Topics

الست بربکم۔ ماہنامہ قلندر شعور ۔نومبر 2015

 

آدم کو علم الاسما سکھا کر خلافت و نیابت کے فرائض پورے کرنے کے لئے فائز کیا۔ حکم ہوا:"اے آدم ! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور جہاں چاہو خوش ہو کر کھاؤ لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا ورنہ ظالموں میں ہوجاؤگے۔"(35:2)

اللہ کے اس فرمان میں تفکر کرنے والے اولی الالباب بندے بیان کرتے ہیں۔ جنت انعام یافتہ طبقہ کا اعلیٰ مقام ہے۔ منتخب مقام میں رہنے کے لئے ماحول کی مناسبت سے احکام کی بجا آوری ضروری ہے۔ صرف ضروری نہیں۔۔۔ امر لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں دو باتیں احترام (پروٹوکول) کے لئے ضروری قرار دی گئیں۔ ایک خوش ہو کر رہنا، خوش ہو کر کھانا پینا، دوسری ممنوع درخت کے قریب نہ جانا۔

درخت کی تعریف ہے کہ اس میں جڑیں ہوتی ہیں نشوونما کے اعتبار سے موٹے دھاگے کی طرح زمین میں نمودار ہوتا ہے جسے ننھی کونپل یا ینگ شوٹ کہتے ہیں اور زمین کے نیچے بڑھنے والے جڑ کے حصہ کو ابتدائی جڑ کہا جاتا ہے۔ بیج کے اوپر موجود چھلکا خشک ہو کر جھڑ جاتا ہے اور اس کے اندر سے برگ تخم الگ ہوجاتے ہیں جسے دال کہا جاتا ہے، دال کے اوپر کونپل بڑھنا شروع ہوتی ہے۔ یہی کونپل ننھے پودے کی شکل میں نموپاتی ہے۔

بیج دوسری مخلوقات کی طرح بچپن، لڑکپن۔۔۔ لڑکپن گزار کر جوان ہوتا ہے، جوانی میں نسل کا اضافہ ہوتا ہے۔ عمر رفتہ کے بعد ضعیف اعضا (شاخ در شاخ) خزاں رسیدہ ہو کر بوڑھے ہوجاتے ہیں اور بالآخر ہوتا وہی ہے جو۔۔۔

آدم اور حوا کو اگر شجر کی طرح سمجھا جائے تو نامناسب نہیں۔ حیوانات، نباتات، جمادات جس طرح عالم وجود میں ظاہر ہوتے ہیں اور عمر رفتہ کے بعد زمین کی اسکرین سے غیب میں چھپ جاتے ہیں اسی طرح ہر مخلوق متعین فارمولوں equation کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی بساط پر ظاہر اور غیب ہوتی ہے۔ یہ نسل در نسل تخلیقی پروسیس کے ساتھ ایسا عمل ہے جو زمین پر پوری ضوفشانی، مسرت و شادمانی اور غم و آلام کی اسکرین پر ظاہر ہورہا ہے۔۔۔ چھپ رہا ہے۔۔۔ پھر ظاہر ہورہا ہے اور غیب ہورہا ہے۔

خواتین و حضرات قارئین اس بات کو آسان لفظوں میں اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بیلٹ ہے ایسی بیلٹ جس پر گاڑی نہیں چل رہی بلکہ بیلٹ گاڑی کو چلارہی ہے۔ سمجھنے کے لئے کنویئر بیلٹ کا لفظ موزوں ہے۔ مزید آسانی کے لئے ایئرپورٹ پر اُس بیلٹ کا تذکرہ ہے جو سامان لاتی ہے لے جاتی ہے۔ لے جاتی ہے تو سامان غائب ہوجاتا ہے۔ لاتی ہے تو سامان ظاہر ہوجاتا ہے۔ کائنات کی ایکویشن پر تفکر کیا جائے تو کائنات مسلسل حرکت میں ہے۔ ایسی حرکت جو کچھ وقفہ کے لئے ظاہر ہوتی ہے اور کچھ وقفہ کے لئے غیب  ہو کر اوجھل ہوجاتی ہے۔ جنت کے بارے میں اہل اللہ، اللہ کے دوست بتاتے ہیں جنت ایسی اسپیس پر قائم ہے جو اسپیس مادی وجود کی آنکھ سے نظر نہیں آتی۔ مادی وجود جس حقیقت پر قائم ہے وہ حقیقت تغیر سے آزاد ہے اور یہ اللہ کی سنت ہے۔

"اور اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے نہ تعطل" (43:35(

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابّا آدمؑ ۔۔۔ فی الارض خلیفہ علم الاسماء سیکھنے کے بعد جنت میں مقیم ہوئے۔

خلیفۃ الارض کو جنت میں جو آزاد زندگی عطا ہوئی تھی وہ پردہ میں چھپ گئی اور جنت سے زمین پر پھینک دیئے گئے۔

اللہ رحیم و کریم ہستی نے آدمؑ کی آہ و زاری کے ساتھ توبہ استغفار کو قبول کیا اور فرمایا:

ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے اترجاؤ پھر جو میری طرف سے ہدایت تمہارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کو خوف اور غم نہیں ہوگا۔ (38:2(

ہدایت و رہنمائی کا سلسلہ جاری رہا۔ روایت ہے کہ  روئے زمین پر ایک لاکھ سے زیادہ پیغمبر نوع آدم کی اصلاح کے لئے بھیجے گئے اور خاتم النبیین، شفیع المذنبین، رحمتہ اللعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دین کی تکمیل ہوئی۔ اچھائی برائی، جائز ناجائز، حلال و حرام غرضیکہ قرآن کریم اور حضورؐ کے اسوۂ حسنہ میں معاشرت سے لے کر عرفان الٰہی تک تمام ہدایت و رہنمائی نوع آدم اور جنات کے لئے عطا کردی گئی۔

متعین راستوں پر چلنے سے خواتین و حضرات ان علوم سے واقف ہوگئے جو شرف انسانیت ہیں۔ ان علوم کے حامل افراد کو کائنات میں اللہ کے نائب کی حیثیت سے ذمہ دا ریاں ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوع آدم بحیثیت مجموعی اپنے شرف اور مقام سے لاعلم ہے۔ وہ اسفل زندگی کو اصل سمجھ کر اس میں اسی طرح گم ہوگیا ہے جس طرح آدم سے پہلے زمین پر گمراہ جنات آباد تھے۔

من کی آنکھ کھلتی ہے تو زمین کی اسکرین پر جنات کی شرانگیزیاں فلم بن جاتی ہیں اور وہی فلم آج بھی زمین کی اسکرین پر ڈسپلے ہورہی ہے۔

ہائے افسوس۔۔۔ نوع آدم کی اکثریت بھی۔۔۔

مردار خور، حرام، ناجائز کا فرق جس طرح جنات کے دور میں ختم ہوگیا تھا۔ پھر گدھے، کتے، گدھ، چیلوں اور حرام حلال کا امتیاز کئے بغیر یہ عمل فیشن بن گیا ہے۔ نوع جنات نے قتل و غارت گری کا جو ڈرامہ کھیلا تھا وہ سرعام نظر آتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آدم کی اولاد مذہبی، لسانی، گروہی، سیاسی مفادات کو ڈھال بنا کر عبادت گاہوں میں عبادت کرنے والوں کو، درسگاہوں میں پڑھنے والے معصوم بچوں کو، بسوں میں سفر کرتے بے قصور مسافروں کو، راہ چلتے افراد کو اس طرح ہلاک کردیتے ہیں کہ کوئی چیونٹی کو بھی نہیں مارتا۔

دنیا طلب گروہ یہ بھول گیا کہ 131 ٹن سونا جمع کرنے۔۔۔ دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھنے والے، تقریباً 40 سال عوام پر حکومت کرنے والے بھی بے عزت ہو کر مٹی کے ذرات میں تبدیل ہوگئے ہیں۔

اے کاسہ گر اک سر بھی ہے تیری املاک

ہشیار کہ اک دن تجھے ہونا ہے ہلاک

یہ کاسہ سر شاہ کی مٹی کا ہے

تو آگ میں ڈالتا ہے جس کو بے باک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آدمی اور انسان ہم معنی الفاظ سمجھے جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے بلکہ آدم و حوا کے دو وجود ہیں۔

روشن، انعام یافتہ اور مقبول بارگاہ ایک وجود انسان ہے۔

آدم کا دوسرا وجود خمیر ہے۔ یہ ایسا مرکب ہے جس کا ہر جزو تعفن ہے۔

تعفن کے برعکس دوسرا جسم نور ہے۔۔۔ نور تجلی ہے۔

اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زیادہ غور طلب بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے کائنات کا ظہور فرمایا اور کن کے بعد عالمین میں افراد کائنات کو وجود بخشا تو کائنات اقرار اور انکار سے واقف نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نٰے جمود کو ختم کرنے کے لئے اپنی رونمائی فرمائی اور ارشاد فرمایا "الست بربکم" کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں۔ کائنات میں موجود مخلوقات اور مخلوقات میں نوع انسانی نے آواز کو سنا تو سماعت منتقل ہوئی۔ تجسس ہوا کہ آواز کس کی ہے۔ تلاش میں یکسوئی کے ساتھ بصارت متحرک ہوئی اور آنکھوں نے اللہ کو دیکھا۔ اللہ تعالی کو دیکھنے کے بعد قوت گویائی ظاہر ہوئی اور مخلوقات نے اقرار کیا کہ جی ہاں آپ ہمارے رب ہیں۔ سننا، دیکھنا، قبول یا رد کرنے کا عمل پورا ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوال یہ ہے کہ جب نوع انسانی اللہ کی آواز سن کر، اللہ کو دیکھ چکی ہے اور اللہ کی ربوبیت کا اقرار کرچکی ہے اس اقرار میں یہ علم بھی حاصل ہوا کہ کائنات کی یکجائی یعنی کائنات میں جو کچھ ہے سب کن کا ظہور ہے تو ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ سماعت، بصارت، قوت گویائی، اقرار اور تمام حواس سے الست بربکم کے بعد ہم واقف ہوئے تو پھر اللہ کو کیوں نہیں دیکھ سکتے ہیں۔۔۔؟ اللہ تعالیٰ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ میں رگ جان سے زیادہ قریب ہوں۔

مجھ فقیر کی سوچ ہے کہ ہم اللہ کو دیکھ چکے ہیں ، اللہ کی آواز سن چکے ہیں، اللہ کی ربوبیت کا اقرار کرچکے ہیں یہ عمل مادی وجود سے نہیں ہوا جبکہ مادی وجود روح کے تابع ہے مادی عناصر سے آزاد ہونے کا عمل زندگی میں آدھا آدھا ہے۔ ہم بیدار ہیں تو ہمارے اوپر مادی دباؤ اور دباؤ کے نتیجہ میں محدودیت کا غلبہ ہے۔ اس کے برعکس جب ہم شعور سے آزاد ہو کر روزانہ لاشعوری دنیا میں داخل ہوتے ہیں باوجود اس کے کہ مادی وجود حرکت نہیں کرتا اعمال و حرکات کا سلسلہ قائم رہتا ہے۔

شعور سے اس پار لاشعور (نیند) میں کھانا، پینا، راحت و تکلیف، انتہا یہ ہے کہ غسل واجب ہونے کے عمل سے بھی گزرتے ہیں جس طرح مادی تلذذ حاصل ہونے کے بعدپاک ہونا واجب ہے اسی طر سونے کی حالت میں یہ عمل دہرایا جائے تو غسل کرنا بیداری کی طرح واجب ہے۔

ہم اللہ کو دیکھ کر اللہ کی ربوبیت کا اقرار کرچکے ہیں تو ہم ان صفات کو کیوں نہیں جانتے جن صفات کی بنا پر اللہ کو دیکھ کر اللہ کی ربوبیت کا اقرار کرچکے ہیں اور اب اللہ کو کیوں نہیں دیکھ سکتے۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ Question مارک سے آگےکیا ہے۔۔۔؟ اور وہ دیکھنا کس طرح ممکن ہے۔ جبکہ الہامی کتابوں میں بیان ہوا ہے کہ اللہ رگ جان سے زیادہ قریب ہے۔ اول، آخر، ظاہر ، باطن ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور تمہارے اندر ہوں تو تم دیکھتے کیوں نہیں۔"(21:51(

 

اللہ حافظ

خواجہ شمس الدین عظیمی

نومبر 2015

Topics


QSM Aaj ki Baat

خواجہ شمس الدين عظیمی

اور جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(

اللہ تعالیٰ کی مدد اور اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔

اس ماہنامہ میں انشاء اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی، ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔

دعا کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔