Topics
خادم
چاچا کی موت کے بعد گھر اور بھی خالی خالی لگنے لگا۔ صندل کا زیادہ تر وقت عبادت
کے کمرے میں گزرتا۔ ایک دن شام کے وقت وہ بیٹھی تھی کہ اچانک اس کی نظر غیب میں
دیکھنے لگی۔ آسمان سے چار فرشتے اڑتے ہوئے زمین کی طرف آتے دکھائی دیئے۔ صندل کو
انہیں پہچاننے میں دیر نہ لگی کہ یہ موت کے فرشتے ہیں۔ انہیں دیکھتے ہی صند ل کا
جسم مثالی بھی ان کے قریب آناً فاناً پہنچ گیا اور ان کے ساتھ ساتھ اڑنے لگا۔
فرشتے اپنی دھن میں نہایت تیزی سے اڑے جا تے تھے۔ صندل بھی چپ چاپ ان کے ساتھ ساتھ
رفتار سے اڑ رہی تھی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا مگر کچھ نہ بولے۔ اگلے ہی لمحے
فرشتے بستی کے ایک گھر کے دروازے پر اتر گئے۔ صندل بھی ان کے ساتھ اتر گئی۔ یہ گھر
بستی کے ایک کونے میں تھا۔ صندل نہیں جانتی تھی کہ یہاں کون رہتا ہے۔ فرشتوں کے
ساتھ ساتھ وہ بھی بنددروازے سے گزر کر اندر آ گئی۔ یہاں ایک چارپائی پر تنہا آدمی
پڑا سانسیں پوری کر رہا تھا۔ صندل کو بڑی حیرت ہوئی۔ اس نے گھر میں ہر طرف نظر
دوڑائی کہ شاید گھر میں کوئی اور بھی موجود ہو۔ مگر گھر بالکل خالی تھا۔ یوں لگتا
تھا جیسے وہ کوئی غریب سا آدمی ہے۔ پھر ضعیفی کی بناء پر شاید کئی دنوں سے بیمار
رہا ہے۔ گھر گرد و غبار سے اٹا ہوا تھا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر صندل کا دل بوجھل ہو
گیا۔”ہے بھگوان کیااس کیا یہاں کوئی نہیں ہے پھر اس کا کریا کرم کون کرے گا؟”اتنی
دیر میں چارون فرشتے اس بوڑھے شخص کے بالکل قریب آ گئے۔ وہ اس کے سر کے پاس اور
دواس کے پاؤں کے پاس کھڑے ہو گئے۔ چاروں کی نظریں اس کے دل کے مقام پر جمی ہوئی
تھیں۔ فرشتوں کی آنکھوں سے ریز نکل کر اس کے دل کے مقام پر ایک گہرائی میں داخل
ہوتی جا رہی تھی۔ صندل نے دیکھا کہ فرشتوں کی روشنیاں آدمی کے جسم کے اندر خون کی
طرح پھیل گئیں اور آدمی کے جسم کے اندر اس کی اپنی روشنیوں کو آہستہ آہستہ دل کے
مقام کی جانب کھینچنے لگیں۔ وہ شخص پوری طرح بے ہوش نہیں تھا۔ اگرچہ فرشتے اس کے
اندر کی روشنیوں کو انتہائی سست رفتاری سے کھینچ رہے تھے۔ مگر یوں محسوس ہوا جیسے
اسے اندر ہی اندر سخت تکلیف ہو رہی ہے۔ کراہتے ہوئے بار بار اس کے منہ سے ہائے
بھگوان، اے بھگوان کے الفاظ نکلنے لگے۔ صندل فرشتوں کے قریب آئی اور انہیں کہنے
لگی۔”اے فرشتو! جان ذرا آہستہ آہستہ کھینچو، اسے تکلیف ہو رہی ہے۔”چاروں فرشتوں کی
نگاہ ضعیف آدمی کے دل پر اسی طرح جمی رہی ۔ ان کی توجہ میں ذرا فرق نہ آیا مگر وہ
جان گئی کہ فرشتوں نے اس کی بات سن لی ہے۔ وہ جانتی تھی کہ اس وقت فرشتوں کے کام
میں زیادہ دخل اندازی درست نہیں ہے۔ وہ ضعیف آدمی کے پاس کھڑی ہو گئی۔ اس کا جسم
مثالی ضعیف و کمزور دکھائی دیا اوراس کے حواس پر سخت غنودگی چھائی ہوئی تھی۔ صندل
نے اسے سہارا دیا اور اسے بازوؤں سے پکڑ کر مٹی کے جسم کی سرنگ سے آہستہ آہستہ
باہر نکالنے میں فرشتوں کی مدد کرنے لگی۔ یہاں تک کہ آدمی کے جسم سے جان پوری طرح
نکل گئی۔ اس کا جسم مثالی اپنے جسم کی سرنگ سے باہر آ گیا۔ چاروں فرشتوں نے اسے
اپنے ہاتھ پر اٹھا لیا اور اعراف میں لے کر چلے اور اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئے
تو صندل نے اس آدمی کی چارپائی کی جانب دیکھا۔ اس شخص کا مردہ جسم چارپائی پر پڑا
تھا۔ اسے دیکھتے ہی صندل کا جسم مثالی متحرک ہو گیا۔ آناً فاناً وہ پڑوس کے قریب
ترین گھر پہنچی۔ وہاں رسوئی گھر میں ایک عورت روٹی پکا رہی تھی اور اس کے قریب ہی
زمین پر اس کا شوہر اور ایک دس گیارہ سالہ لڑکا بیٹھے تھے۔ عورت نے کھانے کی تھالی
شوہر اور بیٹے کے سامنے رکھی۔ صندل کا جسم مثالی اس لڑکے کے سامنے کھڑا ہو گیا اور
اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔ صندل کی آنکھوں کی روشنی کی ایک شعاع نکل کر لڑکے کی
آنکھوں میں جذب ہو گئی۔ لڑکے کا بڑھتا ہوا ہاتھ کھانے کی تھالی پر رک گیا۔ وہ ایک
دم بولا،”ماں! رامو دادا کو کھانے دے آؤں؟ کتنے دنوں سے ان کی خبر نہیں لی ہے۔”ماں
بولی،”کھانا کھا لے پھر چلے جانا۔”لڑکا اٹھتے ہوئے بولا ۔”ماں تم دوسری تھالی بناؤ
میں یہ تھالی دوڑ کر دادا کو دے کر آتا ہوں۔”باپ بولا،”جا بیٹے جا دے آ یہ سنتے ہی
لڑکا کھانے کی تھالی لے کر تیزی سے نکل گیا۔ صندل وہیں کھڑی ہو کر اسے دیکھنے لگی۔
چند ہی لمحوں میں وہ رامو دادا کے پا س پہنچ گیا۔ پہلے اس نے دروازسے ہی رامو دادا
رامو دادا کہہ کر اسے زور زور سے آواز دی۔ پھر ساتھ ہی اندر چلا گیا۔ تھالی زمین
پر ایک طرف رکھ کر وہ رامو دادا کی چارپائی کی طر ف بڑھا۔ رامو دادا کھانا کھا لو۔
جب اس نے کوئی جواب بنہ دیا تو لڑکے نے اس کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا۔ رامو دادا
کے زرد چہرے پر بے ونر کھلی آنکھیں دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو گئے۔ وہ دوڑتا ہوا
واپس گھر کی طرف لوٹ گیا۔ گھر سے چند گز کے فاصلے سے ہی اس نے زور زور سے آوازیں
دینی شروع کر دیں۔”باپو رامودادا کا دیہانت ہو گیا۔”یہ الفاظ دہراتے ہوئے وہ گھر
میں داخل ہو گیا۔ اس کے متا پتا دونوں ایک دم سے کھڑے ہوگئے ۔ اتنے میں لڑکا بھی
پاس پہنچ گیا۔ رامو داد ا کی موت کی خبر سنتے ہی لڑکے کا باپ بولا۔”میں پڑوس میں
خبر کر کے آتا ہوں۔”یہ دیکھ کر صندل نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس کی ذمہ داری بس
اتنی ہی تھی ۔ وہ واپس گھر لوٹ گئی اسے یقین تھا کہ رامو دادا کا کریا کرم اب وقت
پر ہو جائے گا۔
دن
گزرتے رہے۔ صندل کو اب یوں محسوس ہوتا جیسے اس کی ساری دنیا اندر ہی موجود ہے۔ اب
باہر کی دنیا بھی اسے اپنی اندر ہی دکھائی دیتی۔ اسے یوں لگتا جیسے اس کے اندر
روشنی کا ایک دریا بہہ رہا ہے۔ اس دریا میں وہ خود بھی ڈوبی ہوئی ہے۔ اس دریا میں
کوئی ایک دوسرے کے لئے اجنبی نہیں ہے۔ یہ دریا بھگوان کا دریا ہے۔ مخلوق پر اس کی
دیا کا دریا ہے۔ اس کی دیا، اس کا کرم گنگا ماتا کی طرح پوتر ہے۔ ماتا کی پوتر تا
ہی دریا میں موجود مخلوق کی ایک دوسرے سے پہچان کا ذریعہ ہے۔ نور کے اس دریا میں
ڈوبا ہوا رشتہ گنگا جل کی طرح پوتر ہے۔ ہر شے اس کے کرم کی لہروں کے دوش پر دریا
میں مچھلی کی طرح ادھرسے ادھر گھومتی پھرتی ہے۔ جب اس کا کرم اپنے جوش پر آتا تو
وہ گہرائی سے اپنے اندر کے خزانے سطح پر اچھال دیتا۔ اس کے کرم کے روپ کبھی سلطان
بابا کی صورت بن جاتے۔ کبھی شہباز کی، کبھی اس کے ماتا پتا کی، کبھی خادم چاچا کی،
کبھی کندن کی، تو کبھی عاجل کی اب کوئی اس سے دور نہ تھا۔ وہ کبھی سلطان بابا کے
ساتھ روشنی کے اس دریا میں خوشی خوشی گھومتی پھرتی، کبھی شہباز کے ساتھ دریا کی
لہروں کے زیر وبم پر سر مستی میں لہراتی پھرتی۔ کبھی ماتا پتا کے ساتھ دریا کی
گہرائی میں ڈوب جاتی۔ اب نہ شہباز کی یاد اسے تڑپاتی، نہ سلطان بابا کا خیال ستاتا
اپنے اندر کے سب طوفانوں سے وہ گزر چکی تھی۔ اب وہ گھر سے شاذو نادر ہی نکلتی۔
مصیبت کے مارے لوگ اس کے پاس آتے۔ ایک نظر ان پر ڈال دیتی لوگ شاد ہو کر اپنے
گھروں کو لوٹ جاتے۔ بیمارا ور زخم خوردہ آتے صحت یاب ہو کر لوٹتے۔ بھگوان کے کرم
کا دریااس کے اندر باہر سمتوں میں بہہ رہا تھا۔ ایک رات صندل اپنے عبادت والے کمرے
میں دھیان لگا کر بیٹھی تھی کہ اس نے دیکھا آسمان سے ملک الموت اتر رہے ہیں۔ پہلے
کی طرح وہ آج بھی ان کے ساتھ ساتھ اڑنے لگی۔ فرشتے بستی سے باہر جنگل میں اتر گئے۔
صندل بھی اتر گئی ۔ وہ حیران تھی اس رات کے اندھیرے میں جنگل میں فرشتے کس کی جان
لینے آئے ہیں۔ اتنے میں ایک نوجوان پر اس کی نظر پڑی جو درخت کے نیچے پڑا تڑپ رہا
تھا۔ اس کے پاس ایک سانپ لہراتا ہوا جا رہا تھا۔ صندل جان گئی کہ اس جوان کو سانپ نے
کاٹا ہے۔ اب چاروں فرشتے اس جوان کے سرہانے اور پائنتی کھڑے ہو گئے۔ قبل اس کے کہ
اس کی جان نکالنے کے لئے فرشتے اپن اعمل شروع کرتے۔ صندل درمیان میں آ گئی اس نے
فرشتوں سے کہا،”جس خدا نے تم کو جان نکالنے کے لئے مقرر کی اہے۔ اسی خدا نے مجھے
بھی بندوں پر مہربانی اور کرم کا ذریعہ بنایا ہے۔ اے فرشتو! اس اندھیری رات میں
جنگل کی تنہائی میں تم اس کی جان نکال کر لے جاؤن گے تو اس کا ذہن تنہائی کی موت
کے خوف کے نقوش مرنے کے بعد دہرا تا رہے گا۔ ذرا ٹھہرو، اتنی دیر کہ اس کا کوئی تو
اس کے پا س پہنچ جائے۔ فرشتوں نے صندل کو پہچان کر کہا۔”صندل دیوی! اگر ہم نے اس
کی جان نکالنے میں جلدی نہ کی تو سانپ کا زہر اس کے جسم مثالی کے حوا س کو بھی
متاثر کرے گا۔ وہ عالم اعراف میں جانے کے لئے بے چین ہو جائے گا۔ اس طرح اسے اور
زیادہ تکلیف ہو گی، جسمانی تکلیف کے ساتھ ساتھ روحانی تکلیف بھی اسے سہنی پڑے گی۔”صندل
نے کہا۔”اسے صبح تک مہلت دو ہم زہر اس کے بدن میں پھیلنے نہیں دیں گے۔”چاروں فرشتے
ہاتھ باندھ کر ادب سے نوجوان کے پاس کھڑے ہو گئے۔ صندل نوجوان کے پاس پہنچی وہ زہر
کے اثر سے تڑپ رہا تھا۔ صندل نے اس کی آنکھوں میں غور سے دیکھا۔ اس کی آنکھوں سے
روشنی کی شعاع نکل کر نوجوان کی آنکھوں میں جذب ہو گئی۔ نوجوان صندل کو دیکھ رہا
تھا اسے خوشی ہوئی کہ وہ اندھیرے میں دیکھ سکتا ہے۔ یہ زہر کی تاثیر تھی۔ صندل نے
اس سے پوچھا۔”اے نوجوان! کیا تم مجھے دیکھ رہے ہو؟تم ابھی زندہ ہو ۔ یہ تمہارے
داہنی پاتھ پر ایک بوٹی اگی ہوئی ہے اسے فوراً کھالو تم ٹھیک ہو جاؤ گے۔”نوجوان
حیرت کے غلبے میں اپنی تکلیف تقریباً بھول چکا تھا۔ فوراً اٹھ کر بیٹھ گیا اسے
اندھیرے میں پوری طرح دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے بوٹی توڑی اور کھا گیا۔ کھاتے ہی
اسے بڑی سی الٹی ہوئی۔ زہر کا حصہ باہر نکل گیا۔ اسے قدرے سکون ملا وہ زمین پر
دوبارہ لیٹ گیا اور فوراً ہی اسے نیند آ گئی۔ صندل اسے وہیں چھوڑ کر سیدھی اس کے
گھر پہنچی۔ یہ نوجوان ایک بیوہ ماں کا اکلوتا بیٹا تھا۔ صندل نے دیکھا کہ اس کی
ماں ایک چارپائی پر بیٹھی اپنے رب سے بیٹے کی سلامتی کی درخواست کر رہی ہے۔ وہ
آہستہ آہستہ اپنے رب سے کہہ رہی تھی۔ اے میرے رب! آج میرے رحم میں درد کی لہریں
اٹھ رہی ہیں۔ میں جانتی ہوں میرا بیٹا تکلیف میں ہے۔ اسے شانتی دینا ، اسے جلد ہی
مجھ سے ملانا۔ صندل جان گئی کہ ممتا کے درد کی لہروں نے درحقیقت صندل کو فرشتوں سے
مہلت لینے کیلئے ابھارا ہے۔ اس نے عورت کے دل میں اپنا خیال ڈالا کہ اٹھو اور اپنے
بیٹے سے ملنے کے لئے جنگل کی طرف چل پڑو۔ وہ عورت چارپائی سے اٹھی، پہلے زمین پر
سجدہ کیا، بیٹے کے لئے دعا کی اور پھر برابر والے گھر میں دستک دی۔ تھوڑی دیر بعد
ایک آدمی آنکھیں ملتا ہوا دروازے پر آیا۔ اس نے رات کے اندھیرے میں عورت کو نہیں
پہچانا۔ پوچھا کون ہے؟ عورت بولی،”بیٹے میں تیری ماسی ہوں کاکا جنگل پارکے گاؤں
گیا تھا۔ آج اس نے لوٹنا تھا ابھی تک نہیں آیا۔ میں شام سے اس کا راستہ دیکھ رہی
ہوں۔”وہ شخص ماسی کو پہچان کر بولا۔”ماسی گھبراؤ نہیں، وہ صبح تک آ جائے گا۔
اندھیرے میں کہیں ٹھہر گیا ہو گا۔”ماسی بولی،”بھیا، یہ بات نہیں ہے آج کچھ اور ہی
بات ہے۔ آج میرے رحم میں درد کی لہریں اٹھ رہی ہیں۔ ہر لہر میں مجھے میرے بیٹے کی
چیخ سنائی دے رہی ہے۔ وہ مجھے مسلسل ماں کہہ کر آوازیں دے رہاہے۔ مجھے ڈر ہے کہ
کہیں جنگل میں اسے کوئی حادثہ تو نہیں پیش آ گیا ہو۔ کیا تم میرے ساتھ نہیں چل
سکتے؟”ماسی کی بات سنتے ہی آدمی نے کہا۔”ماسی تم فکر نہ کرو۔ رب پر بھروسہ رکھو
۔میں گاڑی میں بیل جاتتا ہوں۔”یہ کہہ کر وہ گھر کے اندر چلا گیا چند منٹوں بعد ہی
وہ بیل گاڑی لے کر آ گیا۔ اس کے ساتھ ایک نوکر بھی تھا۔ انہوں نے گاڑی میں دو
لالٹین باندھ لیے اور جنگل کی طرف بیلوں کو دوڑایا۔ صندل کا جسم مثالی بھی ا ن کے
ساتھ ہی ساتھ چلتا رہا۔ صبح ہونے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا، صندل کی لہروں کے
اشارے پر بیل سیدھے نوجوان کے پاس پہنچ گئے۔ وہ زمین پر نیند کی حالت میں تھا۔ اصل
میں زہر کی وجہ سے اس پر غشی سی چھائی ہوئی تھی۔ اسے دیکھتے ہی اس کی ماں ہائے
میرا لال کہہ کر گاڑی سے لپک کر نیچے آئی۔ اس کا سر اپنے زانو پر رکھا اتنی دیر
میں دونوں آدمی اس کے جسم کو ٹٹولنے لگے۔ انہوں نے نوجوان کو کچھ پلایا اور اسے
ہوش میں لانے کے لئے جھنجھوڑنے لگے۔ تقریباً دس منٹ بعداس نے نقاہت کے ساتھ آنکھیں
کھولیں اور نحیف آواز میں بولا۔”ماں مجھے جنگل میں نہ چھوڑنا۔”ماں نے پھر اسے پیار
کیا اور بولی۔”نہیں بیٹے، میں تو تجھے لینے آئی ہوں۔”نوجوان نے اطمینان کے ساتھ
کہا۔”ماں! ماں۔”اور اسی وقت چاروں فرشتوں نے اپنا کام شروع کر دیا۔ آسمان پر صبح
کا اجالا نمودار ہو رہا تھا۔ رات رخصت ہو رہی تھی۔ فرشتوں کی مہلت پوری ہو چکی
تھی۔ صندل سے اور نہ دیکھا گیا۔ وہ چپ چاپ بوجھل قدموں سے اپنے جسم خاکی کے پاس
آئی اور ایک آہ بھر کر بدن میں سما گئی۔ شعور میں آتے ہی سب سے پہلے اسے اس ماں کا
خیال آیا۔ وہ سوچنے لگی۔ رب کے کام نرالے ہیں۔ وہی دیتا ہے وہی واپس لے لیتا ہے۔
لینا دینا دونوں اسی کے کام ہیں۔ پھر بندہ درد سے بھر جاتا ہے۔ ذہن کے اس سوال کے
ساتھ ہی اسے سلطان بابا کا قول یاد آیا ایسے ہی مواقع پر سلطان بابا نے نہایت پیار
سے اسے سمجھایا تھا۔”صندل تو میخانہ ازل کا ایک پیمانہ ہے۔ تو ہی بتا کیا تیرے
پیمانے میں پورا میخانہ سما سکتا ہے؟صندل ، میخانہ ازل ایک ہی ہے۔ مگر پیمانے ان
گنت ہیں۔ کوئی پیمانہ میخانے کی شراب کو نہیں ناپ سکتا۔ بھلا گلاس میں پانی بھر
بھر کے سمندر کا پانی ناپا جا سکتا ہے؟ بس تو صرف خیال رکھ کہ ساقی کوثر تیرا
پیمانہ ک بھی خالی نہ چھوڑے، پیمانہ بھرتا ہے پھر انڈیل دیتا ہے۔ اس بھرنے اور
خالی ہونے کے درمیان جو وقفہ ہے وہی تو جان لیوا ہے۔”سلطان بابا کی حکیمانہ باتیں
یاد کر کے صندل سوچنے لگی۔ وہ ساقی ہی ہے جو ایک پیمانے میں دوسرے پیمانے سے انڈیل
دیتا ہے۔ پیمانے کو پتہ ہی نہیں چلتا۔ جب خالی ہوتا ہے تب پتہ چلتا ہے ۔ یوں دل کے
اندر دبے پاؤں آنا جانا کب تک لگا رہے گا۔ کاش کوئی ایک دفعہ اس طرح آ جائے کہ پھر
کبھی نگاہ سے اوجھل نہ ہو۔ صندل کے اندر شدت سے موت کی تمنا جاگ اٹھی۔ اے بھگوان!
کب تک یہ پردہ تیرے میرے بیچ پڑا رہے گا۔
دن
بدن صندل کے دل میں موت کی خواہش بڑھتی ہی چلی گئی۔ اس کا دل دنیا سے بالکل اچاٹ
ہو گیا۔ چند دن اسی طرح گزر گئے۔ وہ سارا دن تنہائی میں چپ چاپ گزار دیتی، نہ اسے
بھوک لگتی، نہ پیاس۔ مالا اور کاجل زبردستی اسے کچھ کھلاتیں۔ ایک دن علی الصبح اس
نے اشنان کیا۔ سفید کپڑے پہنے، صبح ہونے میں بھی بہت دیر باقی تھی۔ وہ صندل دیوی
والے کمرے میں چلی گئی۔ جیسے ہی اس نے کمرے میں قدم رکھا۔ وہ ٹھٹک گئی۔ اس کے
سامنے وہی اس حویلی والی بڑھیا کھڑی تھی جس کا انتقال صندل دیوی والے کمرے میں
باپو کے سامنے ہوا تھا۔ اس بڑھیا کے ہاتھ میں پوجا کا تھال تھا۔ اس نے صندل کی
آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔”صندل دیوی! ادھر آ، آج تیرے ماتھے پر تلک لگانا ہے۔
تیری تپسیا پوری ہو گئی۔ رب نے تجھے یادکیا ہے۔”صندل بڑھیا کی جانب سے آہستہ آہستہ
آگے بڑھی۔ بڑھیا نے پوجا کی تھالی کے سیندور میں انگلی ڈبوئی، مشک کی خوشبو کا
جھونکا کمرے میں لہرا گیا۔ بڑھیا نے سیندور سے صندل کے ماتھے پر ایک انگلی لگائی۔
صندل لکشمی ماتا کہہ کہ اس کے قدموں میں جھکی۔ بڑھیا کے پیروں کو ہاتھ لگاتے ہی وہ
زمین پر گر پڑی اور اس پر غشی چھا گئی۔ اس نے دیکھا کہ عرش ایک دائرے کی صورت میں
سامنے ہے۔ عرش ایک نورانی چھتری کی طرح اس پر سایہ فگن ہے۔ عرش کے کناروں سے ساڑھے
گیارہ ہزار نورانی ہاتھ اس کی جانب بڑھے۔ انہوں نے ناتواں صندل کو اپنی مضبوط
بانہوں میں لے لیا۔ ایک لمحے کو غشی کا غلبہ اس پر کچھ کم ہوا وہ جان گئی کہ رب کا
بلاوہ آ گیا ہے۔ فوراً ہی پھر دوبارہ اس پر موت کی غشی چھا گئی۔ اس نے دیکھا آسمان
سے ایک لائن سے فرشتے اس کی طرف اتر رہے ہیں۔ یہ فرشتے اس کے دائیں بائیں ادب اور
تعظیم کے ساتھ آداب کر تے ہیں۔ اتنے میں ایک انتہائی حسین بگھی اس کے سامنے رکتی
ہے۔ سفید پارے کی طرح جھلملاتی ہوئی بگھی کے اندر چھ گھوڑے جتے ہوئے ہیں۔ اس بگھی
میں ایک نوجوان کوچوان بیٹھا ہے۔ وہ بگھی سے اتر کر صندل کے پاس آتا ہے اور ادب سے
سر جھکا کر صندل کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہتا ہے۔”صندل دیوی! عرش کے پروردگار نے
آپ کو سلام بھیجا ہے اور اپنی بارگاہ میں آپ کو طلب فرمایا ہے۔”صندل نے کوچوان کے
بڑھے ہوئے ہاتھ کی جانب اپنا ہاتھ بڑھایا۔ اسے محسوس ہوا جیسے سارے بدن سے ایک لہر
نکل کر باہر آ گئی ہے۔ جیسے ساحل پر آئی ہوئی سمندر کی موج واپس سمندر میں لوٹ رہی
ہے۔ جیسے ہی اس نے کوچوان کا ہاتھ پکڑا، اس کی روح کے پنچھی نے بدن کے قفس سے
ہمیشہ کے لئے رہائی حاصل کر لی۔ وہ بگھی میں بیٹھ گئی۔ بگھی انتہائی تیز رفتاری سے
آسمانوں کے سفر پر روانہ ہو گئی ۔ آسمانوں کے در کھلتے رہے ، وہ جگمگاتی حسین فضاؤں
سے گزرتی رہی۔ پہلی بار اسے آزادی کا احساس ہوا۔ اونچے آسمان پر حسین ترین باغ کے
وسط میں ایک عظیم الشان محل تھا جو نیلم کا تھا۔ بگھی اس محل کے دروازے پر رکی ۔
کوچوان نے اسے ادب سے اتارا، اندر جانے کا اشارہ کیا۔ وہ تنہا اندر چلی گئی۔ ایک
لمبی راہداری سے آہستہ آہستہ گزرنے کے بعد وہ ایک وسیع ہال میں پہنچی۔ یہاں ایک
عظیم الشان تخت لگا تھا۔ اس تخت پر سلطان بابا بیٹھے تھے۔ وہ آہستہ آہستہ تخت کی
جانب بڑھی۔ اس کی نظریں سلطان بابا کی تصویر پر تھیں۔ یکلخت نور کا ایک پردہ ہٹا ۔
اس پردے پر سلطان بابا کی تصویر تھی۔ پردہ ہٹا تو سلطان بابا کی تصویر ہٹ گئی۔ اس
کی روح نے دیکھا کہ تخت پر سوائے نور کے اور کوئی نہیں ہے۔ اس کے لبوں سے بے ساختہ
نکلا”اوم”اور اسی وقت نور نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔ اسے یوں لگا جیسے وہ آہستہ
آہستہ خوشی کے سمندر کی گہرائی میں ڈوبتی جارہی ہے۔
دن
کا اجالا پھیلنے لگا۔ گھر کے سب لوگ جاگ گئے۔ دروازے پر زور زور سے دھڑدھڑانے کی
آواز پر مالا نے جا کر دروازہ کھولا۔ ایک شخص دیوانوں کے سے حلیے میں اندر بڑھتا
چلا آیا۔وہ اپنی دھن میں صندل دیوی کہتا چلا آ رہا تھا۔ مالا سمجھی کوئی مصیبت کا
مارا ہو گا۔ اس نے اسے نہیں روکا۔ وہ سیدھا صندل دیوی والے کمرے میں چلا گیا۔ مالا
بھی اس کے پیچھے پیچھے تھی۔ کمرے میں داخل ہو کر اس نے صندل کے جسم خاکی کو دیکھ
کر ایک زور دار چیخ ماری اور وہیں گر پڑا۔ چیخ سن کر گھر کے دوسرے افراد جمع ہو
گئے۔ صندل کے بھائی نے اسے پہچان لیا۔ گبھرا کے بولا۔ ارے یہ تو شہباز ہے۔ اس نے
جلدی سے صندل کو ہاتھ لگایا اور حیرت سے ایک چیخ اس کے منہ سے نکلی، پھر گبھرا کے
اس نے شہباز کے بدن کو ہاتھ لگایا اور پھر ایک وحشت زدہ سی چیخ اس کے منہ سے نکلی۔
مالا اور کاجل دونوں گھبرا کے بولیں”کیا ہوا؟”اور پھر دونوں نے صندل اور شہباز کو
چھو ا۔ انہیں یوں لگا جیسے روئی کے گالے میں ہاتھ لگا رہے ہیں۔ بستی کے سب لوگ
اکٹھے ہو گئے۔ مالا، کاجل، کندن، عاجل سب ہی ایک دم بول پڑے۔ “ان کے جسم تو پوتر
ہیں انہیں آگ نہیں چھو سکتی۔”
صندل
اور شہباز کو قبر میں دفنا دیا گیا۔ آج بھی ان کا مزار مرجع خلائق ہے۔
سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی
روح کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ روح عورت یا
مرد ہوتی ہے۔ روح روح ہوتی ہے اور کیونکہ روح صرف روشنی ہوتی ہے اور روشنی کے لئے
حد بندیاں قائم نہیں کیں جا سکتیں۔ روشنی ہر جگہ ہے۔ روشنی کے لئے در و دیوار معنی
نہیں رکھتے۔ روشنی ٹائم اور اسپیس سے آزاد ہے۔ جب کوئی مرد یا عورت روح سے واقف ہو
جاتی ہے تو اس کے اوپر سے ٹائم اور اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ ہزاروں سال
پہلے کے واقعات اور ہزاروں سال بعد کے آنے والے واقعات کو دیکھ لیتا ہے۔ چونکہ ماضی،
حال، مستقبل اس کے سامنے آ جاتا ہے اس لیے وہ اس بات سے واقف ہو جاتا ہے کہ کائنات
میں اللہ کے علاوہ کسی کی حاکمیت نہیں ہے اور جب کوئی بندہ اللہ کی حاکمیت یقین کے
ساتھ قبول کر لیتا ہے تو اس کر اندر سے غم و پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں اور وہ
سکون کے گہوارے میں محو خرام ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سعیدہ خاتون عظیمی کی اس کاوش کو عوام
الناس کے لئے مقبول بنائے اور جو لوگ اس کتاب کا مطالعہ کریں ان کے ادراک و فہم
میں جلا بخشے۔
آمین
خواجہ شمس الدین عظیمی
مرکزی مراقبہ ہال
سرجانی ٹاؤن، کراچی