Topics

آدم کا شرف۔ ماہنامہ قلندر شعور ۔ستمبر 2015



لمحات کی یکجائی زندگی ہے!۔۔۔ اربوں کھربوں لمحے ایک جسم میں جمع ہوتے ہیں۔۔۔ اور حرکت بن کر غیبی کتاب میں ریکارڈ ہوتے ہیں جو پہلے سے ریکارڈ ہیں۔۔۔ یہ لمحات کبھی عمدہ اور نفیس اور اعلیٰ کینوس پر نقش بن جاتے ہیں اور کبھی بھدّی عیب دار اسکرین پر داغ دھبوں کے ساتھ ایسے نقوش میں ظاہر ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر خود اپنا چہرہ بھیانک نظر آتا ہے۔۔۔ آدمی بار با ر خود کو دیکھتا ہے اور ناخوش ہوتا ہے۔


جب یہ نقش و نگار روشن، شفاف اور چمکدار رنگوں سے مزین کینوس پر نظر آتے ہیں تو ایک شان بے نشان ظاہر ہوتی ہے۔۔۔ جس میں ہر اچھا منظر دل لبھاتا ہے، آنکھوں کی چمک بن جاتا ہے۔۔۔ زمین جنت ارضی نظر آتی ہے۔۔۔


قدر کرنے والے دوستو اور ناقدر شناس عزیز پیارے  بہنو بھائیو!


جب میں نظر کےسامنے ہوتا ہوں تو آپ مجھے دلہن کے روپ میں دیکھتے ہیں۔۔۔ اور جو تبصرہ دلہن کے لئے لوگ کرتے ہیں، نوازشات بھی ایسی ہی ہوتی ہیں۔۔۔ پھر آپ دلہن کے مزاج اور دلہن کی صلاحیتوں کو بیان کرتے ہیں۔۔۔


دلہن اچھی ہے!۔۔۔ دلہن سگھڑ ہے۔۔۔ دلہن غنچہ دہن ہے۔۔۔ غزال چشم ہے۔۔۔ سروقد ہے۔۔۔ لالہ رخسار ہے۔۔۔ چہرہ مہتاب ہے۔۔۔ پیشانی ماہ جبیں ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


قارئین! ہم سب مسافر ہیں۔ سفر میں ہیں لیکن نہیں جانتے منزل کہاں ہے اور پرسکون راستہ کونسا ہے، اگر جانتے ہیں ۔۔۔تو بھی نہیں جانتے، خود کو دھوکہ دیتے ہیں۔۔


بزرگو ! ۔۔۔بچو! ۔۔۔اور ہمدم و ہمنوا ساتھیو۔۔


دل چاہتا ہے کہ میری اور آپ کی موجودہ اور آنے والی نسل، چوپایوں سے، پرندوں سے، حشرات الارض سے ممتاز ہو۔۔۔


سمجھا یہ جاتا ہے کہ آدمی اور انسان ایک لفظ دو معنی ہیں۔۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ممتاز ہونا یہ ہےکہ فر کو کنبہ، برادری، قوم یا اقوام میں فضیلت حاصل ہواور تفکر ایک سوچ ہے جوفکر و عمل کی طرز ہے۔


آدمی نہیں سوچتا کہ انسان اگر حیوانات سے ممتاز ہے تو کیوں ہے۔۔۔ آدمی اور حیوانات میں کونسی ایسی امتیازی خصوصیت ہے جس کی وجہ سےآدم کو شرف حاصل ہے ۔یہ بھی علم نہیں کہ شرف کیا ہے۔ فضیلت اور شرف یہ ہے کہ مخلوقات میں دوسری مخلوقات کو حاصل نہ ہو۔بات الجھی ہوئی ضرور ہے لیکن معمہ نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آدمی نہیں جانتا کہ فضیلت اور شرف کا تمغہ کیا ہے۔۔؟ کہاں ہے ۔۔؟


زمین کے اوپر انسانی شماریات سے زیادہ درخت، اشجار، جھاڑیاں،بیل بوٹے، جڑی بوٹیاں،۔۔۔اور سمندر میں ، فضا میں، خشکی میں ، تری میں، آسمانوں میں، زمین کے اندر، باہر،حاضر غائب، غائب ، حاضر،حیات و ممات، خوشی اور غم، سکون و اضطراب میں سب مشترک ہیں۔۔۔


آج کے بچو۔۔۔کل کے جوانوں اور اگلی کل کے جسم پر جھریوں کے نقش و نگار سے مزین


خوبصورت بزرگو۔۔۔ یہ دنیا کیا ہے؟


یہ ایک کہانی illusion ہے جو تسلسل کے ساتھ ہم سب دیکھ رہے ہیں سن رہے ہیں ۔۔اور


اختتام کیا ہے۔۔۔؟ یہ بات بتاتے ہوئے میں، آپ اور سب جانتے ہوئے بھی بتانے سے ڈرتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ جانتے ہوئے بھی انجان بنے ہوئے ہیں۔


کیا ہم نہیں جانتے کہ ہڈیوں کے پنجرہ میں بند ہیں اور پنجرہ کے اوپر اعصاب کی پٹیوں، گوشت کے کاٹن اور کھال کے پلاستر سے پنجرہ کے اندر جو کچھ چھپا ہوا ہے۔ یہ بھی علم نہیں کہ بولنا کیا ہے۔۔۔؟ سننا، دیکھنا، سمجھنا، بھوک یا پیاس، گرمی سردی کا احساس کیا ہے۔۔۔؟ کہاں واقع ہے۔۔۔؟ کس جگہ چھپ رہا ہے اور کیسے ظاہر ہورہا ہے۔


زندگی کا مختصر ترین تذکرہ یا تجزیہ کیا جائے تو اس کے علاوہ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ سانس کا جانا اور آنا زندگی ہے لیکن سانس کیا ہے۔۔۔؟


انٹلکچوئل لوگ سانس کے آنے جانے کو آکسیجن یا دوسری گیسز سے چلنے والی پسٹن مشین سمجھتے ہوں گے لیکن یہ مشین کون چلارہا ہے؟ یہ کہنا کہ آکسیجن اوردوسری بے شمار گیسز کے تعامل سے مشین چل رہی ہے کوئی دانشمندانہ جواب نہیں ہے۔


ہر قدم پر یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ پانی آکسیجن اور ہائیڈروجن سے بنا ہوا ہے تو پانی کی قحط سالی کیوں ہے۔۔۔؟ یہ قیاس کرنا کہ پانی اگرآکسیجن اور ہائیڈروجن سے بنایا جائے تو وہ بہت زیادہ گراں قیمت ہوگا۔۔۔ گراں قیمت تو سونا اور یورینیم بھی ہیں ایٹم کا تجزیہ بھی ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


آدمی سے ممتاز انسان کو ایسی نظر مل جاتی ہے جو نظر زمین کے اندر تخلیقی نیٹ ورک کو دیکھ لیتی ہے ۔ جو نیٹ ورک ایک ہی جگہ چار درختوں کو اگا رہا ہے اور چار مختلف پودوں کے پھولوں کو الگ الگ رنگ خوشبو، بدبو، شکل و صورت میں ظاہر کر رہاہے۔ اور ہر درخت کا پھل ایک دوسرے سے رنگ، ذائقہ، خوشبو اور فوائد میں مختلف ہے۔۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


دنیا کی مختصر تعریف یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں لیکن نہیں جانتے۔ بات مشکل ہے!۔۔۔ لیکن اتنی مشکل بھی نہیں کہ سمجھ میں نہ آئے۔۔۔ کان سنتے ہیں۔۔۔ آنکھ دیکھتی ہے۔۔۔ دماغ سوچتا ہے۔۔۔ اور یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ ہاتھ ہلتے ہیں، پیر چلتے ہیں۔۔۔


جب آنکھ دیکھتی ہے تو باہر نظر آنے والی چیزوں کا عکس اندر پڑتا ہے۔۔۔ جہاں عکس پڑتا ہے وہاں گھپ اندھیرا ہے۔۔۔


ہاتھ ہل رہے ہیں، پیر چل رہے ہیں، اگر فالج ہوجائے۔۔۔ (اللہ تعالیٰ سب کو محفوظ رکھے)۔۔۔ ہاتھ موجود ہے۔۔۔ ٹانگ بھی ٹھیک ہے۔۔۔ لیکن نہ ہاتھ میں حرکت ہے، نا ٹانگوں میں۔۔۔ یہ بات کیا ہوئی؟۔۔۔ جب ہاتھ موجود ہے تو حرکت کیوں نہیں؟۔۔۔ جب ٹانگیں موجود ہیں تو چلت پھرت مفقود کیوں ہوگئی؟۔۔۔


اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ہاتھ اور پیر کا مرکز سے ربط ٹوٹ گیا ہے!۔۔۔ یہ کنکشن برقی نظام کی طرح دماغ سے منسلک ہے۔


آدمی بیدار ہے۔۔۔ ہوش و حواس درست ہیں۔۔۔ جذبات و احساسات کی دنیا میں وہ سارے کام کررہا ہے ۔۔۔ لیکن جب سوجاتا ہے۔۔۔ چلتا ہے، نہ پھرتا ہے۔۔۔ کھاتا ہے، نہ پیتا ہے۔۔۔ خوش ہوتا ہے، نہ غمگین۔۔۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بظاہر وہ چل پھر نہیں رہا۔۔۔ کھاتا پیتا بھی نہیں لیکن!۔۔۔ اس کے اندر کا ایک اور انسان مادی جسم سے باہر نکلتا ہے۔۔۔ کھاتا ہے۔۔۔ پیتا ہے۔۔۔ خوفزدہ ہوتا ہے۔۔۔ اور خلا میں پرواز کرتا ہے۔۔۔


آدمی سوتا ہے تو اس کے جسم میں زندگی ہے۔۔۔ دل پمپ کررہا ہے۔۔۔ خون دوڑ رہا ہے۔۔۔ حرارت جسم کو توانائی دے رہی ہے۔۔۔


لیکن حرکت بے حرکت ہے!۔۔۔


یہ وہ سوالات ہیں جو آپ کے اسکول ماسٹر نے آپ کے اندر موجود بلیک بورڈ پر لکھے ہیں۔۔۔


آپ ان کا جواب تلاش کریں۔۔۔ اور جو معلومات حاصل ہوںوہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو لکھ کر بھیج دیں۔۔۔ تاکہ تفکر سے دور بہن بھائی بھی نہ سمجھتے ہوئے کچھ نہ کچھ سمجھیں۔


 


اللہ حافظ
خواجہ شمس الدین عظیمی

ستمبر 2015


Topics


QSM Aaj ki Baat

خواجہ شمس الدين عظیمی

اور جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(

اللہ تعالیٰ کی مدد اور اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔

اس ماہنامہ میں انشاء اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی، ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔

دعا کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔