Topics

اسپیس وجود ہے۔ ستمبر2025


آج کی بات

 

زندگی ایک ہے ۔ خوا ب اور بیداری اس کے دورخ ہیں۔ تقاضے دونوں میں یکساں ہیں ۔ اسپیس یہا ں ہے اور اسپیس وہاں بھی ہے ۔ فرق یہ ہے کہ بیدا ری میں اسپیس کا خیا ل غا لب اور خواب میں مغلوب ہوتا ہے لیکن اسپیس موجو د ہوتی ہے ۔ بیداری میں آدمی ایک دوتین کی شما ریا ت میں زندگی بسر کرتا ہے ، ہر شے کو انفرادیت کے رنگ میں دیکھتا ہے اور قیا س کی بنیا د پر ان انفرادیت کی پیما ئش کرتا ہے ۔ خواب میں ذہن ایک دوتین پر نہیں رکتا، خیا ل کی رفتا ر سے سفر ہوتا ہے ۔ خیال آتے ہی مظا ہرہ ہو جا تا ہے ۔

          اسپیس ۔ وجو دہے جس کا یک رخ محدود اور دوسرا لا محدود ہے ۔ مرشد کریم ابدالِ حق حضور قلندر بابا اولیا  ؒنے محدود اور لا محدود اسپیس کی وضا حت کی ہے ۔ اسے پڑھئے اور اپنے اردگرد ، اندر با ہر ما حول میں لا محدود اور محدود اسپیس کی نشا ندہی کیجیے ۔

          "دن ایک حیّز(SPACE)ہے ۔ رات ایک اسپیس ہے ، پھول ایک اسپیس ہے ، خیا ل ایک اسپیس ہے ، مٹی ایک اسپیس ہے ، پا نی ایک اسپیس ہے ، خلا ایک اسپیس ہے ، فضا ایک اسپیس ہے ، آگ ایک اسپیس ہے ، ہوا ایک اسپیس ہے ، چاندی ایک اسپیس ہے ، سو نا ایک اسپیس ہے ، ہر شے کا چھوٹے سے چھوٹا ذرہ ایک اسپیس ہے ، کا ئنا ت  کا بڑے سے بڑا کرہ ایک اسپیس ہے ۔ اگر کسی چھوٹے سے چھوٹے ہو ہر (ایٹم) کے کھر ب در کھر ب ٹکڑے کئے جا ئیں تو ہر ٹکڑا ایک اسپیس ہے ۔ اگر ایک سیکنڈ کو سنکھ در سنکھ حصوں میں تقسیم کیا جا ئے تو ہر حصہ ایک حیز (اسپیس)  ہے ۔ سیا ہ نقطہ میں ازل تا ابد جتنے حیّز ہو سکتے ہیں ، وہ سب تہ در تہ موجود ہیں ۔"

(کتا ب : لوح و  قلم)

          آنکھ ہر اسپیس (شے) کو الگ الگ دیکھتی ہے جب کہ"اند میں"  آنکھ افرادِ کا ئنا ت میں ربط کا مشا ہد ہ کرتی ہے اور لا محدود اسپیس میں رہتی ہے ۔ فاصلے سمٹ جا تے ہیں ۔ اگرچہ فاصلے سمٹ جا تے ہیں لیکن اسپیس سے آزادی نہیں ہے ۔ اس کا ایک مشا ہد ہ نیند کی دنیا ہے  جس میں بیداری *کی طرح سارے کا م اسپیس میں رہتے ہو ئے انجا م پا تے ہیں ۔

۱۔ نیند ایک اسپیس ہے۔

۲۔ نیند کی دنیا میں جا گنا بھی اسپیس ہے ۔

۳۔ نیند کی دنیا سے اِس دنیا میں واپس آنا بھی اسپیس ہے ۔

ہر دیدہ نا دیدہ شے او ر مقا م ، چاہے وہ جس دنیا میں ہو۔۔۔ اسپیس ہے۔

..__________________________..

 

          آدمی نیند اور بیداری میں اسپیس کو دوطر ح حر کت میں دیکھتاہے ۔ ایک حر کت محوری* اور دوسری طولا نی* ہے ۔ بیداری میں ذہن اسپیس کی طولا نی حرکت۔ کو قبو ل کرتا ہے ۔ یعنی بھول جا تا ہے کہ حرکت جہاں سے آئی ہے، وہاں لو ٹ رہی ہے ۔ یہ بھولاصل سے دوری کی اسپیس میں داخل کردیتی ہے  جہاں وقت اور فاصلہ طویل محسو س ہوتےہیں ۔

          اس کے برعکس نیند میں آدم "ارادے" کی رفتا ر سے سفر کر تاہے لیکن اس میں آدمی کا ارادہ شا مل نہیں ہو تا۔ ذہن نیند کی دنیا کے قانون کے مطابق اسپیس کی محوری حرکت۔۔۔۔ کے تابع ہوتا ہے ۔ محوری حر کت میں اصل سے دوری نہیں ہے ۔ نتیجے میں رفتار تیز ہو جا تی ہے ۔ اتنی تیز کہ میلوں میل اور بر سوں کا فاصلہ لمحے میں سمٹ آتا ہے ۔

..__________________________..

          جا ن ِ کا ئنا ت ، محبو بِ رب العالمین ، خا تم النبیین حضرت محمدؐ پر نا زل آخری آسما نی کتاب  قرآن کریم میں پیغمبر حضر ت یوسفؑ کے دور میں شا ہ ِ مصر نے خواب دیکھا ،

          "ایک روز با دشا ہ نے کہا، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سات مو ٹی گائیں ہیں جن کو سات دبلی گا ئیں کھارہی ہیں ۔ اور اناج کی سات با لیں ہر ی ہیں اور دوسری سات سوکھی ۔ اے اہلِ دربا ر ! مجھے اس خواب کی تعبیر بتا ؤ اگر تم خوابوں کا مطلب سمجھتے ہو۔" (یو سف :۴۳)

          شاہِ مصر کےدربا ر  میں سب نے اعتراف کیا کہ وہ تعبیر بتا نے سے قاصر ہیں ۔

          خواب کی تعبیر زندان میں قید حضر ت یوسف ؑنےبتائی ۔ ارشا دِ باری تعالیٰ ہے ،

          "یوسف ؑ نے کہا، سات بر س تک لگاتا ر تم لوگ کھیتی باڑی کرتے رہوگے۔ اس دوران میں جو فصلیں تم کاٹو، ان میں سے تھوڑا سا حصہ جو تمہار ی خوراک کے آئے ، نکا لو اور با قی کو اس کی بالوں میں رہنے دو۔ پھر سات برس بہت سخت آئیں گے ۔ اس زما نے میں وہ سب غلہ کھا لیا جا ئے گا جو تم اس وقت کے لئے جمع کر وگے۔ اگر کچھ بچے گا تو بس وہی جو تم نے محفوظ کیا ہو۔ اس کے بعد پھر ایک سال ایسا آئے اگ جس میں بارانِ رحمت سے لوگوں کی فریاد رسی کی جا ئے گی اور رس نچوڑ یں گے۔ " (یوسف۔ ۴۷۔ ۴۹)

          عزیز دوستو، بزرگواور بچو! با دشا ہ کے بیا ن کر دہ خواب اور پیغمبر حضر ت یوسف ؑ کی بتا ئی گئی تعبیر میں اسپیس کو دیکھنے کی دو طرزیں ہیں ۔ قابل ِ تفکر ہے کہ شا ہِ مصر کو خواب کا جتنا حصہ یا درہا، وہ زما ن ِ متواتر کے لحا ظ سے  14 سال کی اسپیس ہے۔ اس نے سات سال خوش حا لی اور سات سال قحط کو تمثیلی منظر میں دیکھا۔ نیند کی دنیا کے قانون کے مطابق جب با دشا ہ کا ذہن زمین کی محوری حرکت کے تا بع ہوا تو بیداری کے 14 سال لمحوں میں سمٹ گئے۔ بالفاظِ دیگر وقت کے جس دورانیے کا شاہِ مصر کو خواب میں غیر ارادی طو ر پر مشا ہدہ ہوا، وہ اسپیس زمین کی محوری حر کت سے واقف حضرت یو سف ؑ نے بیداری میں ارادی طو ر پر نا قابلِ تذکرہ  وقت میں طے کی ۔۔۔ خواب کی تعبیر بتائی ۔ دوبا رہ پڑھئے ۔ حضر ت یوسف ؑ نے تعبیر بتا نے کے لئے بادشا ہ کے بیا ن کر دہ خواب پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کی نیند کی ٹائم لا ئن کا مشا ہدہ کر کے وہ حصہ بھی بیا ن کیا جو با دشا ہ کو یا د نہیں تھا ۔ انہوں نے فرما یا ،

          "اس کے بعد پھر ایک ایسا سال آئے گا جس میں با ران ِ رحمت سے لوگوں کی فریا د رسی کی جا ئے گی اوروہ رس نچوڑیں گے۔" (یوسف : ۴۹)

..__________________________..

          بیداری اور نیند کی دنیا کے سارے واقعا ت اسپیس میں رہتے ہو ئے انجا م پا تے ہیں اس لئے کہ ان واقعا ت سے گزرنے والا شخص خو د ایک اسپیس ہے اورا سپیس وجو د ہے ۔ اسپیس میں رہنے کی دو طرزیں ہیں ۔ دونوں میں بنیادی فرق رفتا ر کا ہے ۔ بیدا ری میں رفتا ر چند انچ پر مشتمل ایک قدم کے برابر ہے جب کہ نیند کی دنیا کے ایک قدمیں سیکڑوں ، ہزاروں میل طے ہو جا تے ہیں۔ نیند کے حواس  سے ناواقف شخص ، نیند کی دنیا میں غیر ارادی طو ر  پر آزاد ہوتا ہے اس لئے جا گنے پر کچھ با تیں یا د رہتی ہیں یا سب بھول کے خانے میں چلی جا تی ہیں ۔آدمی نیند کی دنیا کی رفتا ر سے واقف ہو جا ئے یعنی زمین کی طولا نی حر کت کو مغلوب کر کے زمین کی محوری حرکت کا عم حاصل کر لے تو پھر بیدا ری میں نیند کے حواس غالب آجا تے ہیں اور وہ ارادے سے میلوں میل یا ہزاروں سال کی مانیت (اسپیس ) کو دیکھ سکتا ہے ۔

اللہ حا فظ

خواجہ شمس الدین عظیمی

..__________________________..

قارئین خواتین و حضر ات ! "آج کی با ت" کو تفکر سے سمجھئے اور حا صلِ تفکر لک کرادارہ "ماہنا مہ قلندرشعور" کوبھیج دیجئے۔(ارادہ)

..__________________________..

*اداریہ میں بیداری سے مراد سورج طلوع ہونے کے بعد کا وقت ہے جس کو ہم "دن" کہتے ہیں۔

*محوری (دائروی سمت میں حرکت)   * طولانی (حرکت کو سیدھ یا خطی سمت میں دیکھنا یعنی اصل سے دور)

*زمانِ متواتر (سیریل ٹائم یا بیداری کے حواس جن میں آدمی ہر کا م کو قدم بقدم کرنے کا پا بند ہے ۔)

*سننے ، دیکھنے اور محسوس کرنے کی لا محدود رفتا ر جس کے با عث زمین صف کی طر ح لپٹی ہے۔

Topics


QSM Aaj ki Baat

خواجہ شمس الدين عظیمی

اور جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(

اللہ تعالیٰ کی مدد اور اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔

اس ماہنامہ میں انشاء اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی، ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔

دعا کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔