Topics

بھگوان کے تصور کو ایک روپ مل گیا



                اس دن کے بعد سے صندل کی دنیا ہی بدل گئی اس کے اندر بھگوان کے تصور کو ایک روپ مل گیا۔ ہزار کوششوں کے باوجود وہ اس عکس کو ذہن سے مٹا نہ سکی۔ وہ تو جیتی جاگتی ایک ایسی ہستی ہے جس سے زندگی کی قوت لہریں بن بن کے آدمی تک پہنچتی رہتی ہیں۔ وہ گھنٹوں اسی کے تصور میں گم رہتی۔ یہاں تک کہ اس کے اطراف میں تصور کے روپ سے اس کے جمال کی لہریں نکل نکل کر اس کے ارد گرد جمع ہو جاتیں۔ اسے یوں محسوس ہوتا جیسے بھگوان نے اسے اپنے بہت سے ہاتھوں میں تھام لیا ہے۔ وہ ان ہاتھوں میں محفوظ سکون کی نیند سو جاتی اور سپنوں کی دنیا میں کھو جاتی۔ کتنے دنوں سے وہ سلطان بابا کی قبر پر بھی نہیں گئی تھی۔ سلطان بابا تواس کے اندر خون کی طرح رچے بسے ہوئے تھے۔ بھولنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، وہ تو ہر بات ان سے کہنے کی عادی ہو چکی تھی۔ مگر جانے کیا بات تھی اس مرتبہ اسے اپنے ماضی الضمیر کے اظہار کے لئے الفاظ ہی نہیں ملتے تھے۔ یوں لگتا جیسے ان نظروں نے قدرت کا کوئی راز اس کے سینے میں داخل کر دیا۔ دل کے تمام دروازوں پر اس کی نگاہوں کا پہرہ ہے کہ کوئی بات زبان تک نہ آ جائے۔ اس دن اسے سلطان بابا کی بہت یاد آئی۔ سلطان بابا میں کیا کروں؟ ہمیشہ جب وہ سلطان بابا کو پکارتی تو اسے اپنے ذہن میں کسی نہ کسی طرح ان کے ساتھ رابطے کا احساس ہو جاتا، یا وہ ذہن کے پردے پر انہیں دیکھ لیتی، یا اندر ہی اندر ان کی آواز سن لیتی، مگر جانے کیا بات تھی آج جب وہ سلطان بابا کو پکارتی، سلطان بابا میں کیا کروں؟ تب ہر دفعہ سلطان بابا کی جگہ منڈپ کے دروازے پر وہی دو آنکھیں اسے گھورتی دکھائی دیتیں۔ وہ پریشان ہو گئی۔ بھگوان یہ مجھے کیا ہو گیا ہے؟ اس نے ماں سے کہا۔”ماں مجھے سلطان بابا یاد آ رہے ہیں۔ ان کے مزار پر پھول چڑھا آؤں؟”ماں جانتی تھی صندل پر ان بزرگ کا سایہ ہے۔ اس نے وہاں جانے سے اسے کبھی نہیں روکا۔ ماں نے فوراً کہا۔ “ بیٹی خادم کو ساتھ لے جاؤ۔”وہ فوراً بولی۔”ماں خادم تو کسی کام سے گیا ہوا ہے۔ کندن بھی مصروف ہے۔ میں اکیلی ہی ہو آتی ہوں۔”ماں نے اجازت دے دی، مزار کچھ اتنا دور بھی نہ تھا۔ اس نے چلتے چلتے اپنے باغ سے گلاب کے چند پھول توڑے اور سلطان بابا سے ملنے نکل گئی۔ ہر قدم پر اسے یوں محسوس ہوتا جیسے وہی دو آنکھیں اس کا پیچھا کر رہی ہیں۔ وہ گھبرا کے مڑ کر دیکھتی اور خود اپنی حالت پر ہنس پڑتی۔ سلطان بابا کے مزار پر پہنچ کر اس نے قبر پر پھول رکھے اور ہاتھ جوڑ کر بابا کو ادب کے ساتھ پرنام کیا پھر آنکھیں بند کر کے من ہی من میں ان کو پکارنے لگی۔ چند ہی لمحوں میں سلطان بابا کی شبیہ اس کی آنکھوں کے سامنے تھی۔ اس نے اطمینان کا گہرا سانس لیا۔ وہ بولی۔”سلطان بابا آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں؟”سلطان بابا مسکرائے۔”بیٹی تم نے ایسا سوچا ہی کیوں؟”صندل بولی۔”سلطان بابا پھر میں جب آپ کو پکار رہی تھی تو آپ نے میری پکار کا جواب کیوں نہیں دیا؟”سلطان بابا شفقت کے ساتھ اس کے ریشمی بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے۔”بیٹی تم نے ہمیں نہیں پکارا ورنہ ہم ضرور جواب دیتے۔”صندل بولی۔”سلطان بابا میں نے آپ کو اتنی مرتبہ پکارا تھا۔”سلطان بابا اس کی آنکھوں میں گھورتے ہوئے بولے۔”بیٹی تمہاری آواز تو منڈپ کے دروازے پر پہنچ رہی تھی۔”صندل مراقبہ میں عرق عرق ہو گئی اس نے گھبرا کے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا لیا۔ سلطان بابا کی دھیمی آواز اس کی سماعت میں داخل ہوئی۔”بیٹی انسان کی زندگی چار ادوار سے گزرتی ہے۔

                مگر اس بنیاد پر بندہ اپنی سہولتوں اور پسند کے مطابق تصویر بناتا ہے۔ بنیاد محبت ہے بچپن میں اسی بنیاد پر بچہ ماں کی تصویر بناتا ہے پھر باپ اور بہن بھائی کی تصویریں اس کے ذہن میں بنتی ہیں۔ ان سب سے وہ اپنی محبت کے تقاضے کی تکمیل کرتا ہے اور پھر لڑکپن میں جب ان تقاضوں کا پھیلاؤ کچھ اور بڑھ جاتا ہے تو اس کے تصور کے پردے پر سکھیوں کی تصویریں بنتی ہیں وہ ان سکھیوں کو اپنے لڑکپن کی محبت کے تقاضوں کی تکمیل کا ذریعہ بنا لیتا ہے اور پھر لڑکپن، جوانی کے دور میں داخل ہو جاتا ہے۔ محبت کا تقاضہ اپنے شباب کو پہنچ جاتا ہے عروج کے اس زینے پر کھڑا ہوا ہر فرد اپنے ہم جنس کو دیکھتا ہے اور اپنے ہم جنس کے ساتھ محبت کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے پھر بچپن ، لڑکپن اور جوانی کے تینوں ادوار مل کر ایک نئے دور میں داخل ہو جاتے ہیں۔ جسے بڑھاپا کہتے ہیں۔ بڑھاپا ان تینوں دور کا تصویر خانہ ہے۔ جس میں آنکھ تینوں ادوار کو دیکھ کر ان کی یادوں کو دہرا دہرا کے خوش ہوتی رہتی ہے تب اسے اس حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ ہر تصویر ایک ہی پردے یا بنیاد پر رکھی گئی تھی۔ پس وہ پوری طرح اس بنیاد کی جانب متوجہ ہو جاتا ہے۔”

                صندل مراقبہ میں پوری طرح ڈوب چکی تھی۔ اسے اپنے گرد و پیش کا کچھ ہوش نہ تھا۔ اس نے سلطان بابا سے پوچھا۔”مگر سلطان بابا اگر کوئی جوانی میں ہی اس بنیاد کی جانب متوجہ ہو جائے تو کیا کرنا چاہئے؟”سلطان بابا بولے۔”بیٹی، مخلوق کے ہر تقاضے کی بنیاد محبت ہے اور محبت کا مرکز ایک ذات واحد ہے جسے تم بھگوان کہتی ہو، امیں اللہ کہتا ہوں بیٹی بنیاد کے بغیر عمارت کھڑی نہیں ہو سکتی تم بھی ایک عمارت ہو، میں بھی ایک عمارت ہوں۔ کائنات کا ذرہ ذرہ ایک تعمیر ہے اور یہ ساری تعمیرات ایک ہی زمین پر ہیں جو خالق حق کا نور ہے۔ اس نور میں خالق کا تفکر محبت بن کر دوڑ رہا ہے۔ یہی محبت مخلوق کی زندگی اور زندگی کے تقاضے ہیں۔”سلطان بابا کی آواز صندل کی سماعت میں جیسے جیسے اترتی جاتی وہ اپنے دل کی حد نگاہ پر وہی خواب عکس دیکھتی۔ وہ عکس اس کی نگاہ کے دونوں رخوں میں اتر آیا تھا۔ اس نے اپنے دل کی گہرائیوں سے نکلتی آواز میں کہا سلطان بابا، مجھے اس بھگوان کی کھوج ہے جس نے اپنے نور کے پردے میں اپنے آپ کو چھپا لیا ہے، میں کیا کروں؟ سلطان بابا بولے۔”جوگن بن جا، اس کا آئینہ بن جا۔”اور پھر سلطان بابا کی نورانی شبیہ اس کی بند آنکھوں سے غائب ہو گئی۔ صندل کا دل بھر آیا۔ اس نے آنکھیں کھول دیں اور قبر سے لپٹ لپٹ کر زور زور سے رونے لگی۔ جب دل کا غبار نکل گیا تو وہ چپ چاپ گھر کی طرف روانہ ہو گئی۔

                چودھرائن کو اسی دن سے لڑکیوں کی شادی کی فکر لگ گئی تھی۔ ٹھا کر صاحب سے بھی اس کا ذکر کیا۔ ٹھا کر صاحب بولے۔”دیر کیا ہے۔ جلد از جلد رشتہ تلاش کرو اور سگائی کر دو۔”چودھرائن نے اس سلسلے میں مالا اور کاجل سے بھی بات کی۔ مالا نے بتایا۔”اس کے دو ر پرے کے ایک رشتے کے چچا کا بیٹا اگلے گاؤں میں رہتا ہے۔ اس کی بہت سی زمینیں ہیں۔ اور وہ دس جماعت پڑھا ہوا ہے۔ سارے گاؤں میں اتنی تعلیم کسی کی نہیں ہے۔ سارا گاؤں اس پر فخر کرتا ہے۔ اس نے یہ تعلیم شہر جا کر حاصل کی تھی۔ کیونکہ گاؤں میں تو مدرسے صرف آٹھویں جماعت تک ہی ہیں۔ صورت شکل میں بھی بانکا جوان ہے۔”مالا بولی۔”ماں جی، تم ایک نظر اس کو پہلے دیکھ لو۔ تو پھر باقی بات میں کر لوں گی۔”چودھرائن بولیں۔”بیٹی تو نے دیکھ لیا تو میں نے دیکھ لیا۔ اب مجھ سے تو اتنی دور نہیں جایا جاتا۔ البتہ کاجل کو دکھا لے۔”وہ بولی۔”ماں جی، پچھلے ہی دنوں ان کے یہاں سے مجھے بلاوا آیا تھا۔ میں کاجل اور راہول کے ساتھ چند دنوں تک وہاں ہو آتی ہوں۔ سب کو پسند آ گیا تو وہیں چاچی کے کان میں بات ڈال آؤں گی۔”

                چودھرائن مالا کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتی ہوئی بولیں۔”بھگوان تجھے سدا سکھی رکھے۔”میرے کندھوں کا بوجھ اتر جائے گا۔ دوسرے دن دونوں بہوؤں نے جانے کی تیاری کی مالا نے کندن سے بھی چھیڑ چھاڑ میں ذکر کر دیا کہ ہم تیرا بر دیکھنے جا رہے ہیں۔ اس کے چہرے پر حیا کی لالی دیکھ کر سب کو اطمینان ہو گیا کہ کندن کو شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ تیسرے دن صبح صبح تینوں روانہ ہو گئے۔ ریل سے ایک دن کا سفر تھا۔ رات تک وہاں پہنچنا تھا۔ جلدی میں پروگرام بنا اس لئے کسی کے ذریعے اطلاع نہ پہنچا سکے۔ یوں اچانک جانے پر سارا گھر خوش ہو گیا۔ دو دن تک بڑی آؤ بھگت ہوتی رہی۔ راہول سے انیل کی اچھی خاصی دوستی ہو گئی۔ سب کو ہی انیل بہت پسند آیا۔ اس کے ماں باپ بھی اچھے تھے۔ کاجل اور راہول نے مالا کو آگے رکھ کر کہا اور اپنی چچی سے بات کرو۔ اس نے باتوں باتوں میں کندن کا ذکر کر کے انیل کے رشتے کے لئے معلوم کیا۔ چچی تو بہت ہی خوش ہوئیں۔ کہنے لگیں میں اپنے بیٹے کے لئے آج کل رشتہ تلاش کر رہی ہوں۔ اگر خاندان میں لڑکی مل جائے تو اس سے اچھی بات ہی کیا ہے۔ اس نے راہول اور کاجل سے کہا ۔ میں بھگوان کی آگیا سے جلد ہی آ کر لڑکی کو دیکھوں گی۔ آنے سے پہلے لوگوں کو اطلاع کر دوں گی۔ راہول بولو۔ چچی انیل کو بھی لے آنا۔

                اس کے ساتھ میرا من لگ گیا ہے۔ دوبارہ ملاقات ہو جائے گی۔ دو دن اور ٹھہر کر سب لوگ واپس گھر لوٹ آئے۔ کامیابی کی کرن نظر آنے پر سارے بہت خوش تھے۔ صندل کو پتہ چلا تو اس کی تو خوشی کا ٹھکانہ ہی نہ تھا۔ صندل خوشی میں ماں کے شانے ہلا ہلا کر کہنے لگی۔”ماں میں کندن کی شادی میں چار جوڑے بنواؤں گی۔ ایک منگنی کا، ایک سگائی کا، ایک تیل مہندی کا وہ انگلیوں پر گن گن کے بتانے لگی۔”ماں خوشی سے ہنستے ہوئے بولی۔”ارے رشتہ طے تو ہو جانے دو میں تجھے چار کیا چھ جوڑے بنوا دوں گی۔”اتنے میں کاجل بولی۔”ماں اب اگلے سال صندل کی بھی تو باری ہے۔”صندل فوراً بولی۔”نہیں بھابھی میں نے تو شادی کرنی ہی نہیں ہے۔”سب زور سے ہنس پڑیں کسی کو صندل کی بات پر یقین ہی نہ آیا تھا۔ سب یہی سمجھے کہ صندل شرما کے ایسا کہہ رہی ہے بات آ ئی گئی ہو گئی۔

                پندرہ دن بعد چچا چچی کی طرف سے پیغام آیا کہ وہ کل شام کو یہاں پہنچ رہے ہیں۔ خادم سے جلدی جلدی سارے گھر کی صفائی کرائی گئی۔ بستروں کے لئے نئی چادریں نکالیں، مہمانوں کے لئے نئی رضائیاں اور گدے نکالے گئے، مالا اور کاجل نے راتوں رات گاجر کو حلوہ تیار کیا غرضیکہ سارے گھر میں خوشی کی ہلچل مچ گئی۔ دوسرے دن کندن نے نہا دھو کر گہرا نارنجی جوڑا پہنچا، خوبصورت تو وہ تھی ہی کنگھی چوٹی کر کے اور زیادہ پیاری لگنے لگی۔ شام کو چچی اور انیل آئے۔ چچا کسی کام سے نہیں آ سکے۔ آتے ہی جب گھر والوں کے ساتھ کندن نے بھی دونوں کو پرنام کیا تو مالا فوراً بولی۔ چچی ہماری کندن ہے۔ کندن اس تعارف پر جھینپ گئی اس کا چہرہ شرم سے گلابی ہو گیا۔ چچی نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگایا اور عادی اور انیل بہت دیر تک ترچھی ترچھی نظروں سے اسے دیکھتا رہا۔ وہ رات تو یونہی باتوں میں گزر گئی۔ مگر دوسرے دن چچی سے رہا نہ گیا۔ وہ سب ناشتہ کر کے ابھی فارغ ہی ہوئے تھے۔ سب مرد کام پر چلے گئے۔ لڑکیاں کچن کی صفائی وغیرہ میں لگ گئیں۔ چودھرائن چچی کو لے کر باہر صحن میں کھاٹ پر آبیٹھیں۔ بیٹھتے ہی چچی فوراً بول اٹھیں۔”بہن جی، کندن تو ہم کو پرماتما کی دیا سے بہت پسند آئی ہے۔ رات کو انیل سے بھی پوچھ لیا تھا وہ بھی خوش ہے۔ اب جیسا آپ کہو گے ہم تو سگائی کے لئے بالکل تیار ہیں۔ میں تو اسی خیال سے آئی تھی کہ مالا نے ذکر کیا تھا تو منگنی کا جوڑا اور انگوٹھی وغیرہ سب ساتھ لیتی آئی تھی کہ پسند آ جائے گی تو بات پکی کر کے جاؤں گی۔”چودھرائن بولیں۔”بہن جی آپ کے ساتھ تو ہمارا دل مل گیا ہے۔ لڑکی آپ کی ہے مگر آپ انیل کے پتا کو بھی دکھا دیتے تو اچھا ہوتا۔”چچی فوراً بولیں۔”انیل کے پتا بہت سیدھے آدمی ہیں۔ وہ گھر کے کسی کام میں دخل نہیں دیتے۔ انہوں نے ساری ذمہ داری مجھ پر چھوڑی ہوئی ہے۔ ان کے پاس تو زمینوں کا کام ہی بہت ہوتا ہے۔ میری پسند ان کی پسند ہے۔ ان کی پسند میری پسند ہے۔ بہن جی آپ بالکل چنتا نہ کریں۔ مالا تو گھر کی لڑکی ہے وہ سب کچھ جانتی ہے۔



Jogun

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


روح کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ روح عورت یا مرد ہوتی ہے۔ روح روح ہوتی ہے اور کیونکہ روح صرف روشنی ہوتی ہے اور روشنی کے لئے حد بندیاں قائم نہیں کیں جا سکتیں۔ روشنی ہر جگہ ہے۔ روشنی کے لئے در و دیوار معنی نہیں رکھتے۔ روشنی ٹائم اور اسپیس سے آزاد ہے۔ جب کوئی مرد یا عورت روح سے واقف ہو جاتی ہے تو اس کے اوپر سے ٹائم اور اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ ہزاروں سال پہلے کے واقعات اور ہزاروں سال بعد کے آنے والے واقعات کو دیکھ لیتا ہے۔ چونکہ ماضی، حال، مستقبل اس کے سامنے آ جاتا ہے اس لیے وہ اس بات سے واقف ہو جاتا ہے کہ کائنات میں اللہ کے علاوہ کسی کی حاکمیت نہیں ہے اور جب کوئی بندہ اللہ کی حاکمیت یقین کے ساتھ قبول کر لیتا ہے تو اس کر اندر سے غم و پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں اور وہ سکون کے گہوارے میں محو خرام ہو جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سعیدہ خاتون عظیمی کی اس کاوش کو عوام الناس کے لئے مقبول بنائے اور جو لوگ اس کتاب کا مطالعہ کریں ان کے ادراک و فہم میں جلا بخشے۔

                آمین

خواجہ شمس الدین عظیمی

مرکزی مراقبہ ہال

سرجانی ٹاؤن، کراچی