Topics

شہنشاہ جنات کے دربار میں پیشی


                صندل اسکول سے واپسی پر معمول کے مطابق سلطان بابا جی کے مزار پر گئی۔ وہ جانتی تھی کہ آج اسے بہت سی باتیں بابا جی سے کرنی ہیں۔ اس نے خادم سے کہا خادم چچا آپ وہ سامنے والے درخت کے نیچے بیٹھ کر ذرا دیر آرام کریں۔ آج مجھے تھوڑی دیر تک یہاں بیٹھنا ہے۔ بہت سی باتیں بابا جی سے کرنی ہیں۔ خادم درخت کے نیچے جا بیٹھا۔ صندل نے سلطان بابا جی کی قبر کے پائنتی پر بیٹھ کر آنکھیں بند کر لیں۔ آنکھیں بند کرتے ہی اس کے سامنے سلطان بابا جی آ گئے۔ اس نے ادب سے انہیں سلام کہا، وہ کہنے لگے۔”بیٹی ہم تم سے بہت خوش ہیں۔ تم نے ان شریر جنوں سے لڑکیوں کو نجات دی۔ آج رات کو شہنشاہ جنات کے دربار میں ان کی پیشی ہے۔ آج رات تم اپنے عبادت کے کمرے میں رہنا۔ دربار میں تمہارا بیان بھی لیا جائے گا۔”صندل بولی۔”مہاراج مجھے کیا کہنا ہو گا؟”سلطان بابا بولے۔”بیٹی وقت آنے پر قدرت خود تمہاری زبان بن جائے گی۔ تمہیں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جو بندے اپنے آپ کو اپنے کے حوالے کر دیتے ہیں اور اس کے حکم پر بلا چون و چرا اپنی گردنیں جھکا دیتے ہیں، ان کا رب ہر قدم پر ان کا ساتھ دیتا ہے۔”پھر سلطان بابا نے کہا۔ “بیٹی ہماری قبر کی پائنتی پر جہاں تم بیٹھی ہو ، وہاں سے ایک مٹھی اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لو۔”صندل نے فوراً مٹھی بھر مٹی منہ میں ڈال لی۔ اس کا منہ نہایت ہی خوش ذائقہ مٹھاس سے بھر گیا اور یہ مٹھاس منہ سے لے کر معدے تک گھلتی محسوس ہوئی۔ سلطان بابا بولے۔”بیٹی جاؤ، ہم نے تمہیں شر سے مقابلہ کرنے کی شکتی دی۔”صندل نہایت ہی عقیدت کے ساتھ ان کے قدموں میں جھک گئی اور پھر ان کی اجازت پر خادم کے ساتھ واپس گھر لوٹ گئی۔

                شام کو صندل اپنے باپو کے ساتھ تارا کو دیکھنے گئی۔ مندراج بابو اور ان کی بیگم دونوں بیمار لگتے تھے۔ تھوڑی دیر خیر و خیریت کی باتیں ہوئیں۔ صندل انتظار کرتی رہی کہ شاید تارا آ جائے۔ یا تائی ماں اس کا ذکر کریں۔ مگر وہاں تو اس کا کوئی ذکر ہی نہ تھا۔ آخر صندل بولی۔”بڑی ماں تارا کہاں ہے؟ میں اس سے مل آؤں۔”وہ جلدی سے بولیں۔”وہ سو رہی ہے اس کی طبیعت کچھ خراب ہے۔”صندل فوراً کھڑی ہو گئی اور چلتے ہوئے بولی۔”بڑی ماں پھر تو مجھے ضرور ہی اس سے ملنا چاہئے ۔”یہ کہہ کر وہ تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔ تارا کے کمرے میں پہنچی تو وہ بستر پر لیٹی تھی۔ سارا گھر سناٹے میں ڈوبا ہوا تھا۔ تارا اکیلی اپنے کمرے میں تھی۔ صندل کو دیکھتے ہی اٹھ بیٹھی اور گلے مل کر رونے لگی۔ صندل نے اسے تسلی دی۔ اس کے چہرے پر جگہ جگہ تیز ناخن کے نشان تھے۔ ہاتھوں اور بازوؤں پر جگہ جگہ نیل پڑے ہوئے تھے۔ صندل اسے بلا کر کمرے میں لے آئی کہ میرے باپو کو پرنام کرو جیسے ہی تارا صندل کے ساتھ کمرے میں آئی مندراج باپو اور ان کی بیگم دونوں ہی گھبرا گئے۔ تارا نے ٹھاکر صاحب کو پرنام کیا۔ وہ تارا کو دیکھ کر فوراً بولے۔ “ارے بیٹی، یہ آپ کے چہرے پر کیا ہوا؟”تارا کی بجائے اس کی ماں بولی۔”کچھ نہیں۔ پڑوس کا کتا ٹوٹ پڑا تھا۔ بھگوان نے کرپا کی زیادہ نقصان نہیں ہوا۔”تارانے ڈبڈبائی آنکھوں سے ماں کی طرف دیکھا۔ ماں کا اشارہ سمجھ کر چپکی ہو رہی۔

                ٹھاکر صاحب صندل کو لے کر جلد ہی وہاں سے اٹھ آئے۔ واپسی پر وہ سارا راستہ خاموش رہے۔ ایک طرف تو انہیں بھتیجی کی حالت پر افسوس تھا۔ دوسری طرف ان کا ذہن مسلسل یہ سوچ رہا تھا کہ ہمزاد نے اس سلسلے میں کیوں نہیں مدد کی ۔ سب کے چہرے سے مایوسی اور رنج کیوں جھلک رہا ہے۔ یہی سب کچھ سوچتے ہوئے وہ صندل سے بولے۔”بیٹی دنیاوی حرص و ہوس آدمی کو دنیا میں ہی چین و سکون سے محروم کر دیتی ہے۔ بیٹی دنیا کی ہر شے مٹی سے بنی ہے۔ دنیاوی دولت، دنیاوی شہرت، دنیاوی عیش و آرام ہر شے مٹی کے غلاف میں بند ہے۔ ہمارا جسم بھی مٹی کے جسم کے ساتھ ہے۔ جب موت مٹی کے جسم کو مٹی ملا دیتی ہے تو اس جسم کے ساتھ وابستہ ہر شے کو مٹی میں ملا دیتی ہے۔ مگر جو دنیا میں رہتے ہوئے اپنا رشتہ اپنی آتما کی شکتی سے جوڑ لیتے ہیں پرماتما کی دیا سے اور آتما کی شکتی سے ان کے دنیاوی تقاضے بھی پورے ہو جاتے ہیں۔”صندل پیار سے اپنے باپو کے قریب ہوتے ہوئے بولی۔”باپو، مجھے اپنی آتما کے ساتھ ہی جینا ہے۔ آتما کے ساتھ ہی مرنا ہے۔ بھگوان سے میرے لئے پرارتھنا کرتے رہنا۔”

                دونوں گھر پہنچے تو چودھرائن کو اپنا منتظر پایا۔ دیکھتے ہی بولیں۔”تارا سے ملاقات ہوئی؟”ٹھاکر صاحب بولے۔ “ہاں بیگم، کچھ نہ پوچھو، ان کا تو سارا گھر بیمار لگتا ہے ۔ وہ پہلے جیسے خوشی دکھائی نہیں دیتی۔ تارا کے تو چہرے اور بازوؤں پر خراشوں اور نیل کے نشان جا بجا پڑے ہوئے ہیں۔ مگر بیگم ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ اس سلسلے میں وہ اپنے ہمزاد سے کام کیوں نہیں لیتے۔”صندل بولی۔”باپو، وہ جن ہمزاد سے زیادہ طاقتور تھا۔”ٹھاکر صاحب بولے۔ “مگر بیٹی، تارا کی چوٹوں کے نشان تو ٹھیک کر سکتا ہے۔ پھر وہ اس سے کام کیوں نہیں لے رہے۔”یہ سن کر صندل چپ ہو گئی اس نے اس وقت یہ بتانا مناسب نہ سمجھا کہ سلطان بابا نے آج رات کے لئے اسے کیا کہا ہے۔ وہ سوچنے لگی۔ یہ راز تو اب رات کو ہی کھلے گا۔

                رات گہری ہو گئی۔ سب اپنے اپنے کمرے میں سونے کے لئے چلے گئے۔ بارہ بجنے والے تھے۔ صندل بستر پر بیٹھی تارا اور دوسری لڑکیوں کے متعلق سوچتی رہی۔ نیند اس سے کوسوں دور تھی۔ ویسے بھی اسے سونا تو تھا نہیں۔ وہ تو سب کے سونے کا انتظار کر رہی تھی۔ گھر کی فضا اب مکمل سناٹے میں ڈوب چکی تھی۔ وہ دبے پاؤں اٹھی، ہاتھ منہ دھویا، سفید کپڑے پہنے، صندل کی خوشبو لگائی اور صندل دیوی کے کمرے میں آ گئی۔ کمرے میں نیلے رنگ کا زیرو کا بلب جل رہا تھا۔ اندھیرے میں نیلا رنگ شامل ہو کر فضا کو اور زیادہ پراسرار بنا رہا تھا وہ چپ چاپ کمرے میں داخل ہوئی۔ بھگوان کے چرنوں میں سر رکھا اور اپنے من میں بسنے والے رب کی حمد و ثناء کرنے لگی۔ سجدے کی حالت میں وہ بہت دیر تک اپنے ر ب کے ساتھ مشغول رہی۔ اسی حالت میں اسے اپنے اندر ایک تیز روشنی دکھائی دی اور اس روشنی کے اندر سلطان بابا کھڑے نظر آئے جو اسے بہت دیر تک ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہے۔ ان کی آنکھوں سے روشنی کی شعاعیں نکل کر اسے اپنے اندر جذب ہوتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ اس کی تمام تر توجہ سلطان بابا پر مرکوز ہو گئی۔ کچھ دیر بعد اسے اپنے اندر بے پناہ قوت و شکتی محسوس ہوئی اور اسی روحانی شکتی کی تائید پر اس نے سجدے سے سر اٹھا لیا۔ اس کا ذہن کورے کاغذ کی طرح خالی تھا۔ اس کی نظریں سامنے دیوار پر ٹک گئیں۔ اس کا جسم مٹی کے بت کی طرح جامد و ساکت تھا۔ چند لمحوں بعد اس ساکت جسم کے اندر سے ایک لطیف جسم نکلا اور سامنے کی دیوار میں داخل ہو گیا۔ اب اس کے سارے حواس لطیف جسم کے ساتھ وابستہ ہو گئے۔

                اس نے دیکھا کہ وہ ایک روشنی کے پردے میں داخل ہوئی۔ پردے میں داخل ہوتے ہی اسے نہایت ہی روشن عالم دکھائی دیا۔ جیسے ہر شے بہت تیز اور شفاف روشنی کے اندر رکھی ہوئی ہے۔ ابھی اس نے اِدھر اُدھر دیکھنے کے لئے آنکھیں اٹھائی ہی تھیں کہ سامنے سے سلطان بابا آتے دکھائی دیئے۔ وہ خوشی سے سلطان بابا کہتی ہوئی ان کی جانب لپکی۔ انہوں نے اسے گلے سے لگایا اور ماتھے پر چوم لیا۔ پھر فرمانے لگے۔”صندل شہنشاہ جنات کے دربار میں تمہیں بلایا گیا ہے۔ہم تمہیں وہیں لے جانے کے لئے آئے ہیں۔”صندل نے ادب سے سر جھکاتے ہوئے کہا۔ “مہاراج، آپ کا حکم ماننا میرا دھرم ہے۔”ابھی وہ چند ہی قدم چلے تھے کہ ایک عظیم الشان محل آ گیا۔ اس کی دیواریں قیمتی رنگین پتھروں سے منقش تھیں۔ اس کا عظیم الشان دروازہ شاہی شان و شوکت کا علمبردار تھا۔ دروازے کے دونوں جانب دو قوی ہیکل جن، گارڈ کی صورت میں تعینات تھے۔ سلطان بابا نے آگے ہو کر ایک گارڈ سے کہا۔ “شہنشاہ جنات کی خدمت میں سلطان بابا اور صندل بی بی کا سلام پہنچا دیں۔”اگلے لمحے اس کے برابر والا بٹن روشن ہو گیا اور دروازہ کھل گیا۔ گارڈ نے سر جھکا کر سلام کیا اور اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ ایک لمبی راہداری سے گزر کر وہ دونوں ایک بہت ہی بڑے ہال میں پہنچے۔ اس ہال کے دروازے پر پہنچ کر گارڈ نے ان کو اس دروازے پر کھڑے گارڈ کے حوالے کر دیا اور خود سلام کر کے واپس لوٹ گیا۔ وہ جن ان دونوں کو لے کر ہال کے اندر داخل ہوا۔

                جیسے ہی وہ اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ سامنے ہال کے دوسرے کنارے پر شہنشاہ جنات کا تخت بچھا ہے۔ تخت نہایت ہی شاندار تھا۔ اس کے دونوں اطراف میں قیمتی پتھروں کے جڑاؤ چیتے بنے ہوئے تھے۔ جو دیکھنے میں بہت رعب دار لگتے تھے۔ ان پتھروں کے رنگ بھی اصل چیتے جیسے ہی تھے۔ تخت پر شہنشاہ جنات اور اس کی ملکہ براجمان تھے۔ ان کی پشت پر دو قوی ہیکل جن گارڈ متعین تھے۔ تخت سے ذرا پرے مجرموں کا کٹہرا تھا جس کے قریب تین جن گارڈ کھڑے تھے۔ اس کٹہرے کی پشت پر دروازہ تھا جو بند تھا۔ ہال میں کرسیوں پر بہت سارے جنات مرد و خواتین بیٹھے تھے۔ وہ جن ان دونوں کو لے کر سیدھا تخت کی جانب گیا اور ان کا تعارف بادشاہ و ملکہ سے کرایا اور پھر وہ جن انہیں قریب کی کرسیوں پر بٹھا کر چلا گیا۔ ایک اور جن ملکہ و بادشاہ کے تخت کے دائیں جانب کھڑا ہوا تھا، اس نے سب سے پہلے بادشاہ و ملکہ کی شان میں تعریفی کلمات کہے اور ان کی کامرانی و کامیابی کی دعائیں کیں۔ اس کے بعد اب باقاعدہ دربار میں پیشی کا اعلان ہوا۔

                مجرموں کے کٹہرے کے پیچھے والا دروازہ کھلا۔ زنجیروں میں جکڑا ہوا ایک مجرم کٹہرے میں لایا گیا۔ جس کے دونوں بازوؤں کو دو قوی ہیکل جن مضبوطی کے ساتھ تھامے ہوئے تھے۔ جیسے ہی صندل کی نگاہ اس پر پڑی وہ ایک دم بول اٹھی۔”سلطان بابا یہ تو وہی جن ہے جو تارا کو پریشان کر رہا تھا۔”اس کے بعد ایک اور مجرم زنجیروں سے جکڑا ہوالایا گیا۔ جب وہ کٹہرے میں کھڑا ہوا تو صندل حیران رہ گئی وہ تو ہمزاد تھا۔ اس نے سلطان بابا کو بتایا۔ سلطان بابا دھیرے سے بولے۔”ساری آفت تو اسی کی لائی ہوئی ہے۔”

                کارروائی شروع ہوئی جن وکیل بولا۔ “اے جن کیا تمہیں معلوم نہیں کہ شہنشاہ جنات کی حکومت میں جنوں کا انسان لڑکیوں کے ساتھ تعلق قائم کرنا ناقابل معافی جرم ہے؟”اس جن نے سر جھکاتے ہوئے کہا۔ “جناب والا، یہ بات مجھے معلوم ہے۔”وکیل جن بولا۔ “کیا تم پہلے بھی یہ جانتے تھے؟”مجرم جن بولا۔”جی ہاں، جناب والا، میں پہلے سے ہی اس بات سے واقف تھا۔”وکیل بولا۔”تم نے ایسی خبیث حرکت کیوں کی؟ اور نہ صر ف تم نے اکیلے ہی یہ کام کیا بلکہ اپنے ساتھ ایک ٹولی بنائی۔ میں عدالت سے درخواست کرتا ہوں کہ اس ٹولی کو دربار میں پیش کیا جائے۔”پھر پانچ جنات لڑکے زنجیروں میں جکڑے ہوئے کٹہرے میں لائے گئے۔ مجرم جن بولا۔”جی ہاں، یہ میرے ساتھی ہیں۔”وکیل نے ان پانچوں سے بھی باری باری یہی سوال کیا۔ کہ تمہیں کس چیز نے اس خبیث حرکت پر اکسایا؟ مجرم جن بولا۔”جناب والا، یہ ہمزاد کئی ماہ سے ہمارا دشمن بنا ہوا ہے۔ یہ ہماری بستی میں آ کر ہماری دکانیں لوٹ کر لے جاتا ہے۔ کئی بار اس نے ہماری عورتوں کے گلوں سے اس طرح ہار کھینچے کہ ان کی گردنوں پر نشان پڑ گئے۔ کئی مرتبہ اس نے ہمارے جن بھائیوں پر زبردستی اپنی طاقت آزمائی جس کے نتیجہ میں چار جن شدید زخمی ہو گئے۔ ہم ہمیشہ اسے تنبیہ کر کے چھوڑ دیتے تھے۔ لیکن یہ ایسی ذلیل حرکتیں کر کے رفو چکر ہو جاتا تھا۔ ہمارے ہاتھ نہ آتا تھا۔ ایک دو مرتبہ پکڑا گیا تو ہم نے وارننگ دے کر چھوڑ دیا تھا مگر اس کے بعد اس کی ذلیل حرکتوں میں مزید اضافی ہی ہوتا گیا پھر اس نے ہمارے کمسن بچوں کو سوتے سے اٹھا کر دربدر کرنا شروع کر دیا ہمیں کئی کئی دنوں بعد یہ بچے ملے کوئی کسی ویرانے سے، کوئی کسی جنگل سے، ان میں سے تین بچے مردہ پائے گئے۔ ہمیں ان کی ماؤں نے اس ظالم کی تلاش کیلئے کہا۔”وکیل بولا۔”کیا محکمہ پولیس اس سلسلے میں تمہاری مدد کو نہیں آیا؟ تم نے اس سے مدد طلب نہیں کی؟ مجرم جن بولا۔”جناب والا، ہماری پولیس اس سلسلے میں تفتیش کر رہی تھی۔ مگر ایسا ہوا کہ میر ی جوان بہن کا اکلوتا بیٹا جو ابھی دودھ پیتا تھا۔ اس ظالم نے میری بہن پر مجرمانہ حملہ کیا اور بچے کو مار پیٹ کر ختم کردیا۔ میری بہن سے مجھے معلوم ہوا کہ وہ جن نہیں بلکہ ہمزاد ہے۔ اس وقت میرے اوپر اپنی بہن اور اس کے معصوم بچے کا بے حد صدمہ تھا۔ میں نے اپنے دوستوں سے اس واقعہ کا ذکر کیا اور اپنی بہن کی بے عزتی اور اس کے بچے کی موت کا انتقام لینے کا ارادہ ظاہر کیا۔ یہ واقعہ سن کر میرے میرے سارے دوست میری مدد کو تیار ہو گئے۔ ہم نے سوچا جب ہم انسانوں کی لڑکیوں کے ساتھ وہی کرینگے جو ہمزاد نے میری بہن کے ساتھ کیا تو ایک نہ ایک دن اس کے ساتھ ہماری مڈبھیڑ ہو ہی جائے گی اور پھر ہم اسے پکڑ لیں گے۔

                وکیل بولا۔”پھر تم اور ہمزاد کس طرح گرفتار ہوئے؟”مجرم جن بولا۔”میں اور میرے دوست اس رات انسانوں میں اپنے انتقام کی آگ بجھا رہے تھے۔ ہم پہلے بھی کئی بار جا چکے تھے۔ مگر باوجود کئی گھروں میں جانے کے ہمیں ابھی تک ہمزاد نہیں ملا تھا۔ ہم سب روزانہ نئے نئے گھروں میں جاتے تا کہ ہمزاد سے کہیں نہ کہیں سامنا ہو جائے۔ اس رات جب میں بستی کی ایک لڑکی تارا کو پریشان کر رہا تھا کہ تارا کی چیخ و پکار سن کر ہمزاد آ گیا۔ اسے دیکھ کر میری آنکھوں میں خون اتر آیا ہم دونوں میں خوب جنگ ہوئی درمیان میں تارا بھی نشانہ بنتی رہی۔ اتنے میں ایک نورانی سایہ دیوی کے روپ میں ہمارے سامنے آ گیا۔ اس کی قوت و طاقت تمام جنوں اور تمام ہمزادوں سے زیادہ تھی۔ اس دیوی نے ہم دونوں کا مقابلہ کیا اور بہت جلد تارا کو چھڑا لیا ۔ اس نے اپنے نوکیلے ناخن میری آنکھوں میں گاڑ دیئے اور میں زخمی ہو گیا۔ تب میں نے اس سے پوچھا تم کون ہو؟ وہ بولی میرا نام صندل ہے۔ یہ کہہ کر وہ رخصت ہو گئی۔ اسی وقت جن پولیس آ گئی مجھے اور ہمزاد کو گرفتار کر لیا اور ہم یہاں آ گئے۔”وکیل نے باقی جنوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔”کیا تم لوگ بتا سکتے ہو کہ تم کس طرح گرفتار ہوئے؟”ان سب نے بتایا کہ ہمارے ساتھ بھی اسی طرح کا واقعہ پیش آیا۔ ہم انسانوں کی اسی بستی میں ان کی لڑکیوں کو تنگ کر رہے تھے کہ ایک نورانی دیوی ہمارے مقابلے میں آ گئی۔ اس کی قوت و طاقت ایسی تھی کہ وہ دو انگلیوں سے پکڑ کر ہمیں اٹھا لیتی اور زمین پر پٹخ دیتی۔ یہاں تک کہ ہم بے بس ہو گئے اتنے میں پولیس نے آ کر ہمیں پکڑ لیا۔”

                اب وکیل نے آواز دی۔”صندل دیوی کو مقدمہ کی کارروائی کے لئے حاضر کیا جائے۔”

 

                سلطان بابا نے صندل کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔ “بیٹی، جاؤ اللہ پاک تمہاری قوت و شکتی کو اور بڑھائے۔”صندل نے سلطان بابا کے آگے تشکر کے طور پر سر کو تھوڑا سا جھکایا اور تیزی سے کٹہرے کی جانب بڑھ گئی۔ وکیل جن بولا۔”کیا آپ ہی صندل دیوی ہیں؟”صندل بولی۔”میرا نام صرف صندل ہے۔ میں ٹھاکر صاحب کی بیٹی ہوں۔”وکیل بولا۔”یہ جناب آپ کی قوت و شکتی کا اعتراف کرتے ہیں اور آپ کو عقیدت میں دیوی کہتے ہیں۔کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ آپ نے یہ غیر معمولی قوت کہاں سے پائی؟”صندل بولی۔”جناب والا، یہ قوت میری آتما کی قوت ہے اور مجھے میری آتما سے متعارف کرانے والے میرے سلطان بابا ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بھگوان پتھروں میں نہیں بلکہ آتما میں بستا ہے۔ اور آتما میں داخل ہونے کا دروازہ دل ہے۔ جب کوئی بندہ دماغ سے نہیں بلکہ دل کے راستے اپنی روح میں داخل ہوتا ہے تب وہ اس راستے پر قدم رکھتا ہے جو راستہ بھگوان تک پہنچتا ہے۔ اس راستے پر چلنے کی شکتی بھگوان کی جانب سے آتما کو پہنچتی ہے اور آتما کی شکتی سے بدن قوت پکڑتا ہے۔ پس اس شکتی و قوت سے بدن وہی کام کرتا ہے جو بھگوان اپنے بندے سے لینا چاہتا ہے اور میرے سلطان بابا یہ بھی کہتے ہیں کہ کوئی بندہ جب اپنے آپ کو بھگوان کے سپرد کر دیتا ہے اس بھگوان کے جس کا کوئی ثانی نہیں ہے تو اس کی آتما میں بھگوان کی ایسی شکتی اور نور ذخیرہ ہو جاتا ہے کہ خود یہی شکتی آتما کا روپ دھار کر دنیا میں برائی کا خاتمہ کرتی ہے اور کمزور و بے بس مخلوق کو ظلم سے نجات دلاتی ہے۔”صندل نے رعب دار آواز میں کہا۔ “جناب والا، میں نے بھگوان کے بے بس و کمزور بندوں کو ظلم سے نجات دلانے کے لئے اس جن اور ہمزاد کا مقابلہ کیا تھا اور شر کا مقابلہ مٹی کا جسم نہیں بلکہ آتما کی شکتی ہی کر سکتی ہے۔ یہ بھگوان کی لیلا ہے کہ اس نے جس روپ میں چاہا، آتما کی شکتی کو وہی روپ دے کر شر کے مقابلے میں کھڑ ا کر دیا۔”وکیل نے عقیدت بھرے لہجے میں صندل سے کہا۔ “آپ تشریف رکھیں۔”اور پھر اس نے سلطان بابا کو پکارا۔”سلطان بابا حاضر کئے جائیں۔”سلطان بابا فوراً آگئے۔

                وکیل نے سلطان بابا سے پوچھا۔”کیا آپ نے صندل کا بیان سنا؟”انہوں نے اقرار کیا اور بولے۔”صندل نے جو کچھ بھی کہا، اس کا ایک ایک حرف درست ہے۔ جب سے کائنات وجود میں آئی ہے اور اس کائنات میں جنات اور انسانوں کی بستیاں بسائی گئی ہیں۔ اس وقت سے جنات اور انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے امن و آشتی کے ساتھ زندگی گزارنے کے اصول بھی بتائے گئے ہیں۔ ان اصولوں کو لے کر ان کے درمیان پیغمبر اور اللہ کے ہدایت یافتہ آ چکے ہیں۔ مگر اس کے باوجود جب جنات اور انسان اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی حدود کو توڑنے کے درپے ہو جاتے ہیں تو اللہ اپنے بندوں کو ایسے لوگوں کے مقابلے کے لئے بھیجتا رہتا ہے۔ تا کہ اس بستی میں بسنے والے باقی انسان وجنات اس بات سے واقف ہو جائیں کہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کی حفاظت کرنا بندے کا دھرم اور فرض ہے۔”وکیل جن بولا۔”جناب سلطان بابا کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی وہ کونسی حدود ہیں؟ جس کی خلاف ورزی ان شر پسند جنوں اور ہمزاد نے کی ہے اور اللہ نے ان کے متعلق کہاں بیان فرمایا ہے۔؟”سلطان بابا بولے۔”جناب والا، آسمانی کتابیں اور صحیفے اللہ کا کلام ہیں جو جنات اور انسانوں کی ہدایت کے لئے نازل ہوئے ہیں اور ان کی جامع دستاویز قرآن ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت محمدﷺ پر نازل ہوا تھا۔ اس مقدس کلام کی رو سے اس کیس میں ملوث لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی تخلیقی حدود کو پامال کرنے کی کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے نفس واحدہ سے آدم کو پیدا کیا۔ اور پھر آدم سے اس کا جوڑا بنایا۔ اس کے علاوہ یہ بھی فرمایا کہ ہم نے جنس سے اس کی نسل چلائی۔ مرد اور عورت نفس واحدہ کے دو رخ ہیں ان دو رخوں کا جنسی میل اس جنس کی افزائش نسل کرتا ہے۔ افرائش نسل کے نظام کو جاری و ساری رکھنے کے لئے یہ قانون بنایا گیا ہے کہ کسی بھی ہم جنس کے دورخوں میں ہی جنسی ملاپ ہو۔ تا کہ اس سے افزائش نسل کا سلسلہ چلتا رہے۔ مگر اس کیس میں قانون فطرت کے خلاف دو غیر جنس کا ملاپ کرنے کی کوشش کی گئی۔ کیونکہ جن اور بشر کسی طور پر ہم جنس نہیں ہیں۔ اس لئے قانون فطرت کی خلاف ورزی کرنے سے قدرت کی بنائی ہوئی حدود پامال ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسانوں اور جنات کی بستیوں میں ایسے شرمناک واقعات عمل میں آتے ہیں تو قدرت کی جانب سے ان کا بھرپور سدباب کیا جاتا ہے اور قدرت انہیں میں سے کسی بندے کو اپنے احکام کے لئے چن لیتی ہے۔ جیسا کہ اس کام کے لئے قدرت نے صندل کو چن لیا ہے۔”

                وکیل جن نے کہا۔”سلطان بابا، کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ فطرت کی خلاف ورزی کرنے پر بندے کو کون اکساتا ہے؟”سلطان بابا بولے۔”انسان ہو یا جن، ان دونوں میں ان کا اپنا ارادہ اور عقل و شعور کام کر رہا ہے۔ اس کی ذمہ داری صرف اور صرف خود ان پر عائد ہوتی ہے۔”وکیل نے پھر سوال کیا۔”سلطان بابا ، میں جاننا چاہتا ہوں کہ انسان اور جنات کا ارادہ و عقل فطرت کے خلاف کیوں کام کرتا ہے؟”سلطان بابا بولے۔”جناب والا، اس کی دو وجوہات ہیں ایک وجہ اپنے خالق کو نہ ماننا، دوسری وجہ اس کے احکامات سے انحراف کرنا ہے اور ان دونوں وجوہات کا سبب لا علمی ہے۔ یعنی جب اس علم سے منہ موڑ لیا جاتا ہے جس علم کا سیکھنا ان کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے۔ تب وہ اپنی لاعلمی کے باعث آفت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔”وکیل جن نے کہا۔”کیا آپ درباریوں کو اس بات سے آگاہ کرنا پسند کریں گے کہ اس علم کو وہ کس طرح حاصل کریں؟”سلطان بابا نے فرمایا۔”جناب یہ تو میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے تمام علوم کی مکمل دستاویز قرآن حکیم ہے۔ جو اس کے پیغمبر حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوا۔ یہ تمام علوم قرآن سے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔”

                وکیل نے مودبانہ انداز میں سر کو جھکا کر سلطان بابا کا شکریہ ادا کیا اور پھر ہمزاد کو حاضری کا حکم دیا۔ سلطان بابا دوبارہ اپنی جگہ پر واپس بیٹھ گئے۔ صندل نے آہستہ سے ان کا ہاتھ دبایا۔ اس کی آنکھوں میں خوشی کی چمک تھی۔ وکیل کے اعلانیہ پکار نے پر ہمزاد بیان دینے کے لئے حاضر ہوا۔ وکیل نے پوچھا۔”کیا تم ہمزاد ہو؟”ہمزاد بولا۔”مندارج بابو میرے آقا ہیں۔”وکیل نے کہا۔”تمہارے خلاف چوری، ڈکیتی، بچوں کے اغواء اور ان کو مارنا اور عورتوں کی عصمت دری کرنے کے الزامات ہیں۔ تم اس کے متعلق کیا کہتے ہو؟”ہمزاد بولا۔ جناب والا، میں تو حکم کا غلام ہوں ہر کام اپنے آقا کے حکم پر کرتا ہوں۔”وکیل بولا۔”کیا تم اپنے اوپر عائد تمام الزامات کا اعتراف کرتے ہو؟”ہمزاد بولا۔”میں نے یہ سب کام اپنے آقا کے ایماء پر کئے ہیں تا کہ وہ مجھ سے خوش رہے۔”وکیل نے کہا۔”تمہارا آقا انسان ہے۔ تم انسان کی خواہشات پوری کرنے کے لئے جناب کی بستی میں کیوں داخل ہوئے؟”۔ ہمزاد بولا۔”جناب والا، شروع شروع میں میرا آقا حکم دیتا تھا کہ کبھی زیور کا سیٹ لاؤ، کبھی کھانے پینے کی کوئی چیز لاؤ، کبھی کپڑوں کے تھان لاؤ۔ یہ سب کچھ میں انسانوں کی بستی سے ہی انہیں لا کر دیتا رہا۔ مگر ایسا ہوا کہ ایک بار ان کی بیگم صاحبہ کی فرمائش پر میں نے انہیں نور تن کا ہار لا کر دیا۔ یہ ہار ایک دکان کے شو کیس کے اندر تھا۔ یہ ہار بہت قیمتی تھا۔ آقا اور مالکن بہت خوش ہوئے اور وہ پہن کر ایک شادی میں گئے۔ اتفاق سے یہ ہار اس دلہن کے لئے سنار نے بنایا تھا۔ اور خاص طرح کا تھا۔ ایسا کہین اور نہ تھا۔ ہار کی گمشدگی پر دلہن والے بھی پریشان تھے اور زیادہ پریشانی تو دکاندار کی تھی۔ جس کا بھاری نقصان ہوا تھا۔ جب مالکن شادی میں ہار پہن کر گئیں تو ہر ایک نے دیکھا۔ سب نے اس کی تعریف کی۔ دلہن کی ماں کی جب ہار پر نظر پڑی تو وہ ایک دم چونک گئی۔ پوچھا یہ ہار کہاں سے لیا؟ وہ بولی۔”میرے میاں لائے تھے۔”دلہن کی ماں نے اپنے گھر والے کو بلایا اس نے مندراج بابو کو بلا لیا اور مندراج بابو بولے۔”میں نے فلاں دکان سے خریدا ہے۔”دکاندار جس نے وہ ہار بنایا تھا وہ اسی محفل میں تھا۔ وہ بھی بلایا گیا اس نے فوراً ہار پہچان لیا۔ دلہن کا باپ کہنے لگا۔”یہ ہار تو ہم نے اسپیشل ڈیزائن دے کر اپنی بیٹی کے لئے بنوایا تھا۔ یہ آپ کو کیسے مل گیا؟”ہم نے دکاندار کو اس کا ڈپازٹ دیا ہوا تھا۔ اس نے یہ آپ کو بیچ دیا۔ مندراج بابو نے صورت حال فوراً بھانپ لی۔ انہوں نے کہا کہ فلاں دن یہ ہار میں نے اس دکاندار سے لیا تھا۔ اب کیا تھا، دکاندار کو دلہن کے باپ نے دو تین تھپڑ مکے مارے اور پولیس کو بلا کر گرفتار کرا دیا کہ اس نے ہمارے ساتھ دھوکہ کیا اور عین وقت پر بیٹی کی شادی میں ہمیں پریشان کیا۔ جس سے ہمارے کاموں میں بہت رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔ آقا نے مجھے حکم دیا کہ تم انسانوں کی بستی سے کوئی چیز نہ لایا کرو بلکہ جنات کی بستی سے لاؤ تا کہ یہاں اس کا کوئی دعوے دار نہ ہو۔ میرے لئے یہ کام کچھ مشکل نہ تھا کیونکہ میں جنات کی بستی میں پہلے بھی آ تا جاتا رہا ہوں۔ تب میں نے جنات کی دکانوں سے زیورات اور ہیرے جواہرات چرانے شروع کر دیئے۔ اس سے میرا آقا اور مالکن بہت خوش ہوئے۔

                ایک مرتبہ میں ایک دکان پر گیا۔ عموماً میں ایسے وقت میں جنات کی دکانوں پر جاتا، جب دکان بند ہو اور کوئی بھی نہ ہو کیونکہ انسان تو مجھے نہیں دیکھ سکتے۔ مگر جنات مجھے دیکھ سکتے ہیں۔ اس لئے میں ان سے نظر بچا کر ہی اپنا کام کرتا۔ اس دن بھی میں ایسے وقت میں دکان پر گیا۔ جب سارا بازار بند تھا۔ ہر طرف سناٹا تھا۔ ایک دکان پر مجھے میری مطلوبہ چیز دکھائی دی۔ یہ خوبصورت کنگن تھے جو میرے آقا نے اپنی بہو کے لئے مجھ سے منگوائے تھے۔ میں جلدی سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا اور ابھی میں نے کنگن اٹھائے ہی تھے کہ اچانک ایک چیخ کی آواز مجھے پیچھے سے سنائی دی۔ پلٹ کر دیکھا تو ایک بچہ مجھے دیکھ کر چیخا تھا۔ میں اس صورتحال سے ہڑبڑا گیا تیزی سے اس بچے کو اٹھا کر دروازے سے باہر نکلا۔ بچہ مسلسل رو رہا تھا۔ مجھے اپنے پیچھے کچھ آوازیں سنائی دیں مگر میں فوراً ہی برابر والی گلی سے نکل کر جنگل کی طرف آ گیا۔ بچے کے منہ پر میں نے ہاتھ رکھ دیا تھا۔ جس سے اس کی آواز بند ہو گئی تھی کسی نے بھی مجھے نہیں دیکھا۔ دور جنگل میں پہنچ کر جب مجھے اچھی طرح اندازہ ہو گیا کہ یہاں کوئی نہیں ہے تو میں نے اس بچے کو وہیں چھوڑ دیا اور آقا کے پاس آ گیا۔”

                وکیل نے کہا۔ “ کیا تم نے آقا کو بتایا کہ تمہارے ساتھ کیا واقعہ ہوا ہے؟”ہمزاد بولا۔”نہیں، کیونکہ آقا اور مالکن اور ان کی بہو کنگن دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ ان کی خوشی میں، میں سب کچھ بھول گیا۔”جن وکیل، شہنشاہ جنات کی جانب دیکھ کر بولا۔”عالیجاہ! وہ بچہ تین دن بعد جو جنگل سے مردہ حالت میں ملا۔”ہمزاد اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے بولا۔”پھر اسکے یکے بعد دیگرے دو اور واقعہ یوں ہوئے کہ ان میں بھی بچوں نے مجھے دیکھا اور ان کی مخبری کے ڈر سے میں نے انہیں کسی ویرانے میں اور جنگل میں ہاتھ پاؤں باندھ کر ڈال دیا۔ جس کی وجہ سے میرے پیچھے پولیس لگ گئی۔ مگر ان کے خیال میں یہ وارداتیں کسی شریر اور تخریب کار جن کی تھیں۔ وہ اپنی بستی میں اسے تلاش کرتے رہے میں ویسے بھی صرف اپنے کام کے لئے ہی جنات کی بستی میں جاتا تھا ورنہ باقی وقت میرا اپنے آقا کے پاس ہی گزرتا۔ بہت دن یہی سلسلہ جاری رہا چونکہ میں جنات کی نظروں سے بچ کر کام کرنا چاہتا تھا اس لئے میں ایسے وقت میں بستی میں داخل ہوتا جب سب سو رہے ہوتے۔ دو تین مرتبہ گہری نیند میں سوئی ہوئی عورتوں کے گلے سے میں نے ہار اتارے۔ ایک مرتبہ میں ایک سوئی ہوئی عورت کے گلے سے ہار اتار رہا تھا کہ وہ جاگ گئی۔ وہ کمرے میں اکیلی تھی۔ اس نے مزاحمت کی جس کی وجہ سے گردن پر نشانات آ گئے اور اسی ہاتھا پائی میں، میں نے اس پر مجرمانہ حملہ کر دیا۔ اس وقت تاریکی تھی۔ حالت خوف نے اس پر سکتہ طاری کر دیا اور میں واپس انسانوں کی بستی میں آ گیا۔ اس دن کے بعد نوجوان جن عورتوں پر مجرمانہ حملہ کرنے میں مجھے لطف آنے لگا۔ مگر میں اس بات کا پورا پورا خیال رکھتا کہ وہ مجھے دیکھ نہ سکیں۔ میں نئے نئے ماسک لگا کر جاتا تا کہ کوئی میرا اصلی چہرہ نہ دیکھ سکے۔”

                وکیل جن بولا۔”کیا تمہاری ان خبیث حرکتوں سے تمہارا آقا واقف تھا؟”ہمزاد بولا۔”اس نے کبھی مجھ سے نہیں پوچھا نہ ہی میں نے اسے بتایا۔ اسے اپنی مطلوبہ چیز سے غرض تھی جب اسے وہ مل جاتی تو وہ خوش ہو جاتا۔ اسی طرح ایک رات ایک جوان عورت بستر پر لیٹی اپنے بچے کو سلا رہی تھی۔ وہ گھر میں اکیلی تھی۔ میں نے اس پر حملہ کر دیا وہ بچے کو سینے سے چمٹائے ہوئے تھی اور چھوڑتی نہ تھی۔ میں نے زبردستی اس بچے کو ماں سے الگ کیا وہ رونے لگا تو اسے ایک تھپڑ مارا مگر وہ میری قوت برداشت نہ کر سکا اور اس کی گردن کا منکا ڈھلک گیا۔ اس کی ماں نے ایک شیرنی کی طرح میرا مقابلہ کیا۔ مگر بالآکر میں نے اسے زیر کر لیا۔ اس نے اپنے نوکیلے ناخنوں سے میرا ماسک پھاڑ دیا اور پہچان گئی کہ میں جن نہیں بلکہ ہمزاد ہوں۔ اس نے مجھے چیلنج کیا کہ وہ مجھے ہرگز نہیں چھوڑے گی اور اپنے بچے کا انتقام لے کر ہی رہے گی۔ اس کے بعد اس کے جن بھائی نے میری تلاش انسانوں کی بستی میں کرنی شروع کر دی اور ایک رات جب وہ اور اس کے جن دوست انتقاماً میرے آقا کی بیٹی تارا پر حملہ کر رہے تھے تو اس کی چیخ پر آقا نے مدد کے لئے مجھے پکارا اور پھر اس کے بعد وہی ہوا جو مجھ سے پہلے یہ مجرم جن بیان کر چکا ہے۔ صندل دیوی اگر درمیان میں نہ آتی تو یہ مجھ سے کبھی جیت نہیں سکتا تھا، وہ ملزم جن کی طرف دیکھ کر دانت پیستا ہوا بولا۔


 


Jogun

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


روح کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ روح عورت یا مرد ہوتی ہے۔ روح روح ہوتی ہے اور کیونکہ روح صرف روشنی ہوتی ہے اور روشنی کے لئے حد بندیاں قائم نہیں کیں جا سکتیں۔ روشنی ہر جگہ ہے۔ روشنی کے لئے در و دیوار معنی نہیں رکھتے۔ روشنی ٹائم اور اسپیس سے آزاد ہے۔ جب کوئی مرد یا عورت روح سے واقف ہو جاتی ہے تو اس کے اوپر سے ٹائم اور اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ ہزاروں سال پہلے کے واقعات اور ہزاروں سال بعد کے آنے والے واقعات کو دیکھ لیتا ہے۔ چونکہ ماضی، حال، مستقبل اس کے سامنے آ جاتا ہے اس لیے وہ اس بات سے واقف ہو جاتا ہے کہ کائنات میں اللہ کے علاوہ کسی کی حاکمیت نہیں ہے اور جب کوئی بندہ اللہ کی حاکمیت یقین کے ساتھ قبول کر لیتا ہے تو اس کر اندر سے غم و پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں اور وہ سکون کے گہوارے میں محو خرام ہو جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سعیدہ خاتون عظیمی کی اس کاوش کو عوام الناس کے لئے مقبول بنائے اور جو لوگ اس کتاب کا مطالعہ کریں ان کے ادراک و فہم میں جلا بخشے۔

                آمین

خواجہ شمس الدین عظیمی

مرکزی مراقبہ ہال

سرجانی ٹاؤن، کراچی