Topics

لیلۃ القدر ۔ماہنامہ قلندر شعور۔مئی 2019


 

لیلۃ القدر ہزا ر مہینوں سے افضل ہے O

"ہم نے یہ قرآن اتا را لیلۃ القدر میں ۔ اور تمہیں کیا علم کہ لیلۃ القدر کیا ہے ۔ لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے افضل ہے ۔ اس میں اتر تے ہیں مالا ئکہ اور روح اپنے رب کے حکم سے ہر کا م پر ، سلا متی ہے یہ رات طلو ع فجر تک ۔ " (القدر :۱-۵)

لیل — حوا س اور قدر — مقداریں ہیں ۔ لیلۃ القدر— حواس کی وہ مقدا ر ہے جس کی رفتا ر ایک ہزار مہینوں سے زیاد ہ ہے ۔ ایک ہزار مہینے دن کے حواس ہیں ، اس میں اسپیس کے پھیلاوَ کی نشا ن دہی ہے ۔ لیلۃالقدر کے حواس اس وقت غالب ہو تے ہیں جب بیدا ری میں کم سے کم ساٹھ ہزا ر دن اور راتوں کی اسپیس ایک نقطہ میں سمٹ آئے ۔

اسپیس سمٹنا — رفتار غا لب ہو نا ہے ۔

وقت ایک ہے ، دن اور رات وقت کی دواکا ئیاں ہیں ۔ جب ایک اکا ئی سفر کر کے دوسری اکا ئی میں داخل ہو تی ہے تو اپنے محور کے گرد یہ گرد ش دائر ہ بن جا تی ہے ۔

غورکیجیے کہ دن اور رات کا محور کیا ہے — ؟

 شب قدر ہزار مہینوں سے افضل ہے ۔ "ہزار مہینے" غیب میں داخل ہو نے کی کم سے کم رفتار ہے ۔ لفظ "شھر " میں دن اور رات کی اسپیس کا الگ الگ تذکرہ نہیں ہے بلکہ انہیں ایک اسپیس شما ر کیا گیا ہے کہ دن میں بھی رات کے حواس طاری ہوں۔

ایک ہزار مہینہ کی اسپیس کو مساوات سے سمجھئے۔

30 ہزار دن (اسپیس) + 30 ہزار راتیں (اسپیس) = 60 ہزاردور (سائیکل)

60 ہزار دور (سائیکل)÷730 دن رات (ایک سال) = 82 سال


ایک ہزا ر مہینے اس دنیا میں 82 سال کے مساوی ہیں ۔ 82 سال کی رفتار سمٹ کر نقطہ میں آتی ہے تو شب قدر کی رفتار بنتی ہے ۔ شے ایک نقطہ میں مو جود ہے ، فر ق نقطہ کی اسپیس کے پھیلنے اور سمٹنے کا ہے ۔ اسپیس کا پھیلنا اور سمٹنا کیا ہے —؟


 شب قدر وہ اسپیس ہے جس میں فرشتوں اور امر ِالہٰی کا مشا ہد ہ ہو تا ہے ۔ اللہ کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کو ظا ہر کر نے کا ارادہ فرما تا ہے توحکم دیتا ہے "ہو" اور وہ ہو جا تی ہے ۔ کا ئنا ت کی ہر شے کن ۔۔۔ فیکون کا مظہر ہے ۔ دونوں کے ظہو ر میں بظا ہر وقفہ ہے لیکن وقفہ نہیں ہے ۔ کن میں جو کچھ موجو د ہے ، وہ فیکو ن ہے ۔

• • ———————— • •

 بچہ ما ں کے رحم میں وقت گزار کر دنیا میں آتا ہے ۔ اس سے پہلے وہ جس عالم میں تھا ، وہاں بھی ٹا ئم اور اسپیس ہے ۔ بچپن ، جوانی اور بڑھا پے کی اسپیس سے گزر کر دوسری دنیا میں داخل ہو جا تا ہے ۔ زندگی ہر عالم میں وقت اور فاصلہ میں بند ہے ۔ وقت کے پھیلنے سے فاصلہ زیر ِ بحث آتا ہے اور فاصلہ کے سمٹنے سے وقت غالب ہو جا تا ہے ۔

     مثلاً زید کی عمر ستر سال ہے ۔ ایک اسپیس ستر سال کی ہے ۔ دوسر ی طر ف یہی اسپس،

دوارب 20 کروڑ 75 لاکھ 20 ہزار سیکنڈ

تین کروڑ 67 لاکھ 92 ہزار منٹ

آٹھ سو چالیس مہینوں پر محیط ہے۔

یہ ما دی شعور کو بیا ن کر نے کی مختلف طرزوں میں ایک طر ز ہے ۔ اس سے قبل زید کہیں پر تھا ، وہاں سے یہاں آیا ، قیا م کیااور پھر چلا گیا۔ زید کا ریکارڈ نقطہ میں بند ہے ۔ اسپیس کے پھیلنے اور سمٹنے کو نقطہ کی مثا ل سے سمجھنا آسان ہے ۔ نقطہ کے جس رخ سے بظا ہر ہم واقف ہیں ، ہم نے اسے ستر سال میں تقسیم کر دیا۔ ایک طر ف زمان در زما ن اور مکا ن در مکا ن بنتے گئے اور دوسری طر ف یہی زما ن و مکا ن عدد "ستر " میں سمٹ گئے۔

شہنشا ہ ِ ہفت اقلیم نا نا تاج الدین ؒ فر ما تے ہیں ،

ما نس ہے سب آتما ، ما نس ہے سب راکھ

بندی کی گنتی نہیں ، بند ی میں سو لا کھ

• • ———————— • •

نقطہ کو پڑھنے کے دومرا تب ہیں ۔ ایک مرتبہ میں حیا ت اسپیس در اسپیس آگے بڑھتی ہے اور ہر شے ترتیب وار نظر آتی ہے — ترتیب — ادراک (فہم) کی تکرا ر ہے ۔ شے کے مشا ہد ہ کے لئے با ر با ر ادراک ہو تا ہے اور نگا ہ فہم کی منا سبت سے آگے بڑھتی ہے۔

ابدال ِ حق نے نقطہ کو پڑھنے کی اس طرز کو مکا نی فاصلوں کا نام دیا ہے۔

"دن ایک حیز* (اسپیس) ہے ۔ رات ایک اسپیس ہے ، پھول ایک اسپیس ہے ، خیا ل ایک اسپیس ہے ، مٹی ایک اسپیس ہے ، پا نی ایک اسپیس ہے ، خلا ایک اسپیس ہے ، فضا ایک اسپیس ہے ، آگ ایک اسپیس ہے ، ہوا ایک اسپیس ہے ، چاندی ایک اسیپس ہے ، سونا ایک سپیس ہے ، ہر شے کا چھو ٹے سے چھا ٹا ذرہ ایک اسپیس ہے ، کا ئنا ت کا بڑے سے بڑا جو ہر(ایٹم) کے کھر ب در کھر ب ٹکڑ ے کئے جا ئیں تو ہر ٹکڑا اسپیس ہے ۔ اگر ایک سیکنڈ کو سنکھ در سنکھ حصوں میں تقسیم کیا جا ئے تو ہر حصہ ایک حیز (اسپیس ) ہے ۔ سیا ہ نقطہ میں ازل تا ابد تک جتنے حیز ہو سکتے ہیں وہ سب تہ در تہ مو جو د ہیں ۔ " (لوح و قلم )

نقطہ کو پڑھنے کی دوسری طر ز میں چیزیں اسی ترتیب سے موجو د ہیں لیکن فہم کی رفتا ر زیا دہ ہو نے سے فاصلہ محسو س نہیں ہوتا ۔ رفتار ۔۔۔ با ت کو سننے ، دیکھنے اور سمجھنے کا دورانیہ ہے اور اس کا تعلق ذہن کے یک سو اور تقسیم ہو نے سے ہے ۔ یک سوئی میں فہم کے مدارج کم ہو تے ہیں ۔ توجہ تقسیم ہو نے سے بڑھ جا تے ہیں جس سے کا م کی تکمیل میں وقت لگتا ہے ۔

قانون  رفتا ر کی منا سبت سے زما نی و مکا نی فاصلے مر تب ہو تے ہیں ۔

• • ———————— • •

     عزیز دوستو!    دوری کا تعین قر بت سے ہے ۔ مثلا ً الف سے ب کا فاصلہ کتنا ہے ، جا نچنے کے لئے پیما ئش الف سے ب پر ختم ہو گی ۔ طر یقہ یہ ہے کہ الف اور ب کے درمیا ن قربت نا پی جا تی ہے تا کہ معلو م ہو دوری کتنی ہے ۔ پہنا ئی (ظا ہر ) کو دیکھ کر بتا یا جا رہا ہے کہ شےکتنے فاصلہ پر ہے ۔۔۔ گہرا ئی میں دیکھیں تو پو رے فاصلہ پر قر بت غا لب ہے ۔

     بالفا ظ دیگر شے میں پھیلا وَ نظر آنا، دن کے حواس ہیں ، اور انہیں ایک دیکھنا، رات کے حواس ہیں ۔ بظا ہر وجو د ایک دوسرے سے الگ ہیں لیکن با طن ایک ہے ۔ ایک دیکھنے سے مراد حواس کا یک نقطہ میں رہ کر دیکھنا ہے ۔

     ایک اور مثا ل آسما ن اور زمین کی ہے ۔ دونوں نور کی تخلیق ہیں لیکن ہم ایک کو آسمان اور دوسرے کو زمین کہتے ہیں۔ آسما ن یا زمین ادراک کی طر ز ہے ۔ ۔۔ طر زوں سے ما ورا نظر خدوخا ل کے بجا ئے نور دیکھتی ہے اس طرح زما نی و مکا نی فاصلے معدوم ہو جا تے ہیں۔ بالفا ظ دیگر ایک ہی شے قرب میں زمین اور بُعد میں آسما ن ہے ۔ فاصلہ شے کا شے سے نہیں۔۔۔ شعور ی فہم کا لا شعو رسے ہے۔

     نقطہ کو پھیلا کر پڑھنے سے فاصلہ غالب ہوتا ہے ۔ مثلاً ہم کہتے ہیں یہ بیج ہے ، یہ تنا ہے ، پتے نکلتے ہیں ، شا خیں پھیلتی ہیں، تنا --- تنا ور درخت بنتا ہے ، پھل پھول لگتے ہیں اور نئے بیج آتے ہیں ۔ درخت کی عمر سو سال ہے ۔ اس شما ر کے مطابق بیج سے درخت بننے کا مر حلہ کھربوں سیکنڈز پر محیط ہے ۔

   دیکھنے کی دوسری طرز یہ ہے کہ بیج کو درخت بننے کے لئے نشوو نما کی ضرور ت نہیں ، نشو ونما کی ضرورت فر د کے فہم کو ہے ۔ – بیج میں درخت نو عی ریکا رڈ کے ساتھ موجود ہے ۔

   غورکیجیے ۔۔۔۔ جو شے کھر بو ں سیکنڈ میں جوان ہو تی ہے ، ہمیں اسے ایک سیکنڈ میں دیکھنے کا تجر بہ ہے ۔ ایک سیکنڈ میں کھربوں سیکنڈز موجود ہیں ۔ جو ادراک سیکنڈ کے کھر بو یں حصہ کا مشا ہد ہ کرتا ہے ، اس کی نشا ن دہی سور ہ قدر میں ہے۔

"ہم نے یہ قرآن اتا را لیلۃ القدر میں ۔ اور تمہیں کیا علم کہ لیلۃالقدر کیا ہے ۔ لیلۃالقدر ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اس میں اترتے ہیں ملا ئکہ اور روح اپنے رب کے حکم سے ہر کام پر ، سلا متی ہے یہ رات طلو ع فجر تک۔ "   (القدر: ۱-۵)

اللہ تعالیٰ نے قر آن کریم کو رات کے حواس میں مقداروں کے علم کے ساتھ نا زل فرما یا ہے ۔ خا لق کا ئنا ت فرما تے ہیں کہ تمہیں کیا ادراک کہ رات کے حواس میں مقداروں کے ساتھ قر آن کا نزول کیا ہے — ؟

لیلۃالقدر وہ حواس ہیں جن کی رفتا ر ہزار مہینوں سے زیا دہ ہے ۔ یہاں دن کے حواس کا تذکر ہ نہیں ۔ بلکہ دن کا وقت بھی شہود میں گزرتا ہے ۔ دن اور رات میں تقا ضے یکسا ں ہیں ، فر ق ۔۔۔ احسا س کا ہے ۔ احسا س کی ایک طرز یہ ہے کہ اطلا ع اعضا میں تقسیم ہو تی ہے ، تقسیم سے کا م کی رفتا ر کم ہو جا تی ہے ۔ دوسری طر ز میں اعضا زیر بحث نہیں آتے ، کا م اطلا ع کی رفتا ر سے مکمل ہو تا ہے ۔ مثال خیا ل اور خواب کی دنیا ہے ۔

• • ———————— • •

رمضا ن المبا رک وہ مہینہ ہے جس میں ماد ی وجو د کی نفی اورروحا نی وجو د کا اثبا ت ہے ۔ ذہن وسائل سے ہٹ کر وسا ئل فراہم کر نے والے کی طر ف متوجہ ہو نے سے انفرا دی و اجتما عی سطح پر سکو ن و بر کت کا مشا ہد ہ ہوتا ہے ۔ ظا ہر ی حواس کو مغلو ب کر نے کی مشق سے سننے ، دیکھنے ، سمجھنے ، محسوس کر نے اور پیغام رسانی کی رفتار اس حد تک بڑھ جا تی ہے کہ بندہ لیلۃ القدر میں داخل ہو تا ہے جس میں روح کی کم سے کم رفتا ر (60 ہزار دن رات) بیا ن کی گئی ہے ۔

شب قدر وہ حواس ہیں جن میں سیا ہ نقطہ کے ادراک کا نزول ہوتا ہے ۔ تصوف میں اس ادراک کو فتح کہتے ہیں ۔ فتح میں انسا ن ازل سے ابد تک معاملا ت کو بیدا ری کی حالت میں چل پھر کر دیکھتا اور سمجھتا ہے ۔ کا ئنا ت کے بعید ترین فاصلوں میں اجرام سما وی کو بنتا اور عمر طبعی کو پہنچ کر فنا ہو تے دیکھتا ہے ۔ لا شما ر کہکشا نی نظا م اس کی آنکھوں کے سامنے تخلیق پا تے ہیں اور لا حسا ب دورزما نی گزار کر فنا ہوتے نظر آتے ہیں ۔ فتح کا ایک سیکنڈ بعض اوقا ت ازل تا ابد تک وقفہ کا محیط بن جا تا ہے ۔

• • ———————— • •

اللہ تعالیٰ فرما تے ہیں کہ سلا متی ہے یہ رات طلو ع فجر تک ۔ طلو ع سے مرا د حواس کا پھیلنا یا تقسیم ہو نا ہے ، اور قر آن کریم میں فجر کی اسپیس کو مشا ہد ہ کا وقت قراردیا گیا ہے ۔

"سور ج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک نما زیں قا ئم کرواور صبح کو قرآن پڑھا کرو۔ کیوں کہ صبح کے وقت قر آن پڑھنا مو جب حضور ہے ۔ " (بنی اسرآءیل: ۷۸)

جب تک بند ہ رات کے حواس یعنی مشا ہد ہ میں ہے ، سلا متی میں ہے ۔

رمضا ن المبا رک میں خشوع و خضو ع کے ساتھ تیس روزے رکھنے اور شب قدر کے پروگرام پر عمل کر نے سے حواس کی رفتا ر 60 ہزار گنا بڑھ جا تی ہے اور بندہ حضر ت جبرائیل َ کو دیکھتا ہے ۔ ان سے مصافحہ کر تا ہے ۔ خالق لیل ونہا ر کا ارشاد ہے،

"لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اس میں اتر تے ہیں ملا ئکہ اور روح اپنے رب کے حکم سے ہر کا م پر ، سلا متی ہے یہ رات طلوع فجر تک۔"   (القدر : ۳ – ۵)

اللہ تعالی ٰ ہم سب کو رمضا ن المبا ر ک میں زیا دہ سے زیا دہ ذہنی یک سو ئی کے ساتھ روزے رکھنے ، شب بیدا ری اور عبادت کی توفیق عطا فرما ئے ، آمین ۔

آپ سب کو رمضان مبا رک ہو۔

اللہ حا فظ

خوا جہ شمس الدین عظیمی

مئی -2019

 

--------------------------------

*حبز کے معنی اسپیس ہیں۔

 

Topics


QSM Aaj ki Baat

خواجہ شمس الدين عظیمی

اور جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(

اللہ تعالیٰ کی مدد اور اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔

اس ماہنامہ میں انشاء اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی، ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔

دعا کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔