھگوان کی کرپا سے ان کی پریشانی بھی دور ہو جائے گی۔”صندل بولی،”میں باپو کو چلنے کا ضرور کہوں گی۔”

                شام کو ٹھاکر صاحب صندل کو لے کر مندراج بابو کے یہاں گئے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی انہیں اندازہ ہو گیا کہ ابھی تک یہاں ماتم کی فضا بنی ہوئی ہے۔ مندراج بابو کے وہ بیٹے جو خادم حسین کو بازار میں ملے تھے وہ بھی وہاں موجود تھے۔ ٹھاکرصاحب نے محبت سے اسے پاس بٹھا کر پوچھا۔”اچھے تو ہو بیٹے؟”یہ سن کر بڑی ماں ایک دم رو پڑی، ٹھاکر صاحب ہمدردی کے ساتھ بولے،”بھابھی جی! اپنے ہی اپنوں کا غم بانٹ سکتے ہیں۔ اگر آپ لوگ ہمیں اس قابل سمجھتے ہیں تو ہمیں بھی اپنی پریشانی بتائیں؟”

                بڑی ماں پلو سے اپنی آنکھیں صاف کرتی ہوئی بولیں۔”بھائی صاحب کچھ نہ پوچھو، ہم کس آفت میں پھنس گئے ہیں۔ رات جب سونے کا وقت ہوتا ہے تو مندراج بابو کی آتما سارے گھر میں منڈلانے لگتی ہے۔ وہ کسی کو سونے نہیں دیتی۔ ایسا لگتا ہے جیسے اسے چین نہیں ہے۔ گھر سے جہاں جہاں سے گزرتی ہے وہیں سے چیخنے چلانے کی آو و زاریوں کی آوازیں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ سارا گھر ان کی درد ناک آوازوں سے گونجنے لگتا ہے۔ صبح پوپھٹنے تک یہی سماں رہتا ہے۔ ہم نے دو تین پنڈتوں سے بھی گھر میں جھاڑ پھونک کرائی۔ مگر ابھی تک کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ساری رات ہم سب کی کروٹیں بدلتے گزر جاتی ہے۔”

                یہ قصہ سن کر صندل بولی،”بڑی ماں آوازوں کے ساتھ ساتھ کیا تایا جی کی آتما دکھائی بھی دیتی ہے؟”

                وہ بولیں،”دکھائی تو کچھ نہیں دیتا۔ بس ایک ہوا کے جھونکے کی طرح سرسراہٹ سی محسوس ہوتی ہے۔ جب ہم سب ان پر ناراض ہوتے ہیں کہ اب تم یہ دنیا چھوڑ چکے ہو، اب تمہارا یہاں کیا کام ہے اب تم پرلوک سدھارو۔ تو اور زیادہ چیخنے چلانے کی آوازیں آتی ہیں اور دروازے سے بھی بہت زور سے دھڑدھڑانے کی آوازیں آتی ہیں۔ اتنی زور سے کہ ہم سب خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ بچے رونے لگتے ہیں۔”

                صندل بولی،”بڑی ماں آپ ہر روز شام کو سورج ڈھلنے سے پہلے سارے گھر میں لوبان کی دھونی دیا کرو۔”اس پر مندراج بابو کا بیٹا بولا،”صرف لوبان کی دھونی سے کیا ہو گا اور پھر سورج ڈھلنے سے پہلے کیوں ضروری ہے؟”

                صندل بولی،”بھیا جی، خوشی اور غم دو طرح کی لہریں ہیں۔ خوشی کی لہر ہلکی پھلکی نہایت ہی لطیف ہے۔ جب یہ لہریں ہمارے اندر سماتی ہیں تو ہم اس کی لطافت کو محسوس کر کے خوش ہو جاتے ہیں۔ غم کی لہر بھاری اور دھوئیں کی مانند کثیف ہوتی ہے۔ جب یہ ہمارے اندر داخل ہوتی ہے تو ہم پریشان ہو جاتے ہیں۔ ہمارا دماغ دونوں طرح کی لہروں کو جذب کرتا ہے اور خیالات کی صورت میں یہ لہریں دماغ سے باہر بھی نکلتی ہیں۔ لوبان جلانے سے گھر میں پھیلی ہوئی کثیف لہریں ختم ہو جاتی ہیں۔ سورج ڈھلنے کے قریب ہمارے دن کے حواس سست پڑنے لگتے ہیں۔ ہمارے اوپر سے کثیف لہریں ختم ہو جاتی ہیں۔

                اس وقت لوبان کی دھونی گھر کی فضا کو ہلکا کر دیتی ہے۔ تو ہمارے دماغ کو سکون ملتا ہے اور وہ فضا میں سے زیادہ سے زیادہ لطیف لہروں کو جذب کرنے کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ گھر کی فضا ہلکی ہو گی تو تایا جی کی آتما کو بھی سکون ملے گا۔

                باقی عمل میں اپنے گھر جاکر کروں گی۔ مگر مجھے امید ہے کہ یہ معاملہ ٹھیک ہو جائے گا۔”بڑی ماں روتے ہوئے بولیں۔”ان کی اذیت مجھ سے برداشت نہیں ہوتی ہے۔ بھگوان ان کی آتما کو سکون دے۔”ٹھاکر صاحب اور صندل انہیں دلاسا دیتے ہوئے رخصت ہوئے۔

               


 


Jogun

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


روح کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ روح عورت یا مرد ہوتی ہے۔ روح روح ہوتی ہے اور کیونکہ روح صرف روشنی ہوتی ہے اور روشنی کے لئے حد بندیاں قائم نہیں کیں جا سکتیں۔ روشنی ہر جگہ ہے۔ روشنی کے لئے در و دیوار معنی نہیں رکھتے۔ روشنی ٹائم اور اسپیس سے آزاد ہے۔ جب کوئی مرد یا عورت روح سے واقف ہو جاتی ہے تو اس کے اوپر سے ٹائم اور اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ ہزاروں سال پہلے کے واقعات اور ہزاروں سال بعد کے آنے والے واقعات کو دیکھ لیتا ہے۔ چونکہ ماضی، حال، مستقبل اس کے سامنے آ جاتا ہے اس لیے وہ اس بات سے واقف ہو جاتا ہے کہ کائنات میں اللہ کے علاوہ کسی کی حاکمیت نہیں ہے اور جب کوئی بندہ اللہ کی حاکمیت یقین کے ساتھ قبول کر لیتا ہے تو اس کر اندر سے غم و پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں اور وہ سکون کے گہوارے میں محو خرام ہو جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سعیدہ خاتون عظیمی کی اس کاوش کو عوام الناس کے لئے مقبول بنائے اور جو لوگ اس کتاب کا مطالعہ کریں ان کے ادراک و فہم میں جلا بخشے۔

                آمین

خواجہ شمس الدین عظیمی

مرکزی مراقبہ ہال

سرجانی ٹاؤن، کراچی