Topics

عزا ایک شیطان کے روپ میں


                جب صندل مراقبے سے فارغ ہوئی تو عزا جا چکا تھا۔ اس نے سکون کا سانس لیا اور آئندہ اس سے محفوظ رہنے کی تدبیر سوچنے لگی۔ اس کے ذہن میں یہی خیال آیا کہ وہ ہر دن اپنے گرد حصار باندھ کر رکھے تا کہ اس حصار کے اندر کوئی قدم نہ رکھ سکے۔ اس طرح جنگل میں چلتے ہوئے جنگلی جانوروں سے بھی محفوظ رہے گی گو کہ ابھی تک اسے کوئی مہلک جانور دکھائی نہیں دیا تھا۔ البتہ درختوں کی ٹہنیوں پر بندر پھدکتے دکھائی دیئے اور کبھی کبھی ہرن بھی آتے جاتے نظر آتے۔ ہرن اسے بہت اچھے لگتے۔ کبھی کبھی وہ ان کو آتا جاتا دیکھ کر انہیں اپنے پاس بلانے کی کوشش کرتی مگر وہ بھاگ جاتے۔ دو تین دن آرام سے گزر گئے۔مگر پھر ایک دن صندل جنگل میں پھل توڑ رہی تھی کہ ایک ہرن پاس سے گزرا اس نے آہستہ سے اس کی جانب ہاتھ بڑھایا تو اس نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔ اب صندل کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ اس نے اسے خوب پیار کیا اور اس سے باتیں کرنے لگی۔ اچانک اس کی نگاہ سامنے گئی ۔ کیا دیکھتی ہے کہ عزا ایک شیطان کے روپ میں کھڑا اسے گھور رہا ہے۔ اس کے چہرے سے شیطنیت جھلک رہی ہے اور اس کی آنکھوں میں نفسانی خواہشات کا غلبہ تھا۔صندل نے ایک لمبی سانس اندر لی اور اندر ہی اندر سلطان بابا کو پکارا۔ سلطان بابا مجھے اس شیطان سے بچایئے۔ یہ کہہ کر اس نے ایک نگاہ عزا پر ڈالی۔ عزا اسے دزدیدہ نظروں سے گھور رہا تھا۔ ہرن شاید عزا کی موجودگی کو بھانپ گیا۔ چوکڑیاں ابھرتا ہوا جنگل میں غائب ہو گیا۔

                عزا بولا۔”صندل جی، آپ کیسی ہیں؟”

                صندل نے رعب اور عزم کے ساتھ جواب دیا۔”عزا صاحب ، رب کی کرپا سے میں بالکل ٹھیک ہوں۔ سلطان بابا ہر قدم پر میرے ساتھ ہیں۔”

                عزا بولا، “صندل جی، میں آپ کو عالم جنات میں لے جانے کے لئے آیا ہوں۔ اس خوفناک جنگل میں آپ تنہا کیسے رہیں گی؟”

                صندل بولی،”عزا صاحب، بندہ کبھی اکیلا نہیں ہوتا۔ اس کا رب ہمیشہ اس کے ساتھ رہتا ہے۔”

                عزا بولا،”صندل جی، آپ کو تو رب نے دیوی کا درجہ دیا ہے۔ دیوی جنگل میں اکیلی رہے گی تو اسے پوجے گا کون؟”

                صندل بولی،”عزا صاحب، آپ کو بھی معلوم ہے اور میں بھی جانتی ہوں کہ پوجے جانے کے لائق تو بس ایک ہی ہستی ہے۔ جس نے ہم سب کو پیدا کیاہے۔ میں اسی رب کے لئے یہاں آئی ہوں۔ تا کہ سب سے الگ ہو کر خالصتاً اپنے رب کی عبادت کر سکوں جو اس لائق ہے کہ اسے پوجا جائے۔ آپ یہاں سے تشریف لے جائیں اور مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں۔”

                عزا بولا۔”صندل جی، آپ کو رب نے ایسا روپ دیا ہے جو تعریف کے لائق ہے آپ مجھے موقع تو دیں۔”

                صندل کو یہ سن کر ایک دم جلال آ گیا۔ وہ بپھر کر بولی،”پرنسپل عزا صاحب، آپ ایک ذمہ دار جن ہیں۔ اپنی ذمہ داریوں کو نہ بھولیں۔ خبردار جو اب اس طرف کا رخ کیا۔”

                عزا کچھ دیر اسے تکتا رہا۔ مگر صندل کے جلال کے آگے زیادہ دیر ٹھہر نہ سکا اور چپ چاپ وہاں سے رخصت ہو گیا۔

                اس جلالی کیفیت میں صندل نے اپنے اندر ایک نیا جوش اور ولولہ محسوس کیا۔ وہ لمبے لمبے قدم اٹھاتی ہوئی چشمہ پر آئی۔ چلو بھر پانی پیا۔ ہاتھ منہ دھویا اور اپنے غار میں حصار باندھ کر مراقب ہو گئی۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ ایک خالی مشک کی طرح ہے اور اس مشک کا سوراخ سر کے اوپر ہے۔ تالو کی جگہ سے سر کھل گیا اور سر کے اندر پانی کی موٹی دھار کی طرح نور داخل ہونے لگا۔ اس کا سارا بدن اس نور کی ٹھنڈک کو محسوس کرنے لگا۔ اسے یوں لگا جیسے اس کا رب اس کے اندر ہی چھپ کر بیٹھا ہے۔ اس نے محسوس کیا جیسے اس کا سارا بدن موم کا ایک خول ہے۔ اس کے اندر رب کا نور بھرا ہوا ہے۔ دھیرے دھیرے نور کی شکتی سے موم پگھلتا جا رہا تھا اور پھر سارا موم پگھل گیا۔ اس کا بدن اس کا وجود ختم ہو گیا۔ یہ بدن۔ یہ موم۔ یہ وجود۔یہ شعور نور میں اس طرح گم ہو گئے جیسے اندھیرا اجالے میں گم ہو جاتا ہے۔ بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا۔”اونچی شان والے سب کچھ تو ہی تو ہے۔”

                چند دن معمول کے مطابق گزرے۔ اس کا زیادہ تر وقت عبادت و ریاضت میں گزرتا۔ گھر سے نکلتے وقت وہ بالکل خالی ہاتھ آئی تھی۔ نہ قرآن اس کے پاس تھا نہ گیتا لینے کا اسے ہوش تھا۔ اس رات کوئی نادیدہ قوت اسے گھر سے جنگل کی جانب دھکیل رہی تھی۔ جنگل میں وہ سلطان بابا کے ارشاد کے مطابق ہر وقت اپنے رب کے تصور میں کھوئی رہتی تھی۔ ایک دن وہ چشمے میں نہانے کے لئے نکلی۔ اس نے اپنی اوڑھنی اتا ر کر رکھی ہی تھی کہ عزا سامنے آ گیا۔ صندل کے ریشمی بال شانوں پر پھیلے ہوئے تھے۔ عزا کی ہوس بھری مند نظریں جیسے ہی صندل کی نظروں سے ٹکرائیں، صندل نے لپک کر دوپٹہ اٹھا لیا۔ ادھر عزا نے بھی اتنی ہی تیزی سے دوپٹے کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ ایک کونہ اس کے ہاتھ میں آ گیا۔ صندل پوری قوت سے چلائی،”سلطان بابا۔”اسی لمحے عزا کے ہاتھ میں بجلی کا زبردست جھٹکا لگا۔ اس کے ہاتھ سے دوپٹہ چھوٹ گیا۔

                صندل نے تیزی سے اوڑھنی اوڑھ لی اور زور سے للکاری،”پرنسپل عزا مجھے آپ سے یہ امید نہ تھی۔ آپ کا میرا کیا جوڑ ہے؟ جس تباہی سے نکالنے کے لئے سلطان بابا نے مجھے عالم جنات میں بھیجا تھا۔ آپ جانتے بوجھتے ہوئے انہی گڑھوں میں چھلانگ لگا رہے ہیں۔”

                عزا کا ہاتھ جھٹکے کی وجہ سے شل ہو رہا تھا۔ وہ دوسرے ہاتھ سے اسے سنبھالے ہوئے تھا۔ کہنے لگا،”صندل دیوی، مجھ سے غلطی ہوئی ہے۔ میں جا رہا ہوں۔”یہ کہتے ہوئے وہ غائب ہو گیا۔

                صندل پانی سے باہر نکل آئی۔ وہیں کنارے پر بیٹھ کر اس نے سلطان بابا کی جانب دھیان لگایا۔ اس کا دل سخت بے چین تھا۔ وہ جانتی تھی کہ عزا ایک طاقتور عفریت ہے۔ وہ اس سے الجھنا نہیں چاہتی تھی۔ بے چین دل سلطان بابا کو پکارنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ سلطان بابا کا نوری ہیولا اس کے سامنے ہے۔ وہ ادب سے ان کے قدموں میں جھک گئی۔ گڑگڑا کر بولی۔”سلطان بابا، عزا مجھے با ر بار تنگ کرتا ہے۔ میں کیا کروں؟”

                سلطان بابا بولے،”صندل جو شکتی تیرے پاس ہے وہ عزا کے پاس نہیں ہے۔ تو اس سے بالکل نہ ڈر۔ وہ تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اپنی شکتی سے بدی کا خاتمہ کر۔”یہ کہہ کر سلطان بابا نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ صندل کے دل سے عزا کا خوف ایک دم ختم ہو گای۔ چند دن بعد جب وہ درخت سے پھل توڑ رہی تھی کہ اچانک شہباز اس کے سامنے آ گیا۔ ایک لمحے کو اس پر جیسے سکتہ طاری ہو گیا۔ مگر پھر وہ فوراً سنبھل گئی۔ اس نے دیکھا کہ شہباز کی نگاہوں میں وہی ہوس ہے جو عزا کی نظروں میں تھی۔ شہباز نے دونوں بانہیں اس کی جانب بڑھائیں۔ ایک دم سے صندل کے اندر سے ایک اور صندل نکلی اور اس صندل نے گرجدار آواز میں للکارا، “دھوکے باز تو باز نہیں آتا۔”یہ کہہ کر صندل کا عکس اس کی جانب بڑھا اور اس پر حملہ کر دیا۔ صندل کا جسم اپنی جگہ ساکت کھڑا تھا۔ اب شہباز کی جگہ پر عزا کھڑا تھا اور صندل کا عکس اس پر تابڑ توڑ حملے کر رہا تھا۔ یہاں تک کہ عزا کو بھاگتے ہی بن پڑی تب صندل کا عکس دوبارہ اس کے جسم میں آ کر سما گیا ۔ وہ بھگوان کی تعریف میں بھجن گاتی ہوئی سیدھی غار میں آئی اور اپنے رب کے حضور سجدے میں جھک گئی۔

                ادھر شہباز صندل کے فراق میں بیقرار ہو کر اسے ڈھونڈنے لگا۔ کئی بار وہ سلطان بابا کی قبر پر گیا۔ کئی کئی گھنٹے وہاں بیٹھا رہتا کہ شاید صندل ادھر آ نکلے۔ گاؤں میں کوئی خبر چھپی نہیں رہتی۔ وہ جانتا تھا کہ جب سے جوگن کا لباس سلطان بابا نے اس کے ہاتھ سے صندل کو دلوایا تھا اسی وقت سے صندل گھر سے غائب ہے۔ وہ بار بار سلطان بابا کی قبر پر آ کر روتا۔ گڑگڑاتا۔ ان سے دل ہی دل میں سوال کرتا کہ آخر اسے صندل سے اتنا قریب لا کر اسے دور کیوں کر دیا ہے۔ دلوں کے اس سمبندھ کو آخر کیا نام دے۔ جانے وہ کس حال میں ہو گی۔ وہ تڑپ تڑپ جاتا۔ سلطان بابا کی قبر سے سر ٹکراتا۔ کبھی رو کر فریاد کرتا،”کاش میں سلطان بابا کے کہنے پر اسے جوگن کا لباس نہ دیتا۔”پھر خود ہی کہتا،”مگر سلطان بابا جب بھی دکھائی دیئے۔ اس لمحے میں اپنے ارادے سے کچھ سوچ ہی نہ سکا۔ جو انہوں نے کہا۔ وہی میرا ارادہ اور خیال بن گیا۔ مگر اب میں اسے کہاں ڈھونڈوں۔”

                تین ماہ لگاتار شہباز سلطان بابا کی قبر پر حاضری دیتا رہا۔ وہ روزانہ تقریباً دن بھر وہیں رہتا۔ ایک دن تپتی دوپہر تھی۔ شہباز صندل کے عشق میں بے حال تھا۔ وہ دھاڑیں مار مار کر روتا جاتا اور قبر کی خاک اپنے سر پر ڈالتا جاتا۔ اسی بے قراری میں وہ قبر پر سر رکھ کر بے سدھ ہو گیا۔ بے خودی کا غلبہ چھایا۔ اسی لمحے اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ قبر کے اندر اتر رہا ہے۔ نیچے بے پناہ روشنی ہے وہ روشنی میں اتر آیا۔ سامنے ہی سطان بابا کھڑے تھے وہ سلطان بابا کہہ کر ان کے قدموں میں جھک گیا اور ان کے قدموں پر اپنا سر رکھ دیا۔ سلطان بابا نے اسے بازوؤں سے پکڑ کر اٹھا کر کھڑا کیا ۔ وہ اسی بے خودی میں کھڑا ہو گیا۔ اس کی نگاہ سلطان بابا پر ٹکی ہوئی تھی اتنے میں سلطان بابا کے قلب سے ایک روشنی کی شعاع نکلی اور یہ شعاع صندل کا روپ بن گئی۔ یہ روپ اس کے قریب آیا اور قریب آ کر اس کے اندر سما گیا۔ اسی لمحے شہباز بے خودی سے نکل آیا۔ اس نے قبر سے اپنا سر اٹھایا۔ ایک منٹ چپ چاپ بیٹھا رہا اور خود اپنے حال پر غور کیا۔

                مگر اب اس کی حالت بدل چکی تھی۔ اسے صندل کی مہک اپنے اندر سے آنے لگی۔ اس نے عقیدت سے قبر کو چوما اور مٹی جھاڑتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ گھر آ کر نہا دھو کر نماز پڑھی اور چپ چاپ گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ نہایت تیزی سے اس کے قدم اسی جنگل کی طرف خود بخود اٹھنے لگے۔ دو دن تک وہ جنگل میں بھٹکتا رہا۔ تیسرے دن اسے سامنے سے صندل کے والد آتے دکھائی دیئے۔ وہ سمجھا والد بھی صندل کو تلاش کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں۔ جیسے ہی وہ قریب پہنچے۔ صندل کے والد نے کہا،”میں جانتا ہوں تم شہباز ہو اور میری بیٹی سے محبت کرتے ہو۔ اگر تم واقعی محبت کرتے ہو تو خزانہ لا کر دو۔ میں اپنی بیٹی کو تم سے بیاہ دوں گا۔”

                شہباز بولا،”خزانہ کہاں سے لاؤں؟”والد نے کہا،”میں نے سنا ہے اسی جنگل میں بہت سے دفینے زمین میں دفن ہیں۔ تلاش کرو۔”

                شہباز جنگل میں دفینے تلاش کرنے کے لئے مارا مارا پھرنے لگا۔ ہر تھوڑی دور اسے زمین میں خزانہ دفن دکھائی دیتا۔ ایک ہلکا سا عکس نظر آتا۔ وہ اس کی جانب لپکتا۔ لکڑی اور ہاتھوں سے زمین کھودتا۔ کچھ بھی نہ ملتا۔ اس طرح بہت سے دن گزر گئے۔

                ایک دن وہ زمین کھود رہا تھا کہ عزا سامنے آ گیا۔ کہنے لگا، “میں تمہیں خزانے کا پتا بتاتا ہوں۔ تم جنگل میں فلاں مقام پر جاؤ۔ فلاں درخت کے نیچے تمہیں خزانہ مل جائے گا۔”



Jogun

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


روح کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ روح عورت یا مرد ہوتی ہے۔ روح روح ہوتی ہے اور کیونکہ روح صرف روشنی ہوتی ہے اور روشنی کے لئے حد بندیاں قائم نہیں کیں جا سکتیں۔ روشنی ہر جگہ ہے۔ روشنی کے لئے در و دیوار معنی نہیں رکھتے۔ روشنی ٹائم اور اسپیس سے آزاد ہے۔ جب کوئی مرد یا عورت روح سے واقف ہو جاتی ہے تو اس کے اوپر سے ٹائم اور اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ ہزاروں سال پہلے کے واقعات اور ہزاروں سال بعد کے آنے والے واقعات کو دیکھ لیتا ہے۔ چونکہ ماضی، حال، مستقبل اس کے سامنے آ جاتا ہے اس لیے وہ اس بات سے واقف ہو جاتا ہے کہ کائنات میں اللہ کے علاوہ کسی کی حاکمیت نہیں ہے اور جب کوئی بندہ اللہ کی حاکمیت یقین کے ساتھ قبول کر لیتا ہے تو اس کر اندر سے غم و پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں اور وہ سکون کے گہوارے میں محو خرام ہو جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سعیدہ خاتون عظیمی کی اس کاوش کو عوام الناس کے لئے مقبول بنائے اور جو لوگ اس کتاب کا مطالعہ کریں ان کے ادراک و فہم میں جلا بخشے۔

                آمین

خواجہ شمس الدین عظیمی

مرکزی مراقبہ ہال

سرجانی ٹاؤن، کراچی