Topics

اصل کی تلاش- ماہنامہ قلندر شعور دسمبر 2020

تقریروں اور تحریروں کے ذریعے شماریات سے زیادہ مواقع پر متوجہ کر چکا ہوں کہ تلاش کریں آپ کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں، دنیا میں کیوں بھیجا گیا ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی یہ مقام چھوڑنا پڑتا ہے، اس دنیا سے جانے کے بعد یہاں سے ربط ختم کیوں نہیں ہوتا اور یہ پورا نظام کون چلا رہا ہےکہ جس میں تبدیلی اور تعطل نہیں۔روشن ذہن خواتین و حضرات اور بچوں نے حکم کی تکمیل کی اور اپنے اصل کی تلاش میں ہیں۔۔۔۔باقی بھول بھلیوں میں کھو گئے ہیں۔منزل پر پہنچنے کے لیے چلتے رہنا شرط ہے۔

مسافر منزل کی طرف قدم بڑھاتا ہے تو راستے میں نشیب و فراز آتے ہیں، طوفان سے دوچار ہوتا ہے اور

باد و باراں بھی رکاوٹ بنتے ہیں۔ عقل بند مسافران سے ٹکرانے کی کوشش کرتا ہے جبکہ عقل مند طوفان گزرنے کا انتظار کرتا ہے۔ انتظار بھی سفر ہے،قدم بظاہر کچھ وقت کے لیے رکے ہیں لیکن راستہ طے کرنے کے لیے اندر میں صبر، استقامت ، امید اور یقین کا سفر جاری ہے۔مسافر کی نظریں راستے پر مرکوز ہیں اور منزل ذہن میں نقش ہے۔قدم رکنے کے با وجود سفر نہیں رکا، مسافر آگے بڑھنے کی تیاری کر رہا ہے۔جیسے ہیں طوفان تھمتا ہے، وہ چلنا شروع کر دیتا ہے۔

دوسرا مسافر نشیب و فراز پر بر ہمی ظاہر کرتا ہے، طوفان سے لڑتا ہے اور با د و باراں پر شکوہ کرتا ہے۔معلوم ہونا چاہیئے کہ یہ سب اس راستے کا حصہ ہیں جس پر مسافر چل رہا ہے۔دونوں کا راستہ ایک اور منزل مخالف سمت میں ہے۔طوفان اس راستے سے گزر کر اپنی منزل پر اور مسافر اپنی منزل پر پہنچنا چاہتا ہے لیکن۔۔۔۔مخالف سمت سے آنے کی وجہ سے رکاوٹ سمجھ کر مزاہم ہو جاتا ہے۔اگر مسافر کے اندر طوفان سے زیادہ طاقت ہے تو گزر جائے ورنہ ردِ عمل ظاہر کرنے کے بجائے اسے گزرنے دے۔

ایک مسافر نے اندر میں توانائی یکجا رکھی اور دوسرے نے غیر ضروری استعمال سے منتشر کر دی۔ ایک نے طوفان کو راستہ دے کر اثر کو بے اثر کر دیا ۔ اس طرح اپنی سکت کے علاوہ طوفان کی مقداریں بھی اسے منتقل ہو گئیں جبکہ دوسرے مسافر نے اثر قبول کر کے خود کو طوفان سے دوچار کر دیا۔

 مقصد سے غافل رہنا آدمی کو گمراہ کر دیتا ہے۔خالقِ کائنات کا ارشاد ہے :

          "میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہےکہ وہ میری بندگی کریں۔"   (الذاریات : 56)

اللہ نے جنات اور انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ سنت و فرض عبادات کے ساتھ کیئر آف اللہ طرزِ فکر اختیار کرنا کہ ہر شے اللہ کی طرف سے ہےاور اللہ کی طرف لوٹ رہی ہے۔

مخلوق کی تعریف بیان کی جائے تو کہا جائے گا کہ تقاضے جس پیمانے میں یکجا کئے گئے ہیں وہ پیمانہ مخلوق ہے۔ ہر پیمانہ مختلف ہےمگر بنیادی تقاضے مشترک ہیں۔ایک طرف آدمی ضرورتوں کا پابند ہے اور دوسری طرف اس کی تخلیق کا مقصد عبادت ہے۔غور کیا جائے تو دونوں کو ایک دوسرے سے نسبت ہے۔احتیاج اسے خلقت کے دائرےمیں رکھتی ہےاور ان کے پورا ہونے کے لئے خالق سے ربط عبدیت ہے۔

          "ہم آپ کی عبادت کرتے ہیں اور آپ سے مدد مانگتے ہیں۔ہمیں صراطِ مستقیم کی ہدایت دیجئے۔" (الفاتحہ5-4)۔

تقاضے کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے۔ قدرت تقاضوں کے ذریعے مختلف ذاویوں سے ہمیں تکمیل کا پیغام دیتی ہے۔

مثال :    آدمی اطمینان سے بیٹھا ہوا ہےاور اخبار پڑھنے میں مصروف ہے۔پیاس لگتی ہے اور توجہ کچھ دیر کی لیے اخبار سے ہٹ جاتی ہے۔ اخبار ایک طرف رکھ کر گلاس میں پانی ڈالتا ہےاور سیراب ہو کر دوبارہ اخبار پڑھنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔کچھ وقت گزرنے کے بعد پھر پیاس لگتی ہے اور بےچینی پیدا ہوتی ہے، دوبارہ پانی پی لیتا ہے۔پیاس وقتی طور پر بجھتی ہےلیکن پھر تقاضہ پیدا ہوتا ہے۔

تجزیہ:    اطمینان کی حالت میں جن تقاضوں کی آدمی کو ضرورت تھی ، ان کی مقداریں جسم میں پوری تھیں۔مقداریں اچانک کم ہوئیں جسے اس نے پیاس کا نام دیااور سوچے سمجھے بغیر پانی پی کر دوبارہ اطمینان کی حالت میں آگیا۔اطمینان کیا ہے، مقداروں میں کمی کیسے آئی اور کس نے بتایا کہ یہ پیاس ہے۔پانی پینے کے بجائے کھانا کیوں نہیں کھایا۔، دودھ یا قہوہ کیوں نہیں پیا۔۔۔؟ جواب یہ ہے کہ اسے خود نہیں معلوم کہ اس نے طبعیت میں ہیجان محسوس ہونے پر پانی کیوں پیا، چائے کیوں نہیں پی؟ تسکین اور تشنگی بندے کو اندر میں خلا کی طرف متوجہ کرتی ہے جو پانی پینے اور کھانا کھانے سے عارضی طور پر پر ہو تا ہے لیکن کچھ دیر بعد دوبارہ پیاس لگتی ہے۔ فرد تقاضہ ابھرنے پر بار بار پانی پینے کی زحمت کرتا ہے مگر نہیں سوچتا کہ پیاس کیوں لگتی ہے اور تکمیل کیسے ہو۔

تقاضے ہر تھوڑے وقفے کے بعد ابھر کر احساس دلاتے ہیں کہ ہماری تکمیل نہیں ہوئی ، تم جن چیزوں سے ہمیں سیراب کر رہے ہو، وہ عارضی ہیں ، ایک حالت پر قائم نہیں رہتیں ، پھر ہماری تکمیل کیسے ہو سکتی ہے؟ ہر تقاضہ تکمیل چاہتا ہےاور ہم اس کی تسکین کر کے کچھ دیر کے لئے خاموش کری دیتے ہیں۔ یہی ہماری طبیعت ہے کہ ہم عارضی سہاروں پر تکیہ کرتے ہیں اور تکمیل کا راستہ تلاش نہیں کرتے ۔شاعر نے کہا ہے:

          تمام عمر سہاروں پہ آس رہتی ہے           تمام عمر سہارے فریب دیتے ہیں

                             *****---------------------------*****

مرشد اور مرید ہم سفر تھے ۔پیاس لگتی تو کسی مقام پر رک کر پانی پی لیتے۔

 مرید نے پوچھا ، ہم پانی پی چکے ہیں پھر بار بار پیاس کیوں لگتی ہے؟

مرشد نے فرمایا ، ارے نادان ! پیاس ظاہر ہو کر یہ نہیں بتا رہی کہ تمہیں پیاس لگی ہے، وہ کہتی ہے میں پیاسی ہوں ۔۔۔میری تکمیل کرو۔

مرید کے قدم یک لخت رک گئے اور سوچا کہ صاحبِ طریقت کیا فرمانا چاہتے ہیں۔

محترم ! پیاس میرے ذریعے اپنی تکمیل کیوں چاہتی ہے؟

مرشد نے قریب پڑے پتھر پر بیٹھتے ہوئے فرمایا، کیوں کہ تم اپنی توانائی کے بجائے اس کی توانائی سے سفر کر رہے ہو۔ پانی پی کر پیاس بجھتی ہے۔، اور تم کہتے ہو میں سیراب ہو گیا؟

پوچھا ، کیا یہ ایک بات نہیں ۔۔۔؟ فرمایا، نہیں۔۔۔بالکل نہیں ! پیاس اور تم دو وجود ہو۔

عرض کیا ، مجھے زندہ رہنے کے لیے پانی کی ضرورت ہے ، پھر پیاس کی تکمیل کیسے ہو گی؟

مرشد نے فرمایا، جب تمہاری تکمیل ہو جائے گی۔اپنی سیرابی کے لیے عارضی سہارے مت تلاش کرو۔ آدمی روٹی سے نہیں ، اس روشنی سے زندہ ہے جو لاشعور سے آتی ہے۔ تم نے روشنی نہیں دیکھی ، اس لیے قدرت روشنی کو روٹی اور پانی کی شکل میں ظاہر کر کے تمہاری تسکین کرتی ہےاور تقاضے دہرا کر تمہیں متنبہ کرتی ہے کہ تسکین عارضی ہے ۔ کیوں کہ پانی اور روٹی کی شکل عارضی ہے۔ پانی خشک ہوتا ہے، بخارات بن کر اڑتا ہے، بارش کی شکل میں برستا ہے اور سردی میں جم جاتا ہے۔ روٹی کی شکل بھی تبدیل ہوتی ہے لیکن روشنی۔۔روشنی ہے۔اسی روشنی سے دوبارہ پانی بنتا ہے۔

مرید نے عرض کیا، روشنی کہاں ہے۔۔؟

فرمایا، خود کو آئینے میں  دیکھتے ہو، روشی کو دل کے آئینے میں دیکھا جا سکتا ہے۔

خواتین و حضرات قارئین! بتایئے یہ مضمون کس نے لکھا ۔کس نے پڑھا۔۔لکھنے اور پڑھنے کے ملاپ سے مفہوم کی تصویر کہاں بنی۔۔؟بہت شکریہ

                                                                                               اللہ حافظ

                                                                                           خواجہ شمس الدین عظیمی

Topics


QSM Aaj ki Baat

خواجہ شمس الدين عظیمی

اور جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(

اللہ تعالیٰ کی مدد اور اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔

اس ماہنامہ میں انشاء اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی، ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔

دعا کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔