Topics

عالم جنات میں مثلث شکل کی عمارت


                صندل بولی۔”جناب صدر سب سے پہلے میں آپ کو یہی مشورہ دینا چاہتی ہوں کہ آپ تمام درسگاہوں کا نقشہ بدل دیں بلکہ پورے عالم جنات میں مثلث کی طرز پر عمارت بنانے کی ممانعت کر دی جائے۔”صندل کی بات سن کر سارے کے سارے جنات سوالیہ نظروں سے صندل کو دیکھنے لگے۔ اس سے پہلے کہ وہ سوال کرتے ، صندل فوراً بول پڑی۔”مثلث محدودیت کی علامت ہے۔ تکون کمروں میں رہنے والوں پر مسلسل محدودیت کا عکس ان کے ذہنوں پر پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی عقلیں چھوٹی رہ جاتی ہیں اور وہ کچھ سیکھ نہیں سکتے۔ معزز حضرات، آپ جانتے ہیں کہ علم رب کی روشنی ہے۔ رب نے اس روشنی کو آدم کی روح کے اندر ذخیرہ کر دیا ہے۔ آدم و جنات کا شعور و عقل ان روشنیوں سے خالی ہے۔ روح کے ذریعے یہ روشنیاں عقل میں سماتی جاتی ہیں ویسے ویسے عقل بڑھتی جاتی ہے۔ عقل اپنے اندر سمائی ہوئی روشنیوں کو پہچاننے کا کام کرتی ہے۔ رب کا علم رب کے تفکر کے خاکے اور تصاویر ہیں جو روشنیوں کی صورت میں ہیں۔ عقل اپنے اندر ان تصاویر کا مشاہدہ کرتی ہے۔ اور یہی معنی پہنانا اور علم سیکھنے کا عمل ہے۔ روح کے اندر علم کی روشنیوں کا ذخیرہ لا محدود ہے۔ روح کے ساتھ شعور منسلک ہے۔ روح کی جانب سے شعور کو روشنیوں کی سپلائی کا مستقل انتظام ہے مگر شعور اپنی محدودیت کی وجہ سے آنے والی روشنیوں کی حرکات میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی طرز فکر تعمیر کی بجائے تخریب بن جاتی ہے۔”

                بورڈ کے ایک ممبر نے سوال کیا۔”صندل جی! مثلث یا محدودیت میں شعور کی حرکات کا اصول کیا ہے؟”صندل بولی،”مسافر ایک لمبے رستے پر قدم رکھتا ہے۔ وہ ہر قدم پر کچھ دیر رک جاتا ہے اور کبھی آگے چار قدم بڑھاتا ہے تو پھر پیچھے دو قدم واپس لوٹ آتا ہے۔ کیا ایسا مسافر اس لمبے راستے کو طے کر سکتا ہے؟ طرز فکر دو طرح کی ہیں۔ ایک لا محدود اور دوسری محدود۔ یہ دونوں ذہن کی حرکات ہیں۔ لامحدود طرز فکر میں ذہن کی حرکت مسلسل ہے، یعنی شعور کے پردے پر روشنیاں دائرے کے اندر گھومتی رہتی ہیں، محدود طرز فکر میں روشنی مثلث کے اندر سفر کرتی ہے اور مثلث کے ہر کونے پر حرکت کا سلسلہ رک جاتا ہے اور روشنیوں کا رخ بدل جاتا ہے۔ شعوری حواس ظاہری کام کرنے کی وجہ سے خارجی کیفیات کو فوراً جذب کر لیتے ہیں۔ تکون عمارتوں کی بجائے چوکور اور گول عمارت زیادہ قابل قبول ہے۔”صندل کے اس تفصیلی جواب پر سارا بورڈ مطمئن ہو گیا ۔ اسی وقت بورڈ کے چیئرمین نے کہا۔”صندل جی کے اس قیمتی اور مفید مشورے کو دل و جان سے قبول کرتے ہیں۔”

                تمام لوگوں نے خوشی سے تالیاں بجائیں۔ صندل نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا۔”اس اقدام سے آپ لوگوں کا مسئلہ ایک حد تک حل ہو جائے گا۔”

                دوسری غور طلب بات یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جنات ، آدم زاد کی نسبت جسمانی قوت و ساخت میں زیادہ ہیں۔ مگر یہ سب کچھ قدرت کے تخلیقی قانون کے مطابق عمل میں آ رہا ہے۔ اس میں جنات یا آدم کا کمال نہیں ہے۔ جب انس و جنات اپنی قوتوں کو ایک دوسرے کے خلاف چیلنج کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس سے بے شمار برائیاں جنم لیتی ہیں۔ جنات کے اندر یہ فکر بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کے اندر کام کرنے والی ہر قوت و صلاحیت کا مالک رب ہے۔ اور وہی ان کے استعمال کے صحیح طریقے جانتا ہے۔ پس جنات کی قوتوں کے صحیح اصول درسگاہوں میں سکھائے جائیں۔ تا کہ ہر شے کی نشوونما اس کی فطرت کے مطابق ہوتی رہے۔”

                صندل کی دوسری تجویز بھی سب کو پسند آئی اور بورڈ نے ان دونوں تجاویز پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ و اعلان کر دیا۔ صندل کو ایجوکیشن بورڈ کی جانب سے اعزازی خلعت عطا کی گئی۔ اور تالیوں کی گونج میں میٹنگ برخاست ہوئی۔ صندل اپنے طور پر دہری زندگی گزار رہی تھی۔ ایک زندگی وہ تھی جس میں اس کی آتما کے ساتھ اس کا جسم شامل تھا۔ دوسری زندگی وہ تھی جس میں اس کی آتما ہی اس کی اصل ذات تھی۔ اسے اس مٹی کے جسم کی ضرورت نہ تھی۔ اس دوہری زندگی کے باوجود بھی اسے کبھی محسوس نہیں ہوا کہ اس کی شخصیت دو حصوں میں بٹ گئی ہے۔ بلکہ وہ جانتی تھی کہ اس کی شخصیت کے دونوں پہلو بیک وقت روشن ہو گئے ہیں۔ اسے یوں لگتا جیسے اس کے دونوں تاریک گوشوں پر سلطان بابا سورج بن کر چمک رہے ہیں۔ وہ من ہی من میں پرارتھنا کرتی۔”اے بھگوان، مجھے اندھیروں سے ڈر لگتا ہے۔ میری جوت جگائے رکھنا۔”

                ان دنوں عاجل گھر آیا تھا۔ گھر میں اس کی شادی کا ذکر ہونے لگا۔ وہ بھی بار بار یہی کہتا کہ پہلے صندل کی ہونی چاہئے۔ مگر صندل کسی طرح بھی شادی کے لئے تیار نہ تھی۔ گھر والے پھر اس پر آ گئے کہ ابھی سال دو سال صندل کو نہ چھیڑیں۔ عاجل کے لئے جلد ہی رشتہ مل گیا۔ گاؤں کی لڑکیاں سب دیکھی بھالی ہوتی ہیں۔ بس رشتہ ڈالنے کی دیر ہوتی ہے۔ شادی ایک مہینے بعد طے پائی۔ منگنی کی مٹھائی خادم کے ہاتھ کندن کو بھی بھجوا دی گئی تا کہ اسے بھی بھائی کی شادی کی اطلاع مل جائے۔ اس نے خادم کے ہاتھوں سندیسہ بھجوا یا کہ وہ شادی سے ایک ہفتے پہلے میکے آ جائے گی۔ عاجل چونکہ صرف چند دنوں کی چھٹی پر آیا تھا۔ اس وجہ سے منگنی میں دھوم دھام کرنے کا وقت ہی نہ تھا۔ بس گھر والے پان مٹھائی اور لڑکی کا جوڑا وغیرہ لے گئے۔ انگوٹھی پہنا آئے۔ محلے میں مٹھائی تقسیم کر کے منگنی کا اعلان کر دیا گیا۔ ٹھاکر صاحب چودھرائن سے بولے،”بیگم مٹھائی کا ڈبہ خادم کے ہاتھ بھائی صاحب کے یہاں بھی بھجوا دو۔”مگر چودھرائن ایسے معاملوں میں بڑی سیانی تھیں۔ بولیں،”ایسے نہیں ٹھاکر صاحب ، ایسے تو پرانی رنجش پھر ابھر آئے گی۔ ہم خود انہیں مٹھائی دے کر آئیں گے۔”

                شام کو دونوں میاں بیوی مٹھائی کے ساتھ عاجل کی منگنی کی خوشخبری لے کر پہنچے۔ مندراج بابو نے خبر سن کر بڑے ہی روکھے انداز سے کہا۔”مبارک ہو”مگر ان کی بیگم سے تو اتنا بھی نہ ہو سکا۔ وہ سخت چڑ کر بولیں۔”میری تارا میں کیا خرابی تھی؟”ٹھاکر صاحب فوراً بولے۔”دیکھو بھابھی جی، میں یہاں پرانی باتیں دہرانے نہیں آیا۔ آپ کی بیٹی میری بیٹی ہے۔ بیٹیاں سب کی ایک جیسی ہوتی ہیں۔ تارا بہت پیاری بیٹی ہے۔ میری صندل اور کندن جیسی۔ مگر کیا کروں عاجل کی ضد کے آگے ہم سب ہار گئے ہیں۔ ورنہ گھر کی بیٹی کس کو بری لگتی ہے۔”چودھرائن بولیں۔”عاجل تارا کو صندل اور کندن کی طرح بہن سمجھتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ کبھی اس کے ساتھ شادی پر آمادہ نہیں ہوا۔ یہ تو بچوں کے فیصلے ہیں۔ انہوں نے زندگی گزارنی ہے۔ بھگوان کرے تارا کو عاجل سے اچھا بر نصیب ہو۔ ایسی باتوں پر دل برا کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ شادی کوئی زبردستی کا سودا تھوڑا ہی ہے۔ عمر بھر کندھے پر بل جوت کر کوئی بھی نہیں چل سکتا۔ بھگوان تارا کو سدا خوش رکھے۔”تھوڑی دیر بیٹھ کر ٹھاکر صاحب بیگم کو لے کر چلے آئے۔

                گھر میں عاجل کی شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ گہنے بننے کے لئے دے دیئے۔ کپڑے گھر میں مالا، کاجل اور محلے کی چند عورتیں بیٹھ کر سلائی کرنے لگیں۔ ابھی شادی میں تقریباً پندرہ دن تھے کہ ایک دن صبح صبح جب لڑکے اور ٹھاکر صاحب کام پر جانے کے لئے دروازے پر آئے تو دروازہ کھولتے ہی ٹھٹک کر رہ گئے، دہلیز پر مٹی کی ہنڈیا ٹوٹی پڑی تھی۔ جس میں سے تیل، کالی ماش کی دال اور گوشت وغیرہ نکل کر سارے دروازے کے سامنے بکھرا ہوا تھا۔ سنیل اور راہول بولے۔”ارے یہ ٹونہ یہاں کون کر گیا؟”ٹھاکرصاحب نے چودھرائن کو آواز دی۔”بیگم یہاں آیئے۔”وہ آئیں اور دیکھ کر پریشانی کے انداز میں پوچھنے لگیں۔”تم لوگوں نے دہلیز تو پار نہیں کی۔ ابھی پار نہ کرنا، ذرا ٹھہر جاؤ۔ میں پنڈت کو بلاتی ہوں۔”ان آوازوں کو سن کر صندل بھی آ گئی۔ دیکھ کر کہنے لگی۔”ماں یہ کچھ نہیں ہے۔ خادم سے کہو وہ صاف کر دے گا۔”ماں بولی،”نہیں بیٹی، پنڈت کو بلاتے ہیں وہی آ کر اس کا اتار بتائیں گے۔”صندل مسکرا کر بولی،”ماں کسی اتار کی ضرورت نہیں ہے بس یہ ٹونہ کچرے میں پھینکو اور کچھ فقیروں کو دان دے دو۔”ٹھاکر صاحب بھی کہنے لگے”بیگم خواہ مخواہ بات بڑھانے سے کیا فائدہ؟”سنیل اور راہول بولے۔”ماں باپوٹھیک کہتے ہیں، پنڈت بلا وجہ کسی کے خلاف ذہن میں شک بٹھا دینگے، کون جانے ایسے ہی کسی نے شرارت میں جاتے ہوئے پھینک دیا ہو۔”خادم کو بلا کر جگہ صاف کروائی گئی۔ چودھرائن نے اپنے ہاتھ سے آٹے اور چاول کی ایک بوری فقیروں کو دان کی۔ دوپہر کو پڑوس کی عورتیں سلائی کے لئے گھر آئیں۔ چودھرائن نے ان سے پوچھا کہ کسی نے گھر کی دہلیز پر کسی کو دیکھا تو نہیں؟ مگر کسی کو کچھ خبر نہ تھی۔ چودھرائن مالا سے بولی۔”مجھے تو یہ سب کچھ تارا کی ماں کی شرارت لگتی ہے۔”مالا نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔”کسی کو کیا کہا جا سکتا ہے بس آئندہ کے لئے ذرا احتیاط کر لیں گے۔ ماں میں آج ہی سنیل سے کہتی ہوں کہ وہ چوکیدار کا انتظام کر دیں۔”

                عورتیں کام کاج میں مصروف تھیں۔ صندل نے ماں کے کان میں ہولے سے کہا۔”ماں میں سلطان بابا کے پاس ہو آؤں؟ وہاں جا کر اپنے بھائی کے لئے خوب دعائیں کروں گی۔”ماں بولی،”چلی جا مگر اکیلی نہ جانا۔ مجھے ہول اٹھتا ہے۔ خادم کو ساتھ لے جا۔”پھر زور سے خادم کو آواز دی۔ کاجل بولی۔”ماں خادم کو میں نے کسی کام سے بھیجا ہے وہ دو گھنٹے تک آئے گا۔”صندل بولی۔”ماں فکر نہ کرو، میں ابھی گئی اور ابھی آئی۔”ماں اس کے ہنستے چہرے کو دیکھ کر اپنے سارے اندیشے بھول گئی۔ کہنے لگی۔”اچھا جا، جلدی آ نا۔”صندل نے گلابی چزیا سر پر رکھی اور تیر کی طرح دروازے سے باہر نکل آئی۔ آج سارا راستہ اسے شہباز کا خیال آتا رہا۔ اسے دیکھے ہوئے کئی ہفتے گزر چکے تھے۔ اسکارف دینے کے بعد پھر اس سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ اس کی بے چین نگاہیں شہباز کو دیکھنے کے لئے مچل رہی تھیں، وہ ان ہی خیالوں میں غرق مزار پر پہنچ گئی۔

                جاتے ہی سلطان بابا کی قبر کی پائنتی پر ہاتھ جوڑ کر ہمیشہ کی طرح پرنام کیا اور آنکھیں بند کر کے سلطان بابا کے تصور میں بیٹھ گئی اور من ہی من میں ان سے باتیں کرنے لگی۔”سلطان بابا، آج مجھے کوئی خاص بات آپ سے نہیں کہنی تھی۔ بس آج تو آپ صبح سے ہی بہت یاد آ رہے ہیں۔آج تو بس آپ کے درشن کرنے آئی ہوں۔ میرے بے کل من کو قرار چاہئے۔”صندل کا دل اندر ہی اندر فریادی تھا۔ اس کی بند آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ ان اندھیروں کا ایک ایک پل پتھر کی بھاری سل بن کر اس کے دل کو جیسے چکی کے دو پاٹوں میں رکھ کر دبا رہا تھا۔ کچھ دیر یونہی گزر گئی پھر اسے یوں لگا جیسے اس کی آتما کسی نامعلوم راستوں پر سلطان بابا کی کھوج میں در در پھر رہی ہے۔ یہ راستے بڑے دشوار گزار تھے۔ کہیں ان کے اندر اونچے اونچے پہاڑ تھے، کہیں گہری گہری گھاٹیاں تھیں، کہیں گھنے جنگل کی تنائیوں میں سائیں سائیں کرتی آوازیں۔ اس نے دیکھا اس کی آتما ان سب دشواریوں سے بے نیاز اپنی دھن میں اپنی کھوج میں سرگرداں ہے۔ گھنے جنگل میں چلتے چلتے اچانک اس کا پاؤں کسی گڑھے میں جا پڑا۔ اس سے قبل کہ وہ زمین پر گرتی، دو مضبوط بازوؤں نے اسے سنبھال لیا۔ اس نے سنبھلتے ہوئے اپنے چہرے پر بکھری زلفوں کے درمیا ن سے جھانکا تو سلطان بابا نظر آئے۔ سلطان بابا اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے گہری آواز میں بولے۔”صندل یہ آج کن راہوں پر نکل آئی ہے۔”صندل بولی۔”سلطان بابا، آتما تو آتما کی خوشبو کو پہچانتی ہے۔ آپ جہاں بھی ہوں گے میری آتما آپ کی لہروں کی مہک میں آپ کو کھوج ہی لے گی۔”سلطان بابا یہ سن کر بہت خوش ہو گئے۔ صندل کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ کستوری کی لہروں میں ڈوبتی چلی جا رہی ہے۔ کستوری کی خوشبو سے اس کا بدن مہک اٹھا۔ اس خوشبو نے اسے دنیا و مافیہا سے بے خبر کر دیا۔

                کون جانتا ہے وہ کب تک اس عالم میں کھوئی رہتی وہ تو بھلا ہو اس چیونٹی کا جس نے اس کے پاؤں پر کاٹ لیا اور وہ چونک کر اس بے خبری سے نکل آئی۔ اسے ماں کا خیال آیا۔ پتہ نہیں کتنی دیر ہو گئی ہے مجھے یہاں آئے ہوئے۔ ماں راستہ دیکھ رہی ہو گی۔ اس نے قبر کی خاک انگلی سے ماتھے پر لگائی اور پرنام کرتی ہوئی تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ سلطان بابا کا خیال ابھی تک اس کے حواس پر چھایا ہوا تھا۔ ابھی وہ چند قدم ہی چلی تھی کہ اس کا پاؤں کسی نشیب میں جا پڑا۔ وہ بری طرح لڑکھڑاگئی مگر اس سے قبل کہ وہ زمین پر گر پڑی، دو مضبوط بازوؤں نے اسے سنبھال لیا کستوری کی تیز مہک نے اسے بری طرح چونکا دیا ۔ چہرے پر بکھری زلفوں کی چلمن سے حیران نگاہوں نے جھانکا اور اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔”آپ، آپ “ اور وہ دوبارہ لڑکھڑا گئی۔

                صندل کو سنبھالنے والا دراصل شہباز تھی۔ اسی نے صندل کو دوبارہ سنبھالا۔ اب وہ پوری طرح سنبھل گئی اس کے حواس بحال ہو گئے۔ شہباز کہنے لگا۔”صندل جی، یہ محض اتفاق ہے۔ میں صرف یہاں سے گزر رہا تھا۔ آپ کے پاؤں میں موج تو نہیں آئی؟”صندل نے “نہیں”کہہ کر فوراً ہی خدا حافظ کہا اور تیز تیز قدم بڑھاتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔ کستوری کی مہک نے صندل کے ذہن کو جیسے سن سا کر دیا۔ اسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ ان سب واقعات کی کڑیوں کو کس طرح جوڑے۔ اسی تذبذب میں وہ گھر پہنچ گئی۔ تمام عورتیں پہلے کی طرح گپ شپ کرتی ہوئی شادی کی تیاری میں مگن تھیں جیسے ہی وہ اندر آئی سب اس کی طرف دیکھنے لگیں۔ مالا ایک دم بولی،”ارے یہ کستوری کی مہک کہاں سے آئی؟”ایک عورت نے پلٹ کر صندل کی طرف دیکھا اور بولی،”صندل نے لگائی ہے۔”پھر سب ہی عورتیں کہہ اٹھیں۔”بڑی پیاری مہک ہے، کہاں سے لی؟”۔ صندل بولی،”بس مل گئی۔”ماں جو اتنی دیر سے سب کی باتیں سن رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ صندل تو سلطان بابا کے یہاں گئی تھی، یہ خوشبو کہاں سے آئی؟ اس نے پوچھا۔”صندل کہاں سے ملی بیٹی یہ خوشبو؟”صندل بولی۔”ماں آتے ہوئے ایک نشیب میں میرا پاؤں جا پڑا، میں لڑکھڑاگئی، سنبھلی تو یہ خوشبو میرے ہاتھوں میں لگ گئی۔ شاید کسی کی گر گئی ہو گی”اور بات آئی گئی ہو گئی۔

                سارا دن صندل اس واقعہ کے متعلق سوچتی رہی۔ رات کو بستر پر لیٹی تو پھر کستوری کی مہک نے اس کے آگے ان ہی لمحات کی فلم دہرا دی وہ بے چینی کے ساتھ سب کے سونے کا انتظار کرنے لگی۔ آج میں ضرور سلطان بابا سے پتہ کروں گی کہ یہ کیا راز ہے؟ رات کو صندل دیوی والے کمرے میں جاتے ہی اس نے پہلے اپنے رب کو سجدے کئے۔ پھر قرآن کے ایک دو صفحے پڑھے اور وظائف کے بعد سلطان بابا کے تصور میں آنکھیں بند کر لیں۔ مراقبہ میں آنکھیں بند کرتے ہی سلطان بابا سامنے آگئے۔ ابھی صندل نے اپنا مدعا بیان بھی نہیں کیا تھا کہ ایک دم سلطان بابا نے فرمایا۔”صندل وقت تجھ پر سارے اسرار کھول دے گا۔ وقت کا انتظار کر، جا اب اپنا کام کر۔”صندل نے سلطان بابا کو پرنام کیا اور اس کے بعد عالم جنات میں پہنچ گئی۔

                اسکول پہنچتے ہی پرنسپل عزا نے اسے خوشخبری سنائی۔”شہر میں گیارہ اسکول نئی طرز پر بن چکے ہیں۔ جن کے تمام کمرے چوکور اور بڑے بڑے ہیں۔ بہت جلد ہمارا اسکول نئے مقام پر شفٹ ہو جائے گا۔”صندل یہ سن کر بہت خوش ہوئی”مجھے یقین ہے یہ تبدیلی سب کے لئے نفع بخش ہو گی۔”صندل نے یہ خبر تمام طلباء کو سنائی وہ بھی خوش ہوئے کہ اب وہ نئی جگہ جانے والے ہیں۔ صندل سے اب جنات کی دوستی ہوتی جا رہی تھی۔ پرنسپل عزا نے بتایا کہ نئی درسگاہ موجودہ اسکول سے دو گنا بڑی ہے۔ یہ تو صرف لڑکوں کا اسکول ہے مگر اب وہاں پر جنات لڑکیاں بھی درسگاہ میں داخل کی جائیں گی۔ اور نئے اساتذہ بھی شامل کئے جائیں گے۔ صندل اب طلباء کو پڑھانے کا کام نہیں کریں گے بلکہ تمام اساتذہ کے تعلیمی مسائل کا حل تلاش کرنا ان کا کام ہو گا۔ صندل نے اس سلسلے میں بھرپور تعاون کرنے کا اقرار کیا۔ کہنے لگی”سلطان بابا کہتے ہیں کہ ہر نیک کام کرنے کی اِچھّا بھگوان ہی کی جانب سے ملتی ہے۔ نیک عمل کرنے سے صلاحیتیں بیدار اور متحرک ہو جاتی ہیں۔ اپنی صلاحیتوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال بندے کو پرماتما کا شکر گزار بنا دیتا ہے۔”

                عاجل کی شادی کے دن قریب آتے جا رہے تھے۔ گھر میں ہر وقت محلے کی لڑکیاں اور عورتیں بھری رہتیں۔ لڑکیاں اپنا شوق پور اکرنے کے لئے ڈھولک پر گانے گاتیں۔ صندل کو بھی شامل کر لیتیں۔ صندل بھائی کی شادی پر بہت خوش تھے۔ ویسے بھی عاجل کی منگیتر نرملا سے اس کی بچپن کی دوستی تھی۔ نرملا اس سے ایک سال بڑی تھی۔ کندن کی عمر کی تھی۔ تینوں بچپن میں ساتھ کھیلی ہوئی تھیں۔ کندن بھی آج کل میں ہی آنے والی تھی۔ نرملا اسے بھی بہت پسند تھی دو دن بعد کندن بھی آ گئی۔ شادی میں ابھی پانچ دن باقی تھے۔ انیل اسے چھوڑنے آیا اور پھر شام کی گاڑی سے واپس چلا گیا ۔ اس کا پروگرام شادی سے ایک دن پہلے ماں کے ساتھ آنے کا تھا۔ کندن کے آنے سے گھر میں رونق آ گئی۔ چودھرائن نے بیٹی کے لئے شادی میں پہننے کو دو عدد قیمتی جوڑے سلوارکھے تھے۔ داماد کے لئے بھی کپڑے بنوا کر رکھے تھے۔ کندن دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی رہی دوسرے دن صبح سے ہی محلے کی تمام لڑکیاں جمع ہو گئیں۔ دن بھر ڈھول بجتا رہا۔ شادی کے گانے ہوتے رہے۔ سکھیوں نے صندل کا ہاتھ پکڑ کر اسے بھی ڈانس کے لئے زبردستی کھڑا کر لیا۔ چند لمحوں کے بعد ہی صندل کی حالت بدل گئی اسے یوں محسوس ہوا جیسے یہ دنیا نہیں کوئی اور دنیا ہے، نہ یہ سہیلیاں ہیں نہ یہ گھر ہے، نور کا عالم ہے جس میں زمین آسمان سب نور ہی نور ہے۔ اس کے اندر ہر طرف محرابیں ہیں جو نہایت ہی خوبصورت منقش ہیں ان محرابوں کے اندر سے ہلکے ہلکے رنگ نکل کر ساری فضا کو رنگین بنا رہے ہیں۔ صندل نے دیکھا کہ ہر محراب میں سلطان بابا کا ایک عکس ہے۔ صندل درمیان میں کھڑی ہے۔ اس کا روپ سنگھار جوگن کا ہے۔ محرابوں سے جھلکتے رنگ اس کے روئیں روئیں میں جذب ہوتے جاتے ہیں۔ وہ سر تا پیر عشق کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے۔ یہ عشق اس کے اندر لہریں بن کر دوڑ رہاہے اور ان لہروں میں اس کا انگ انگ ڈول رہا ہے۔ وہ بے خودی کے عالم میں جانے کتنی دیر ناچتی رہی۔ تالیوں کا شور اسے دوبارہ زمین پر لے آیا۔

                سب سکھیوں نے اسے گھیر لیا۔”صندل تو نے کمال کر دیا۔”چند سکھیاں جو اس کے قریب تھیں، اکٹھی بول پڑیں۔”ارے تیرے اندر سے تو کستوری کی مہک آرہی ہے۔”

                شادی سے دو دن پہلے عاجل بھی آ گیا۔ برات والے دن سب لڑکیوں نے اپنے بالوں میں گجرے سجائے۔ صندل اور کندن بھی خوب بنی سنوریں۔ آنکھوں میں کاجل لگایا، ماتھے پر صندل کی بنکیاں لگائیں، جھلمل کرتی بندیا سجائی۔ عاجل کے بعد ان کا اور کوئی بھائی شادی کے لئے باقی نہ تھا۔ اس لئے دونوں نے اپنے سارے ارمان نکال لئے۔ عاجل شہر سے دونوں بہنوں کے لئے خوبصورت چاندی کی پازیب لایا تھا۔ مہندی لگے پاؤں میں پازیب نظر کو لبھا رہی تھی۔ ایسے میں جانے کہاں سے شہباز صندل کے تخیل میں آپہنچا۔ اس کے سارے ارمان پکار اٹھے۔”کاش شہباز ایک نظر اسے دیکھے”اپنے خیال سے وہ خود ہی شرما گئی۔ گلابہ لہنگے میں وہ گلاب کی ادھ کھلی کلی دکھائی دی، بھائی کی برات میں سکھیوں کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی جب وہ باہر نکلی توگاؤں کے لڑکوں کا ہجوم سامنے تھا۔ جونہی اس نے نظریں اٹھائیں اس ہجوم میں اس کی نگاہ دفعتاً کسی سے ٹکرا گئی۔ نظڑ نے اسے پہچان لیا۔ کلی کے رنگ گہرے ہو گئے۔ جوڑے کا گجرا کھل کر شہباز کے قدموں میں جا پڑا وہ انجان بنی تیزی سے آگے بڑھ گئی۔ مگرکن انکھیوں سے اس نے شہباز کو زمین پرجھکتا ہوا دیکھ لیا۔ اس کاوجود دل بن کر دھڑکنے لگا۔ اس نے سکھی کو مضبوطی سے تھام لیا۔ کہیں چلتے چلتے گر پڑی تو اور آفت آئے گی۔ سکھیاں اس کے دل کی حالت سے بے نیاز ہنستی بل کھاتی نکلتی چلی گئیں۔

                تھوڑی دور آگے جا کر جب اس کے اوسان کچھ بحال ہوئے تو اس نے من ہی من میں سلطان بابا کو پکارا۔”سلطان بابا، شہباز کو دیکھتے ہی مجھے کیا ہو جاتا ہے۔ میرا سارا بدن جیسے بے قابو ہو جاتا ہے۔ سلطان بابا، میری نظر اسے کیوں ڈھونڈتی ہے۔ اسے میرے سامنے نہ آنے دیا کریں۔ میں نے بھگوان کا راستہ چن لیا ہے۔ میں دنیا کا راستہ اختیار کرنا نہیں چاہتی پھر میرے دل میں کیوں اس کی امنگ اٹھی ہے۔ سلطان بابا، سلطان بابا”اس کا م من اندر ہی اندرسلطان بابا کو پکارتا رہا۔ جیسے کوئی دریا میں ڈوبتا ہوا مدد کے لئے پکارتا ہے۔پھر اگلے ہی لمحے سکھیوں کی چہلوں نے اس کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔

                نرملا دلہن بن کر گھر آ گئی۔ گھر کی دہلیز پر بڑی بھاوج مالا نے اس کی آرتی اتاری۔ سیندور کا ٹیکہ ماتھے پر لگایا۔ خادم نے ناریل زمین پر پھوڑا۔ چھوٹی بہو کاجل نے سوکھے چاول اس کے اوپر لگائے۔ چودھرائن نے آگے بڑھ کر بڑے چاؤ سے اس کی بلائیں لیں۔ نرملا گھونگھٹ کی اوٹ میں سب کے پاؤں چھو کر سواگت کرتی رہی۔ کندن اور صندل نے پھولوں کی پتیاں اس کے قدموں میں بچھا دیں۔ ٹھاکر صاحب نے بہو کے سر پر ہاتھ رکھ کر ڈھیر ساری دعائیں دیں۔ عاجل کی صورت دیکھنے والی تھی۔ اس کا چوڑا وجیہہ چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ عاجل ایک ہفتے تک گھر پر رہا۔ کندن بھی تھی۔ اس مرتبہ انیل بھی کندن کے ساتھ ہفتے بھر کے لئے سسرال میں ٹھہر گیا۔ بھرا پراگھر ہر وقت قہقہوں سے گونجتا رہا۔ یوں تو صندل اس پر رونق ماحول میں اپنوں کے ساتھ بے حد خوش تھی مگر جب رات ہوتی تو اس کا جی چاہتا کہ وہ صندل دیوی والے کمرے میں جا کر عبادت کرے، قرآن پڑھے مگر ڈر کے مارے اس نے کبھی اس طرف رخ نہ کیا۔ اگر جیجا جی دیکھ لیں یا اور کسی کو پتہ چل جائے تو جانے کیا ہو جائے۔ وہ رات کو اپنے کمرے کا دروازہ بند کر لیتی اور وہیں اپنے رب کی عبادت اور مراقبہ کر لیتی۔

                عاجل اور نرملا دھامن گاؤں سدھارے۔ اسی دن کندن اور انیل نے بھی ٹرین پکڑی شادی ہنگامہ ختم ہوا۔ صندل کو یوں لگا جیسے تیزی سے بہتی ندیا میں ٹھہراؤ آی گیا ہے۔ شام کو اس نے اشنان کیا۔ سفید کپڑے پہنے، بال سنوارے اور رات کے انتظار کی گھڑیاں گننے لگی۔ رات کو جب سب سو گئے وہ صندل دیوی والے کمرے میں آئی۔ سب سے پہلے اپنے رب کو سجدہ کیا اور قرآن اٹھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو قرآن وہاں نہیں تھا۔ اس کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔ خوف اور اندیشے نے اسے گھیر لیا۔ یہاں کوئی آیا ہے۔ اگلے ہی لمحے سلطان بابا سامنے دکھائی دیئے اس نے ادب سے انہیں پر نام کیا۔ سلطان بابا فوراً بولے “صندل تو فکر نہ کر، تیرا قرآن ہمارے پاس ہے۔”صندل کی بکھرتی سانسوں میں اعتدال آ یا۔ سلطان بابا پھر بولے۔”صندل تجھے فکر تھی کہ کوئی تیرا قرآن نہ دیکھ لے۔ کسی کو پتہ نہ لگ جائے کہ تو قرآن پڑھتی ہے۔ تو ہم نے ایک جن کو اس پر مقرر کر دیا ہے۔ یہ جن ہم تیری تحویل میں دیتے ہیں۔ اس کا نام حزقیل ہے۔ یہ جن تیرے قرآن کی حفاظت کرے گا۔ گھر میں تیرے سوا اس قرآن کو اور کوئی دیکھ نہیں سکے گا۔”پھر سلطان بابا نے داہنے ہاتھ سے ایک چٹکی بجائی۔ اسی وقت ایک قوی ہیکل جن نمودار ہوا۔ وہ پہلے سلطان بابا کے آگے جھکا پھر صندل کے آگے سرخم کیا اور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔ سلطان بابا نے فرمایا۔”حزقیل یہ صندل دیوی ہیں۔ وہ قرآن جس کی حفاظت کا کام ہم نے تمہیں سونپا ہے وہ ان کا ہے۔ قرآن ان کے سوا اور کسی کو نظر نہیں آنا چاہئے۔ جاؤ قرآن حاضر کرو۔”حزقیل جن نے کورنش بجا لاتے ہوئے ادب سے کہا۔”سرکار یہ حاضر ہے۔”اور اس نے ہاتھ آگے کر کے الماری کے خانے میں ڈالا۔ صندل دیکھ رہی تھی جن کا ہاتھ الماری کی پچھلی دیوار کے آر پار ہو گیا اور پھر اس نے جب ہاتھ نکالا تو اس کے ہاتھ میں قرآن تھا۔ جو اس نے صندل کو نہایت ہی ادب کے ساتھ جھکتے ہوئے پیش کیا۔ صندل نے قرآن لے کر اسے آنکھوں سے اور سینے سے لگایا۔ پھر سلطان بابا کے قدموں میں جھک گئی۔ سلطان بابا نے اسے تسلی دی”آئندہ کسی قسم کی فکر نہ کرنا۔ اگر کوئی کام ہو تو حزقیل جن تمہاری مدد کرے گا۔”صندل نے کہا”سلطان بابا میرا جی چاہتا ہے میں ہمیشہ کے لئے آپ کی دنیا میں آ جاؤں، یہ دنیا چھوڑ دوں۔”سلطان بابا نے اس کے ریشمی بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا”ایسا ہی ہو گا۔ ایسا ہی ہو گا مگر پرماتما نے تجھے جوگن کا روپ دیا ہے۔ تجھے جوگن بننا ہی ہو گا۔”یہ کہہ کر سلطان بابا غائب ہو گئے۔

                صندل بیٹھ کر قرآن پڑھنے لگی۔ جیسے ہی وہ قرآن پڑھنے کے لئے بیٹھی اس نے دیکھا کہ دروازے کے باہر حزقیل جن پہرہ دے رہا ہے۔ اس کا سرشکر کے ساتھ سرنگوں ہو گیا اور اس نے قرآن پر ہی عقیدت کے ساتھ ماتھا ٹیک دیا اور دل ہی دل میں اپنے رب کا شکر کرنے لگی۔ اس نے قرآن میں پڑھا کہ جو سرکش شیطان آسمان میں غیب کے اسرار جاننے کی کوشش میں پرواز کرتے ہیں تو آسمان کی سرحدوں پر شہاب ثاقب کے ذریعے انہیں مار گرایا جاتا ہے۔ ان کا داخلہ آسمانوں میں بند ہے۔ یہ پڑھ کر اس کے ارادے میں کوئی بات آئی اور اس ارادے کے ساتھ وہ عالم جنات میں پہنچی۔ نئی درسگاہ میں صندل کے لئے ایک بڑا سا آفس تھا۔ جس میں ہر قسم کی سہولتیں تھیں۔ اس نے میز پر لگے ہوئے بہت سارے بٹنوں میں سے ایک بٹن دبایا۔ پرنسپل عزا کی آواز کمرے میں سنائی دی۔ صندل بولی۔”عزا صاحب، ذرا کمرے میں تشریف لائیں، آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔”

                تھوڑی دیر میں عزا صاحب آ گئے۔

                صندل بولی۔”عزا صاحب، کیا کبھی آپ آسمان کی سرحدوں تک گئے ہیں؟”پرنسپل عزا بولے۔”صندل جی، میں بذات خود کبھی وہاں نہیں گیا۔ سنا ہے کہ وہاں زبردست پہرہ ہے۔ “ صندل بولی،”عزا صاحب میں نے قرآن میں پڑھا ہے کہ جو شیطان چوری چھپے سرحد پار کر کے آسمان میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں انہیں شہاب ثاقب کے ذریعے مار گرایا جاتا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ درسگاہ کے طلباء کو قرآن کی یہ آیتیں پڑھائی جائیں۔

                انہیں بتایا جائے کہ تخریب کاری کا ذہن رب کے نزدیک کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہے۔ وہ جن جو تخریب کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں، ان کا داخلہ آسمانوں میں ممنوع ہے۔ وہ اسی عالم میں قید کر دیئے جاتے ہیں اور اگر وہ اس قید سے رہائی پانے کے لئے چوری چھپے بھاگ نکلنے کی کوشش بھی کریں تو سرحد پر ہی مارے جاتے ہیں۔ عزا صاحب کیوں نہ ہم طلباء کو قرآن کی اس تعلیم کے بعد سرحد پر لے جا کر قرآن کی آیات کا مشاہدہ بھی کرائیں تا کہ وہ قرآن کے حقائق کو پہچانیں اور فطرت کے قوانین کو توڑنے کی کبھی ہمت نہ کریں۔ عزا صاحب، قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ “اے جن و انس، تم آسمانوں اور زمین کے کناروں سے سلطان کی مدد کے بغیر ہرگز نہیں نکل سکتے۔”عزا صاحب نے سوال کیا۔”صندل جی، سلطان کی مدد سے کیا مراد ہے؟”صندل بولی۔”عزا صاحب تخریبی فکر انفرادی ذہن کا خیال ہے اور تعمیری فکر اس دماغ کا خیال ہے جو انفرادی ذہن کو اپنے دماغ کا ایک جزو سمجھتا ہے۔ کل ہمیشہ جزو پر غالب رہتا ہے۔ تعمیری فکر رب کا ارادہ ہے جو آتما کے ذریعے سے فرد تک پہنچتا ہے۔ سلطان آتما ہے جو رب کے ارادے کو خیال کا جامہ پہنا کر فرد کے شعور و ذہن کے سامنے لے آتی ہے۔ آتما سے رشتہ جوڑے بغیر انفرادی نفس زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکتا اسے آتما کی شکتی کی ضرورت ہے بغیر شکتی کے وہ کائنات میں سفر نہیں کر سکتا، جو رب نے اپنی مخلوق کے لئے مقدر کر دیا ہے۔

                اپنے مقدر کو پانے کے لئے اسباب و وسائل کا استعمال ضروری ہے۔”

                پرنسپل عزا نے کہا۔”میں جلد ہی آپ کے مشورے کے مطابق سارا پروگرام ترتیب دے کر آپ کو اطلاع دے دوں گا۔ مگر طلباء کو تعلیم دینے سے پہلے اساتذہ کو اس کی تعلیم دینی ہو گی کیونکہ ہمارے یہاں قرآن کا علم جاننے والے جن بہت ہی کم ہیں۔”صندل بولی۔”اساتذہ کی تعلیم کا ذمہ میں لیتی ہوں آپ کل کسی وقت ان سب کو میرے پاس بھیج دیں۔”

                دوسرے دن صندل نے تمام اساتذہ کو قرآن کی وہ آیات پڑھ کر سنائیں اور انہیں اس پروجیکٹ کے متعلق بتایا۔ سب بہت خوش ہوئے۔ صندل نے کہا۔”پرماتما کا علم صرف اس کی کتابوں میں نہیں ہے بلکہ ساری کائنات اسے علم کا مظاہرہ ہے۔ کسی شے کا علم حاصل ہونے کے بعد ظاہر میں شے کو دیکھنے سے اس شے پر یقین کامل ہو جاتا ہے۔ ہمارا پلان بھی یہی ہے کہ پہلے طلباء کو قرآن کی آیات کے مطابق شیطانی طرز فکر اور اس کے انجام سے آگاہ کیا جائے اور پھر انہیں ایسے عبرتناک مقامات کی سیر کرائی جائے۔ تا کہ ان کے نفسوں کی سرکشی دور ہو جائے اور جب وہ مطیع ہو کر ہمارے پاس آئیں تو پھر ہم انہیں وہ راستہ بتائیں جو رب نے ان کے لئے پسند کیا ہے۔”کچھ دنوں تک اسی نہج پر تعلیم و تربیت کا پروگرام چلتا رہا۔ صندل کو یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن ضرور جنات میں بڑھتی ہوئی شیطنیت کا زور ٹوٹ جائے گا۔ وہ درسگاہ میں اپنے آفس میں بیٹھی ہوتی مگر اس کے خیالات کی لہریں ساری درسگاہ میں پھیل جاتیں۔ ان لہروں میں سب کے لئے یہ پیغام ہو تا کہ اے جن و انس ، پرماتما نے تمہیں اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اس کی عبادت تمہارے دلوں کا مطیع و فرمانبردار ہونا ہے۔ سرکش اور نافرمان کے لئے اس کی سلطنت میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ وہ نیست و نابود کر دیئے جاتے ہیں۔ اٹھو اور بارگاہ ایزدی میں اطاعت کے گھٹنے ٹیک دو تا کہ تمہیں بندگی کی راہ مل جائے۔ کچھ دنوں کے بعد اساتذہ نے آ کر صندل کو رپورٹ دی کہ بچوں اور نوجوانوں میں شیطانی وارداتیں کافی کم ہو گئی ہیں۔ اب جلدہی وہ آسمان کی سرحد پر جانے کا پروگرام بنانا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں پرنسپل عزا کے ساتھ تمام اساتذہ کی میٹنگ ہوئی۔ صندل بھی موجود تھی طے یہ پایا کہ منگل وار کے دن صبح تڑکے درسگاہ کے تمام طلباء اور اساتذہ کا قافلہ راکٹ میں سرحد کے لئے روانہ ہو گا۔ تمام طلباء اور اساتذہ کے لئے سلور یونیفارم تیار کی گئیں تا کہ پہچانے جائیں۔ اس کے علاوہ آسمان کی سرحد پر تعینات فرشتوں کی فوج کو اطلاع کر دی گئی کہ فلاں دن فلاں وقت درسگاہ کے طلباء مشاہدہ شہاب ثاقب کے لئے تشریف لا رہے ہیں۔



Jogun

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


روح کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ روح عورت یا مرد ہوتی ہے۔ روح روح ہوتی ہے اور کیونکہ روح صرف روشنی ہوتی ہے اور روشنی کے لئے حد بندیاں قائم نہیں کیں جا سکتیں۔ روشنی ہر جگہ ہے۔ روشنی کے لئے در و دیوار معنی نہیں رکھتے۔ روشنی ٹائم اور اسپیس سے آزاد ہے۔ جب کوئی مرد یا عورت روح سے واقف ہو جاتی ہے تو اس کے اوپر سے ٹائم اور اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ ہزاروں سال پہلے کے واقعات اور ہزاروں سال بعد کے آنے والے واقعات کو دیکھ لیتا ہے۔ چونکہ ماضی، حال، مستقبل اس کے سامنے آ جاتا ہے اس لیے وہ اس بات سے واقف ہو جاتا ہے کہ کائنات میں اللہ کے علاوہ کسی کی حاکمیت نہیں ہے اور جب کوئی بندہ اللہ کی حاکمیت یقین کے ساتھ قبول کر لیتا ہے تو اس کر اندر سے غم و پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں اور وہ سکون کے گہوارے میں محو خرام ہو جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سعیدہ خاتون عظیمی کی اس کاوش کو عوام الناس کے لئے مقبول بنائے اور جو لوگ اس کتاب کا مطالعہ کریں ان کے ادراک و فہم میں جلا بخشے۔

                آمین

خواجہ شمس الدین عظیمی

مرکزی مراقبہ ہال

سرجانی ٹاؤن، کراچی