Topics

شیطان کا جال


                شہباز کی حالت یہ تھی کہ صندل کے لئے اندھے کنویں میں بھی چھلانگ لگا سکتا تھا۔ وہ جنگل میں اسی مقام پر پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ آگ کا ایک الاؤ جل رہا ہے اور اس الاؤ کے ارد گرد عورتیں رقص کر رہی ہیں۔ اس کے ذہن میں ایک دم خیال آیا کہ عزا شیطان ہے اور شیطان نے مجھے اپنے چنگل میں پھنسانے کا جال بچھایا ہے۔ وہ بآواز بلند قرآنی آیات پڑھنے لگا۔ پہلے تو وہ ساری عورتیں ا س کی جانب لپکیں مگر قرآن کی آواز سن کر وہیں ٹھٹک گئیں اور پھر کچھ دیر بعد غائب ہو گئیں۔ شہباز نے سلطان بابا کو پکارا اور ان کی جانب دھیان لگا کر بیٹھ گیا۔ اسے سلطان بابا کی موجودگی کا احساس ہوا اور مراقبہ میں سلطان بابا اس کے سامنے آ گئے۔ سلطان بابا نے آتے ہی اسے کہا،”شیطان عزا سے بچ کر رہو۔ صندل کے والد کے روپ میں بھی عزا ہی تھا۔ وہ تمہیں اپنے چنگل میں پھنسانا چاہتا ہے۔”

                شہباز بولا،”سلطان بابا،صندل میری رگ رگ میں سما چکی ہے۔ وہ میری روح، میری جان ہے۔ اب اسے میں اپنے سے الگ نہیں کر سکتا۔ مجھے صندل کا پتہ بتا دیں۔”

                سلطان بابا بولے،”بالک انتظار کر۔ جوگن کا سنجوگ اسی سے ہو گا جس کا اس نے جوگ لیا ہے۔”

                شہباز یہ سن کر ان کے قدموں میں جھکا۔ اسی وقت سلطان بابا غائب ہو گئے۔ مراقبہ سے نکل کر شہباز اسی درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔ اس کے دل سے آواز آئی اب یہی تیرا مسکن ہے۔ شہباز صندل کے تصور میں بیٹھ گیا۔ نہ اسے کھانے کا ہوش تھا نہ پینے کا ہوش۔ جنگل کا یہ حصہ بہت گھنا تھا۔ اسے بیٹھے ہوئے ایک ہفتہ گزر گیا۔ اس ایک ہفتے میں نہ اس نے کچھ کھایا نہ پیا۔ بس دن رات صندل کے تصور میں آنکھیں بند کئے بیٹھا رہتا۔ اس پر بے خودی کی کیفیت طاری تھی۔ ایک ہفتے بعد اس کا غلبہ کم ہوا۔ تو اس نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا اژدھا اس کے چاروں طرف کنڈلی مارے بیٹھا ہے۔ خوف سے اس کا بدن سن ہو گیا۔ اژدھے نے اپنا منہ اندر چھپا لیا۔ تب اس کے ذہن میں خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس اژدھے کو میری حفاظت کے لئے بھیجا ہے۔ اتنے دن اس نے مجھے اپنے حصار میں رکھا کہ میں کسی جنگل جانور کا لقمہ نہ بن جاؤں اورمیں اسی سے خوف کھا رہا ہوں۔ وہ آہستہ سے اٹھا اور پھلانگ کر اس کے حصار سے باہر آ گیا۔ اسے خود اپنی حالت پر حیرانی ہو رہی تھی۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کسی گہرے خواب سے جاگا ہے۔ اس نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا تو داڑھی بڑھی ہوئی تھی۔ تب اسے اندازہ ہوا کہ وہ کئی دن اسی حالت میں رہا ہے۔

                اب پھر اسے صندل کا خیال آیا۔ کون جانتا ہے کہ وہ کس حال میں ہو گی۔ اس کے دل سے دعا نکلی کہ یا اللہ صندل کو حفاظت سے رکھنا۔ وہ تیرے باغ کا ایک نازک پھول ہے۔ اسے کانٹوں سے بچا کر رکھنا۔ اس نے دیکھا کہ درختوں کی چوٹی پر شاخوں سے ایک خوبصورت جال بنا ہوا ہے۔ وہ دیکھتا رہ گیا۔ واہ کیا شان خداوندی ہے۔ اس کے دل نے داد دی۔ ابھی وہ اوپر دیکھ ہی رہا تھا کہ نہایت ہی تیزی کے ساتھ ایک لچکتی ہوئی ڈالی نیچے آئی اور شہباز کی کمر کے گرد لپٹ گئی۔ پھر جس تیزی سے اوپر سے نیچے آئی تھی اسی تیزی سے اوپر درخت کی چوٹی پر پہنچ گئی۔ آناً فاناً شہباز بھی ڈالیوں کے حلقوں میں پہنچ گیا۔ ابھی وہ سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ حلقوں سے اسے کچھ سرگوشی کی سی آواز آئی اور حلقے تنگ ہونے لگے۔ شہباز گھبرا گیا اور بیساختہ پکار اٹھا،”سلطان بابا۔”

                سلطان بابا کا نام لیتے ہی شہباز کے گرد درخت کی شاخوں کے حلقے سکڑنے بند ہو گئے اور نہایت تیزی کے ساتھ پھر اسی طرح ڈالی کے ذریعے زمین پر اترآیا۔ جیسے وہ زمین پر آیا سلطان بابا سامنے کھڑے تھے۔ وہ شہباز کا ہاتھ پکڑ کر ان درختوں کے جھرمٹ سے دور لے گئے۔ شہباز نے سلطان بابا کا شکریہ ادا کیا۔ سلطان بابا بولے،”بالک بیٹھ جا!”ان کے یہ کہتے ہی شہباز کی پوری توجہ سلطان بابا کی جانب ہو گئی۔ وہ فوراً بیٹھ گیا اور پوری توجہ سے سلطان بابا کی بات سننے لگا۔

                سلطان بابا بولے،”بالک غور سے سن، یہ جنگل خیالات کا تانا بانا ہے۔”سلطان بابا کی آواز شہباز کو اپنے حواس کی گہرائی میں اترتی محسوس ہوئی۔ درخت کی چوٹی پر بننے والے تانے بانے اللہ کے مخصوص بندوں کے ہیں۔ انہیں اپنے معاملات میں کسی اجنبی کی مداخلت قبول نہیں ہے۔ ورنہ وہ اس کی جسمانی ساخت کو ختم کر دیتے ہیں۔ تم خیالات کے عالم کو دیکھ چکے ہو۔ ہر ڈیزائن خیالات کے معنی و مفہوم کا ایک خاکہ ہے۔ تمہیں اس جنگل میں محتاط رہ کر گھومنا ہے۔”یہ کہہ کر سلطان بابا نے شہباز کی آنکھوں میں غور سے دیکھا۔ سلطان بابا کی آنکھوں سے روشنی کی لہریں نکل کر شہباز کی آنکھوں میں داخل ہو گئیں اور سلطان بابا دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو گئے۔

                ان کے غائب ہونے پر شہباز اس کیفیت سے نکل آیا۔ اس نے جنگل پر ایک نظر ڈالی۔ اس نے محسوس کیا کہ اب اس کی نظر پہلے سے زیادہ صاف اور دور تک دیکھ سکتی ہے۔ اب اس کے کانوں میں سرگوشیوں کی آوازیں بھی زیادہ صاف آنے لگیں۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور نہایت محتاط انداز سے جنگل کی سیر کو روانہ ہوا۔ ڈالیوں سے بنے ہر ڈیزائن کو وہ غور سے دیکھتا رہا مگر سلطان بابا کی ہدایت کے مطابق انہیں چھیڑنے کی کوشش نہ کرتا۔ وہ سارا دن جنگل میں گھومتا رہتا اور رات کو کسی درخت کے نیچے پڑ کر سو رہتا۔ اس نے محسوس کیا کہ یہاں اگر تھوڑی سی بھی آنکھ لگ جاتی تو یوں لگتا جیسے بہت دن گزر گئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں بھوک پیاس کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ ہر وقت یہی خیال رہتا ہے جیسے روزہ رکھا ہے۔ مگر جسم کی توانائی کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اس خیال کے ساتھ ہی سلطان بابا کی نورانی شبیہ اسے اپنے اندر دکھائی دی۔ وہ جان گیا کہ سلطان بابا کی روشنیاں اس کی توانائی بن کر کام کر رہی ہیں۔ اس کا دل مرتبہ احسان سے لبریز ہو گیا۔ مگر اس کے ساتھ ہی صندل کی یاد نے اس کے اندر ہلچل مچا دی۔

                رات کا وقت تھا۔ جنگل میں عجیب سا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ کہیں سے سرگوشی کی کوئی آواز تک نہ تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے سارا جنگل سو رہا ہے۔ ویسے بھی اس جنگل میں سوائے درختوں کے کچھ اور تھا بھی نہیں۔ نہ پرندے، نہ جانور جو شور مچاتے۔ اس سندھیری رات میں ہو کے عالم میں شہباز کے اندر صندل کی یادوں کا ایک ہنگامہ مچا ہوا تھا۔ اس کے اند رصندل کا نام ایک پکار ایک چیخ بن کر گونجنے لگا۔ جتنا وہ اپنے دل کو سمجھاتا اتنا ہی اس کی چیخ بڑھتی جاتی۔ اس کے اوپر ایک وحشت سی طاری ہو گئی۔ وحشت کی نگاہ گھپ اندھیرے میں صندل کو ڈھونڈنے لگی۔ وہ جدھر دیکھتا صندل کا ایک رنگین جلوہ فضا میں لہراتا دکھائی دیتا۔ وہ دیوانہ وار اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ ان روشنیوں کے جلوؤں کے ساتھ ساتھ جنگل میں سرگوشیاں ابھرنے لگیں۔ آہستہ آہستہ ہر درخت اس سرگوشی میں شامل ہو گیا۔ شہباز عشق کی وحشت میں ڈوبا ہوا تھا۔ مگر جسم کا ہر رواں زبان بن کر صندل کو پکار رہا تھا۔ جنگل کی سرگوشیاں بڑھنے لگیں۔ وہ نام جس کی ادائیگی پر شہباز کے لب خاموش تھے ، وہ نام جنگل کی ہر سرگوشی کا عنوان بن گیا تھا۔ ہر طرف سے صندل صندل کی صدائیں آنے لگیں۔ وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا اور اپنی وحشت میں گم ہو گیا۔ اس کی کھلی آنکھیں اندھیرے پر جمی ہوئی تھیں۔ درختوں کی شاخوں سے پہلے سرگوشی ابھرتی۔ پھر یہ سرگوشی صندل صندل پکارتی سنائی دیتی۔ اور پھر اندھیرے میں گم ہو جاتی۔ شہباز کی ساری رات اسی عالم میں گزر گئی۔ دن کے اجالے کے ساتھ ہی عشق کے تمام جلوے روپوش ہو گئے۔ شہباز کی نگاہیں اب بھی فضا میں تک رہی تھیں۔ اتنے میں سلطان بابا سامنے آ گئے۔ انہوں نے پیار بھری آواز میں صدا دی،”شہباز”۔ شہباز اسی طرح فضا میں گھورتے ہوئے بولا،”صندل۔”اس لمحے میں شہباز کے لئے صندل کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ سلطان بابا کی آواز بھی اسے صندل کی آواز لگی۔ سلطان بابا اس کے سامنے کھڑے تھے۔ مگر اس کی نگاہیں تو خلاء پر لگی ہوئی تھیں۔ اب کے سلطان بابا اس کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور اس کے کان میں دھیمی آواز میں بولے،”شہباز یہی وہ لمحہ ہے جب دل رمز عشق سے آشنا ہوتا ہے۔ تم جانتے ہو رمز عشق کیا ہے؟”



Jogun

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


روح کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ روح عورت یا مرد ہوتی ہے۔ روح روح ہوتی ہے اور کیونکہ روح صرف روشنی ہوتی ہے اور روشنی کے لئے حد بندیاں قائم نہیں کیں جا سکتیں۔ روشنی ہر جگہ ہے۔ روشنی کے لئے در و دیوار معنی نہیں رکھتے۔ روشنی ٹائم اور اسپیس سے آزاد ہے۔ جب کوئی مرد یا عورت روح سے واقف ہو جاتی ہے تو اس کے اوپر سے ٹائم اور اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ ہزاروں سال پہلے کے واقعات اور ہزاروں سال بعد کے آنے والے واقعات کو دیکھ لیتا ہے۔ چونکہ ماضی، حال، مستقبل اس کے سامنے آ جاتا ہے اس لیے وہ اس بات سے واقف ہو جاتا ہے کہ کائنات میں اللہ کے علاوہ کسی کی حاکمیت نہیں ہے اور جب کوئی بندہ اللہ کی حاکمیت یقین کے ساتھ قبول کر لیتا ہے تو اس کر اندر سے غم و پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں اور وہ سکون کے گہوارے میں محو خرام ہو جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سعیدہ خاتون عظیمی کی اس کاوش کو عوام الناس کے لئے مقبول بنائے اور جو لوگ اس کتاب کا مطالعہ کریں ان کے ادراک و فہم میں جلا بخشے۔

                آمین

خواجہ شمس الدین عظیمی

مرکزی مراقبہ ہال

سرجانی ٹاؤن، کراچی