Topics

سچے بھگت


                کندن کے چہرے پر سکون کے آثار نمودار ہوئے وہ کارڈ کو ہونٹوں اور آنکھوں سے لگاتے ہوئے بولی۔”صندل کچھ بھی ہو میں تو یہ جانتی ہوں کہ سلطان بابا سچ مچ بھگوان کے سچے بھگت ہیں ورنہ یہ کارڈ نہ ملتا۔ اس کارڈ کی صورت اور تحریر ہی بتا رہی ہے کہ یہ اس دنیا کا نہیں ہے۔”دھاتوں کی وجہ سے اس میں مضبوطی اور ربڑ کی وجہ سے اس میں لچک تھی۔ اس کارڈ پر سنہری عبارت تھی، بہت خوبصورت تھا۔ کندن بولی۔”اب واپس چلنا چاہئے، ماں پریشان ہو گی۔”دونوں نے نہایت عقیدت کے ساتھ سلطان بابا کی قبر کی مٹی کو ہاتھ لگایا اور اپنے ماتھے پر اس کا تلک لگا لیا اور پھر گھر پہنچیں تو تارا بھی گھر میں ہی تھی۔ وہ چاول چننے میں مصروف تھی اور بھی چند عورتیں بیٹھیں کچھ نہ کچھ کر رہی تھیں۔ کندن نے کارڈ اپنی اوڑھنی میں چھپا لیا اور کمرے میں حفاظت سے رکھ دیا کیونکہ صندل نے اسے منع کیا تھا کہ سب چلے جائیں تب ماتا پتا کو بتانا۔ رات کو جب سب لوگ واپس چلے گئے اور صرف گھر والے تھے، کندن وہ کارڈ لائی اور سب سے پہلے اپنے پتا کے سامنے رکھا۔ بولی۔”باپو یہ کارڈ تو دیکھئے۔”ٹھاکر صاحب نے جیسے ہی نظر ڈالی۔ وہ عجیب سا لگا۔ انہوں نے اسے اٹھا لیا اس کو چھو کر دیکھنے لگے پھر اس کی تحریر پڑھی پھر فوراً کندن سے مخاطب ہوئے۔”تم لوگوں کو یہ کارڈ کہاں سے ملا؟”کندن بولی۔”باپو، آج میں صندل کے ساتھ سلطان بابا کی سمادھی پر گئی تھی۔ ہم دونوں آنکھیں بند کر کے ان سے اپنے لئے پرارتھنا کر رہے تھے کہ صندل کی گود میں ایک سفید کبوتر نے یہ کارڈ ڈال دیا اور صندل نے اس وقت مجھے دیا۔”چودھرائن یہ قصہ سن کر چونکی۔”ذرا ادھر تو آنا۔”پھر تو سارے ہی ادھر دکھانا، ادھر دکھانا کہنے لگے۔ سب ہی چھو چھو کر اسے دیکھتے رہے مگر کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ یہ کس کا بنا ہوا ہے۔ ٹھاکر صاحب بولے۔”میں نے تو آج تک ایسا کاغذ نہیں دیکھا۔ یہ اس دنیا کا نہیں لگتا۔”کاجل بولی۔”یہی تو ان کا کمال ہے وہ اس جنم میں بھی آسانی سے آ جا سکتے ہیں۔”صندل بولی۔”سلطان بابا بھگوان کے بہت اونچے بھگت ہیں اس نے انہیں اپنی شکتی دی ہے تا کہ وہ اپنے رب کے حکم پر دنیا والوں کے کام آ سکیں۔ باپو سلطان بابا کی دعا سے کندن ضرور اپنے گھر خوش رہے گی۔”ماں بھیگی آنکھوں کے ساتھ بولی۔”ضرور خوش رہے گی میری بیٹی۔ اب مجھے اطمینان ہو گیا ہے۔”

                شادی میں اب تھوڑے ہی دن رہ گئے تھے۔ جب سے کندن کا رشتہ ہوا تھا مندراج بابو اور ان کی بیگم بس ایک مرتبہ ہی آئے تھے۔ تارا البتہ دو تین دفعہ آ چکی تھی۔ مگر وہ بھی بجھی بجھی سی رہتی تھی۔ شادی کی تیاریوں میں سب لوگ ایسے مصروف تھے کہ کسی کو اس طرف توجہ کرنے کی فرصت ہی نہ تھی۔ سب سے زیادہ مصروف تو مالا اور کاجل تھیں۔ انہیں جہیز کا ایک ایک سامان درست کرنا تھا ، کہیں رضائیاں گدے بھرے جا رہے تھے، کہیں شادی کے جوڑوں پر ٹکائی ہو رہی تھی، چودھرائن کو تو اب ہر تھوڑی دیرمیں کچھ نہ کچھ یاد آ جاتا اور وہ مالا اور کاجل کو کہہ دیتیں کہ یہ کرنا ہے وہ کرنا ہے اور پھر خود ہی بولائی بولائی پھرتیں کام اتنا زیادہ ہے۔ بہوئیں بیچاریاں کیا کریں۔ ہاں بیٹی لاؤ کچھ ہاتھ لگا دوں، پڑوسن انہیں پکڑ کر آرام سے بٹھا دیتی، اے ماسی تم کیوں فکر کرتی ہو سب کچھ ہو جائے گا۔

                پھر وہ دن بھی آ گیا برات چونکہ دوسرے گاؤں سے آنی تھی۔ اس لئے ایک رات پہلے آ گئی ایک دن پہلے ہی شامیانے لگا دیئے گئے تھے اور اس میں چارپائیاں بچھا دی گئی تھیں تا کہ برات آرام سے رات کو سو سکے۔ دولہا اور اس کے گھر والوں کو پڑوس کے گھر میں ٹھہرایا گیا۔ دوسرے دن گیارہ بجے سگائی تھی۔ تا کہ دوپہر کے کھانے سے فارغ ہو کر شام کی ٹرین سے واپسی ہو جائے۔ صبح تڑکے سب جاگ گئے، حلوہ پوری کا ناشتہ کر کے سب اپنی تیاری میں لگ گئے۔ آج کے دن مالا اور کاجل کی مصروفیت بھی کم تھی۔ جہیز تو پہلے ہی انہوں نے ایک کمرے میں پھیلا کے سب کو دکھا دیا تھا۔ پھر جس رات برات آئی اسی رات براتیوں کو بھی دکھا دیا تھا اور اب صبح ان کے آدمی لے جانے کے لئے سامان باندھ رہے تھے۔ اب ان کی ذمہ داری ختم ہو گئی تھی۔ ناشتے اور کھانے کا انتظام بھی مردوں کے سپرد تھا۔ ناشتے سے فارغ ہو کر مالا اور کاجل نے کندن کی سہیلیوں کو بلایا تا کہ وہ کندن کو تیار کر دیں پھر صندل کو آواز دی کہ وہ بھی تیار ہو جائے۔ مالا اور چودھرائن کو بھی بلایا۔ ماں جی جلدی سے کپڑے پہن لو، اب وقت ہوا جا رہا ہے۔ کاجل نے صندل کے لمبے بالوں میں پراندہ ڈالا تو اس کی چوٹی گھٹنوں سے لمبی ہو گئی، گہرے گلابی رنگ کے بنارسی لہنگے میں صندل ایک کھلا ہوا پھول لگنے لگی، کاجل اس کا بناؤ سنگھار کر رہی تھی۔ اس نے اس کی سرمگیں آنکھوں میں کاجل لگایا، بندیا لگائی، پھر اپنے گہنوں میں سے ایک سیٹ اسے بھی پہنا دیا، مالا نے اسے دیکھا تو خوش ہو کے بولی۔”بھگوان قسم، صندل تو تو پوری دلہن لگ رہی ہے۔”صندل نے آئینے میں اپنا سراپا دیکھا زندگی میں پہلی بار اس نے اس طرح سنگھار کیا تھا اسے یقین نہ آیا کہ یہ میں ہوں۔ اس نے شرما کے منہ چھپا لیا۔ بولی بھابھی، میں کیسے سب کے سامنے جاؤں گی مجھے تو شرم آ رہی ہے۔ ماں نے کہا۔ اپنی بھابھیوں کے ساتھ چلی جانا تیری سہیلیاں بھی تو باہر ہیں۔ پھر اس نے نظر بھر کے بیٹی کو دیکھا اور بول اٹھی۔”صندل تو سچ مچ دلہن لگ رہی ہے بھگوان نظر بد سے بچائے۔”

                اس لمحے صندل کے دل میں تقاضہ اٹھا”کاش وہ منڈپ والا جوان مجھے دیکھ لے”اور اس کا چہرہ حیا سے سرخ ہو گیا۔ اسے یوں لگا جیسے اس کی نشیلی آنکھیں اسے گھور رہی ہیں۔ تھوری دیر میں وہ مالا اور کاجل کے ساتھ باہر آئی۔ اس کی سہیلیاں اسے ڈھونڈ رہی تھیں۔ وہ سہیلیوں کے ساتھ باہر آئی۔ وہ سہیلیوں کے ساتھ شوخیاں کرتی ہوئی منڈپ کی جانب بڑھی۔ ابھی وہ چند گز دور ہی تھی کہ سامنے سے وہی نوجوان آتا دکھائی دیا۔ اس کی بیتاب نظریں صندل پر تھیں۔ ہر قدم پر فاصلے گھٹ رہے تھے اور دل کی دھڑکن بڑھ رہی تھی۔ اسے کچھ پتہ نہ چلا کہ سہیلیاں اسے کیا کہہ رہی ہیں اس کے کانوں میں تو دل کی دھک دھک کا شور مچا ہوا تھا۔ اس نے سہیلی کو زور سے پکڑ لیا اتنے میں منڈپ کا دروازہ آ گیا اور وہ اندر داخل ہو گئی وہ جوان اس کے دل کو چھوتا ہوا گزر گیا۔ اندر جا کے جب اس کے اوسان بحال ہوئے تو اسے پتہ چلا کہ اس کی سہیلیاں اسے عجیب سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی ہیں۔ ایک بولی۔”ارے کیا ہو گیا تھا تجھے؟ یوں لگ رہا تھا تو ابھی بے ہوش ہونے والی ہے۔”دوسری بولی۔ “ہو نہ ہو یہ ضرور اس جوان کی شرارت ہے جس نے ہماری صندل کا دل دھڑکا دیا۔”تیسری نے فوراً بات پکڑ لی۔”میں بھی دیکھ رہی تھی جیسے جیسے اس کے قدم بڑھتے جا رہے تھے، ویسے ویسے صندل کے چہرے پر سرخی کی ایک ایک تہہ اور چڑھتی جاتی تھی۔”صندل ابھی تک نشے میں تھی۔ بولی،”اب تم سے کون جیت سکتا ہے، چھوڑو مجھے کندن کے بچھڑنے کے خیال نے میرا یہ حال کیا تھا۔”یہ سن کر سب اس کی ہمدردی میں لگ گئیں اور صندل کی جان چھوٹی۔ وہ کندن کے پاس جا بیٹھی جلد ہی سگائی کا مرحلہ شروع ہو گیا۔ کندن اور اس کے دولہا نے پوتراگنی کے گرد پھیرے لئے، اپنوں نے گلے مل مل کے ایک دوسرے کو بدھائی دی۔ صندل نے کندن کو گلے لگایا کچھ بچھڑنے کے غم اور کچھ سگائی کی خوشی کے ملے جلے جذبات میں وہ سسک پڑی، کھانے سے فارغ ہو تے ہی رخصتی کی تیاریاں ہو گئیں اور کندن سب کی محبتوں کے سائے میں پیا کے گاؤں سدھار گئی۔ گھر کی گہما گہمی دلہن کے جاتے ہی ایک دم سناٹے میں بدل گئی۔ سب اپنے اپنے کمرے میں جلد ہی سو گئے۔

                چند دن تک تو کندن کی غیر موجودگی کی وجہ سے گھر سونا سونا سا لگا۔ پھر سب اپنے اپنے معمول میں مشغول ہو گئے۔ شادی پر عاجل بھی آ گیاتھا۔ چوتھے دن وہ بھی اپنے کام پر واپس چلا گیا۔ شاید وہ کچھ دن اور رک جاتا مگر ہوا یہ کہ شادی کی وجہ سے تارا اور اس کے ماں باپ کا آنا جانا گھر میں زیادہ ہوا تو عاجل کو دیکھ کر پھر انہیں تارا کے رشتے کا خیال آ گیا۔ بولے تو وہ کچھ بھی نہیں مگر کندن کی رخصتی کے بعد بھی تارا سارا دن صندل کے یہاں رہنے لگی۔ وہ آنے جانے کے مواقع ڈھونڈتی۔ جس کی وجہ سے عاجل گھر میں رہنے کی بجائے باہر چلا جاتا۔ گھر کی عورتیں بھی اس صورتحال کو بھانپ گئیں پھر جب چوتھے دن عاجل نے دھامن گاؤں واپس جانے کی اجازت مانگی تو ماں نے اسے منع نہیں کیا۔ اس کے جانے کے بعد پھر تارا نہیں آئی۔ عاجل کے جانے کے تین دن بعد صبح کے وقت تارا کی ماں آئی ، اس وقت مالا اور کاجل ناشتے کے برتن سمیٹ رہی تھیں۔ صندل بھی دسترخوان سمیٹنے میں اس کی مدد کر رہی تھی۔ چودھرائن صحن میں چارپائی پر بیٹھی تھی۔ صحن میں سامنے ہی رسوئی گھر ہونے کی وجہ سے چارپائی پر بیٹھے ہوئے چودھرائن بہوؤں سے ہنس ہنس کے باتیں بھی کرتی جاتی۔

                تارا کی ماں آئی تو وہیں اس کے پاس چارپائی پر بیٹھ گئی۔ اس کے ہاتھ میں ناشتے دان کا ایک ڈبہ تھا جسے وہ چودھرائن کو دیتی ہوئی بڑی رازداری کے ساتھ آہستہ آہستہ بولی،”بہن کیا کروں طبیعت ہی ایسی ہے مجھ سے تو رہا نہیں جاتا۔”چودھرائن یہ سن کر چوکنی ہو گئی، فوراً اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ پوچھا،”بہن کیا بات ہے؟ یہ کیا ہے؟”وہ بولی،”اے شادی پر سارا گاؤں یہی بات کرتا تھا کہ ٹھاکر صاحب کی دونوں بہوئیں بانجھ ہیں۔”صندل وہیں صحن میں لگے دسترخوان کو اٹھا رہی تھی، اس کے کانوں میں بھی یہ الفاظ پڑ گئے، وہ سخت حیران ہو کر بڑی ماں کا چہرہ تکنے لگی۔ چودھرائن یہ بات سنتے ہی بولی،”بہن مجھ سے تو کسی نے ذکر نہیں کیا۔”وہ بولی،”کندن کی شادی کی وجہ سے تم کو فرصت ہی کہاں تھی۔ سب نے تو مجھے ہی کہنا تھا۔”چودھرائن مسکرا کر بولی،”لوگ مجھ سے پوچھتے تو میں جواب دے دیتی کہ ابھی تو میری بہوئیں خود بچیاں ہیں۔ ذرا کھیل کھال لیں تو بچہ بھی ہو جائے گا۔”مالا اور کاجل کا نام سن کر صندل وہیں دسترخوان سمیٹنے کے بہانے کھڑی اس ان کی باتیں سننے لگی۔اس کا خیال تھا کہ وہ ماں کو باتوں میں اتار کر کسی نہ کسی پنڈت یا جادو ٹونہ کرنے والے کے پاس لے جائے گی۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ بڑی ماں کی آواز آئی، جو چپکے چپکے چودھرائن کو کہہ رہی تھی،”میں خود ایک وید جی کے پاس گئی تھی۔ اس نے کچھ دوائیاں بنانے کو دی تھیں۔ وہ میں نے بنا دی ہیں، دونوں کو کھلا دینا۔ اے بانجھ ناری کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔”یہ کہہ کر اس نے وہ ڈبہ چودھرائن کے ہاتھ میں دے دیا۔

                صندل اسی وقت وہاں پہنچ گئی۔ ڈبے کو ہاتھ میں لے کر کھولتے ہوئے بولی، “بڑی ماں اس کے اندر کیا ہے؟”وہ جلدی سے اس کے ہاتھ سے ڈبہ لینے کی ناکام کوشش کرتی ہوئی بولی،”بیٹی اسے دے دے یہ تیرے لئے نہیں ہے۔”وہ زور سے بولی،”بڑی ماں، پھر یہ کس کے لئے ہے؟”رسوئی گھر میں مالا اور کاجل کے پاس بھی یہ آوازیں پہنچ گئیں۔ وہ بھی غور سے دیکھنے اور سننے لگیں۔ وہ سمجھیں شاید بڑی ماں کچھ حلوہ وغیرہ پکانے کے لئے لائی ہیں۔ اتنے میں اس نے ڈھکنا کھول لیا۔ اس کے اندر سوجی کے لڈو بنے ہوئے تھے۔ چودھرائن بولی،”صندل انہیں نہ کھانا یہ دوا ہے۔”چودھرائن پھر زور سے بولی،”تجھے کیا ہے۔ اسے رہنے دے۔ لا مجھے دے۔”صندل شوخی سے بولی، “میں تو نہیں دونگی جب تک بتاؤ گی نہیں۔”وہ عاجز آ کے آہستہ سے بولی،”یہ تیری بھابھیوں کے لئے ہے۔ یہ سنتے ہی صندل نے زور سے بھابھیوں کو آواز دی۔”بھابھی بھابھی بڑی ماں تمہارے لئے دوائی لائی ہیں۔”دونوں آوازیں سن کر چلی آئیں۔ اب صندل نے پھر کہا ، “بڑی ماں آپ دونوں کے لئے دوائی لائی ہیں۔”وہ حیران ہو کر بولیں،”بڑی ماں ہمیں کیا ہو گیا؟”وہ چڑکر بولیں،”اے ہو نا کیا ہے بچہ جو نہیں ہے تم دونوں کے یہاں سب سے بڑی بیماری تو یہی ہے۔”مالا بولی،”مگر بڑی ماں آپ یہ دوائی کہاں سے لائی ہیں؟”وہ بولی،”بس لائی ہوں ایک وید جی سے۔”کاجل نے کہا،”مگر ہم نے تو آپ سے نہیں منگوائی تھی۔”وہ بولی،”بیٹی مجھے تو تمہارا خیال ہے۔”مالا اور کاجل نے چودھرائن کی طرف دیکھا۔ چودھرائن بولی،”مجھے تو کبھی خیال ہی نہیں آیا بڑی ماں کو تم لوگوں کی بہت فکر ہے، جانے کس وید جی سے دوائی لائی ہیں۔”صندل بولی،”بڑی ماں، یہ تو کسی مٹھائی والے کے لڈو ہیں، وید جی کی دوا تو ایسی نہیں ہوتی۔”بڑی ماں بولی،”وید جی کی دوا میں نے لڈو میں ملا دی ہے وید جی نے ایسا ہی کہا تھا۔”

                چودھرائن بات کو ختم کرنے کے انداز میں بولی،”خیر ہے بہن یہ ڈبہ مجھے دے دو میں دیکھوں گی۔”پھر وہ تینوں لڑکیوں سے بولی،”جاؤ لڑکیوں جاؤ اب اپنا کام کرو۔”

                تینوں لڑکیاں کمرے میں چلی گئیں۔ جاتے ہی صندل بولی، “بھابھی آپ دونوں یہ لڈو ہرگز بھی نہ کھانا، مجھے یقین ہے کہ اس میں کوئی دوا وغیرہ نہیں ہے۔ بڑی ماں وید جی سے نہیں کسی انتر گیانی سے یہ لڈو پڑھوا کر لائی ہیں۔ ایسے گیانیوں سے ان کی بہت دوستی ہے۔”مالا اور کاجل بولیں،”تجھے کیسے پتہ لگا؟”صندل بولی،”بڑی ماں کو دیکھ کر میرے اندر بار بار یہی خیال آ رہا تھا کہ ان سے بچ کر رہو۔”کاجل بولی،”ویسے بھی اگر انہیں ہمارا خیال ہے تو کوئی دوا لانے سے پہلے ماں جی سے تو اس کا ذکر کر لیتیں۔”تھوڑی دیر میں بڑی ماں چلی گئیں تو چودھرائن نے وہ ڈبہ سارے کا سارا کوڑے میں ڈال دیا اور مالا اور کاجل سے بولیں،”بھگوان تمہاری گود بہت جلد بھر دے گا۔یہ میرا وشواش ہے۔ تم لوگ کبھی کسی سے کچھ نہ لینا۔ پرماتما کی مرضی سے جو کام ہوتا ہے وہی سب سے بہتر ہوتا ہے۔”صندل بولی،”ماں ، بھابھی اگر سلطان بابا کی درگاہ پر جا کے دعا کریں تو ضرور پوری ہو گی۔”ماں بولی،”ہاں تم دونوں صندل کے ساتھ ہو آؤ۔”صندل بولی،”چلو بھابھی ابھی ہو آتے ہیں۔”تینوں نے اوڑھنیاں سروں پر ڈالیں اور سلطان بابا کے مزار پر چل دیں۔ مالا اور کاجل پہلی دفعہ یہاں آئی تھیں۔ تینوں پرنام کر کے قبر کی پائنتی بیٹھ گئیں۔ صندل بولی،"بھابھی آپ دونوں آنکھیں بند کر کے پرارتھنا کرو۔ سلطان بابا آپ کو خود ہی دیکھ لیں گے۔"


 

                صندل نے بھی آنکھیں بند کر کے مراقبہ میں سلطان بابا کی جانب دھیان لگا دیا۔ چند ہی لمحوں بعد اس نے دیکھا کہ ایک بہت ہی بڑا دریا ہے۔ جس کا پانی نہایت ہی شفاف ہے۔ اس قدر شفاف ہے کہ دریا کی تہہ میں جو کچھ بھی ہے وہ بالکل صاف دکھائی دے رہا ہے۔ سلطان بابا اس دریا کے پانی پر زمین کی طرح قدم بڑھاتے ہوئے چلے جا رہے ہیں۔ صندل دوڑتی ہوئی ساحل کے قریب تر پہنچ جاتی ہے اور وہیں سے آواز دیتی ہے۔”سلطان بابا، سلطان بابا”وہ آواز سن کر پیچھے دیکھتے ہیں اور صندل کو دیکھ کر وہیں سے ہاتھ ہلا کر اسے اپنے پاس آنے کو کہتے ہیں۔ ان کے اشارہ کرتے ہیں صندل ایک دم سے پانی میں پاؤں رکھ دیتی ہے۔ اور قدم بہ قدم چل کر ان تک پہنچ جاتی ہے۔ پھر اس نے سلطان بابا کو بتایا کہ مالا اور کاجل دونوں ساتھ ہیں اور بچے کی درخواست ہے۔ پھر صندل نے انہیں بتایا کہ سلطان بابا، بڑی ماں کے لائے ہوئے لڈو ماں نے پھنکوا دیئے اس کے لئے آپ کیا کہتے ہیں؟ سلطان بابا بولے،”اچھا کیا، بہت اچھا کیا۔ اللہ انہیں نیک اولاد دے گا۔ پھر انہوں نے دریا میں ہاتھ ڈالا اور کچھ نکال کر صندل کو دیا، کہنے لگے،”دونوں کو کھلا دو۔”اسی وقت صندل کو ہاتھوں میں کوئی چیز محسوس ہوئی۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو اس کے ہاتھوں میں وہ بالکل سفید رنگ کے انڈوں کی طرح کے گول گول پھل تھے۔ اس نے مالا اور کاجل کو دیئے دونوں کی آنکھیں خوشی سے چھلک آئیں اور انہوں نے عقیدت سے قبر کی مٹی کو اپنے ماتھے پر لگا لیا۔ اور واپس گھر لوٹ گئیں۔

                گھر پہنچ کر ماں کو بتایا اور پھل دکھایا تو ماں بہت ہی خوش ہوئی اور دونوں بہوؤں سے کہا کہ یہ پھل اس دنیا کا نہیں لگتا۔ یہ کھالو اور دونوں نے پھل کھایا، دونوں کہنے لگیں کہ اس کا مزہ بھی مختلف ہے۔ ہم نے آج تک ایسا مزہ نہیں چکھا۔ کچھ دنوں بعد ہی دونوں امید سے ہو گئیں۔ اس واقعہ سے سارا گھر سلطان بابا کا معتقد ہو گیا۔ ہر روز رات کو جب سارا گھر سو جاتا تو صندل اٹھ کر صندل دیوی والے کمرے میں چلی جاتی اور لوبان جلا کر سلطان بابا کے بتائے ہوئے ورد و وظائف کرتی اور پھر مراقبہ میں بھگوان کا دھیان کر کے بیٹھ جاتی۔ یوں لگتا جیسے منڈپ والے نوجوان کا چہرہ اس کے تصور کا نقش بن گیا ہے۔ وہ گھبرا کے مراقبہ میں سلطان بابا کو پکارتی۔ ایک دن سلطان بابا نے مراقبہ میں اس سے کہا ، بیٹی اللہ کی کوئی صورت و شکل نہیں ہے مگر آنکھ بغیر صورت کے نہیں دیکھ سکتی۔ تمہیں بھگوان کی صورت میں وہ نوجوان دکھائی دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو دیکھنے کے لئے تم اپنے ارادے سے کام لے رہی ہو۔ تمہیں دنیا میں جو سب سے اچھا لگا تمہارے تمام حواس کی مرکزیت اس ہستی پر ہو گئی۔ تمہارے دل کی آنکھ نے اس کے عکس کو اپنی نظر کا چشمہ بنا لیا۔ اب نظر جہاں بھی دیکھے گی اسی چشمے سے دیکھے گی۔ اللہ کو دیکھنا چاہتی ہو تو دنیا کے سارے چشمے اتار دو۔ صندل سجدے میں گر پڑی بھگوان میری رکھشا کرنا۔

                کندن کی شادی کو ڈیڑھ ماہ ہو چکے تھے۔ اس عرصے میں وہ تو نہ آ سکی مگر کندن کے بھائی سنیل اور راہول مٹھائی اور جوڑا لے کر بہن کے گھر گئے تھے۔ وہ اپنے گھر خوش تھی۔ ایک دن کسی کے ہاتھ انہوں نے خبر بھیجی کہ وہ کل یہاں آ رہے ہیں۔ سارے گھر میں ہلچل مچ گئی۔ چودھرائن نے خادم کو محلے کے تین چار گھروں میں بھیجا کہ خبر دے آئے کہ بیٹی اور داماد پہلی دفعہ آ رہے ہیں۔ باقی وہ خود سب کو بتا دیں گی۔ مالا، کاجل اور چودھرائن تینوں رسوئی گھر کی خبر لینے کو لپکیں۔ صندل، کندن کا کمرہ ٹھیک کرنے لگی۔ دوسرے دن شام کو کندن اپنے میاں کے ساتھ میکے پہنچی۔ بڑی بہو مالا نے دروازے پر اس کا سواگت کیا۔ ناریل پھوڑا، دونوں کے ماتھے پر سیندور کا تلک لگایا۔ کندن کے چہرے پر سہاگن کی دمک تھی۔ انیل بھی بہت خوش تھا۔ دونوں نے ماتا اور پتا کے چرن چھوئے اور دونوں نے انہیں آ شیر باد دی۔ کندن تین دن تک میکے میں رہی۔ محلے کی ساری عورتیں اس سے ملنے آئیں۔ گاؤں کے رواج کے مطابق ہر گھر سے کوئی نہ کوئی پکوان بھیجا گیا۔ تینوں دن چودھرائن کے یہاں دعوت شیراز رہی۔ صندل بھی دن رات اپنی دیدی اور جیجا جی کے ساتھ مصروف رہی۔

                جانے سے پہلے چودھرائن بولی، “کندن سلطان بابا کو پرنام کئے بنا نہ جانا۔ ان کے ہم پر بہت احسان ہیں۔ تم صندل کے ساتھ وہاں ہو آؤ۔”

                انیل بولا۔”سلطان بابا کون ہیں ماں؟کہاں رہتے ہیں؟”چودھرائن بولی،”سلطان بابا کی درگاہ ہے۔ وہاں جو بھی دعا ہم نے آج تک مانگی ہے، بھگوان کی اِچھّا سے پوری ہوئی ہے۔ وہ بھگوان کے بھگت ہیں۔ تم جاتے جاتے انہیں پرنام کرتے جاؤ بیٹا۔”انیل بولا،”ماں ویسے تو میں آج تک کبھی کسی کی درگاہ پر نہیں گیا۔ مگر میں اس بات پر وشواش رکھتا ہوں کہ بھگتوں کی بھگوان جلدی سنتے ہیں۔”پھر وہ کندن سے مسکرا کر کہنے لگا۔”چلو آج ہم بھی تمہاری خاطر درگاہ میں ہو آتے ہیں۔”کندن ہنس پڑی۔

                صندل، کندن اور انیل کے ساتھ سلطان بابا کے مزار پر آئی۔ تینوں نے مزار پر پھول چڑھائے۔ چند منٹ ہاتھ باندھ کر کھڑے اپنی عرض گزاشت کرتے رہے۔ پھر پرنام کر کے انیل نے اپنا قدم اٹھایا ہی تھا کہ اس کی نظر اپنے پاؤں کے پاس پڑی۔ وہاں اسے کوئی چمکیلی سی چیز دکھائی دی۔ اس نے جھک کر اسے اٹھایا۔ دیکھا تو یہ ایک کئی سو سال پرانا سکہ تھا۔ جو چاندی کا معلوم ہوتا تھا۔ اس نے اسے کندن اور صندل کو دکھایا۔ کندن اور صندل خوش ہو کر بولیں۔”سلطان بابا آپ کو بدھائی دی ہے۔ اس کو سنبھال کر رکھ لیں۔”گھر آ کر انیل نے وہ سکہ ماں کو اور ٹھاکر صاحب کو دکھایا۔ دونوں نے اس کو وہی بات کہی کہ اس کو سنبھال کر رکھ لو۔ بزرگوں کی آشیر باد کے ساتھ تمام کام آسان ہو جاتے ہیں۔

                کندن اور انیل خوش خوش اپنے گھر لوٹ گئے۔ ادھر صندل پھر اسی طرح راتوں کو اٹھ کر عبادت کرنے لگی۔ سلطان بابا نے اسے کچھ وظائف کرنے کو دیئے تھے۔ وہ ان ہی کا جاپ کر کے اپنے رب کے دھیان میں مشغول ہو جاتی ۔ اب اس کے ذہن سے آہستہ آہستہ اس نوجوان کی تصویر بھی ہٹتی جا رہی تھی کہ ایک دن سہیلی کے گھر سے واپسی پر صندل کا جی چاہا کہ سلطان بابا کو پرنام کرتی چلوں۔ وہ حسب معمول ان کی قبر کی پائنتی پر آنکھیں بند کر کے چپ چاپ بیٹھ گئی۔ ابھی اس نے آنکھیں بند ہی کی تھیں کہ اسے اپنے قریب آہٹ سی محسوس ہوئی۔ اس نے آنکھیں کھول دیں۔ دیکھا کہ وہی نوجوان وہاں کھڑا تھا۔ یوں اچانک اتنے قریب دیکھ کر صندل پہلے تو گھبرا گئی پھر اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر سلطان بابا کی قبر کو دیکھتے ہوئے پرنام کیا۔ اور وہاں سے چلنے کے لئے قدم بڑھا دیئے۔ وہ نوجوان اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ اس نے کہا۔”ذرا رکیئے، میرا نام شہباز ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آپ ٹھاکر صاحب کی صاحبزادی صندل ہیں۔ میرا آپ سے یوں بات کرنا گاؤں والوں کی نظر میں اچھا نہیں ہے۔ مگر جب سے میں نے آپ کو دیکھا ہے اس وقت سے میں نہیں جانتا کہ آپ کا میرے ساتھ کیا رشتہ ہے مگر مجھے یقین ہے کہ کچھ ہے ضرور۔ ابھی بھی میں جب اپنے گھر بیٹھا کچھ کام کر رہا تھا، میری آنکھوں کے سامنے آپ آ گئیں۔ جیسے آپ اس مزار کی جانب جا رہی ہیں۔ اور پھر بے ساختہ میرے قدم بھی اسی طرف اٹھ گئے۔”صندل چپ چاپ سن رہی تھی۔ وہ رکی نہیں نہ ہی کوئی جواب دیا۔ وہ پھر بولا۔”آپ یقین کریں یا نہ کریں۔ ایسا کئی بار ہو چکا ہے۔ کئی مرتبہ تو میں نے اپنے آپ کو روک دیا اور کئی مرتبہ خود میں اپنے ذہن کی اطلاع کو آزمانے کے لئے آپ کے تعاقب میں چلا آیا۔ اور جب اسے درست پایا تو بغیر آپ سے بات کئے چپ چاپ لوٹ گیا۔ “وہ پھر نہایت ہی نرم لہجے میں بولا،”صندل جی، آپ بھگوان پر بھروسہ رکھتی ہیں؟ یقینا آپ اللہ کو بھی مانتی ہیں۔ جب ہی تو سلطان بابا کے مزار پر حاضری دی ہے۔ شاید آپ سمجھیں کہ یہ کہانی میں نے آپ کو تنہا دیکھ کر گھڑی ہے۔ مگر اللہ جانتا ہے کہ میں خود حیران ہو کر آپ تک آیا ہوں کہ شاید آپ ہی اس گتھی کو سلجھا دیں۔”صندل بولی،”مجھے آپ کی بات جھوٹی نہیں لگی مگر اب آئندہ آپ مجھ سے ملنے کی کبھی کوشش نہ کرنا۔”یہ کہہ کر وہ تیز تیز قدم بڑھاتی ہوئی گھر لوٹ گئی۔

                چند ہی دن گزرے تھے کہ صندل کی شادی کا تذکرہ گھر میں چھڑ گیا۔ گاؤں کا کوئی لڑکا تھا۔ ٹھاکر صاحب کو پسند تھا۔ مالا اور کاجل نے صندل سے جب ذکر کیا تو صندل بڑی ہی پریشان ہوئی۔ اس نے کہا۔”بھابھی میں تو پہلے کہہ چکی ہوں کہ مجھے شادی نہیں کرنی۔”مالا بولی،”تو پاگل ہو گئی ہے؟ کیا ساری عمر یونہی بیٹھی رہے گی؟”صندل بولی،”بھابھی ابھی میری عمر ہی کیا ہے؟ابھی تو میں پورے سولہ سال کی بھی نہیں ہوئی ہوں۔”کاجل بولی،”پگلی یہی تو عمر ہے شادی کی رشتہ بھی اچھا ہے۔ عیش کرے گی اپنے گھر میں۔”صندل بولی،”بھابھی باپو سے کہہ دو میں ابھی تیار نہیں ہوں۔”ماں کو پتہ چلا کہ صندل شادی سے انکار کر رہی ہے تو اس نے بھی بڑا سمجھایا۔ مگر پھر صندل کی ضد پر سب نے یہی سوچا کہ کچھ دن اور خاموش ہو جاتے ہیں۔ شاید ایک آدھ سال میں عقل آ جائے۔

                صندل کی طرف سے ناہوئی تو مالا نے رائے دی کہ کیوں نہ عاجل کی شادی کر دی جائے۔ وہ اکیلا دھامن گاؤں میں رہتا ہے۔ گھر گرہستی کا اس کو آرام ہو جائے گا۔ طے یہ پایا کہ اب کے جب وہ چھٹی پر گھر آئے تو اسے شادی کے لئے آمادہ کیا جائے۔ اسی رات صندل عبادت والے کمرے میں آ گئی تو اس کا دل بڑا ہی بھرا ہوا تھا۔ وہ سجدے میں سر رکھ کر خوب روئی۔ پربھو، مجھے شادی نہیں کرنی۔ مجھے اپنے در کی جوگن بنا لو۔ میرے دل سے اس کی محبت نکال دو۔ تھوڑی دیر بعد جب اس کا دل کچھ ہلکا ہوا تو اس نے سجدے سے سر اٹھایا اسے یوں لگا جیسے اس کے سامنے سلطان بابا کھڑے ہیں۔ اس نے جونہی ان کی جانب دیکھا ان کی آنکھوں سے تیز روشنی کی شعاع نکل کر اس کی آنکھوں میں داخل ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے دیکھا کہ سلطان بابا کے آگے ہاتھ باندھ کر ادب کے ساتھ کھڑی ہے۔ سلطان بابا نے فرمایا۔”صندل تم کیا چاہتی ہو؟”صندل بولی،”سرکار، میں اس حقیقت کو جاننا چاہتی ہوں جو میری عقل و شعور کی پہنچ سے بہت دور ہے۔ اس رب کی کھوج لگانا چاہتی ہوں جو ازل میں مجھے جنم دے کر میری آنکھوں سے چھپ گیا ہے۔”سلطان بابا بولے،”صندل جانتی ہے تو کس بات کی خواہش کر رہی ہے؟”صندل بولی،”مہاراج میں خوب اچھی طرح سے اپنی آتما کے تقاضے کو جانتی ہوں۔”سلطان بابا بولے،”پھر آ ہمارے قریب آ جا۔”

                صندل مٹی کا بت بنی ٹک ٹکی باندھے اپنی آنکھوں کے سامنے یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ وہ سلطان بابا کے بلانے پر ان کے قریب تر آ گئی۔ اس وقت اس نے دیکھا کہ سلطان بابا کے بائیں ہاتھ میں پوجا کی تھالی ہے جس کے اندر سیندور ہے۔ سلطان بابا نے داہنے ہاتھ کے انگوٹھے پر تھالی سے سیندور لگایااور صندل کے ماتھے پر تلک لگا دیا۔ صندل کے ماتھے پر سیندور سے جوگن لکھا گیا۔ صندل نے سلطان بابا کے قدم چوم لئے۔ سلطان بابا نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگے،”صندل آج سے ہم تجھے ایک کام سونپتے ہیں۔”صندل کے ذہن میں سلطان بابا کی فرمانبرداری کے سوا اور کوئی خیال نہ تھا۔ سلطان بابا کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک حرف اس کے دل کی گہرائی میں داخل ہو رہا تھا۔

                یہ کہہ کر کہ ہم تجھے ایک کام سونپتے ہیں۔ سلطان بابا نے صندل کا ہاتھ پکڑا اور سامنے دیوار کے اندر سے باہر نکل گئے۔ وہ دونوں بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اان کی آن میں عالم جنات میں پہنچ گئے۔ صندل یہاں سے واقف تھی۔ عالم جنات کے شہر پناہ کے دروازے پر ایک قوی ہیکل عفریت گارڈ تھا۔ سلطان بابا نے کارڈ دکھایا۔ اس نے سر قدرے خم کرتے ہوئے اندر جانے کا اشارہ کیا۔ سلطان بابا اور صندل اب ایک عمارت کے دروازے پر پہنچے۔ یہ ایک مثلث شکل کی عمارت تھی جو دیکھنے میں بہت مضبوط نظر آتی تھی۔ سلطان بابا دروازے پر رکتے ہوئے بولے۔”صندل یہ جنوں کے بچوں کا اسکول ہے۔ یہاں وہ بچے پڑھتے ہیں جو شرارت کی وجہ سے دوسرے اسکولوں سے نکالے ہوئے ہیں۔ تجھے ان بچوں کو ادب سکھانا ہو گا۔ اتنے میں دروازہ کھلا۔ ایک خوفناک صورت کے بہت بڑے جن نے دروازہ کھولا۔ اس کے ہاتھ میں انگارے کی طرح کا سرخ دہکتا ہوا ایک موٹا سا ڈنڈا تھا۔ جسے دیکھ کر ایک لمحے کے لئے صندل کو دہشت سی محسوس ہوئی۔ مگر اگلے لمحے ہی سلطان بابا کی موجودگی کے خیال نے اسے پرسکون کر دیا۔ وہ دونوں ایک کمرے میں داخل ہوئے ، یہ آفس تھا۔ یہاں میز کے ارد گرد چند کرسیاں پڑی تھیں۔ اور کرسی پر ایک لحیم شحیم جن بیٹھا تھا۔ سلطان بابا نے اس سے ہاتھ ملایا۔ اور صندل کا تعارف کرایا۔ اور کہا کہ یہ ان بچوں پر اتالیق مقرر کی جاتی ہیں۔ پھر صندل سے کہا ان کا نام عزا ہے۔ یہ اس اسکول کے ہیڈ ہیں۔ تمہیں بچوں کی تعلیم میں جس چیز کی ضرورت ہو یہ تمہارے ساتھ پورا تعاون کرینگے۔ آج تم ان کے ساتھ اسکول کا جائزہ لے لو۔ کل سے تمہاری ڈیوٹی شروع ہو جائے گی۔ سلطان بابا وہیں آفس میں ہی بیٹھے کچھ فائلیں دیکھنے لگے اور صندل عزا کے ساتھ اسکول کا جائزہ لینے نکل گئی۔ اسے یہ دیکھ کر بڑا عجیب لگا کہ اس مثلث شکل کی عمارت میں ہر کمرہ مثلث کی صورت ہے۔ ہر کلاس روم تکونہ تھا۔ ہر کلاس روم کے دروازے پر مضبوط لوہے کی جالی کا ڈبل دروازہ تھا اور اس پر ایک گارڈ متعین تھا۔ یہ اسکول نہیں بلکہ جیل خانہ لگتا تھا۔ ان جالیوں سے اس نے ہر کلاس روم کے اندر جھانکا ان بچوں کی آنکھوں سے ہیبت اور درندگی کے شرارے نکل رہے تھے۔ اس نے ایک گہرا سانس لیا اور آفس میں واپس آئی۔ سلطان بابا نے پوچھا۔”تم اسکول دیکھ آئیں؟بچوں کو دیکھا؟”صندل نے ادب کے ساتھ جواب دیا۔”سرکار ، میں نے دیکھ لیا۔”سلطان بابا نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور آشیر باد دی۔”اللہ تمہیں تمہارے مقصد میں سرخرو کرے بیٹی۔”پھر انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑ کے ایک قدم اٹھایا اور دوسرے قدم پر وہ اسی کمرے میں موجود تھی۔ اس نے اپنے رب سے دعا کی کہ بھگوان اسے حق کے راستے پر ثابت قدم رکھے۔


 


Jogun

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


روح کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ روح عورت یا مرد ہوتی ہے۔ روح روح ہوتی ہے اور کیونکہ روح صرف روشنی ہوتی ہے اور روشنی کے لئے حد بندیاں قائم نہیں کیں جا سکتیں۔ روشنی ہر جگہ ہے۔ روشنی کے لئے در و دیوار معنی نہیں رکھتے۔ روشنی ٹائم اور اسپیس سے آزاد ہے۔ جب کوئی مرد یا عورت روح سے واقف ہو جاتی ہے تو اس کے اوپر سے ٹائم اور اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ ہزاروں سال پہلے کے واقعات اور ہزاروں سال بعد کے آنے والے واقعات کو دیکھ لیتا ہے۔ چونکہ ماضی، حال، مستقبل اس کے سامنے آ جاتا ہے اس لیے وہ اس بات سے واقف ہو جاتا ہے کہ کائنات میں اللہ کے علاوہ کسی کی حاکمیت نہیں ہے اور جب کوئی بندہ اللہ کی حاکمیت یقین کے ساتھ قبول کر لیتا ہے تو اس کر اندر سے غم و پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں اور وہ سکون کے گہوارے میں محو خرام ہو جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سعیدہ خاتون عظیمی کی اس کاوش کو عوام الناس کے لئے مقبول بنائے اور جو لوگ اس کتاب کا مطالعہ کریں ان کے ادراک و فہم میں جلا بخشے۔

                آمین

خواجہ شمس الدین عظیمی

مرکزی مراقبہ ہال

سرجانی ٹاؤن، کراچی