حواس میڈیم ۔ ماہنامہ قلندر شعور ۔اگست 2017
ربط یعنی تعلق قائم ہوئے بغیر کوئی نظام قائم نہیں ہوتا۔ قانون یہ ہے کہ شے بذات خود قائم نہیں، تابع ہے۔
کائنات میں کوئی شے واحد نہیں، مرکب ہے۔ مرکب ہونا نشان دہی ہے کہ جو شے اتصال کا ذریعہ بن رہی ہے وہ مشترک ہے۔ بیج پودے سے اور پودا درخت سے متصل نہ ہو تو افزائش کا سلسلہ رک جائے گا اور نظام ختم ہوجائے گا۔ اس لئے کہ درخت یا کوئی بھی شے ظاہر میں مفردلیکن باطن میں افراد کائنات سے مرکب ہے۔ کائنات زمان و مکان میں تقسیم در تقسیم ہے جب کہ ہر زون ظاہر میں جزو اور باطن میں کائنات ہے۔
ایک صدی قبل کے شاعر ساحرؔ لدھیانوی کہتے ہیں:
پنہاں شجر میں تخم ہوا، تخم میں شجر
روشن ہے یہ مثال کہ دانہ شجر ہوا
قائم ازل سے دور تسلسل ہے تا ابد
ہنگامہ مرگ و زیست کا وہم نظر ہوا
جاں جسم ہو کے جلوۂ پندار بن گئی
جاں مبتدا ہوئی تو یہ جلوہ خبر ہوا
مرکز ہے نقطہ، نقطہ ہے خط، خط ہے دائرہ
ساحر قدم حدوث میں حسن نظر ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تخلیق سے پہلے کائنات عالم تحیر میں تھی۔ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاؒ کے ارشاد کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ذہن میں کائناتی پروگرام نے مظاہراتی شکل اختیار کی تو تخلیق میں ربط کی وجہ سے ایک فرد میں ہر فرد کا عکس نمایاں ہوگیا یعنی ہر فرد پوری کائنات کا مظاہرہ ہے۔
قادرمطلق اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو مخاطب کرکے فرمایا کہ کیا میں نہیں ہوں تمہارا رب؟ آواز کی وائبریشن سے کانوں نے آواز سنی۔ کائنات آواز کی طرف متوجہ ہوئی اور آنکھوں نے جلوہ دیکھا۔۔۔ تخلیقات نے عرض کیا، جی ہاں! آپ ہمارے رب ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اندر میں دیکھے بغیر باہر کی دنیا پر تفکر کیا جائے تو آنکھیں پردہ بن جاتی ہیں۔ اس لئے کہ فرد اس نظام سے واقف نہیں ہے جس کی مدد سے کائنات کے نظام پر غور کرتا ہے۔ قانون یہ ہے کہ خود سے لاعلم شخص کسی اور کا وقوف حاصل نہیں کرسکتا۔
ہم ہر رات آسمان پر ماہ و انجم کی دنیا دیکھتے ہیں لیکن کیا دیکھتے ہیں اور چاند ستاروں کی کون سی دنیا سے روشناس ہیں، نہیں جانتے۔ آسمان پر ستاروں کی طرح ہم بھی زمین پر ستارہ ہیں مگر ستارہ میں کام کرنے والی نظر سے لاعلم ہیں۔ غور طلب یہ ہے کہ دونوں ستاروں میں نظر ایک ہے۔
جسم اعضا کا مجموعہ ۔۔۔ عجائب خانہ ہے۔ جس کائنات کو باہر تلاش کرتے ہیں، تفکر سے اندر نظر آتی ہے۔ ہر عضو دوسرے سے متصل ہے۔ دیکھنا، سنا، بولنا، سونگھنا بالترتیب آنکھ، کان، زبان اور ناک کے ذریعے ہوتا ہے۔۔۔ آنکھ، کان، زبان اور ناک سے نہیں ہوتا۔ اعضا محض پردہ ہیں۔۔۔ محسوس کرنے والی شے کوئی اور ہے۔ توانائی، رشتہ منقطع کرلیتی ہے تو جسم بے حس وحرکت نظر آتا ہے لیکن حرکت موجود ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
استاد نے شاگرد کو زندگی گزارنے کا اصول سمجھایا۔۔۔ ’’میں‘‘ سے احتراز کرو۔ جب ذہن سے ’’میں‘‘ نکل جائے گی تو زبان پر بھی نہیں آئے گی اس لئے کہ الفاظ۔۔۔ ذہن کا آئینہ ہیں۔
شاگرد نے عرض کیا: الفاظ کے پیچ و خم سے نکلنے کا راستہ بتایئے۔
استاد نے کہا: جو بتایا ہے وہی راستہ ہے۔ شاگرد سمجھا نہیں اور عرض کیا: میں دیکھتا ہوں کہ آپ نے ہونٹوں پر مہر لگالی ہے اور چہرہ پردوں میں چھپارکھا ہے۔
استاد نے جواب دیا: میرے ہونٹوں پر مہر ہے نہ چہرہ پر نقاب۔ تمہاری سماعتیں بند اور نظرپر۔۔۔ پردہ ہے۔ جب ذہن کی سطح بیج بونے کے لئے ہموار اور نظر دید کے قابل ہوجائے گی تو تمہارا ذہن میرے الفاظ قبول کرلے گا اور مجھے دیکھنے کے لئے میری نظر تمہیں عطا ہوگی۔
استاد محترم! یہ کیسی بات ہے۔ کیا میں اپنی نظر سے آپ کو نہیں دیکھ سکتا۔۔۔؟اور جو میں نہیں دیکھ رہا کیا وہ میری نظروں کا دھوکا یا پردہ ہے۔۔۔؟
استاد نے کہا، تمہاری آنکھیں پرتوں سے ڈھکی ہوئی ہیں اور ان پرتوں کو تم آنکھ سمجھتے ہو جب کہ پرتیں عینک ہیں جو تم نے لگارکھی ہیں، ایک ہی شے کو محبت کی عینک سے دیکھتے ہو اور کبھی نفرت کی عینک لگالیتے ہو۔ کبھی قبولیت کا پرت آنکھوں پر غالب ہوتا ہے تو کبھی عدم قبولیت پرت بن جاتی ہے۔ تم شے کو نہیں، دیکھنے کو دیکھتے ہو۔
شاگرد کے چہرہ پر تحیر دیکھ کر استاد نے کہا: کیا تمہاری آواز۔۔۔ حروف اور اعراب میں قید نہیں ہے؟ آواز لامحدود ہے لیکن تمہارے ہونٹ مخصوص زاویوں میں حرکت کرکے آواز کو محدود کردیتے ہیں۔ جو شے زاویوں میں حرکت کرے، وہ تمہیں زاویوں سے آزاد دنیا میں داخل نہیں کرسکتی۔ آنکھ، ناک اور کان پردہ ہے، پردہ کے اندر زندگی ہے۔ اعضا محض خول ہیں جن کے ذریعے افعال انجام پاتے ہیں۔ غور کرو! حرکت جب پردہ میں رہ کر تمہاری فہم میں داخل ہوتی ہے تو پہلی ضرب متوجہ کرتی ہے کہ جو کچھ اس ضرب کے اندر ہے، اسے تلاش کرو۔
استاد نے نصیحت ان الفاظ پر مکمل کی۔۔۔ کسی کو نقاب ہٹانے کے لئے مت کہو ، خود پر سے پرت در پرت پرتیں اتارو، ہر منظر واضح ہوجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم بزرگو اور عزیز دوستو! حواس میڈیم ہیں، ان میں فکر کام کرتی ہے۔ فکر میں ربط نہ ہو تو کان کچھ اور سنیں گے اور آنکھ کچھ اور دیکھے گی لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ سننا ہو، دیکھنا یا بولنا۔۔۔ کام اس توانائی کے ذریعے ہورہا ہے جسے ہم فکر کہتے ہیں۔ سننے کو سمجھنے اور سمجھنے کو دیکھنے سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ ہم زمین کے شعور میں رہتے ہیں جہاں ہر شے ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ زمین کا شعور ایک ہی شے کو تقسیم کرکے دکھاتا ہے۔
شہنشاہ ہفت اقلیم حضرت بابا تاج الدینؒ نے راجا رگھوراؤ کے سوال کے جواب میں فرمایا: ’’دن طلوع ہوتا ہے، دن کا طلوع ہونا کیا ہے، ہمیں نہیں معلوم، طلوع ہونے کا مطلب کیا ہے، ہم نہیں جانتے۔ دن رات کیا ہے۔۔۔؟ اس کے جواب میں اتنی بات کہہ دی جاتی ہے کہ یہ دن ہے، اس کے بعد رات آتی ہے۔ نوع انسان کا یہی تجربہ ہے۔ میاں رگھوراؤ ذرا سوچو! کیا سنجیدہ طبیعت انسان اس جواب پر مطمئن ہوجائے گا؟ دن رات فرشتے نہیں ہیں، جنات نہیں ہیں، پھر بھی وہ مظاہر ہیں جن سے ایک فرد واحد بھی انکار نہیں کرسکتا۔ تم اتنا کہہ سکتے ہو کہ دن رات کو نگاہ دیکھتی ہے اس لئے قابل یقین ہے۔ لیکن یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ نگاہ کے ساتھ فکر بھی کام کرتی ہے۔ اگر نگاہ کے ساتھ فکر کام نہ کرے تو زبان نگاہ کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتی۔ نگاہ اور فکر کا عمل ظاہر ہے۔ دراصل سارے کا سارا عمل تفکر ہے۔ نگاہ محض گونگا ہیولیٰ ہے۔ فکر ہی کے ذریعے تجربات عمل میں آتے ہیں۔ تم نگاہ کو تمام حواس پر قیاس کرلو۔۔۔ سب کے سب گونگے، بہرے اور اندھے ہیں۔۔۔ تفکر ہی حواس کو سماعت اور بصارت دیتا ہے۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ حواس تفکر سے کوئی الگ چیز ہے حالاں کہ تفکر سے الگ ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ انسان محض تفکر ہے۔ فرشتہ محض تفکر ہے۔ جن محض تفکر ہے۔ علیٰ ہٰذا القیاس ہر ذی ہوش تفکر ہے۔‘‘ (کتاب: تذکرہ تاج الدین باباؒ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تفکر: شے کی تقسیم اور ہر ٹکڑے کو الگ سمجھنا فکشن ہے۔ جو کام آنکھ سے ہورہا ہے وہ کان سے بھی ہوتا ہے۔ تصویر آنکھ کے ذریعے بھی نظر آتی ہے اور آواز سے بھی تصویر بنتی ہے۔ تفکر طلب ہے کہ تصویر کہاں بنتی ہے اور ہم دیکھتے کہاں ہیں۔ آنکھ اور کان کے عمل پر غور کریں تو دونوں صورتوں میں آدمی ذہن میں تصویر بنتے دیکھتا ہے اور پھر نتیجہ اخذ کرتا ہے۔ نتیجہ اخذ کرنے کے لئے کوئی مادی عضو نہیں ہے۔۔۔ جو شے نتیجہ اخذ کررہی ہے وہ مادیت سے آزاد ہے۔
آزادی کی ایک مثال نیند کی دنیا ہے۔ نیند کی حالت میں مٹی کے بغیر زندگی کے تمام تقاضے پورے ہوتے ہیں لیکن حرکت قائم رہتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہم ہیں جب کہ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ ہم کون ہیں، کیوں ہیں اور کہاں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق میں غور و فکر کے لئے نشانیاں رکھی ہیں۔ پیاز کا جسم پرتوں کے سوا کچھ نہیں۔ مشق کیجئے اور ایک کے بعد ایک پرت ہٹایئے یہاں تک کہ ڈنٹھل آجائے۔
ڈنٹھل بھی پرتوں کا مجموعہ ہے کیوں کہ سارے پرت ڈنٹھل میں موجود ہیں اور پھول کی پتیوں کی طرح پرت در پرت ڈنٹھل سے نکل کر کھلتے جاتے ہیں۔ آخر میں سوائے بیج کے کچھ باقی نہیں رہتا۔ یبج بھی پرتوں کا مجموعہ ہے کیوں کہ اسی بیج سے پیاز یا پھول بنتا ہے۔
پھول اور پیاز کی طرح ہر شے پرتوں میں لپٹی ہوئی ہے البتہ ساخت مختلف ہے۔ پرتوں کو کھولنے سے پیاز غائب ہوجاتا ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ جسے ہم نے پیاز سمجھا وہ ڈنٹھل کا لباس ہے۔ لباس کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ ڈنٹھل پیاز کی اصل ہے اور پرت در پرت ڈنٹھل ایک صفات ہیں جس کا ریکارڈ بیج میں ہے یعنی بیج صفات کا خزانہ ہے۔ آدمی بھی پرتوں کا مجموعہ ہے۔ آنکھ، کان، ناک، ہاتھ، پیر، یہاں تک کہ جذبات بھی پرت در پرت حرکت ہیں۔ کبھی محبت کا پرت غالب ہوتا ہے تو کبھی نفرت کا، کبھی خوشی غالب ہوتی ہے تو کبھی آدمی غم کا برقع اوڑھ لیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود سے واقف ہونے کے لئے جسمانی نظام پر غور کریں۔ غذا ترتیب وار ایک عضو سے دوسرے عضو میں داخل ہوتی ہے۔ ضروری توانائی جذب ہو کر فاسد مادہ خارج ہوتا ہے۔ چبانے کے بعد حلق سے گزر کر غذا معدہ میں داخل ہوتی ہے، معدہ میں داخل ہونے کے بجائے پھپھڑوں میں کیوں نہیں جاتی۔۔۔؟ یہ کہنا کہ یہ سب خودکار نظام کے تحت ہوتا ہے، درست نہیں۔
فارمولا: ہر ز بان میں گرائمر کا بنیادی فارمولا یہ ہے: فاعل + فعل + مفعول
مثال: زید لوگوں کی خدمت کرتا ہے۔ زید فاعل ہے، خدمت کرنا فعل ہے اور لوگ مفعول ہیں۔ یہ فارمولا وہ لوگ بھی پڑھتے اور بات چیت میں استعمال کرتے ہیں جو کائنات کے نظام کو نیچر (Nature) کی کارفرمائی کہتے ہیں لیکن نیچر کیا ہے، اس کا جواب نہیں دیتے۔ یہ کہنا کہ کام کیا گیا۔۔۔ صاحب تفکر پہلا سوال کرے گا کہ کام کس نے کیا؟ جب فاعل کے بغیر بات نہیں ہوسکتی تو سونا جاگنا، کھانا پینا، سوچنا اور عمل کرنا کیسا ہے۔۔۔؟
جسم مشین ہے۔ سوئچ آن کرنے سے توانائی داخل ہوتی ہے اور مشین حرکت میں آجاتی ہے۔ حرکت مشین کی ہے یا اس توانائی کی جو مشین کو چلارہی ہے۔۔۔؟ یہ بھی سوچئے کہ مشین موجود ہے اور توانائی بھی۔۔۔ سوئچ آن نہ ہو تو۔۔۔؟
اللہ حافظ
خواجہ شمس الدین عظیمی
علمائے باطن فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ذہن میں موجود کائناتی پروگرام کو شکل و صورت کے ساتھ وجود میں لانا چاہا تو فرمایا ’’کن‘‘۔ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں کائناتی پروگرام ترتیب اور تدوین کے ساتھ اس طرح وجود میں آگیا:
* ایک کتاب المبین * ایک کتاب المبین میں تیس کروڑ لوح محفوظ
* ایک لوح محفوظ میں اسی ہزار حضیرے * ایک حضیرہ میں ایک کھرب سے زیادہ مستقل آباد نظام اور بارہ کھرب غیرمستقل نظام * ایک نظام کسی ایک سورج کا دائرہ وسعت ہوتا ہے۔ ہر سورج (Star) کے گرد نو، بارہ یا تیرہ سیارے گردش کرتے ہیں۔