Topics

قافلہ آسمان کی سرحد کے سفر پر روانہ


                منگل وار کی صبح تڑکے کے اکیس راکٹ پر مشتمل یہ قافلہ آسمان کی سرحد کے سفر پر روانہ ہوا۔ سب کے لئے یہ ایک نیا تجربہ تھا اس لئے سارے ہی جاننے کے لئے مشتاق تھے۔ بہت جلد سرحد کے نشانات ملنے شروع ہو گئے۔ آسمان کی سرحد سے تقریباً چار میل کے فاصلے پر ایک راکٹ اسٹیشن تھا۔ یہاں پر راکٹ اتر گئے۔ اس اسٹیشن پر زبردست حفاظتی انتظامات تھے۔ اس پورے ایریا میں اس طرح لائٹ کا انتظام تھا کہ ہر ہر اینگل سے روشنی اسٹیشن کے ہر کونے میں پڑ رہی تھی۔ جس سے تمام ایریا بقعہ نور بنا ہوا تھا۔ جگہ جگہ سنسر لائٹ کی بیم فرش تک پڑ رہی تھی۔ اس لائٹ کے اندر سے ایک ایک کر کے لوگوں کو گزرنے کی ہدایت تھی۔ دوسری جانب کمپیوٹر اسکرین تھے۔ جیسے ہی کوئی آدمی اس کے اندر سے گزرتا یہ لائٹ اس کے خیالات کی اسکریننگ کر لیتی۔ تمام خیالات کمپیوٹر پر رجسٹر ہو جاتے اور فوراً ہی اسکرین پر آ جاتے۔ ان کمپیوٹرز پر خاص فرشتوں کی ڈیوٹی تھی جو کمپیوٹر ریڈنگ میں مہارت رکھتے تھے۔ وہ ایک نظر میں اسکرین پر نمودار خیالات کی ریڈنگ کر لیتے۔ اس طرح کام میں ذرا بھی تاخیر نہ ہوتی۔ جن کے خیالات درست نہ ہوتے ایسے لوگوں کو اس اسٹیشن سے باہر جانے نہیں دیا جاتا بلکہ انہیں وہاں کے سپاہیوں کے حوالے کر دیا جاتا۔

                صندل اورپرنسپل عزا اس گروپ کی کمانڈ کر رہے تھے۔ انہوں نے جیسے ہی گیٹ پر نام بتایا تو چونکہ پہلے سے اطلاع تھی لہٰذا دو فرشتے گارڈ کے طور پر ان کے ساتھ مقرر ہوئے۔ انہوں نے طلباء کو یہاں کے تمام سسٹم کے متعلق بتایا اور ایک ایک چیز کا مشاہدہ کرایا۔ گارڈ نے اس مقام پر شیاطین کی جیلیں بھی دکھائیں۔ اس نے بتایا۔”دنیا سے جو بھی آسمان کی جانب پرواز کرتا ہے وہ سب سے پہلے اسی اسٹیشن پر لایا جاتا ہے۔ اگر کسی کی اسکریننگ یہاں کے مقرر کردہ قانون کے مطابق نہیں ہوتی تو اسے دوبارہ ایک ایسی بیم سے گزارا جاتا ہے جس کے دو اسکرین یا دو کمپیوٹر ہوتے ہیں۔ ایک کمپیوٹر پر فرشتے کی نظر ہوتی ہے ، ایک پر اس شخص کی۔ تا کہ اسے بھی خود اپنے خیالات کا علم ہو جائے۔ اس کے بعد اسے حراست میں لے لیا جاتا ہے۔ اس کے تخریبی پلان و نیت کے مطابق جیل کے مخصوص درجے میں اسے رکھا جاتا ہے۔ جیل سے آسمان کی سرحد صرف تقریباً ساڑھے تین میل دور ہے۔ اکثر شیاطین ان جیلوں سے کسی نہ کسی طرح فرار ہو جاتے ہیں۔ مگر سرحد پر فرشتوں کی فوجیں اس طرح تعینات ہیں کہ کوئی شیطان سرحد کے اندر داخل نہیں ہو سکتا۔ فرشتے ایسے اسلحہ سے لیس ہیں جو آٹومیٹک کام کرتے ہیں۔ ان تمام اسلحہ کی انرجی کا سمک ریز ہے۔ آسمان کی پوری سرحد پر کا سمک ریز کی ایک لائن ہے۔ یہ ایسی بیم ہے جو فرشتے تو دیکھ سکتے ہیں مگر شیاطین کو دکھائی نہیں دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دھوکے میں آ جاتے ہیں ۔ جیسے ہی کوئی شیطان اس بیم کی زد میں آتا ہے، فرشتے کے اسلحہ میں بیپ ہو جاتی ہے اور اس بیپ کے ساتھ ہی اسلحہ سے آٹو میٹک سسٹم کے تحت ایک شعاع نکل کر اس شیطان کو فوراً جلا دیتی ہے۔ وہ کسی بھی صورت سرحد پار نہیں کر سکتا۔ شہاب ثاقب فرشتوں کے اسلحہ کا نام ہے جو ایک قسم کی شعلہ بار بندوق ہے۔ بندوق سے شعلہ انتہائی تیز ریز کی صورت میں نکلتا ہے اور شیطان کی جانب لپکتا ہے۔ اس ریز نما شعلے میں یہ خاصیت ہے کہ وہ شیاطین کے لئے مقناطیسی کشش رکھتا ہے۔ اس کشش کی قوت شیاطین کو شعلے کی زد میں لے آتی ہے اور وہ کسی طور بھی بچ کر نہیں نکل سکتے۔”

                طلباء کو گائیڈ فرشتوں نے آسمان کی سرحد پر موجود تمام حفاظتی سسٹم کا مشاہدہ کرایا اور دکھایا کہ آسمان کے اندر کوئی بھی تخریبی نیت سے نہیں داخل ہو سکتا۔ جتنے بھی تخریبی ذہن ہیں وہ تمام آسمان اور زمین کے درمیان بستے ہیں۔ آسمانوں کے اندر جو عالمین بسے ہوئے ہیں ان کا انتظام تعمیری طرز فکر کے تحت ہے۔ تخریبی ذہن کی ان کے یہاں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسی وجہ سے قدرت کی جانب سے جن و انس کے اندر تعمیری طرز فکر کی نشوونما کرنے کے لئے مستقل انتظامات جاری و ساری ہیں۔ اس علمی سیر سے سب بہت خوش ہوئے۔ پرنسپل عزا نے اعلان کیا کہ اس خوشی میں ایک جلسہ کیا جائے گا جس میں سب کی حاضری ضروری ہے۔ تیسرے دن جلسے میں تمام طلباء و اساتذہ موجود تھے۔ پرنسپل عزا نے صندل کو اعزازی خلعت پہنائی اور ایک میڈل عطا کیا۔ جس پر سنہری تحریر میں صندل دیوی لکھا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اعلان کیا کہ بورڈ آف ایجوکیشن اور درسگاہ کی کمیٹی کی جانب سے آپ کو صندل دیوی کا خطاب دیا جاتا ہے اور آئندہ اسی نام سے پکارا جائے گا۔

                دن گزرتے رہے۔ اس سیر کے بعد شیطانی ٹولوں کی حرکات بھی قدرے کم ہو گئیں اور وہ بھی نئے انداز پر سوچنے لگے۔ انہیں معلوم تھا کہ صندل دیوی جب تک ان کے درمیان موجود ہے۔ ان کی دال نہیں گل سکتی۔ مگر وہ بھی آخر شیطان تھے۔ جن کی فطرت میں شیطنیت خون کی طرح رچی ہوئی تھی۔ وہ شرارتوں سے باز نہیں رہ سکتے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ کڑی نگرانی میں تھے۔ نوجوان جن طالبعلموں میں بے راہ روی بھی بہت زیادہ تھی۔ دوسری احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ صندل نے اس کا ایک حل یہ بھی تجویز کیا کہ چونکہ جنات کی خوراک میں فاسفورس کی مقداریں اعتدال سے زیادہ شامل ہو گئی ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کے اندر جنسی تقاضے بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ معاشرتی نظام پر اس کا برا اثر پڑ رہا ہے۔ نوجوانوں کو غذا میں فاسفورس کی مقداریں کم کرنے کی ترغیب دی جائے۔ ان سب تدابیر کے ساتھ ساتھ صندل کی خاص توجہ اس بات پر بھی ہوتی کہ ان تدابیر پر مستقل طورپر عمل بھی ہوتا رہے۔ وہ پرنسپل عزا کے ساتھ تمام درسگاہوں میں دورہ کرتی۔ جلد ہی وہ عالم جنات میں صندل دیوی کے نام سے مشہور ہو گئی۔

                دن مہینوں میں تبدیل ہونے لگے۔ مالا اور کاجل کے ماں بننے کے دن قریب آ گئے۔ ادھر کندن بھی امید سے تھی۔ نرملا اور عاجل ہر دوسرے مہینے ایک ہفتے کے لئے آجاتے۔ سلطان بابا کے ساتھ صندل کی روحانی ملاقات اکثر رہتی تھی۔ عالم جنات کی کارکردگی سے وہ انہیں آگاہ کرتی رہتی۔ مگر عاجل کی شادی کے بعد سے شہباز کو پھر اس نے نہیں دیکھا تھا۔ جب وہ سلطان بابا کی قبر پر جاتی۔ آتے جاتے اس کی آنکھین اسے ڈھونڈتی رہتیں، کبھی وہ سوچتی شاید وہ گاؤں چھوڑ کر کہیں چلا گیا ہے۔ یہ سوچتے سوچتے اس کے اوپر ایک مایوسی سی طاری ہو جاتی۔ ایسی حالت میں اس کی آتما کی آواز اس کے کانوں میں ابھرتی۔”صندل تو جوگن ہے۔”اور زرد کپڑوں میں لپٹی مالا گلے میں ڈالے جوگن کا روپ اس کے سامنے آکھڑا ہوتا۔ وہ من ہی من میں اپنے رب سے اس کرم کے لئے دعا کرتی۔ کچھ ہی دنوں بعد مالا اور کاجل کے یہاں بیٹے پیدا ہوئے۔ ٹھاکر صاحب اور چودھرائن کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ دونوں بچوں میں صرف چند گھنٹے کا فرق تھا۔ ٹھاکر صاحب نے خادم کو بلایا اور چھٹی پر غریبوں کے لئے کھانے کے لئے ہدایت کی۔ وہ کہنے لگے۔”حویلی کے صحن میں چٹائیاں بچھا کر دسترخوان لگا دینا اور سارے دن کے لئے لنگر جاری رکھنا۔”چھٹی کے دن دونوں بہوؤں اور ان کے بچوں نے نہا دھو کر نئے کپڑے پہنے۔ سارا گھر خوشبودار دھونی سے مہک اٹھا۔ محلے والیاں آ کر اپنی خوشی کا اظہار کرتیں اور شکرانہ کے طور پر بجھن بھی لگائے گئے۔ سارا دن لنگر جاری رہا۔

                مغرب کا اندھیرا پھیلنے لگا تو خادم نے دوگی کی بتیاں صحن میں روشن کر دیں۔ صحن کے ایک کونے میں چارپائی بچھی ہوئی تھی۔ ٹھاکر صاحب وہاں آ کر بیٹھ گئے۔ دسترخوان پر بہت سے غریب غرباء کھانے میں مصروف تھے۔ اتنے میں ایک ملنگ بابا گیروے رنگ کا تہہ بند باندھے زرد موٹے دانوں کی مالا سینے پر لٹکائے داخل ہوئے۔ انہوں نے دسترخوان کی جانب نظر بھی نہیں کی وہ نپے تلے قدم اٹھاتے ہوئے ٹھاکرصاحب کی جانب بڑھے چلے جا رہے تھے۔ خادم تیز ی سے دوڑ کر ان کے پاس پہنچا اور ان کا بازو پکڑکر انہیں دسترخوان پر بیٹھنے کے لئے کہا مگر انہوں نے ایک جھٹکے سے اپنا بازو چھڑا لیا اور خادم کی طرف سرخ سرخ آنکھوں سے گھور کر دیکھا۔ خادم نے فوراً ان کا بازو چھوڑ دیا۔ اب ٹھاکرصاحب بھی اسے پہچان گئے تھے۔ وہ فوراً اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ یہ وہی ملنگ بابا تھے۔ جو سترہ سال پہلے کندن کی چھٹی پر تشریف لائے تھے۔ ٹھاکرصاحب نے دونوں ہاتھ جوڑ کر انہیں ادب سے پرنام کیا۔ ملنگ بابا کی سرخ سرخ آنکھوں میں جوت چمکنے لگی۔ وہ پر اسرار آواز میں بولے۔”ٹھاکر! فیصلہ ہو چکا ہے۔”ٹھاکرصاحب نے ہاتھ جوڑ کر نہایت ہی انکساری کے ساتھ پوچھا۔”مہاراج کس کا فیصلہ ہو چکا ہے؟”ملنگ بابا کہنے لگے۔”جوگن کا۔”اور یہ کہتے ہوئے وہ تیزی سے اسی طرح واپس لوٹ گئے۔

                ٹھاکرصاحب سکتے کے عالم میں اسی طرح ہاتھ جوڑے کھڑے ملنگ بابا کو جاتے دیکھتے رہے۔ جب وہ نظروں سے اوجھل ہو گئے تب ٹھاکرصاحب چارپائی پر بیٹھ گئے۔ مگر ان کا سارا ذہن ملنگ بابا کی جانب تھا۔ کیا صندل جوگن بنے گی۔ اور ان کے اندر ایک سرد لہر دوڑ گئی۔ انہوں نے سر آسمان کی طرف اٹھایا اور بادلوں کے پار جھانکتے ہوئے اپنے آپ سے بولے۔”ھے بھگوان!بھور میں بھنور میں سب کچھ تیری ہی لیلا ہے مجھ پر میرے پریوار پر اپنا خاص کرم رکھنا۔”ملنگ بابا کا ذکر انہوں نے چودھرائن سے نہیں کیا۔ انہوں نے سوچا۔ وقت اپنی جھولی میں جو کچھ لے کر آتا ہے۔ وہ کسی سے چھپا نہیں رہ سکتا۔ پھر خواہ مخواہ پہلے سے کیا تذکرہ کرنا۔

                مالا اور کاجل کے بچے سارے گھر والوں کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ خصوصاً چودھرائن تو ہر وقت انہیں گھیرے رہتی۔ پہلے صندل گھر میں سب سے چھوٹی تھی۔ تو سب اس کوبچوں کی طرح لاڈ کرتے تھے۔اب بچوں کی آمد سے صندل کا شمار بڑوں میں ہونے لگا۔ وہ روزانہ رسوئی گھر میں مالا اور کاجل کا ہاتھ بٹاتی۔ گھر کے دوسرے کاموں میں بھی حصہ لیتی مگر اس کے باوجود اس کا سارا انہماک اپنی داخلی زندگی میں تھا۔

                اسے یوں لگتا جیسے اس کی آتما اور اس کا بدن دو الگ الگ جسم ہیں اور یہ دونوں جسم بیک وقت اپنا کام کر رہے ہیں۔ اس کی نظر اپنے دونوں رخوں پر رہتی۔ ان دنوں وہ عجیب کشمکش سے گزر رہی تھی۔ ایک طرف اس کا جسمانی تقاضہ اسے مجبور کرتا تھا کہ وہ اپنے شریر کو کسی کے حوالے کر دے اور دوسری طرف اسکی آتما(روح) پرماتما سے ملنے کی آس میں ہر دم سلطان بابا کی چوکھٹ پر سرنگوں رہتی۔

                اس کی آتما اور اس کا بدن دونوں ہی اپنی اپنی معراج کو چھونے کے لئے کٹھن سے کٹھن مرحلے کے لئے بھی تیار تھے۔

                جسم و جاں کے تقاضے رفتہ رفتہ اسے حقیقت کی گہرائیوں میں کھینچتے رہے۔ نادان نا سمجھ اس بات سے بے خبر تھی کہ حق کی کھوج میں بڑھنے والا ہر قدم اس کے تقاضوں کو بھڑکانے والا ہے۔ اب وہ ہر دوسرے دن کسی نہ کسی بہانے سلطان بابا کی قبر پر پہنچ جاتی۔

                آتے جاتے ہر آہٹ پر اسے شہباز کی موجودگی کا احساس ہوتا۔ وہ سلطان بابا سے شہباز سے ملنے کی درخواست کرتی۔ مگر سلطان بابا کا ایک ہی جواب ہوتا۔”صندل، تجھے پرماتما کے ہاتھوں امرت کا پیالہ پینا ہے۔ وقت کا انتظار کر۔ اپنے من کی تپش کو قرآن کے نور سے بجھا۔ رات کو جب وہ قرآن لے کر بیٹھتی تو اس کے اندر سے ایک فکر پیدا ہوتی۔ اس غور و فکر کے نتیجے میں اس کا یقین اس بات پر ہوتا چلا گیا کہ دھرم کوئی بھی ہو خواہ ہندو ہو یا مسلم ہو، ہر جگہ اچھائی کو اچھائی اور برائی کو برائی ہی کہا گیا ہے اور کسی بھی دھرم میں رہتے ہوئے حقیقت کی تلاش کی جا سکتی ہے۔ حق کی تلاش کا راستہ باہر نہیں خود اپنے اندر سے ہی نکلتا ہے۔ اپنی آتما سے گزرنے والے راستے پر عقل جب جوگن بن کر حیوانی شہوتوں کے جنگل اور نفسانی شیطنیت کے زہریلے ناگوں کے بلوں سے بچ کر گزر جاتی ہے تو منزل مراد اس کے سامنے آ جاتی ہے۔


 


Jogun

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


روح کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ روح عورت یا مرد ہوتی ہے۔ روح روح ہوتی ہے اور کیونکہ روح صرف روشنی ہوتی ہے اور روشنی کے لئے حد بندیاں قائم نہیں کیں جا سکتیں۔ روشنی ہر جگہ ہے۔ روشنی کے لئے در و دیوار معنی نہیں رکھتے۔ روشنی ٹائم اور اسپیس سے آزاد ہے۔ جب کوئی مرد یا عورت روح سے واقف ہو جاتی ہے تو اس کے اوپر سے ٹائم اور اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ ہزاروں سال پہلے کے واقعات اور ہزاروں سال بعد کے آنے والے واقعات کو دیکھ لیتا ہے۔ چونکہ ماضی، حال، مستقبل اس کے سامنے آ جاتا ہے اس لیے وہ اس بات سے واقف ہو جاتا ہے کہ کائنات میں اللہ کے علاوہ کسی کی حاکمیت نہیں ہے اور جب کوئی بندہ اللہ کی حاکمیت یقین کے ساتھ قبول کر لیتا ہے تو اس کر اندر سے غم و پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں اور وہ سکون کے گہوارے میں محو خرام ہو جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سعیدہ خاتون عظیمی کی اس کاوش کو عوام الناس کے لئے مقبول بنائے اور جو لوگ اس کتاب کا مطالعہ کریں ان کے ادراک و فہم میں جلا بخشے۔

                آمین

خواجہ شمس الدین عظیمی

مرکزی مراقبہ ہال

سرجانی ٹاؤن، کراچی