Topics
چودھرائن
کی وفات کے بعد ٹھاکر صاحب بالکل اکیلے سے ہو کر رہ گئے۔ وہ اپنا وقت زیادہ تر
کمرے میں گزارتے۔ صندل سے وہ بے انتہا پیار کرتے تھے۔ ایک رات صندل اپنے باپو کے
پاؤں دبا رہی تھی کہ ٹھاکرصاحب بولے،”صندل بدن سے آتما نکلتی ہے تو کیسا لگتا ہے؟”صندل
اس غیر متوقع سوال پر چونک پڑی۔ اس کے اندر اندیشے کی ایک سرد لہر سی دوڑ گئی۔ اس
نے کہا،”باپو ایسا لگتا ہے جیسے تن کے پنجرے میں بیٹھا ہوا پنچھی پنجرے کا در
کھلتے ہی پھر سے اڑ جائے۔”ٹھاکر صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولے تیری ماں
کے بعد اب سنسار میں دل نہیں لگتا ہے۔ میرے لئے پرارتھنا کرنا بیٹی۔”صندل بولی،”باپو،
بھگوان بڑا دیالو ہے۔ اس کا پیار سب سے اور سب کے لئے ہے۔”ٹھاکر صاحب بڑی گہری سوچ
سے باہر آ کر بولے،”اگر میں مر گیا تو تُو مجھ سے ملنے آئے گی؟”صندل کی آنکھوں سے
ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے۔ اس دن کے بعد صندل کا دل ٹھاکر صاحب میں ہر وقت اٹکا رہنے
لگا۔ وہ اپنے باپو کا سارا کام خود کرتی ۔ ایک رات وہ صندل دیوی والے کمرے میں
بیٹھی عبادت کر رہی تھی کہ اس کی پشت پر ہلکے سے کسی نے چھوا۔ اس نے گھبرا کر
آنکھیں کھول دیں۔ ٹھاکرصاحب کی روح مسکراتی ہوئی اس کے سامنے تھی۔ وہ جاتے ہوئے
بولے،”صندل بھگوان تیری رکھشا کرے، میں تیری ماں کے پا س جا رہا ہوں۔”یہ کہتے ہی
وہ نظر سے غائب ہو گئے۔ صندل دوڑتی ہوئی باپو کے کمرے میں آئی۔ دیکھا تو وہ ابدی
نیند سو رہے تھے۔ زندگی ایک سفر ہی تو ہے اس سفر میں کیسے کیسے موڑ آتے ہیں کسی کو
کیا پتہ اس راہ پر پہلی دفعہ ہی تو آدمی چل رہا ہے۔ پہلی دفعہ تو سب راستے انجان
ہوتے ہیں۔ ایک لمحے کی غلطی سے ریل پٹری سے اتر جاتی ہے۔ ماتا پتا کے دنیا سے جانے
کے بعد بھرا پراگھر صندل کو خالی خالی سا لگنے لگا۔ حویلی کے ہر کونے میں ان کی
یادوں کا خزانہ تھا۔ وہ جدھر نظر کرتی انہی کا کوئی نہ کوئی منظر زمین پر اتر آتا۔
سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے صندل کو ماتا پتا کا بھرپور پیار بھی ملا تھا۔ باپو کا
اس کی ٹھوڑی کے تل کو پیار کرنا اسے بار باریاد آتا۔ اس کا دل تڑپ اٹھتا۔ کاش ایک
بار پھر سے وہ زمانہ لوٹ آئے ان دنوں اسے شہباز بھی بہت یاد آنے لگا۔ مدتیں ہو
گئیں اسے دیکھے ہوئے۔ جانے وہ کیسا ہو گا؟ شہباز کے خیال کے ساتھ ہی اسے اپنے اندر
ایک اور صندل نظر آئی جوانی کی رعنائیوں سے بھرپور شوخ و چنچل حسینہ جس کے کومل
بدن پر شہباز حیا بن کر لپٹا ہوا تھا۔ اس شوخ و چنچل حسینہ نے اپنے یاقوت لبوں میں
سرخ آنچل کا کنارہ دباتے ہوئے کہا،”وہ دیوانہ بھلا کیسے مجھے بھول سکتا ہے؟”بے
ساختہ اس کے لبوں سے یہ الفاظ نکل گئے۔”نہیں ، نہیں کبھی نہیں بھول سکتا۔”
اچانک
اسے اپنے پیچھے سے کاجل کی آواز آئی۔”کیا نہیں بھول سکتا؟ صندل ، کس سے بات کر رہی
ہو؟”اس نے گھبرا کر پیچھے مڑ کر دیکھا اپنے جذبات چھپاتے ہوئے بولی،”کچھ نہیں
بھابھی ماں اور باپو یاد آ رہے تھے۔”کاجل نے اس کا سر پیار سے اپنے سینے سے لگا
لیا۔ بولی،”بھگوان کے کاموں کو کون روک سکتا ہے۔ صندل تُو تو ہم سب سے زیادہ
سمجھدار ہے۔”صندل کی بے قراری کا دھارا سلطان بابا کی جانب بہنے لگا۔ وہ بولی،”بھابھی!
میں سلطان بابا کی سمادھی سے ابھی ہو کر آتی ہوں۔”کاجل جانتی تھی کہ صندل کی آتما
کا تعلق سلطان بابا سے ہے۔ وہی کھینچ کھینچ کر اسے اپنے پاس بلاتے ہیں۔ سلطان بابا
کی مقناطیسی قوت صندل کی آتما کو لوہے کی طرح اپنی طرف کھینچتی رہتی ہے۔ کاجل نے پیار
سے صندل کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا،”جا تیری آتما کے قرار کی دوا سلطان بابا
کے پاس ہے۔”صندل نے اپنی اوڑھنی سے اچھی طرح اپنے سر اور جسم کو لپیٹا اور باہر
نکل آئی۔ آج اسے سب کی یاد آ رہی تھی ماں کی، باپو کی، شہباز کی، سلطان بابا کی،
آج سب کی یاد نے اسے ترپا رکھا تھا۔ وہ ابھی تھوڑی دور ہی گئی تھی کہ سامنے سے
خادم آتا دکھائی دیا۔ اس نے صندل کو دیکھ کر پوچھا۔”چھوٹی مالکن آپ کہاں جا رہی
ہیں؟”صندل بولی،”سلطان بابا کے مزار پر جا رہی ہوں۔”خادم بولا،”مالکن اجازت ہو تو
میں بھی ساتھ آ جاؤں؟”صندل بولی،”خادم چاچا! آپ کا من کرتا ہے تو ضرور آ جاؤ۔”خادم
ساتھ ہو لیا۔ راستے میں خادم کہنے لگا۔”چھوٹی مالکن یاد ہے آپ کو جب آپ اور کندن
بی بی اسکول سے روزانہ ادھر آتی تھیں۔ میں روز دیکھتا تھا کہ آپ کے ہاتھ میں خود
بخود پھولوں کا ہار آ جاتا اور آپ کسی کے گلے میں ڈال دیتیں۔”صندل بولی،”خادم
چاچا! پھولوں کا ہار مجھے ملنگ بابا دیتے تھے اور میں سلطان بابا کے گلے میں یہ
ہار پہنا دیتی تھی۔ مجھے خوب یاد ہیں وہ دن۔”خادم بولا،”چھوٹی مالکن آج آپ سلطان
بابا کے مزار پر حاضر ہوں تو میرا سلام بھی انہیں ضرور کہہ دینا، چھوٹی مالکن اصل
بات یہ ہے کہ دو تین دن سے ذرا پریشان ہوں۔”صندل نے چونک کر پوچھا۔”کیوں کیا بات
ہے خادم چاچا؟، آپ کو کسی نے کچھ کہا؟”خادم بولا،”چھوٹی بی بی ایسی تو کوئی بات
نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ دو تین دن ہوئے میں نے ایک خواب دیکھا ہے۔ اس خواب نے مجھے
پریشان کیا ہوا ہے۔”صندل بولی،”کیا دیکھا ہے؟”خادم بولا،”میں نے دیکھا کہ میں گھر
میں بیٹھا ہوں۔ اتنے میں دروازے پر بڑے زور کی دستک ہوتی ہے میں چونک کر اٹھ کھڑا
ہوتا ہوں اور جلدی سے دروازہ کھولتا ہوں۔ دو اجنبی آدمی سیاہ لباس پہنے دروازے پر
کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ قد میں بہت لمبے ہیں ۔ انہوں نے سیاہ چوغے سے پہن رکھے
ہیں۔ ان کی آنکھیں بہت روشن ہیں۔ دروازے کے باہر ایک بگھی نما گاڑی کھڑی ہے۔ وہ
لوگ اس کی طرف اشارہ کر کے کہتے ہیں۔”ہم آپ کو لینے آئے ہیں۔”پھر وہ دونوں میرے
دائیں بائیں آ کر میرے بازو تھام لیتے ہیں اور مجھے گاڑی میں بٹھا دیتے ہیں۔ بگھی
میں بالکل سفید گھوڑے جتے ہیں جو بہت خوبصورت ہیں۔ یہ گھوڑے انتہائی تیز رفتار سے
دوڑتے ہیں۔ ان کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ مجھے خوف آنے لگتا ہے۔ میں سہما ہوا سا
بیٹھا ہوں ۔ بگھی میں بھی وہ دونوں افراد مجھے تھامے ہوئے ہوتے ہیں۔ آن کی آن میں
گاڑی ایک مقام پر رکتی ہے۔ میں اس مقام کو دیکھتے ہی پہچان لیتا ہوں کہ یہ پہلا
آسمان ہے۔ یہ حد نگاہ تک چوڑے اک پردے نما دیوار ہے۔ اس دیوار میں ایک عظیم الشان
گیٹ لگا ہے۔ گاڑی گیٹ پر آ کر رکتی ہے۔ دونوں افراد گیٹ کے نگہبان سے کچھ کہتے
ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی نوٹ بک سی ہے جس میں میرے متعلق لکھا ہے۔ وہ اس
نگہبان کو دکھاتے ہیں ، وہ گیٹ کھول دیتا ہے۔ گاڑی اس گیٹ میں داخل ہوتی ہے اور
داہنی جانب اونچائی کی طرف جانے والے راستے سے تیزی سے گزر کر دوسرے آسمان پر
پہنچتی ہے۔ یہاں بھی اسی طرح پردے نما حد نگاہ تک چوڑی دیوار ہے جیسے گیٹ لگا ہے۔
ہم اسی طرح اندر داخل ہو کر پھر تیسرے آسمان پر پہنچتے ہیں ۔ اسی طرح چوتھے،
پانچویں اور چھٹے آسمان کے بعد ہم ساتویں آسمان پر پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں آ کر گاڑی
گیٹ پر جب کھڑی ہوتی ہے تو دونوں افراد مجھے بازو سے پکڑ کر نیچے اتارتے ہیں اور گیٹ
کے اندر موجود نگہبان کے حوالے کر دیتے ہیں۔ وہ نوٹ بک بھی اسے دے دیتے ہیں جس پر
میرا نام وغیرہ لکھا ہے۔ نگہبان مجھے اندر لے جاتا ہے اس کے بعد میری آنکھ کھل
گئی۔ چھوٹی مالکن! آنکھ کھلتے ہی سب سے پہلے مجھے خیال آیا وہ گاڑی والے افراد ملک
الموت تھے۔ یہ دونوں فرشتے مجھے لینے آئے تھے۔”صندل چپ چاپ بڑے انہماک سے خادم
چاچا کا خواب سن رہی تھی۔”وہ بولی،”خادم چاچا! مرنا تو ضروری ہے۔ مرنے سے ڈرنے
والے بھی مرتے ضرور ہیں۔ بھگوان نے آپ کو اونچے درجے میں پہنچانا ہے۔ آپ کو خوش
ہونا چاہئے۔”خادم بولا،”چھوٹی بی بی، جب سے یہ خواب دیکھا ہے موت کا خوف دل سے
نہیں جاتا۔ حالانکہ پہلے میں بالکل پروا بھی نہیں کرتا تھا۔ میرے لئے سلطان بابا
سے رحم کی درخواست کریں۔”صندل بولی،”خادم چاچا! باپو کے بعد تو آپ ہی میرے پتا
سمان ہیں۔ آپ کو تو بھگوان نے خواب میں سب کچھ دکھا بھی دیا ہے ۔ میری تو آپ کے
لئے یہی دعا ہو گی کہ بھگوان آپ کا سایہ ہمارے سروں پر سدا قائم رکھے۔”یہی باتیں
کرتے وہ سلطان بابا کے مزار پر پہنچ گئے۔ صندل نے قبر مبارک کی پائنتی میں کھڑے ہو
کر پہلے انہیں ادب سے پرنام کیا۔ پھر عقیدت و احترام کے ساتھ قبر کو چوما اور چپ
چاپ سلطان بابا کا دھیان لگا کر بیٹھ گئی۔ اس نے دیکھا قبر شریف درمیان سے کھل
گئی۔ سلطان بابا قبر میں بیٹھے دکھائی دیئے۔ اس نے انہیں جھک کر سلام کیا۔ صندل
بولی،”سلطان بابا! سب کچھ جانتے ہوئے بھی من کیوں بے قرار ہو جاتا ہے۔ ایک آدمی
اتنی ساری ڈوریوں سے کیوں بندھا ہوا ہے؟”سلطان بابا نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ
پھیرا اور بولے،”صندل بہت سی ڈوریوں سے مل کر ایک رسی بنتی ہے۔ تو نے قرآن میں
پڑھا ہے کہ اللہ فرماتا ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو۔ دنیا کے سارے
بندھن اللہ کی رسی کا ایک ایک دھاگہ ہیں جو بندہ اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ
پکڑ لیتا ہے اللہ کے ساتھ ساتھ دنیا کے بندھن بھی اس بندے کے ساتھ مضبوط ہو جاتے
ہیں۔ صندل تو جانتی ہے کہ اللہ کی رسی کیا ہے؟ اللہ کی رسی وہ اٹوٹ بندھن ہے جس کے
ساتھ کائنات اللہ کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ تیرا میرا تعلق بھی اسی اٹوٹ بندھن کے
ذریعے ہے۔ تیرے ماتا پتا ، تیری چاہت کا ہر رشتہ اسی رسی کا ایک دھاگہ ہے۔ اس رسی
کا نام محبت ہے۔ صندل اللہ کی محبت رسی کی طرح مضبوط ہے۔ دنیا کی محبت کے دھاگے
ملتے ہیں تو من ان کی کمزوریوں کو پہچان کر ان کے ٹوٹنے کے خوف میں بے قرار ہو
جاتا ہے۔ صندل جان لے کہ محبت اللہ کی صفت ہے۔ اللہ اپنی ذات و صفات میں کامل ہے۔
اپنے نفس کے ساتھ بندھے ہوئے ہر دھاگے کو اللہ کی رسی سے باندھ دے۔ سارے دھاگے
اللہ کی رسی کے ساتھ مل کر خود اسی طرح مضبوط ہو جائیں گے۔”صندل نے مراقبے میں
سلطان بابا کے قدم چومے اور بولی،”سلطان بابا، خادم چاچا پر نظر کرم کر دیجئے۔”سلطان
بابا بولے،”جس پر اللہ کی نظر کرم ہوتی ہے اسے اپنی زندگی میں نیک کام کرنے کے
مواقع ملتے رہتے ہیں تا کہ نیک اعمال کے ذریعے اس کی آتما میں نور کا ذخیرہ زیادہ
سے زیادہ ہو جائے۔ جس کے اندر جتنا زیادہ نور جذب ہو گا اس کی آتما اتنی زیادہ
اللہ سے قریب ہو گی۔ خادم کی تو ساری زندگی سیوا میں گزری ہے۔ دوسروں کی سیوا کرنے
والے کا دھیان اپنے نفس کی جانب نہیں ہوتا۔ ان کے نزدیک اللہ کے ہاں خادم کا بڑا
درجہ ہے۔”یہ کہہ کر سلطان بابا نے ایک چھوٹا سا کاغذ کا پرزہ صندل کو دیا ۔ بولے،”خادم
سے کہنا اسے اپنے ساتھ رکھے۔”پھر سلطان بابا نے فرمایا۔”صندل قدرت تجھ سے اب ایک
اور کام لینا چاہتی ہے۔ عالم جنات میں تیری خدمات کے چرچے عالم بالا تک پہنچ گئے
ہیں۔ اس کام کی ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے تجھے تین دن تک اعتکاف میں بیٹھنا ہو
گا۔ تین دن کا برت رکھنا ہو گا۔ صندل دیوی والے کمرے سے باہر نہ نکلنا۔ تجھے وہیں
پر اس کام کی تمام تفصیلات بتائی جائیں گی۔ اللہ تجھ پر رحم کرے۔ بھگوان تیری
رکھشا کرے۔ جا تو سدا شاد رہے۔”یہ کہہ کر سلطان بابا نے صندل کو چمکتی پیشانی پر
پیار کیا۔ صندل نے آنکھیں کھولیں تو اس کی گود میں کاغذ کا پرزہ تھا۔ اس پر آڑی
ترچھی لکیروں کی زبان میں عجیب و غریب عبارت درج تھی۔ صندل نے غور سے ایک لمحے اسے
دیکھا۔ وہ پہچان گئی کہ یہ فرشتوں کی تحریری زبان میں ہے یہ آسمانوں میں داخلے کا
پروانہ ہے۔ اس نے قبر شریف کی مٹی عقیدت کے ساتھ اپنے ماتھے پر لگائی اور خادم کو
سلطان بابا کو کاغذ دیتے ہوئے کہا ۔ “اسے اپنے ساتھ رکھنا”۔ خادم نے نہایت عقیدت و
احترام کے ساتھ اسے چوما اور اسے اپنے پاس رکھ لیا۔ دونوں گھر لوٹ آئے۔ دوسرے دن
سے صندل نے تین دل کا برت رکھا اس نے کاجل کو سلطان بابا کی ساری بات بتادی اور
کہہ دیا کہ میں تین دن کے لئے صندل دیوی والے کمرے میں اعتکاف کروں گی۔ آپ لوگ
میرا انتظار نہ کرنا اور نہ ہی مجھے بلانا۔ اس نے اشنان کیا۔ سفید صاف ستھرے کپڑے
پہنے کہ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی اس نے کمرے کا دروازہ کھولا تو خادم چاچا
تھے۔ وہ بولی،”خادم چاچا! آؤ اندر آ جاؤ۔”خادم بولا،”چھوٹی مالکن! آپ اعتکاف میں
بیٹھ رہی ہیں۔ میرے لئے بھی دعا کرنا۔ مجھ سے کوئی خطا ہو گئی ہو تو بھگوان کے لئے
معاف کر دینا۔”صندل مسکرائی،بولی،”خادم چاچا! آپ تو بزرگ ہیں۔ بزرگ بچوں سے ایسی
بات نہیں کرتے۔ معافی تو مجھے مانگنی چاہئے۔ آپ نے بچپن سے میری ہر طرح سے خبر
گیری کی ہے۔ بھگوان آپ کو اس کا بہترین اجر دے گا۔”خادم چاچا نے اسے ہاتھ جوڑ کر
پرنام کیا اور چلے گئے۔ صندل عبادت والے کمرے میں چلی آئی۔ اس نے سلطان بابا کے
بتائے ہوئے اللہ کے ناموں کا ورد کیا اور پھر اللہ کے دھیان میں بیٹھ گئی۔ وہ بہت
دیر تک بیٹھی رہی۔ تمام وقت اسے یہی محسوس ہو تا رہا جیسے وہ نور کی فضا میں تیر
رہی ہے۔ سوائے نور کے کچھ نہیں ہے۔ نور ہی اس کی سانس کے ساتھ اندر باہر آ جا رہا
ہے۔ نور جب سانس کے ساتھ اس کے حلق میں پہنچتا ہے تو ایک شیرینی اس کے منہ میں گھل
جاتی ہے۔ جب سینے میں پہنچتا ہے تو خوشگوار ٹھنڈک سی محسوس ہوتی ہے۔ جب ہوا کے
جھونکے کی طرح اس کے بدن کو چھوتا ہے تو اس کے بدن کارواں رواں انگڑائی لے کر جاگ
اٹھتا ہے۔ گھنٹوں وہ نور کے تصور میں بیٹھی رہی۔ اللہ کے نور کے سوا اس کے ذہن سے
ہر شے کا خیال مٹ گیا۔ کبھی اسے یوں محسوس ہوتا جیسے نور کی شعاعیں ڈوری کی طرح اس
کے بدن سے لپٹتی جا رہی ہیں۔ مگر بدن سے لپٹتے ہی یہ نور اس کے جسم کے اندر اتر
جاتا۔ اسے اپنے اندر بے پناہ قوت محسوس ہوتی۔ دو دن تک مسلسل نور کی فضا میں بیٹھی
رہی۔ آنکھیں کھولنے پر بھی اسے کمرے کی ہر شے نور کی بنی ہوئی دکھائی دیتی۔ خود اس
کا اپنا جسم بھی نور کا ایک ہیولا دکھائی دیتا۔ تیسرے دن صبح کے وقت اچانک اس کی
نظر کے سامنے حویلی کا ایک کمرا آ گیا۔ وہ اپنی جگہ پر بالکل ساکت بیٹھی تھی۔ اس
کی کھلی ہوئی آنکھیں اپنے سامنے ایک جانب لگی ہوئی تھیں۔ اسی دھیان میں اس نے
دیکھا کہ حویلی کے ایک کمرے میں خادم چاچا داخل ہوئے۔ وہ کچھ گبھرائے ہوئے سے لگے۔
انہوں نے کمرے میں داخل ہوتے ہی زور سے مالکن جی، مالکن جی، پکارنا شروع کر دیا۔
دو تین دفعہ زور کی آواز لگانے کے بعد وہ دھم سے زمین پر گر پڑے اور بیہوش ہو گئے۔
آواز سن کر مالا دوڑتی ہوئی آئی۔ خادم کو زمین پر پڑا دیکھ کر اس نے زور زور سے
کاجل اور راہول کو آوازیں دینی شروع کر دیں۔
اسی
وقت سارا گھر خادم چاچا کے ارد گرد جمع ہو گیا۔ خادم کے منہ پر پانی ڈالا گیا مگر
وہ ہوش میں نہ آئے وید جی بلائے گئے۔ وہ فوراً آ گئے۔ خادم کی نبض دیکھی۔ اس کی
آنکھوں کے بند پپوٹوں کے اندر جھانکا، کوئی جڑی بوٹی ان کی ناک کے پاس رکھ کر
سنگھائی، پھر وہ بوٹی کاجل کے ہاتھ میں پکڑا دی ۔بولے،”بہورانی! تھوڑی تھوڑی دیر
میں یہ بوٹی سنگھاتے جاؤ اور بس اب پرارتھنا کرتے ہو۔ بھگوان اپنی لیلا دکھا دے تو
اس سے کچھ بھی دور نہیں ہے۔ اب یہ دوا کے نہیں رہے۔”سارے گھر والے آس پاس بیٹھ کر
ہاتھ اٹھا کر خادم کے لئے دعائیں کرنے لگے۔ صندل نے دیکھا کہ سیاہ لباس سر سے پاؤں
تک پہنے ہوئے چار لمبے قد کے آدمی خادم کے کمرے کی دیوار سے اندر داخل ہوئے۔ بالکل
اس طرح جیسے یہ دیوار نہیں بلکہ دھند کا ایک پردہ ہے۔ صندل انہیں دیکھتے ہی پہچان
گئی کہ یہ ملک الموت ہیں۔ چاروں اشخاص خادم کے چاروں سمت میں دائیں بائیں ، سرہانے
اور پائنتی کی جانب کھڑے ہو گئے۔ چاروں کے چہروں پر سیاہ ماسک تھا اور ہاتھوں میں
سیاہ دستانے تھے۔ صرف آنکھیں دکھائی دیتی تھیں۔ انکی آنکھیں انتہائی روشن اور تیز
تھیں۔ ان چاروں نے بیک وقت خادم کو گھورنا شروع کر دیا۔ اس وقت خادم زمین پر چت
لیٹا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ صندل نے دیکھا کہ چاروں فرشتوں کی آنکھوں سے
انتہائی تیز اور شفاف روشنی کی ایک شعاع نکل کر خادم کے دل کے مقام پر پڑ رہی تھی۔
اور چاروں شعاعیں اکٹھی مل کر خادم کے سینے کے اندر دل میں داخل ہو رہی ہیں۔ صندل
کو محسوس ہوا کہ فرشتوں کی ان روشنیوں میں بے پناہ مقناطیسی کشش ہے۔ جیسے جیسے
روشنیاں خادم کے دل میں بھرتی جا رہی ہیں۔ ویسے ویسے ان روشنیوں کی مقناطیسی کشش
خادم کے جسم کے اندر سرائیت کرتی جا رہی ہے۔ یہ مقناطیسی قوت خادم کے پاؤں کی جانب
بڑھ رہی ہے اور پھر خادم کے پاؤں سے روشنیاں نکل کر نہایت آہستہ آہستہ خادم کے
سینے کی جانب بڑھتی جاتی ہیں۔ یہ سارا عمل نہایت ہی سست رفتاری کے ساتھ ہو رہا
تھا۔ صندل جان گئی کہ فرشتے خادم کی جان نکال رہے ہیں۔ تقریباً دو گھنٹے بعد خادم
کے جسم سے ساری روشنیاں سمٹ کر اس مرکز پر پہنچ گئیں جس مقام پر چاروں فرشتوں کی
روشنیوں کی شعاعیں اکٹھی ہو رہی تھیں۔ خادم کے سینے پر ایک چوکور کھڑکی کھل گئی۔
اس کھڑکی سے خادم کا روشنیوں کا جسم مثالی آہستہ آہستہ باہر آنے لگا۔ چاروں فرشتے
اس جسم مثالی کے بالکل ہی قریب تھے۔ چاروں فرشتوں کے ہاتھ اس جسم مثالی کو اس طرح
سنبھالے ہوئے تھے جیسے دائی پیدا ہونے والے بچے کو آہستہ آہستہ ماں کے جسم سے باہر
نکالتی ہے۔ صندل کا دل اندر ہی اندر خادم سے مخاطب ہوا۔”خادم چاچا، مبارک ہو، آپ
کے خاکی جسم نے ایک نئے جسم کو جنم دیا ہے۔”ا س کے ساتھ ہی ایک لمحے کو صندل کی
نظر نے دیکھا کہ خادم کا خاکی جسم انڈے کا خول ہے۔ اس انڈے میں سے جس طرح مرغی کا
بچہ خول کو توڑ کر باہر نکلتا ہے اسی طرح خادم کا روشنیوں کا جسم بھی اس کے دل کے
مقام پر کھلنے والی کھڑکی سے باہر نکل رہا ہے۔ صندل نے دیکھا کہ خادم کا روشنیوں
کا جسم نوزائیدہ بچے کی طرح نہایت ہی مضمحل اور کمزور ہے۔ اس کی آنکھیں بند ہیں۔
جسم سے باہر نکلتے ہوئے روشنیوں کے اس جسم نے نقاہت بھری آواز میں آہستہ آہستہ
پکارا۔”صندل دیوی۔ صندل دیوی”اس کی پکار پر صندل کا جسم مثالی آن کی آن میں خادم
کے کمرے میں پہنچ گیا اور خادم کے جسم مثالی کو بازو سے تھام کر جسم سے باہر
نکالنے میں مدد کرنے لگا۔ چاروں فرشتوں نے صندل کی طرف توجہ نہیں دی بلکہ ان کی
تمام تر توجہ اور نظر خادم کی جسم مثالی پر تھی۔ ان چاروں فرشتوں کی نگاہ ایک
نہایت اسپاٹ لائٹ کی طرح خادم پر تھی۔ جیسے ہی صندل نے خادم کا بازو تھام کر اسے
باہر نکالنے کی کوشش کی خادم صندل کے ہاتھ لے لمس کے ذریعے صندل کو پہچان گیا۔ اس
کے جسم مثالی کے چہرے پر کچھ سکون کے آثار نمایاں ہوئے اور خوف قدرے کم ہو ا۔ مگر
وہ اس قدر مضمحل تھا کہ نہ اس سے بولا جاتا تھا ، نہ آنکھیں کھول کر دیکھ سکتا
تھا۔ اس کے حواس پر نیم بیہوشی طاری تھی۔ جب وہ پوری طرح خاکی جسم سے باہر نکل گیا
تو چاروں فرشتوں نے اور صندل نے اسے اچھی طرح تھام لیا کیونکہ وہ اپنی نیم بیہوشی
کی وجہ سے چل نہ سکتا تھا۔ یہ سب خادم کو لے کر ایک سرنگ نما راستے میں چل پڑے۔
صندل خادم کے بازو کو آہستہ آہستہ سہلاتے ہوئے کہتی رہی۔”خادم چاچا آپ کا کشٹ ختم
ہوا، اب بھگوان آپ کو آرام کی زندگی دینے والا ہے۔”خادم نیم بیہوشی کی حالت میں
آنکھیں کھولنے کی کوشش کرتا ، وہ صندل کی آواز سن رہا تھا۔ کچھ کچھ سمجھ بھی رہا
تھا۔ مگر ابھی وہ دنیا اور اعراف کے حواس کے بیچ تھا۔ اس کی حالت اس وقت اعراف کے
بچے کی سی تھی۔ صندل اسے پیار سے سہلاتے ہوئے تسلیاں دیتی جاتی۔ فرشتے بھی اسے
نہایت ہی محبت کے ساتھ تھامے ہوئے تھے۔ کیونکہ ابھی خادم کے جسم مثالی کے جسمانی
اعضاء پوری طرح متحرک نہ تھے۔ سرنگ کے پار جیسے ہی پہنچے، اعراف کی خوبصورت فضا نے
انہیں ہر طرف سے گھیر لیا۔ یہاں پر سامنے ہی خادم کے ماں باپ اور خادم کی منہ بولی
بہن شکنتلا کھڑی تھی۔ خادم کو دیکھتے ہی تینوں خوشی سے اس کی طرف لپکے۔ اسے گلے
لگایا، اسے چوما، ان سے ملنے کی خوشی نے خادم کے اندر نئی زندگی بھر دی۔ وہ بار
بار آنکھیں کھولنے کی کوشش کرتا بغیر سہارے کے کھڑا ہونے کی کوشش کرتا۔ یہ دیکھتے
ہی شکنتلا نے ہنستے ہوئے کہا۔”ارے خادم بھیا! آپ کے ملنے کی خوشی میں تو میں بھول
ہی گئی۔”پھر اس نے پاس کھڑے لڑکے کو اشارہ کیا۔ اس لڑکے نے ایک خوبصورت بلوری جگ
اور گلاس اٹھایا ہوا تھا۔ اس جگ میں زعفرانی رنگ کا شربت تھا۔ لڑکے نے جلدی سے وہ
شربت گلاس میں انڈیل کر شکنتلا کو دیا۔ شکنتلا نے خادم کے منہ سے وہ گلاس لگا
دیا۔بولی،”اسے پی لو۔ تم بالکل ٹھیک ہو جاؤگے۔”خادم نے مدہوشی کے سے عالم میں ایک
دو گھنٹ پئے۔ جیسے ہی یہ شربت اس کے اندر گیا ، جیسے بجلی کا کرنٹ سارے جسم میں
دوڑ گیا۔ اس نے فوراً آنکھیں کھول دیں ۔ اس کے چہرے کی زردی سرخی میں بدل گئی۔ وہ
پوری طرح ہوش میں آ گیا۔ سب کو دیکھتے ہی وہ خوشی سے ہر ایک سے لپٹ گیا۔ پھر وہ
صندل کی جانب متوجہ ہوا اور خوشی میں لہراتے ہوئے بولا،”صندل دیوی آپ بھی یہاں
ہیں؟”اس کے روئیں روئیں سے خوشی کی لہریں نکل رہی تھیں۔ چاروں فرشتوں نے اب خادم
کے بازوؤں اور کمر سے اپنے ہاتھ ہٹا لئے کیونکہ اب خادم پوری طرح ہوش و حواس میں
تھا اور اب وہ خود چل سکتا تھا۔ مگر انہوں نے ساتھ نہیں چھوڑا۔ دو فرشتے آگے چلتے
گئے اور دو دائیں بائیں آ گئے۔ باقی سب لوگ خادم کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ صندل نے
ایک فرشتے کو جو خادم کے آگے چل رہا تھا۔ سلطان بابا کا وہ کاغذ دیا جو انہوں نے
خادم کے لئے لکھا تھا۔ یہ پرزہ اسے خادم کے جسم کے پاس کمرے میں پڑا ہوا ملا تھا۔
فرشتے نے ایک نظر اس پر ڈالی اور بہت تیزی سے سب کے سب ایک مقام پر پہنچ گئے۔ یہ
بہت ہی حسین جگہ تھی ۔ دریا کے کنارے یہاں ایک خوبصورت بستی آباد تھی۔ اس بستی میں
داخل ہونے کے لئے خوبصورت گیٹ بنے تھے۔ اس گیٹ پر فرشتے کھڑے تھے۔ آگے والے فرشتے
نے سلطان بابا والا پرزہ اس فرشتے کے ہاتھ میں تھما دیا۔ اس نے ایک نظر دیکھا۔ سر
قدرے خم کرتے ہوئے ان فرشتوں کو ادب سے سلام کیا پھر خادم کو اور تمام لوگوں کو
اعراف میں آنے پر خوش آمدید کہا اور گھر کے دروازے تک خادم کو پہنچایا۔ خادم کے
ماں باپ اور شکنتلا اسے لے کر اندر چلے گئے۔ صندل نے دروازے سے ہی خادم کو خدا
حافظ کہا اور واپس لوٹ گئی۔ واپس وہ پھر حویلی کے اسی کمرے میں آئی۔ اس نے دیکھا
کہ خادم کی لاش کمرے میں چارپائی پر پڑی ہے۔ سفید چادر اس پر ڈھکی ہوئی ہے اور گھر
کے سب لوگ آس پاس بیٹھے ہیں۔ بس راہول وہاں نہیں ہے۔ مالا اور کاجل دونوں رو رہی
ہیں۔ اتنے میں کاجل روتے ہوئے مالا سے کہنے لگی،”دیدی! صندل کو تو بلا لو۔”مالا
بولی،”آج اس کے برت کا تیسرا روز ہے۔ بس اب تھوڑی ہی دیر رہ گئی ہے پھر اس کو بلا
لوں گی۔”یہ سن کر صندل واپس عبادت والے کمرے میں آئی۔ کمرے میں آتے ہی اس کی نظر
ملنگ بابا پر پڑی۔ جو پہلے ہی سے وہاں موجود تھے۔ ملنگ بابا نے صندل کے سر پر ہاتھ
رکھا۔ صندل کو اپنے جسم کے روئیں روئیں میں روشنی دکھائی دینے لگی جیسے بے شمار
روشنی کے ننھے ننھے قمقمے اس کے اندر جلنے لگے ہوں۔ ملنگ بابا اسے بازوؤں سے پکڑتے
ہوئے نہایت پیار سے بولے۔”صندل بڑے دربار سے تیری ڈیوٹی اب موت کے فرشتوں کے ساتھ
لگائی گئی ہے۔ فرشتوں میں انسانی حواس نہیں ہیں۔ فرشتے انسان کے جسمانی درد اور
تکلیف کو نہیں جانتے کیونکہ ان کے جسم مادی نہیں بلکہ نوری ہیں۔ وہ تکلیف کی روشنی
دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آدمی درد میں مبتلا ہے مگر درد کا احساس انہیں
نہیں ہے۔ اللہ اپنے بندوں پر نہایت ہی مہربان ہے وہ رنج و غم میں مبتلا اپنے کمزور
بندوں پر ایسے طاقتور بندے مقرر کر دیتا ہے جو مصیبت کے وقت ہی انہیں راحت و آرام
عطا کریں۔ آج سے بستی میں جس کی بھی موت آئے گی تجھے اس کے ساتھ اس وقت تک رہنا ہو
گا جب تک وہ اعراف میں اپنے ٹھکانے پر نہ پہنچ جائے۔ تیرے اندر اعراف کی تمام
روشنیاں کام کر رہی ہیں۔ جا اللہ چاہتا ہے کہ تو ان روشنیوں سے لوگوں کے اندھیرے
دور کرے۔”
صندل
نے ہاتھ جوڑ کر ملنگ بابا کو عقیدت سے پرنام کیا۔ ملنگ بابا بولے۔”تیرا برت پورا
ہو چکا ہے۔ اب جا اور خادم کے کریا کرم میں گھر والوں کا ساتھ دے۔”یہ کہا اور ملنگ
بابا غائب ہو گئے۔ اسی وقت صندل کا جسم مثالی روشنی کی شعاع کی طرح صندل کے جسم میں
سما گیا۔ اس نے اپنے رب کو شکر کے سجدے کئے اور کمرے سے باہر نکل کر سیدھی اس کمرے
میں پہنچی جہاں خادم کی لاش پڑی تھی۔ شام گہری ہو چکی تھی۔ چراغ کی روشنی میں
ماحول بڑا سوگوار دکھائی دیا ۔ مالا اور کاجل دونوں صندل سے لپٹ کر رونے لگیں۔
کاجل بولی،”صندل! خادم چاچا بھی ہم سے روٹھ گئے۔”مالا بولی،”راہول مسجد کے مولوی
کو خادم چاچا کی خبر دینے گیا ہے۔ تا کہ ان کے کفن دفن کا انتظام ہو ۔ محلے میں
بھی کہلوا دیا ہے۔ بس اب لوگ جمع ہو جائیں گے۔ مولوی صاحب کو کہلوادیا ہے کہ وہ سر
ہانے بیٹھ کر خادم چاچا کے لئے دعا پڑھتے رہیں۔ کاجل آہستہ سے صندل کے کان میں
بولی،”صندل رسوئی گھر میں تیرے لئے میں نے کھانے کی تھالی پروس کر رکھی ہے۔ جا
اپنا برت کھول لے۔”صندل نے آنسو اپنے آنچل سے صاف کرتے ہوئے کہا۔”بھابھی دل نہیں
کر رہا کچھ کھانے کو، بس تھوڑا سا پانی پی لیتی ہوں۔”مالایہ سن کر بولی،”پاگل نہ
بن، تین دن خالی پیٹ میں کچھ تو ڈالنا ہو گا ورنہ تو بیمار ہو جائے گی۔ جا چپ چاپ
جا کے کچھ کھا لے۔”صندل دونوں بھاوجوں کی محبت کے جذبے کو ٹال نہ سکی۔ وہ پلو سے
آنسو پونچھتی ہوئی رسوئی گھر کی جانب بڑھ گئی۔ خادم چاچا کے انجام کی کامیابی کو
جاننے کے باوجود بھی اس کا دل بھر آیا تھا۔ اسے بچپن سے لے کر اب تک کا ایک ایک
لمحہ یاد آ رہا تھا۔ جب ہر قدم پر خادم نے سارے گھر والوں کی دل و جان سے سیوا کی۔
بار بار اس کا دل کہتا۔”بھگوان! خادم چاچا کو ان کی سیوا کے صلے میں آخرت کے سارے
عیش دینا۔”
سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی
روح کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ روح عورت یا
مرد ہوتی ہے۔ روح روح ہوتی ہے اور کیونکہ روح صرف روشنی ہوتی ہے اور روشنی کے لئے
حد بندیاں قائم نہیں کیں جا سکتیں۔ روشنی ہر جگہ ہے۔ روشنی کے لئے در و دیوار معنی
نہیں رکھتے۔ روشنی ٹائم اور اسپیس سے آزاد ہے۔ جب کوئی مرد یا عورت روح سے واقف ہو
جاتی ہے تو اس کے اوپر سے ٹائم اور اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ ہزاروں سال
پہلے کے واقعات اور ہزاروں سال بعد کے آنے والے واقعات کو دیکھ لیتا ہے۔ چونکہ ماضی،
حال، مستقبل اس کے سامنے آ جاتا ہے اس لیے وہ اس بات سے واقف ہو جاتا ہے کہ کائنات
میں اللہ کے علاوہ کسی کی حاکمیت نہیں ہے اور جب کوئی بندہ اللہ کی حاکمیت یقین کے
ساتھ قبول کر لیتا ہے تو اس کر اندر سے غم و پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں اور وہ
سکون کے گہوارے میں محو خرام ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سعیدہ خاتون عظیمی کی اس کاوش کو عوام
الناس کے لئے مقبول بنائے اور جو لوگ اس کتاب کا مطالعہ کریں ان کے ادراک و فہم
میں جلا بخشے۔
آمین
خواجہ شمس الدین عظیمی
مرکزی مراقبہ ہال
سرجانی ٹاؤن، کراچی