Topics

پا نی ۔ ماہنامہ قلندر شعور ۔ جو لائی 2022

آج کی با ت

          کا ئنا ت کو رونق بخشنے کے لئے قدرت نے ہر شے کو رنگین بنا یا ہے ، رنگینی کا اظہا ر پا نی  سے کیا ہے اور پا نی کے مظا ہر ے کے لئے زمین بنا ئی ہے ۔ ہر دنیا کی اپنی زمین ہے اور سار ی زمینیں خلا میں آبا د ہیں ۔

          زمین پر زندگی کا آغا ز پا نی سے ہو تا ہے ۔ پانی میں زندگی کے سارے رنگ اور رنگوں میں مخلو قا ت کے فا رمو لے ہیں ۔ نشو و نما کے لئے سار ی چیزیں پا نی میں جمع ہیں ۔ پا نی جس کو قر آن کریم نے "ما ء" کہا ہے ، ہر ڈائی میں خدوخا ل کے ساتھ مظا ہر ہ کر تا ہے ۔ آسما ن سے با رش ہو تی ہے تو پا نی میں تصورات زمین کے اندر ڈائیوں میں داخل ہو تے ہیں ۔ جتنی مخلوقات ہیں ، زمین سب کی ڈائی ہے ۔ آم کی تصویر آم کی ڈائی میں جا تی ہے ، گلا ب کی تصویر گلا ب کی ڈائی میں مہکتی ہے ، پہا ڑ اپنی ڈائی میں اِستا دہ ہے ، لو ہے اور پٹرول کے ذرّات بالتر تیب اپنی ڈائیوں میں بہتے ہیں ، ہا تھی کی ڈائی الگ ہے اور آدمی کی ڈائی بھی زمین کے اندر ہے ۔ ہر وہ بسا ط جس میں شے نشو ونما پا کر مظہر بنتی ہے ۔ زمین ہے ۔

**----------------------------**

          پا نی ربِ ذوالجلا ل کا عطیہ ہے ۔ سمندر کا پا نی کڑوا ہے تو کنوئیں کا پا نی کھا رایا میٹھا ہے ۔ دریا کا پا نی مٹیا لا ہے تو چشموں کا پا نی مو تی کی طر ح شفا ف اورچمک دار ہے ۔ کا ئنا ت کے ہر یو نٹ کے لئے حیا ت، پا نی ، مخلوقا ت کی شر یا نوں اور وریدوں میں خو ن بن کر دوڑ رہا ہے ۔ آدمی جو کھا تا ہے ، چوپا ئے جو چر تے ہیں ، چڑیا جو چگتی ہے ، مچھلی جو پا نی میں سانس لیتی ہے ، سیپ میں سچا مو تی اور منجدھا ر میں لا شما ر تخلیقا ت ، سب پا نی کے مختلف مظا ہر ہیں ۔

          پا نی زندگی ہے اور پا نی سے قطع تعلق مو ت ہے ۔

          زمین کے تین حصے پا نی میں اور چو تھا خشک نظر آتا ہے مگر خشکی پر آبا د لو گ اور ما ہرین ِ جغرافیہ کہتے ہیں کہ خشکی بھی پا نی پر آبا د ہے ۔ پہا ڑوں سے چشمے نکلتے ہیں ، سوال یہ ہے کہ ان چشموں میں پا نی کہا ں سے آتا ہے ؟ زمین میں کھدائی سے پا نی نکل آتا ہے ، اس پا نی کا سور س کیا ہے ؟ زمین میں دھا توں اور معدنیا ت کے ذخا ئر ہیں ، یہ بھی پا نی ہیں ۔

 

          زمین ایسے لچک دار ما دے سے بنی ہے جس کے اندر پھیلنے کی صلا حیت ہے مگر اس کی فطر ت سمٹنا ہے ۔ زمین کو سمٹنے سے روکنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے پہا ڑوں میں ثقل غالب کی ہے یعنی پہا ڑوں کو میخیں بنا کر زمیں میں نصب کیا ہے ۔ پہا ڑون کے وزن سے زمین کا پھیلا ؤ توازن میں قا ئم ہے ۔ ایک مقا م پر جتنا وزنی پہا ڑ ہے ، اس کے عین مخالف سمت میں اسی قدر وزنی پہا ڑ-یا پہاڑ کے وزن کے برا بر کو ئی شے ہو تی ہے ۔ اگر نصب کی گئی میخو ں کا وزن دونوں طر ف برا بر نہ ہو تو زمین زمین نہیں رہے گی۔

          "اور ہم نے زمین میں پہا ڑ جما دیئے تا کہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جا ئے۔"(الانبیاء :۳۱)

          پہا ڑ ہما ری طر ح مخلو ق ہیں ۔ یہ پیدا ہو تے ہیں ، چھوٹے ہو تے ہیں اور بڑے ہو تے ہیں ، سانس لیتے ہیں ، سنتے ہیں ، دیکھتے ہیں  ، محسو س کر تے ہیں ، کھاتے ہیں ، پیتے ہیں ، با تیں کرتے ہیں اور با دلوں کی طرح اڑتے ہیں مگر ہمیں وزنی اور جمے ہو ئے نظر آتے ہیں ۔ وزن کا تعلق ثقل سے ہے ۔ ثقل سے مرا د بھا ری پن ہے ۔ جنت سے اِس دنیا میں اترنے کے بعد اسپیس کی تسخیر کے لئے در کا ر لطا فت اندر میں مغلوب ہو گئی اور ثقل غالب ہوا جس کی بنا  پر ہم اسپیس کے تابع ہو گئے ۔ اگر آدمی وزن (ثقل)کو بے وزن کر دے تو پہا ڑ وں کو با دلو ں کی طرح اڑتا ہوا دیکھ سکتا ہے ۔

          "اور تم پہا ڑوں کو دیکھتے ہو اور سمجھتے ہو کہ یہ جمے ہو ئے ہیں مگر یہ با دلوں کی طر ح اڑرہے ہیں ۔ "(النحل:۸۸)

          بادل بخا رات یا گیسوں کی اجتما ع سے بنتے ہیں اور اسفنج کی طر ح چھو ٹے بڑے خلا پر مشمتل ہیں ۔ اس خلا میں پا نی ذخیر ہ ہو تا ہے ۔ پہا ڑوں کا بادلوں کی طر ح اڑنے میں اشا رہ ہے کہ پہا ڑ بھی خلا در خلا وجود ہے جس میں پا نی ذخیر ہ ہے ۔

**----------------------------**

          تفکر طلب ہے کہ پہا ڑ آدھے سےزیا دہ زمیں کے اندر اور آدھے سے کم با ہر ہیں ۔ وہ مقا ما ت جہا ں پہا ڑوں کا دھڑ پا نی سے با ہر ہے ، وہا ں خشکی کی مخلو قا ت آبا د ہے ۔ ابتدا میں زمین پر آبا دی محدود تھی ۔ لوگوں نے درختوں پر آبا د ہو کر لکڑی کے تختوں سے درختوں کے درمیان راستے بنا ئے ۔ پھر زندگی پہا ڑوں اور غا روں میں منتقل ہو ئی ۔ زمانے گزرتے رہے۔ پہا ڑوں کے درمیان راستے ہموار ہو کر قصبے اور شہر بن گئے ۔ جہا ں پہا ڑی سلسلے ایک دوسرے سے دور ہیں ، وہاں سمند ر راستہ بن گیا ہے ۔ آج سڑکوں کے وسیع جال اور تعمیرات میں جدت دیکھ کر کم لوگوں کو خیا ل آتا ہے کہ ما ضی کی طرح آج بھی تہذیب و تمدن پہا ڑوں پر قا ئم ہے ۔

          ہم جس کو زمین سمجھتے ہیں ، وہ پہا ڑوں کی چوٹی ہے جسے آبا دی کے لئے ہموار کیا گیا ہے ۔ اصل زمین وہ ہے جس پر پہا ڑی سلسلے اِستادہ ہیں اور سمند تیر رہے ہیں ۔ زمین تک پہنچنے کا مطلب زمین کے کناروں تک پہنچنا ہے اور کنا روں تک کسی آدمی یا محقق کی رسائی نہیں ۔ وہا ں پہنچنے کے لئے با طنی علوم سیکھنا ضروری ہیں ۔ خالقِ ارض و سما کا ارشا دہے ،

          "اے گروہ جنا ت اور انسان !اگر تم زمین اور آسما ن کے کناروں سے نکل سکتے ہو تو نکال کر دکھا ؤ، تم نہیں نکل سکتے مگر سلطان سے ۔ "(الرحمٰن  :۳۳)

          قدیم دور کا آدمی غاروں میں رہتا تھا تو جدید دور کا آدمی اونچے نیچے پہا ڑوں کی چو ٹی پر آبا د ہے ۔ ان پہا ڑوں میں معدنیا ت اور دھا توں کے ذخا ئر ہیں ۔  جب ما ہرینِ جغرافیہ دھا توں اور معدنیا ت تک رسائی کی کوشش کر تے ہیں تو وہ زمین کی حدود سے با ہر نہیں نکلتے اور نہ زمین کے اندر جا تے ہیں ، وہ وسیع و عریض پہا ڑوں کی سطح کو کھولتے (کھودتے )ہیں جس کے اندر کہیں میٹھا پا نی ملتا ہے ، کہیں لو ہا ، تانبا، سونا ، دوسری دھا تیں اور کہیں لا وا۔ مگر ایک حد کے بعد پہا ڑ کی مٹی پر دہ بن جا تی ہے ۔

          جس طر ح آسما ن پر با دل وسا ئل کا ذخیر ہ ہیں ، اسی طر ح زمین پر وسا ئل پہا ڑوں کے اندر ذخیر ہ ہیں ۔ پہا ڑوں سے جتنی دھا تیں اور معدنیا ت نکلتی ہیں جیسے لو ہا، تانبا اور پٹرول ، سب کے ذرّات با رش میں نازل ہو تے ہیں ۔ قر آن کریم میں ارشا ہے ،

          "وہی ہے جس نے تمہا رے لئے زمین کا فرش بچھا یا ، آسما ن کی چھت بنا ئی ، اوپر سے پا نی بر سایا اور اس کے ذریعے سے ہر طر ح کی پیدا وار نکال کر تمہا رے لئے رزق پہنچا یا ۔ پس جب تم یہ جا نتے ہو تو دوسروں کو اللہ کا مقا بل نہ  ٹھہرا ؤ۔" (البقرۃ : ۲۲)

**----------------------------**

          زما نے گزرتے ہیں مگر وقت ہر زما نے میں موجود رہتا ہے  ۔ زمین کی بیلٹ پر وہ وقت مو جو د ہے جب سمند ر وں کا پا نی خشکی میں داخل ہو گا اور ۔ سمند ر خشک ہو جا ئیں گے تو پہا ڑوں پر کی گئی تعمیرا ت زمیں بو س ہو ں گی اور ۔ زندگی دوبا رہ غاروں سے شروع ہو گی ۔

**----------------------------**

          بتا یا جا تا ہے کہ ہر دس ہزا ر سال کے بعد تین حصے زمین پر مو جو د سمندر اپنی جگہ تبدیل کر تا ہے اور ایک حصہ خا لی زمین پر ڈوبی ہو ئی دنیا مظہر بنتی ہے ۔ یہ سلسلہ کب شروع ہوا اور کب تک رہے گا ، یہ ربِ کا ئنا ت کے بنا ئے ہو ئے پروگرام پر منحصر ہے ۔

          ہم نے گزشتہ سطور میں سلطان  سے متعلق قرآن کریم کی آیت پڑھی ۔ سلطان وہ صلا حیت ہے جو نوع ِ آدم کو روزِ ازل حا صل ہو ئی اور اس کا مظا ہر ہ جنت میں ہوا۔ جنت سے نکلنے کے بعد اس پر محدودیت کا پر دہ آگیا۔

          خوا تین و حضرا ت !آیئے سوچ بچا ر کریں ۔ سوچ بچا ر میں لاشعو ر کو رفیق ِ سفر بنا ئیں ۔

          اللہ تعالیٰ نے آدم سے فرما یا کہ جنت میں جہا ں سے جی چا ہے ، خو ش ہو کر کھا ؤ لیکن ایک درخت کے قریب نہ جا نا ورنہ ظالموں میں شما ر ہو گے ۔ جس عمل سے منع کیا گیا تھا ، وہ سرزد ہوا اور آدم جنت سے اِس دنیا میں آگیا ۔ اللہ تعالیٰ کا حکم مستقل جا ری ہے ۔ اگر آدمی نے دنیا میں اللہ کی حکم عدولی کو تر ک نہ کیا تو جنت اس کے لیے سوالیہ نشا ن ہے ۔

          محترم بہن بھا ئیو، بچو اور بزرگو! دنیا عارضی ہے ۔ یہ اللہ کی طر ف سے ہے اور اللہ کی طر ف لوٹ رہی ہے ۔ با ر گا ہ ِ الہٰی میں وہ خوا تین و حضرا ت سرخروہوں گے جنہوں نے فرما ں بر داری کا راستہ اختیا ر کیا ۔ کیا ہمیں نہیں سوچنا چا ہئے کہ انبیا ئے کرام علیم السلا م اور خا تم النیین رسول کریمؐ کی معر فت ، اللہ تعالیٰ کے احکا ما ت ہم تک پہنچے ، ان پر کتنا عمل ہو رہا ہے اور کتنی نا فرما نی ہو رہی ہے ۔ ؟

          درخواست ہے کہ صبح سے رات کو سو نے سے پہلے تک جو اعما ل آپ نے کئے ہیں ، لکھئے کہ ان میں سے کتنے اعما ل اللہ اور رسولؐ کے لئے قا بلِ قبول ہیں اور کتنے ۔۔۔۔؟

          آخر ی آسما نی کتا ب قر آن کریم میں ارشا دہے ۔

          "اے گروہ ِ جنا ت اور انسا ن !اگر تم زمین اور آسما نوں کے کنا روں سے نکل سکتے ہو تو نکل کر دکھا ؤ، تم نہیں نکل سکتے مگر سلطان سے ۔ "(الرحمٰن :۳۳)

اللہ حا فظ

خوا جہ شمس الدین عظیمی

Topics


QSM Aaj ki Baat

خواجہ شمس الدين عظیمی

اور جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(

اللہ تعالیٰ کی مدد اور اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔

اس ماہنامہ میں انشاء اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی، ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔

دعا کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔