Topics
پیش لفظ
تذکرہ غوثیہ میں غوث علی شاہ قلندر نے
ایک واقعہ قلم بند کیا ہے۔
حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی بیمار
ہوئے بیماری بڑھتی رہی علاج معالجہ سے فائدہ نہیں ہوا اور بیماری نے نزع کا عالم
اختیار کر لیا۔ ایک دن دروازے پر کسی نے دستک دی۔ ان کے بڑے بیٹے نے دروازہ کھولا
تو دیکھا ایک بزرگ کھڑے ہیں دعا سلام کے بعد بزرگ نے صاحبزادے کو ایک خط دیا اور
کہا کہ یہ اپنے والد کو دے دو۔ صاحبزادے خط لے کر شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی کی
خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ باہر بزرگ کھڑے ہیں انہوں نے یہ خط دیا ہے۔ حضرت
بہاء الدین زکریا ملتانی نے خط کھول کر پڑھا اور اپنے بیٹے سے کہا کہ جا کر ہمارا
سلام کہو اور ان سے یہ عرض کرو کہ آپ آدھے گھنٹے بعد تشریف لائیں۔ بزرگ یہ بات سن
کر چلے گئے اور حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی نے جو امانتیں ان کے پاس لوگوں نے
رکھوائی تھیں ان کے بارے میں اپنے بیٹے کو تفصیلات بتائیں ، یہ چیز فلاں صاحب کی
اور یہ رقم فلاں صاحب کی ہے وغیرہ وغیرہ۔ بیٹے سے کہا مجھے وضو کراؤ، وضو کرنے کے
بعد دو نفلیں ادا کیں اور آرام سے قبلہ رو ہو کر لیٹ گئے آنکھیں بند کیں اور اس
دنیا سے رخصت ہو گئے۔ کہرام مچ گیا، گھر والے رونے دھونے لگے ایک جم غفیر جمع ہو
گیا۔ تجہیز و تکفین کے بعد تدفین عمل میں آئی۔ تدفین سے فارغ ہونے کے بعد صاحبزادے
کو خیال آیا کہ ابا کے پاس ایک بزرگ آئے تھے اور ابا نے انہیں آدھے گھنٹے بعد
بلایا تھا، وہ بزرگ کون تھے؟ کہاں سے آئے تھے اور آدھے گھنٹے بعد کیوں نہیں آئے؟
پھر خیال آیا کہ بزرگ نے ایک خط بھی دیا تھا، تلاش کرنے سے خط تکیہ کے نیچے مل
گیا۔ خط پر یہ تحریر تھی کہ “آپ کی حضوری کا وقت آ گیا ہے تعمیل حکم کے لئے میں
حاضر ہوں، میرے لیے کیا حکم ہے؟ نیچے نام تھا عزرائیل۔ یہ بات تو فرشتوں کی ہوئی
یعنی جب کوئی بندہ اللہ کے یہاں مقبول ہو جاتا ہے اور خالق و مخلوق کا رشتہ مستحکم
ہو جاتا ہے تو کائنات کی ہر شے اللہ کے حکم سے اس کی تابع ہو جاتی ہے۔ انتہا یہ ہے
کہ ملک الموت بھی اجازت لے کر روح قبض کرتا ہے۔
دوسری مخلوق جو تذکرہ میں آتی ہے وہ
جنات ہیں۔ جنات کے بارے میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ سے بہت سارے واقعات منسوب
ہیں مثلاً یہ کہ ان کے مدرسہ میں جنات بھی پڑھتے تھے جن طالب علم شاہ عبدالعزیز
محدث دہلویؒ کی خدمت کرتے تھے، ہاتھ پیر دباتے تھے۔ جس طرح انسان شاگرد اپنے استاد
کی خدمت کرتے ہیں۔ یہ اس زمانے کا واقعہ ہے جب بجلی ہر جگہ نہیں پہنچی تھی۔ شاہ
عبدالعزیزؒ کے مدرسہ میں چراغ جلتے تھے ایک رات ایسا ہوا شاہ عبدالعزیزؒ کے پاس
بہت سارے شاگرد جمع تھے۔ ایک شاگرد ان کے پیر دبا رہا تھا۔ شاہ صاحب نے اس سے کہا “رات
کافی گزر گئی ہے اب جا کر آرام کرو اور جاتے ہوئے چراغ بجھا دینا۔”جو لڑکا پیر دبا
رہا تھا اس نے بیٹھے بیٹھے ہاتھ لمبا کیا اور ہاتھ لمبا ہوتا چلا گیا اور یہاں تک
کہ چراغ تک پہنچ گیا اور اس نے چراغ بجھا دیا ۔ دوسرے شاگرد بھی کمرے میں موجود
تھے یہ دیکھ کر وہ سہم گئے ۔ شاہ صاحبؒ نے اس لڑکے کو بہت ڈانٹا۔”بدتمیز لڑکے تم
نے اپنے آپ کو ظاہر کر دیا سب کو ڈرا دیا۔ خبردار! آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا۔”
ان دو واقعات کو تحریر کرنے کا مدعا
یہ ہے کہ انسان کو اللہ نے ایسی روحانی صلاحیتیں عطا کی ہیں کہ فرشتے اس کے آگے
جھکتے ہیں اور جنات بھی اس سے اکتساب فیض کرتے ہیں۔ جوگن ایک کہانی ہے جس کو حسن
ترتیب اور سلیقہ سے سعیدہ خاتون عظیمی نے لکھا ہے اور کہانی کی کڑیوں کو اس طرح
ایک دوسرے میں پیوست کیا ہے کہ قاری کہانی کے کرداروں میں گم ہو جاتا ہے۔ اس پوری
کتاب کا خلاصہ یہ ہے کہ عورت ہو یا مرد جب استاد کی شاگردی میں اپنی روح سے با خبر
ہو جاتا ہے تو روح کی یہ باخبری اسے کبھی آسمانوں میں پرواز کراتی ہے۔ کبھی وہ
دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک دیکھتا ہے۔ کبھی وہ مرنے کے بعد جو دنیا ہے اس
میں چلا جاتا ہے وہاں کے حالات دیکھتا ہے، واقعات سنتا ہے بلکہ وہاں کے لوگوں کی
دل جوئی بھی کرتا ہے۔ لوگوں تک اس دنیا کے ان کے عزیز و اقرباء کے پیغام پہنچانے
کا وسیلہ بھی بنتا ہے۔ کتاب پڑھ کر یہ تاثر ابھرتا ہے کہ انسان کا فی الواقع شرف
ہے کہ وہ اپنی روح سے واقف ہو۔ روح کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ روح عورت
یا مرد ہوتی ہے۔ روح روح ہوتی ہے اور کیونکہ روح صرف روشنی ہوتی ہے اور روشنی کے
لئے حد بندیاں قائم نہیں کیں جا سکتیں۔ روشنی ہر جگہ ہے۔ روشنی کے لئے در و دیوار
معنی نہیں رکھتے۔ روشنی ٹائم اور اسپیس سے آزاد ہے۔ جب کوئی مرد یا عورت روح سے
واقف ہو جاتی ہے تو اس کے اوپر سے ٹائم اور اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ
ہزاروں سال پہلے کے واقعات اور ہزاروں سال بعد کے آنے والے واقعات کو دیکھ لیتا
ہے۔ چونکہ ماضی، حال، مستقبل اس کے سامنے آ جاتا ہے اس لیے وہ اس بات سے واقف ہو
جاتا ہے کہ کائنات میں اللہ کے علاوہ کسی کی حاکمیت نہیں ہے اور جب کوئی بندہ اللہ
کی حاکمیت یقین کے ساتھ قبول کر لیتا ہے تو اس کر اندر سے غم و پریشانیاں ختم ہو
جاتی ہیں اور وہ سکون کے گہوارے میں محو خرام ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سعیدہ خاتون عظیمی کی اس
کاوش کو عوام الناس کے لئے مقبول بنائے اور جو لوگ اس کتاب کا مطالعہ کریں ان کے
ادراک و فہم میں جلا بخشے۔
آمین
خواجہ
شمس الدین عظیمی
مرکزی مراقبہ ہال
سرجانی ٹاؤن، کراچی
سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی
روح کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ روح عورت یا
مرد ہوتی ہے۔ روح روح ہوتی ہے اور کیونکہ روح صرف روشنی ہوتی ہے اور روشنی کے لئے
حد بندیاں قائم نہیں کیں جا سکتیں۔ روشنی ہر جگہ ہے۔ روشنی کے لئے در و دیوار معنی
نہیں رکھتے۔ روشنی ٹائم اور اسپیس سے آزاد ہے۔ جب کوئی مرد یا عورت روح سے واقف ہو
جاتی ہے تو اس کے اوپر سے ٹائم اور اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ ہزاروں سال
پہلے کے واقعات اور ہزاروں سال بعد کے آنے والے واقعات کو دیکھ لیتا ہے۔ چونکہ ماضی،
حال، مستقبل اس کے سامنے آ جاتا ہے اس لیے وہ اس بات سے واقف ہو جاتا ہے کہ کائنات
میں اللہ کے علاوہ کسی کی حاکمیت نہیں ہے اور جب کوئی بندہ اللہ کی حاکمیت یقین کے
ساتھ قبول کر لیتا ہے تو اس کر اندر سے غم و پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں اور وہ
سکون کے گہوارے میں محو خرام ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سعیدہ خاتون عظیمی کی اس کاوش کو عوام
الناس کے لئے مقبول بنائے اور جو لوگ اس کتاب کا مطالعہ کریں ان کے ادراک و فہم
میں جلا بخشے۔
آمین
خواجہ شمس الدین عظیمی
مرکزی مراقبہ ہال
سرجانی ٹاؤن، کراچی