Topics
بہت محبت کرنے والے
قابل صد احترام بزرگو، من موہنی صورت بہنو اور فرحت و انبساط کے پیکر دوستو آپکا
پسندیدہ مجلہ "ماہنامہ قلندرشعور" کی ذمہ داریوں میں ایک بڑی ذمہ داری
ہر ماہ آپ سے مخاطب ہونا ہے۔ ا ب تک کم و بیش چار سو چھپن مرتبہ قارئین سے دیدہ و
نادیدہ ملاقات ہوچکی ہے۔ ایک ہی بات کو چار سو موضوعات پر لکھنا اور بیان کرنا محض
اللہ رب العالمین، سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام رحمت اللعالمین ﷺ کی خصوصی نسبت
اور رحمت کا فیضان ہے۔
عزیزان گرامی قدر
" " کو گوش گزار کرنے سے منشا یہ ہے کہ انسان اور حیوانات کا اس طرح
تجزیہ کیا جائے کہ قارئین حیوانات، آدمی اور انسان کی تعریف میں حیوان، حیوان ناطق
اور احسن تخلیق انسان کا موازنہ کر سکیں۔
زندگی کہا ں سے شروع
ہوتی ہے۔ کہاں جا کر ختم ہوتی ہے۔ ختم ہوتی بھی ہے کہ نہیں۔۔۔ جبکہ ختم نہیں ہوتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانور دو ہیں۔ ایک
جانور چار پیروں سے چلنے والاہے اور دوسرا دو پیروں سے چلنے والا، اڑنے والا جانور
اور تیرنے والا جانور بھی چار پیروں سے چلنے والے جانوروں میں شامل ہے۔ اس لئے کہ
وہ پر بھی استعمال کرتا ہے اور پیر بھی نیز اڑنے کی صورت بھی وہی ہوتی ہے جو چار
پیروں سے چلنے والے جانور کی ہوتی ہے۔ دو پیروں سے چلنے والا جانور آدمی ہے۔
جب ہم حیوان کہتے ہیں
تو آدمی اور حیوان کی خصوصیات ایک جیسی ہیں۔ حیوان چلتے پھرتے ہیں، ان کے بچے ہوتے
ہیں وہ کھاتے ہیں پیتے ہیں بھوک لگتی ہے پیاس لگتی ہے ، سوتے ہیں جاگتے ہیں، گرمی
سردی لگتی ہے، وہ پہچانتے بھی ہیں۔
آدمی اور حیوان کے
کردار کا تجزیہ کیا جائے تو نظر آتا ہے کہ جانوروں کو بھوک لگتی ہے ، پیاس لگتی ہے
،سردی گرمی لگتی ہے ، جانور بھی ماں باپ بنتے ہیں، اپنے بچوں کو دودھ پلاتے ہیں۔
آدمی بھی اپنے بچے کو دودھ پلاتا ہے۔ پرندے بچوں کو غذا فراہم کرتے ہیں۔ آدمی اپنے
بچوں کو روٹی کھلاتا ہے ۔ جانور سوتے ہیں آدمی سوتا ہے۔ جانور بیمار ہوتے ہیں،
آدمی بیمار ہوتا ہے۔ جانور کوغصہ آتا ہے آدمی کو بھی آتا ہے۔ جانور کے اندر رحم
ہے، آدمی کے اندر بھی رحم ہے۔ جانور لڑتے ہیں، آدمی بھی لڑتے ہیں۔ جانوروں میں
پیار ہوتا ہے وہ پیار کوسمجھتے ہیں۔ آپ بلی کو پیار کرکے دیکھئے آپ کی گود میں
بیٹھی رہے گی۔ جانور میں اور آدمی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔
آدمی میں جانور کی صفات
کام کرتی ہیں تو آدمی کو حیوان ناطق کہا جاتا ہے۔۔۔ بنیادی طور پر سب کے اندر عقل
ہے شعور ہے ، اولاد کی پرورش کرنے کا جذبہ ہے، دودھ بھی پلاتے ہیں۔ غذا کے معاملے
میں تفکر کیا جائے تو ماں دودھ پلاتی ہے اور طوطا یا چڑیا چوگا دیتی ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ
انسان میں عقل ہے ، شعور ہے تو آپ نہیں کہہ سکتے کہ جانوروں کے اندر شعور یا عقل نہیں
ہے۔۔ جانور گھر بناتے ہیں، میلوں میل سفر کرتے ہیں اور پھر اپنے گھر آتے ہیں۔
جانور رہنمائی کا ذریعہ بنتے ہیں ، اگر بیان کی جائے تو ’’ ‘‘ صفحات کی کمی کی وجہ
سے ادھوری رہ جائے گی۔ سمجھا جاتا ہے کہ جانوروں میں شعور بہت کم ہے۔آدمیوں میں
شعور زیادہ ہے۔
جانوروں کی activities میں فرق کی وجہ ان کی
ساخت ہے۔بکری کی ساخت ایسی ہے کہ وہ گاڑی نہیں چلا سکتی۔ ہم گاڑی اس بنیاد پر
چلاتے ہیں کہ آدمی کی ساخت ایسی ہے کہ وہ گاڑی
چلا سکتا ہے۔ accelerator دبا سکتا ہے۔
چیمپینزی بھی گاڑیا ں
چلاتے ہیں،مشینیں چلاتے ہیں۔ انسان اور حیوان میں اگر کوئی فرق ہے تو یہ ہے
حیوانات میں عقل کم ہے اور انسانوں میں عقل زیادہ ہے۔ لیکن جانوروں میں جو عقل ہے
وہ آدمی میں نہیں۔
زمین پر ایسے چوپائے
موجود ہیں جن میں مستقبل بینی کی صلاحیت ہوتی ہے۔ بلی کتے اور کئی قسم کے جانوروں
کو آنے والی مصیبتوں اور زلزلوں کا پہلے سے علم ہوجاتا ہے۔ آدمی بیس چکر فی سیکنڈ
سے بیس ہزار چکر فی سیکنڈ کی آوازکی لہروں کو سن سکتا ہے جبکہ کتے بلیاں اور
لومڑیاں ساٹھ ہزار چکر فی سیکنڈ کی آوازیں سنتے ہیں۔ چوہے، چمگادڑ، وہیل اور ڈولفن
ایک لاکھ چکر فی سیکنڈ کی آوازوں کی لہروں کا ارتعاش قبول کرتے ہیں۔
آدمی کے مقابلے میں
شاہین کی آنکھ کسی چیز کو آٹھ گنا بڑا کر کے دیکھتی ہے۔ مچھلیاں بھی سمندر میں
انتہائی مدھم ارتعاش کو محسوس کر لیتی ہیں۔ شہدکی مکھی ماورائے بنفشی شعاعیں دیکھ
سکتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانوروں اور کیڑے
مکوڑوں میں انفرادی و اجتماعی سطح پر مربوط شعور پایا جاتا ہے اور اس شعور کی
کارفرمائی میں بظاہر کسی علمی تعلیم و تحصیل کو دخل نہیں ہے۔ مثلابطخ کا بچہ انڈے
سے نکلتے ہی پانی میں پہنچ جاتا ہے۔شاہین کے بچے میں پرواز کا علم اسے بار بار اڑنے پر
مجبور کرتا ہے۔ چھوٹے پرندے "بیا" میں گھونسلے بنانے کا فن ظاہر ی تربیت
کا نتیجہ نہیں ہوتا۔اسی طرح شہد کی مکھی میں پھولوں کی کشش اور شہد بنانے کا علم
کسی معلم کے بغیر کام کرتا ہے۔ شہد کی مکھیوں کی صلاحیت کا تذکرہ قرآن پاک میں
وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔
ہد ہد نے حضرت سلیمان ؑ
کی شادی کرائی۔۔۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ جانوروں میں عقل نہیں۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ
سکتے کہ جانور باتیں نہیں کرتے، ایک دوسرے سے کلام نہیں کرتے، بچوں کو نہیں پالتے،
انہیں سردی گرمی نہیں لگتی،پیاس نہیں لگتی یا وہ جنسی تلذذ سے ناواقف ہیں۔
فکر طلب بات یہ ہے کہ کون
سی حکمت ہے جس کی وجہ سے انسان افضل ہے؟عقل سب میں ہے۔ انسان بہت عقلمند ہے لیکن انسانوں میں mentally retarded بچے بھی ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیوان،آدمی اور انسان
میں کیا فرق ہے؟ یہ بات فکر طلب ہے۔۔۔۔ دراصل ساخت کا فرق ہے۔ ایک بکری اگر بندوق
بنانا چاہے تو کیسے بنائے گی۔۔۔ اس کی تو ساخت ہی نہیں ہے۔ ایک گائے روٹی پکانا
چاہے تو کس طرح پکائے گی۔۔ تحقیق و تلاش نے وضاحت کی ہے، آدمی کی ساخت کے بالمقابل
وہ کمزور نظر آتے ہیں۔۔۔ سورہ بقرہ، سورہ نمل، سورہ عنکبوت،سورہ فیل کا تذکرہ قرآن
پاک میں موجود ہے۔
انسان الگ ہے۔ آدمی الگ
ہے۔ آدمی جب تک آدمی ہے وہ حیوان کی صفت کا فرد ہے۔۔ دانشور کہتے ہیں کہ انسان
حیوان ناطق ہے۔ کیا چڑیا گونگی بہری ہے؟،بولتی نہیں، اظہار خیال نہیں کرتی، غمگین
نہیں ہوتی،خوش نہیں ہوتی؟
ارشارد باری تعالی ہے:
پرندے میری عبادت کرتے ہیں (41:24(
ایک حیوان کا نام آدمی
ہے۔ ایک حیوان کا نام بیل ہے۔ پرندہ ہے، مکڑی ہے۔مکڑی نے غار ثور پر جالا بن لیا۔
کیا یہ بات ہمارے سامنے
نہیں ہے کہ چڑیا سے چھوٹی ابابیل نے ہاتھی والوں کے لشکر کے ساتھ کیا کیا۔۔۔کھایا
ہوا بھس کردیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کالم میں سمجھتاہوں
کہ سرسری نگاہ سے دیکھنا اور پڑھنا ناکافی ہے۔ صاحب تفکر اولی الباب خواتین و
حضرات اللہ کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ انشاء اللہ اس نتیجہ پر پہنچ جائیں گے کہ
آدمی۔۔حیوان کی صف کا ایک یونٹ ہے۔ حیوانات کے تقاضے (جبلت) سب میں یکساں ہیں۔
جبکہ آدمی کا دوسرا رخ۔۔۔انسان۔۔تخلیق میں ممتاز تخلیق ہے۔ جس کے ماتحت سات آسمان
زمین اور ان میں جو کچھ بھی ہے سب انسان کے تابع ہے ۔
عرض کرنا یہ ہے کہ آدمی
اور انسان ایک یونٹ کے دو رخ ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
"ہم نے اس امانت
کو آسمانوں اور زمین اور
پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے اٹھانے سے انکار کردیا اور کہا کہ ہم ریزہ
ریزہ ہو جائیں گے ۔ مگرانسان نے اسے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل
ہے" (72:33(
آدمی اور انسان بظاہر
ایک لیکن حقیقت میں ایک ہونے کے باوجود دو یونٹ ہیں۔ ایک یونٹ حیوانات کی صف کا
فرد ہے یا نظر آتا ہے۔ مثلا جذبات و حواس انسان میں اسی طرح کام کرتے ہیں جس طرح
گائے، بکری میں کام کرتے ہیں۔ انسان اس وقت انسان ہے جب حیوانات میں اللہ کی دی
ہوئی صلاحیتوں سے الگ صلاحیتوں کا حامل ہو اور فی الارض خلیفہ کے منصب پر فائز ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پوری کائنات اللہ تعالی
کا ایک بنایا ہواپروگرام ہے۔ اور یہ پورا پروگرام مقداروں پر
قائم ہے۔ مقداریں اللہ تعالی کی ایسی صناعی ہیں کہ ایک ہونے کے باوجودسب الگ الگ نظر آتے ہیں۔پانی پینا اور غذائی ضروریات
پوری کرنا حیوان ناطق اور حیوان غیر ناطق سب کے لئے ضروری ہے۔ اور سب پانی کو پانی
سمجھ کر پیتے ہیں۔ حیوان رات کو رات اور دن کو دن سمجھتے ہیں۔ آدمی سوتا ہے خواب
دیکھتا ہے،حیوانات بھی سوتے جاگتے ہیں اور خواب دیکھتے ہیں۔ سمجھنے کے لئے ضروری
ہے کہ میل ، فی میل حیوان ناطق اور غیر ناطق ساخت میں دونوں ایک جیسے ہیں۔ عقل و
شعور دونوں میں ہے۔ یہ بات بالکل الگ ہے کہ کسی میں شعور زیادہ ہے اور کسی میں کم۔
اگر حیوان(آدمی) اور اونٹ کا تجزیہ کیا جائے تو دونوں میں حواس ایک جیسے ہیں۔ آدمی
کی طرح مرغی اپنے بچوں کو نہلاتی دھلاتی ہے ۔ یہ نقطہ فہم کو روشن کرتا ہے کہ
تخلیقی پراسیس میں آدمی اور حیوان یکساں ہیں۔
قرآن کریم میں اللہ
تعالی کا ارشاد ہے:
انسان تخلیقات میں
ہماری بہترین تخلیق ہے اور اسفل سافلین میں پڑا ہوا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آدمی اور
انسان میں کیا فرق ہے۔۔۔؟
خواتین و حضرات قارئین
سے التماس ہے کہ طبع آزمائی کریں۔اور لکھیں کہ آدمی اور انسان میں کیا فرق ہے۔۔۔؟
فرق ہے یا نہیں، اگر فرق ہے تو کیا ہے۔۔۔؟
دعاگو:
خواجہ شمس الدین عظیمی
اگست 2015
خواجہ شمس الدين عظیمی
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔