Topics
گو
مالا کے گھر ہمارا زیادہ آ نا جانا نہیں رہا مگر خاندان میں تو سب ایک دوسرے کو
خوب پہنچانتے ہیں۔ کسی کی کوئی بات چھپی نہیں رہتی۔”چودھرائن بولیں۔”بہن جی ایسی
کوئی بات نہیں ہے۔ مالا نے آپ لوگوں کی بڑی ہی تعریف کی تھی اور ہم نے بھی آپ کو
زیادہ ہی پایا ہے اس سے جتنی وہ تعریف کیا کرتی تھی۔ آپ دھیرج دھرو، میں محلے میں
نیوتہ بھیجتی ہوں کل منگل وار ہے۔ کل شام کو انگوٹھی پہنا دیں ، شادی دو تین مہینے
بعد کر دینگے۔”
دونوں
عورتوں نے وہیں بیٹھے بیٹھے ایک دوسرے کو خوشی سے لگ لگایا۔ پھر چودھرائن جلدی سے
چارپائی سے اتری اور رسوئی گھر کی جانب جاتے جاتے زور زور سے سب کو پکارتی جاتی۔
اے مالا، اے کاجل، ارے او خادم، صندل بیٹی، سب کو بیک وقت آوازیں دینے پر سارے ہی
گھبرا کے باہر نکل آئے۔ سب کے منہ پر یہی جملہ تھا۔”ماں کیا ہوا؟”ماں کی کھلی ہوئی
بانچھیں دیکھ کر سب فوراً چپ ہو گئے۔ چودھرائن بولیں۔”ارے تم سب کو مبارک ہو اپنی
کندن اور انیل کا رشتہ طے ہو گیا ہے کل منگنی ہے۔ اب جلدی انتظام کرو۔ مالا بیٹی
اپنے باپو کو دکان سے بلا بھیج ، بیٹی اپنی چچی سے بھی صلاح لے لے کیا کیا کرنا
ہے۔ میرے تو خوشی سے ہاتھ پاؤں پھولے جا رہے ہیں۔”کاجل دوڑ کے ماں کے پاس آئی اور
بولی۔”ماتا آپ آرام سے چچی کے پاس بیٹھ کر گپ شپ لڑاؤ یہ سب کام ہمارے سپرد کر دو۔”چودھرائن
نے خوش ہو کر اسے گلے سے لگا لیا۔”بیٹی جیتی رہو، اب میں بے فکر ہو گئی۔”یہ کہہ کر
چودھرائن پھر صحن میں کھٹیا پر جا بیٹھیں اور دونوں سمدھنیں خوش گپیوں میں مصروف
ہو گئیں۔ صندل کا خوشی کے مارے برا حال تھا وہ بھاگی بھاگی کندن کے پاس آئی۔”کندن
جیجا جی کو دیکھا ہے تم نے؟ کتنے سندر ہیں نا؟ خوب مزا آئے گا ، سنا ہے چچی تمہارا
جوڑا لائی ہیں۔ تم تو وہ پہنو گی اور میں کیا پہنوں گی؟ اب ایک دن میں، میں نئے
کپڑے بھی نہیں بنوا سکتی مگر یاد رکھنا سگائی کے لئے ابھی سے جوڑے بنوانے دے دوں
گی۔”وہ ایک سانس میں بولے جا رہی تھی۔ کندن ہنسنے لگی۔ پھر بولی۔”تمہارے پاس دو
جوڑے تو بالکل نئے رکھے ہیں۔ جو تم نے ابھی پہنے بھی نہیں اس میں سے ایک پہن لو۔”صندل
نے الماری کھولی دونوں جوڑے نکالے ایک جوڑا تو معمولی تھا مگر دوسرا تقریب میں
پہننے کے لائق تھا۔ اس نے کندن کو دکھایا۔ یہ فیروزی رنگ کی شلوار کا سوٹ تھا جس
پر سیاہ موتیوں کا کام تھا۔ کندن نے کہا۔ “صندل یہ تم پر بہت اچھا لگے گا۔ غرضیکہ
سارا گھر دوسرے دن کی تیاری میں لگ گیا۔
محلے
کے چالیس پچاس لوگوں کو گھر پر ہی بلالیا گیا تھا۔ لہٰذا سادہ طریقے سے منگنی کی
رسم ادا ہو گئی۔ ٹھا کر صاحب نے خادم کے ذریعے مندراج بابو کو اور ان کے گھر والوں
کو بھی نیوتہ بھیجا۔ مگر ان کے یہاں سے کوئی بھی نہیں آیا۔ عاجل کو تو پڑوس کے
لڑکے کے ذریعے بلوا لیا تھا۔ وہ منگنی سے گھنٹہ بھر پہلے ہی پہنچ چکا تھا۔ غرضیکہ
خیر و خوبی کے ساتھ سارا کام ہو گیا۔ دو دن بعد مہمان چلے گئے تو ٹھا کر صاحب کو
بھائی کا خیال آیا کہ وہ یا ان کے گھر سے کوئی کیوں نہیں آیا۔ انہوں نے چودھرائن
سے کہا۔ “صندل کی ماں، آج منگنی کی مٹھائی بھیا جی کو دے کر آتے ہیں۔”شام کو دونوں
جانے لگے تو صندل بھی چلنے کے لئے تیار ہو گئی۔ مندراج بابو کے یہاں پہنچے تو کیا
دیکھتے ہیں کہ سارے کا سارا گھر بیمار پڑا ہے۔ اتنے لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی گھر
میں عجیب وحشت برس رہی تھی۔ ٹھا کر صاحب بھائی کو اس طرح دیکھ کر بڑے پریشان ہوئے۔
بولے۔”ارے آپ سب لوگ بیمار پڑ گئے۔ کسی کے ذریعے کہلوا ہی دیا ہوتا۔”مندراج بابو
کمبل کو اچھی طرح اپنے گرد لپیٹتے ہوئے بولے۔”کچھ نہیں بس یونہی فلو ہو گیا ہے۔
ٹھیک ہو جائے گا۔”اتنے میں تارا کی ماں بولی۔”یہ تو یونہی کہتے ہیں۔ یہ فلو نہیں
ہے۔ یہ تو اوپری اثر ہے۔”ایک کونے میں دری پر تارا بھی اسی کمرے میں بیٹھی تھی۔
ماتا پتا کی بات سن کر چڑ کر بولی۔”پتا جی کب تک بات چھپاؤ گے چاچا کو تو بتا دو۔”ٹھا
کر صاحب یہ سن کر بولے۔”تو ہی بتا دے بیٹی، کیا بات ہے؟”بولی چاچا بات وہی ہے جو
صندل بھی کچھ نہ کچھ جانتی ہے۔ باپو کو ہمزاد تابع کرنے کا بڑا شوق تھا۔ اس نے اب
تک تو باپو کی بہت بات مانی ، جو کچھ کہا وہ لا کر دیا مگر کچھ عرصے سے ہمارے گھر
پر بڑی آفت آئی ہوئی ہے اور باپو ہیں کہ کسی سے کچھ کہنے بھی دیتے۔ اب کچھ دنوں سے
وہ ہمزاد بھی غائب ہے اور گھر میں رکھی ہوئی چیزیں غائب ہو جاتی ہیں۔ سب سے پہلے
تو اچانک ایک دن ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے سارا گھر الٹ پلٹ ہو گیا۔ الماریوں سے
چیزیں باہر آگئیں۔ سارا سامان تتر بتر ہو گیا۔ جیسے کوئی تلاشی لے رہا ہو اور
تلاشی کے بعد یونہی جدھر ہاتھ چلا پھینکتا چلا گیا حتیٰ کہ بڑا فرنیچر بھی اِدھر
اُدھر اوندھا سیدھا کرتا گیا۔ باپو نے ہمزاد کو بہت بلایا مگر وہ نہ آیا کسی کو
پتہ چلا کہ یہ تباہی کون کر رہا ہے۔ کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ بس آناً فاناً میں کوئی
چیز کہیں چلی جاتی کوئی کہیں ہم سب کا خوف کے مارے برا حال ہے۔ باپو ہمیں حوصلہ
دیتے رہے اور کسی کو بتانے سے بالکل منع کر دیا۔ کسی کو گھر میں آنے کی اجازت نہ
تھی۔ بس کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر دروازے سے ہی لوٹا دیتے۔ گھر کے نوکر کو بھی
چھٹی دے دی کہ ابھی ضرورت نہیں ہے۔ سارا دن یہی حال رہا رات گئے یہ سلسلہ رکا تو
دوسرے دن ہم سب نے مل کر سامان اکٹھا کیا اور گھر کی ترتیب درست کی اس وقت ہمیں
پتہ چلا کہ ہمزاد جو جو چیزیں لایا تھا وہ تقریباً تمام کی تمام غائب ہیں اور
چیزیں غائب ہونے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اب تو ہمارا پہلے کا سامان بھی ایک ایک
کر کے غائب ہوتا جا رہا ہے۔ گھر کا تمام زیور غائب ہو چکا ہے۔ صندل بولی۔”جب کوئی
آتا ہے تو اس کی موجودگی کا تمہیں پتہ لگتا ہے؟”تارا کہنے لگی۔”ہاں، ہم سب جان
لیتے ہیں۔ کبھی دروازے کھلنے کی آواز آتی ہے اور دروازے کھل جاتے ہیں۔ کبھی چیزیں
ادھر اُدھر خود بخود گرنے سے پتہ چل جاتا ہے کہ کوئی سامان کی تلاشی لے رہا ہے۔
مگر کوئی سنتا نہیں۔ اپنا کام کر کے لوٹ جاتا ہے۔ اسی پریشانی نے ہم سب کو بیمار
کر دیا ہے۔ کندن کی منگنی میں بھی نہ آ سکے۔ صندل میں جانتی ہوں کہ بھگوان نے تم
کو ہنو مان جی کی شکتی دی ہے، تم اگر کچھ کر سکو تو ہم پر سے یہ آفت ٹل سکتی ہے۔”
صندل
بولی۔”شکتی بھگوان ہی کی ہے اسی سے اس کے بھگتوں کو دان ملتا ہے۔ تم سب بھگوان پر
بھروسہ رکھو۔ اشنان کر کے اپنے آپ کو پوتر کرو اور پرماتما کے سامنے جھک جاؤ وہ سب
کی پرارتھنا سننے والا ہے۔”چودھرائن بولیں۔”بہن جی، آپ دکھی نہ ہوں مایا تو آنی
جانی ہے۔ جان سلامت رہے پھر مل جائے گی۔ میں خادم کو جا کر بھیجتی ہوں وہ گھر کا
فرد ہے کوئی بات اِدھر اُدھر نہیں کرے گا۔ آپ سب کی خدمت کرے گا۔ ٹھیک ہو جاؤ گے
تو پھر اپنا نوکر بلا لینا۔”تارا کی ماں سخت حیرانی سے چودھرائن کی طرف دیکھتی
رہی، اسے یقین نہ آتا تھا کہ یہ اتنے خلوص سے پیش کش کرینگے۔ اس کی آنکھوں سے آنسو
جاری ہو گئے اور وہ سسکیاں لیتے ہوئے کہنے لگی۔”سب کچھ ہمارے ہی کرموں کی سزا ہے۔”ٹھا
کر صاحب نے بھائی کو تسلی دی، آپ کو جس چیز کی ضرورت ہو، حاضر ہو جائے گی۔ آپ نہ
گھبرائیں اور اب آپ نے انجام دیکھ لیا۔ ہمزاد وغیرہ کے چکر میں نہ پڑیں۔”مندراج
بابو سر جھکائے کہنے لگے۔”میں نے تو سب کچھ اپنے بال بچوں کی خاطر کیا تھا۔ مجھے
کیا پتہ تھا کہ یہ دن دیکھنے پڑیں گے۔”
ٹھا
کر صاحب بیگم وصندل کے ساتھ گھر واپس آئے اور آتے ہی خادم کو صورتحال سے آگاہ کرتے
ہوئے تاکید کی کہ ان کا اچھی طرح خیال رکھنا اور کسی سے ان کے گھریلو معاملات کا
ذکر نہ کرنا۔ خادم چلا گیا تو ٹھا کر صاحب صندل کو الگ کمرے میں لے گئے تا کہ وہ
سلطان بابا کی مدد سے اس کا کوئی حل ڈھونڈے اور ہمزاد سے ان کا بھیا کا پیچھا چھڑا
دے۔ وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ ہمزاد انہیں طرح طرح سے تنگ کر رہاہے۔ ٹھا کر صاحب نے
بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔”بیٹی، خون کے رشتے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی
ذرا سی بھی تکلیف نہیں دیکھی جاتی۔ مجھے یقین ہے کہ تم ضرور اس معاملے میں ہم سب
زیادہ جانتی ہو تم جو کچھ جانتی ہو کیا تم ہمیں بتا سکتی ہو؟”صندل بولی۔”باپو یہ
سب کچھ ہمزاد کی وجہ سے ہی ہوا ہے میں سلطان بابا سے اس کے متعلق اچھی طرح پتہ
کروں گی اور ان سے درخواست کروں گی کہ وہ اس مشکل میں ہماری پوری پوری مدد کریں۔”
صندل
نے قصداً ہمزاد کی گرفتاری کے متعلق انہیں کچھ نہیں بتایا وہ سلطان بابا کی اجازت
کے بغیر اس معاملے میں کچھ کہنے سے گھبراتی تھی۔ رات گئے تک اس کا ذہن اسی سوچ میں
تھا کہ ہمزاد تو قید میں ہے۔ پھر کون تارا کے گھر سے مال غائب کر رہا ہے؟ یہ وہی
جنات ہو سکتے ہیں جن کو ہمزاد کی جانب سے تکلیف پہنچی ہے وہ سوچتی رہی کہ اس کا
کیا حل ہو سکتا ہے؟رات کو جب سب اپنے اپنے کمروں میں آرام کی نیند سو گئے صندل دبے
پاؤں صندل دیوی والے کمرے میں داخل ہوئی اور اوم ہری اوم کہہ کر سجدے میں گر گئی۔
بہت دیر بعد اس نے سجدے سے سر اٹھایا اور سلطان بابا کے تصور میں آنکھیں بند کر کے
بیٹھ گئی۔ کیونکہ سلطان بابا نے کہا تھا کہ جب بھی کوئی بات کہنی ہو، تصور کے
ذریعے ہم سے رابطہ قائم کر لیا کرو۔ سلطان بابا کہتے تھے کہ دھیان سے ہی گیان ملتا
ہے۔ سلطان بابا سے دھیان لگائے ہوئے ابھی دو تین منٹ ہی ہوئے تھے کہ بند آنکھوں سے
صندل نے دیکھا کہ سلطان بابا کی قبر درمیان سے دروازے کی طرح کھلی اور سلطان بابا
اس میں سے نکلے اور اگلے ہی لمحے وہ صندل کے پاس کمرے میں تھے۔ صندل نے عقیدت کے
ساتھ انہیں پرنام کیا اور قدم بوسی کی اور تارا کے گھر کی اس نئی صورتحال سے انہیں
آگاہ کیا۔ سلطان بابابولے۔”صندل قدرت تمہیں غیب کے تجربات سے گزرانا چاہتی ہے۔ تم
صندل دیوی کی حیثیت سے عالم جنات میں داخل ہو کر وہاں کے معاملات میں دخل دینے کا
اختیار رکھتی ہو اگر تم اس معاملے میں وکالت کرنا چاہتی ہو تو عالم جنات میں جا کر
اس کورٹ میں اپنا مقدمہ پیش کر سکتی ہو۔”صندل نہایت ادب کے ساتھ بولی۔”سلطان بابا
، میری رضا تو آپ کے حکم میں ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم وہاں جا کر دوبارہ اس
مقدمے کو کھولیں اور موجودہ حالات کے مطابق چھان بین کریں تو اس کے لئے میں تیار
ہوں۔ سلطان بابا بولے۔”اللہ تمہیں سدا خوش رکھے بیٹی۔ کل رات اسی وقت تم یہیں اس
کمرے میں رہنا۔ بھگوان تمہیں شکتی دے۔”یہ کہہ کر سلطان بابا دوبارہ اپنی قبر میں
داخل ہو گئے۔ صندل اپنے کمرے میں آ کر سو گئی۔ دوسرے دن سے کندن کی شادی کی
تیاریاں شروع ہو گئیں۔ کیونکہ پنڈت نے چھ ہفتے بعد کا مہورت نکالا تھا ان چھو
ہفتوں میں کپڑے لتے سب ہی کچھ تیاریاں کرنی تھیں۔ کاجل اور مالا سلائی میں اچھی
ماہر تھیں۔ وہ سارا دن کندن اور صندل کے ساتھ سینے کیلئے کپڑے چھانٹتی رہیں۔ ساتھ
میں شادی کے گابے بھی گاہے گاہے گاتی جاتیں۔ صندل کے جوان ارمان بھی لال جوڑا پہنے
اس کے تصور میں لہراتے وہ اندر ہی اندر ان سے خائف ہو جاتی اور دل میں اپنے آپ سے
کہتی۔" صندل تیرا راستہ سب سے جدا ہے۔"
رات
کو جب سب سو گئے تو پھر صندل اسی کمرے میں آگئی۔ مراقبے میں بیٹھے چند منٹ ہی ہوئے
تھے کہ اسے یوں لگا جیسے اس کے اندر سے ایک اور صندل نکل کر سلطان بابا کی قبر کی
جانب روانہ ہو گئی اور قبر میں داخل ہو گئی۔ قبر میں داخل ہوتے ہی اسے سلطان بابا
دکھائی دیئے انہوں نے اسے خوشی سے گلے لگا لیا۔ ان کے ہاتھ میں ایک فائل تھی وہ
انہوں نے صندل کو دی اور کہا۔ “صندل بیٹی، یہ ہمزاد کے مقدمے کی فائل ہے۔ آج تم اس
مقدمے کی وکیل ہو۔ مندراج بابو کے گھر پر جنات کے حملوں کی روک تھام کے سلسلے میں
تم جو اقدام اٹھانا چاہو گی اس پر حکومت جنات تم سے تعاون کرنے کو تیار ہے۔”صندل
اور سلطان بابا چند ہی لمحوں میں کورٹ پہنچ گئے۔ صندل اور سلطان بابا پہلے ایک
کمرے میں گئے وہاں اور بھی جنات وکیل موجود تھے۔ سب سے تعارف ہوا ۔ ایک وکیل نے
صندل کو وکیل کا کوٹ پہننے کو دیا پھر سب لوگ کورٹ ہال میں آگئے۔ مقدمے کی
کارروائی شروع کرنے سے پہلے سلطان بابا نے صندل کو بتایا کہ وہ جن ہیں جنہوں نے
مندراج بابو کے گھر چوری کی ہے۔ یہ پکڑے جا چکے ہیں۔ وہ سامنے مجرموں کے کٹہرے میں
دونوں کھڑے ہیں۔ صندل نے پوچھا۔”یہ کیسے پکڑے گئے؟”سلطان بابا بولے۔”یہ جنوں کو
ہمزاد کے خلاف بھڑکا کر جنوں کے دلوں میں انسانوں کے خلاف نفرت پیدا کرتے تھے۔ جس
کی وجہ سے پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔”کارروائی شرو ع ہوئی۔ سب سے پہلے صندل نے
سر جھکا کر سلطان بابا سے اجازت طلب کی۔ سلطان بابا نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ
ڈھیر ساری دعاؤں میں اجازت دے دی۔
صندل
مجرموں سے مخاطب ہوئی۔”کیا تمہیں مندراج بابو کے گھر کا سامان لوٹنے کا اعتراف
ہے۔؟”ایک جن نے جواب دیا۔”جی ہاں۔”صندل نے دوسرے جن سے بھی یہی سوال کیا۔ دوسرے نے
بھی اثبات میں جواب دیا۔ صندل نے پوچھا۔”کیا مندراج بابو یا ان کے گھر والوں میں
سے کسی سے تمہاری کوئی دشمنی ہے؟”ایک جن بولا۔”ہاں ہے، انہوں نے ہمزاد کے ذریعے
ہمارے بستی والوں کو نقصان پہنچایا ہے؟”کیا ہمزاد سے تم میں سے کسی ایک کو یا
دونوں کو کوئی نقصان پہنچا؟”دونوں نے جی نہیں میں جواب دیا۔ اب صندل نے پھر سوال
کیا۔”تم کیا جانتے ہو کہ ہمزاد ، جن پولیس کی حراست میں ہے اور کورٹ آف جنات کی
جانب سے اس پر جرم ثابت ہو چکا ہے۔ اور وہ اپنی سزا عالم جنات میں کاٹ رہا ہے۔”دونوں
نے اقرار کیا کہ وہ اس خبر سے واقف ہیں۔ صندل پھر بولی۔”کیا تم اس بات کو جانتے ہو
کہ شہنشاہ جنات اور صندل دیوی کی جانب سے ان تمام جنات کو معقول معاوضہ مل چکا ہے
جن کو ہمزاد کے ذریعے تکلیف پہنچی تھی۔”دونوں نے کہا کہ وہ اس بات سے واقف ہیں۔
صندل نے پوچھا۔”تمہیں اس بات کی خبر مندراج بابو کا گھر لوٹنے سے پہلے تھی یا بعد
کو معلوم ہوا؟”دونوں نے کہا ہم پہلے ہی اس بات کو جانتے تھے۔ صندل بولی۔”کیا تم اس
وقت کورٹ میں موجود تھے جب ہمزاد کا مقدمہ کورٹ میں پیش تھا؟”دونوں نے “جی ہاں”کہا۔
اب صندل دیوی نے پوچھا۔”تم دونوں کس کی اجازت سے مندراج بابو کے گھر گئے تھے؟”دونوں
نے کہا۔”کسی کی بھی اجازت سے نہیں گئے تھے۔ یہ ہمارا اپنا ارادہ اور فیصلہ تھا۔”صندل
نے پوچھا۔”جو سامان تم نے مندراج بابو کے گھر سے لوٹا، وہ کہاں ہے؟”دونوں نے کہا
وہ ہم نے ایک جگہ چھپا کر رکھا ہے۔ ہمارا ارادہ تھا کہ ہم اسے تقسیم کر دینگے۔ اور
جس کی جو چیز ہے اس کو واپس کر دینگے۔ “ صندل بولی۔”ٹھیک ہے، اب مجھے تم سے کوئی
سوال نہیں کرنا۔”پھر وہ جج سے اور کورٹ سے مخاطب ہوئی۔ مائی لارڈ کورٹ مجرموں کے
جوابات سن چکی ہے۔ انہیں اپنے جرم سے انکار نہیں ہے۔ اب میں اپنی رائے پیش کرنے کی
اجازت چاہتی ہوں۔جج نے اجازت دی۔ صندل بولی۔”مائی لارڈ ان دونوں پر یہ جرم عائد
ہوتے ہیں۔ نمبر ایک یہ کہ ان دونوں نے کورٹ کے فیصلے کے خلاف ایکشن لیا ہے جبکہ
کورٹ ایک مقدمے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ نمبر دو یہ کہ اگر انہیں کورٹ کے فیصلے سے
اتفاق نہ تھا تو ان پر لازم تھا کہ وہ کورٹ کو اس بات سے آگاہ کرتے۔ نمبر تین یہ
کہ ہمزاد کے مقدمہ کا عالیجاہ شہنشاہ جنات کی عدالت میں فیصلہ ہو چکا ہے اور اس
فیصلے کے وقت یہ دونوں مجرم موجود تھے۔ مقدمہ خارج ہونے کے بعد مقدمے کے کسی بھی
فرد کو نقصان پہنچانے کا مطلب یہ ہے کہ دونوں مجرموں کو شہنشاہ جنات کے فیصلے سے
اتفاق نہیں ہے جبکہ قدرت کا قانون یہ کہتا ہے کہ حکومت وقت سے اتفاق کرو۔ مگر
رعایا کے حقوق میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ حکومت کے فیصلے کے خلاف آواز اٹھانے
کا حق رکھتی ہے اور اس کے بعد بھی حکومت اگر اپنے فیصلے پر نظر ثانی نہ کرے تب
حکومت کی بات کو تسلیم نہ کرنے کا حق رعایا کو حاصل ہے۔ مگر اس مقدمے میں مجرموں
نے حکومت وقت کے فیصلے کو تسلیم نہ کرنے کی کوئی اطلاع حکومت کو نہیں دی۔ نمبر چار
یہ کہ جن لوگوں کے حق میں مجرموں نے یہ قدم اٹھایا ان لوگوں کو بھی اس بات کا علم
نہیں ا س کے علاوہ جو مال ان لوگوں کے لئے لوٹا گیا وہ بھی ان تک نہیں پہنچایا گیا
بلکہ اس مال کو ذاتی حفاظت میں رکھا گیا۔ جس کا علم سوائے ان دونوں کے اور کسی کو
نہیں۔ ایسی صورت میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مجرموں نے ایک موقع کا فائدہ اٹھاتے
ہوئے اپنی خواہش نفس کی تکمیل کی ہے، نمبر پانچ یہ کہ مندراج بابو کے سارے گھر کو
خوف و ہراس میں مبتلا کیا گیا اور اس طرح انہیں جسمانی نقصان پہنچانے کی کوشش کی
گئی۔”
صندل
اس بیان کے بعد اپنی جگہ آ کر بیٹھ گئی اس کے بعد وکیل صفائی نے اپنا بیان شروع
کیا۔ اس نے کہا کہ مجرموں نے یہ جرم اپنی قوم کی محبت کی وجہ سے کیا۔ اسی وقت صندل
اٹھ کھڑی ہوئی اور اجازت لے کر کہنے لگی۔”مائی لارڈ، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ قوم
کی محبت میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا حق ہر کسی کو حاصل ہے۔ پھر اگر کوئی
قتل کے مجرم کو مقتول کی محبت میں آ کر قتل کر دیتا ہے تو وہ مجرم کیوں کہلاتا ہے۔
اسے عدالت قاتل کیوں قرار دیتی ہے؟ اسے ہیرو جان کر اسے انعام و اکرام کیوں نہیں
دیتی؟ مائی لارڈ، وکیل صفائی کا یہ کہنا خود ان کے حق میں یہ بات ثابت کرتا ہے کہ
وہ عدالت کے نافذ کردہ قانون کو تسلیم نہیں کرتے۔”وکیل صفائی کی پیشانی پر پسینے
کے قطرے چمکنے لگے۔ اس نے سر خم کرتے ہوئے کورٹ سے معافی مانگی اور اپنا بیان واپس
لے لیا اس کے بعد وکیل صفائی کے پاس کوئی اعتراض باقی نہ رہا۔ بس اس نے اتنا کہا۔”چونکہ
مجرموں کا یہ پہلا جرم ہے، اس لئے ان کا فیصلہ کرنے میں اس بات کا خاص خیال رکھا
جائے۔”اس کے بعد عدالت نے مجرموں کو حکم دیا کہ وہ تمام لوٹا ہوا مال پولیس کے
قبضے میں دے دیں اور پولیس اسے واپس مندراج بابو کے گھر لوٹا دے۔ مجرموں کو چھ ماہ
کی سزا دی گئی۔ عدالت برخاست ہوئی اور صندل سلطان بابا کے ساتھ واپس لوٹ آئی۔
سلطان بابا اس سے بہت خوش تھے۔
صبح
اٹھ کر اس نے اپنے باپو سے کہا۔”باپو میں نے رات سلطان بابا سے پرارتھنا کرنے کا
کہا تھا، وہ کہتے تھے کہ اللہ سے دعا کرینگے کہ مندراج بابو کا کھویا ہوا مال
انہیں واپس مل جائے اور آئندہ کے لئے وہ جنات کی شرارت سے محفوظ رہیں۔”شام کو خادم
واپس آ گیا۔ کہنے لگا آج دوپہر میں سب لوگ موجود تھے کہ دروازے کھلنے کی آواز آئی
اور الماریوں کے پٹ اور خانے کھل گئے۔ سب خوفزدہ ہو گئے ہم سب مل کر زور زور سے
اوم شنکر اوم کا جاپ کرنے لگے مگر ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے الماریاں بھر گئیں۔ پھر
ایک آواز آئی۔”سلطان بابا کے حکم سے اس گھر کو جنات کے شر سے محفوظ کیا جاتاہے۔”ہم
سب کی جان میں جان آئی خوشی کی لہر گھر بھر میں دوڑ گئی۔ سب اپنا کھویا ہوا سامان
پا کر خوش ہو گئے۔ مندراج بابو اور بڑی ماں دونوں نے وہیں پر بیٹھے ہوئے بھگوان کے
سامنے اپنے ماتھے ٹیک دیئے اور بھگوان کا شکر ادا کرنے لگے۔ سب کے اندر سے خوف
نکلا تو ان کے چہروں پر رونق آ گئی اور جسم میں قوت آ گئی۔ شام کو جب میں نے سارا
کام ختم کر لیا تو مندراج بابو اور بڑی ماں کہنے لگے۔"اب تم گھر واپس چلے جاؤ
اور ٹھا کر صاحب سے ہمارا دھنے واد کہہ دینا، ہم پھر حاضر ہونگے۔"
ٹھا
کر صاحب اور ان کا سارا گھر اس بات پر بہت خوش ہوا۔ کندن کہنے لگی۔”باپو آپ تاؤ جی
کو سمجھانا کہ وہ کسی ہمزاد کو قابو کرنے کی کوشش اب آئندہ نہ کریں۔”باپو بولے۔”بیٹی،
اب تو انہیں خود عقل آ جانی چاہئے۔ ان کا سارا گھر اس کا خمیازہ بھگت چکا ہے۔”صندل
نے اپنے دل میں بھگوان کا شکریہ ادا کیا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ انسان کے پاس جو بھی
مصیبت آتی ہے وہ اس کے اپنے ہی کرموں کی وجہ سے آتی ہے۔ ورنہ بھگوان تو ہر دم اپنی
مخلوق کے فائدے کے ہی کام کرتا ہے۔
کندن
کی شادی کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔ کہیں کپڑے سل رہے تھے، کہیں زیور بن رہے تھے
اور دلہن کے ساتھ ساتھ گھر کی تمام عورتوں کے بھی جوڑے سلنے لگے۔ صبح سے پڑوس کی
چند عورتیں آ جاتیں کوئی تُرپائی کرتی، کوئی بٹن ٹانکتی، کسی کے ذمے چاول چننے کی
ڈیوٹی لگتی۔ ساتھ ساتھ ہنسنے ہنسانے کا شغل بھی جاری رہتا۔ کبھی کوئی منچلی پاس
رکھے ڈھول پر تھاپ لگا دیتی اور پھر شادی کے گانے شرو ع ہو جاتے۔
عورتیں
کندن کے ساتھ ساتھ صندل کو بھی اس کے ان دیکھے دولہا کے نام پر چھیڑتیں۔ کبھی تو
وہ کہہ اٹھتی۔”ماسی مجھے شادی نہیں کرنی۔”اور کبھی خیالوں میں منڈپ والا جوان آ
جاتا، اس کی آنکھوں پر پلکوں کی چلمن آ جاتی، گورے مکھڑے پر شفق کی لالی کھل جاتی،
ٹھوڑی کا سیاہ تل اور گہرا ہو جاتا۔ ایسے میں سانسوں کا زیرو بم اس کے دل میں چھپے
ہوئے جذبات کو ابھار دیتا وہ گھبرا کے کبھی کاجل اور کبھی مالا کے پہلو میں چھپنے
کی کوشش کرتی۔ دیکھو نا بھابھی، یہ لوگ کیسی کیسی باتیں کرتی ہیں اور وہ اس کے پشت
پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتیں۔”تو کیا ہوا تیرا راجکمار بھی تو تجھے لینے آئے
گا”۔”میرا راجکمار؟”وہ اندر ہی اندر ٹھنڈی سانس لے کر اپنے دل سے مخاطب ہوتی۔”میرا
راجمکار تو سات آسمانوں کے پار ہے۔”اس کا دل آسمانوں میں قدم رکھنے کے لئے بے قرار
ہو جاتا۔ ایسے میں عورتوں کے ہنسی ٹھٹھے اسے آسمان سے زمین پر اتار لیتے ، زندگی
اپنی ڈگر پر رواں دواں تھی۔
ایک
مہینہ انہی ہنگاموں میں گزر گیا۔ اس پورے مہینے میں صندل سلطان بابا کی قبر پر نہ
جا سکی تھی۔ دن میں بھی عورتوں کا آنا جانا لگا رہتا۔ بھلا وہ بھی کیا کرتی۔ ایک
دن وہ کندن سے بولی۔”دیدی چلو سلطان بابا کے مزار پر حاضری دے آئیں پھر تم اپنے
گھر چلی جاؤ گی، پتہ نہیں پھر ان کے پاس جا سکو یا نہ جا سکو۔”کندن بولی۔”مگر ماں
اب مجھے باہر نکلنے نہیں دے گی۔”صندل بولی۔ میں ماں سے آگیا لے کر آتی ہوں، تم
تیار ہو جاؤ۔”صندل ماں کے پاس پہنچی ہی تھی کہ تارا آ گئی وہ اکیلی ہی آئی تھی۔
صندل نے ماں سے مزار پر جانے کی اجازت لے لی۔ تارا کو ماں کے پاس چھوڑا اور دونوں
مزار پر چل دیں۔ صندل نے پھولوں کی پتیاں راستے سے خریدیں مزار پر پہنچ کر دونوں
نے قبر پر پتیاں پھیلا دیں اور خاموشی سے قبر کے پائنتی کی جانب دو زانو ادب سے
بیٹھ گئیں۔ صندل اور کندن نے سلام کیا۔ صندل بولی۔”سلطان بابا، آج میں کندن کو
یہاں لائی ہوں۔ آپ جانتے ہیں کہ کندن اب پرائے گھر جانے والی ہے۔ مجھے کندن بہت
اچھی لگتی ہے۔ وہ میری دیدی سے زیادہ میری سہیلی ہے۔ سلطان بابا اس کا خیال رکھنا۔
جیجا جی کے دل میں کندن کی بہت محبت پیدا ہو جائے۔ اس بات کی دعا کرنا۔”وہ دل ہی
دل میں سلطان بابا سے کندن کی ازدواجی زندگی کی کامیابی کی درخواست کرتی رہی۔
تھوڑی دیر بعد اس نے اپنی بند آنکھوں سے دیکھا کہ سلطان بابا ایک بہت دور مقام پر
ہیں۔ اس مقام پر وہ اپنے ہاتھوں سے زمین کی مٹی نکال رہے ہیں جو چمکیلی ہے۔ اور اس
مٹی کے اندر سے قیمتی جواہرات نکال کر ایک طرف رکھتے جاتے ہیں۔ انہوں نے دور دراز
مقام پر جیسے صندل کی آواز سن لی۔ پھر وہاں سے ہی مخاطب ہوئے۔”یہ کندن کے لئے ہے۔
اس کے بعد وہ وہاں سے غائب ہو گئے۔ صندل کی آنکھیں ابھی بند ہی تھیں کہ اس کے پاؤں
پر کچھ گرا۔ بے اختیاری میں اس نے آنکھیں کھول دیں۔ اسی وقت اس کے پاس ایک سفید
کبوتر اڑا۔ اب اس نے اپنے پاؤں کی جانب دیکھا۔ وہاں ایک کارڈ پڑا تھا۔ اس نے اس پر
نظر دوڑائی تو اس پر کندن کا نام لکھا تھا۔ اس نے کندن کو ہلایا۔ وہ اسی طرح
آنکھیں بند کر کے مراقبہ کی حالت میں تھی۔ ہلانے پر اس نے آنکھیں کھولیں۔ صندل نے
خوشی خوشی کارڈ اس کے سامنے کر دیا۔ لو کندن یہ تمہارے نام ہے۔ کندن نے جلدی سے لے
کر پڑھنا شروع کیا۔ یہ ایک مبارکباد کا کارڈ تھا۔ جس میں کندن کی شادی کی مبارکباد
دی گئی۔ نیچے سلطان بابا کا نام لکھا تھا۔ کندن نہایت ہی خوشی کے ساتھ بولی۔”صندل
یہ تو سلطان بابا کی طرف سے ہے۔”صندل مسکرائی۔”کندن سلطان بابا نے تمہیں شادی کی
بدھائی دی ہے۔ ان کی دعا سے تم سدا خوش رہو گی۔”کندن کا حسین چہرہ خوشی سے چمک کر
کندن ہو گیا۔ مگر پھر اچانک اسے خیال آیا۔ وہ تعجب سے بولی۔”مگر صندل ایسے کیسے ہو
سکتا ہے؟ سلطان بابا کو پرلوک سدھارے جانے کتنی صدیاں گزر چکی ہیں اور پھر اس جہان
سے اس جہان میں کوئی سپنے میں تو آ سکتا ہے مگر اس طرح کیسے کوئی چیز دے سکتا ہے؟”صندل
بولی۔"کندن دیدی، سب لوگ تو ایسا نہیں کر سکتے مگر پرماتما کے کچھ بھگت ایسے
بھی ہوتے ہیں جن کو آکاش سے شکتی ملتی ہے۔ وہ اس شکتی کے ساتھ مخلوق کی خدمت کرتے
ہیں۔"
سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی
روح کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ روح عورت یا
مرد ہوتی ہے۔ روح روح ہوتی ہے اور کیونکہ روح صرف روشنی ہوتی ہے اور روشنی کے لئے
حد بندیاں قائم نہیں کیں جا سکتیں۔ روشنی ہر جگہ ہے۔ روشنی کے لئے در و دیوار معنی
نہیں رکھتے۔ روشنی ٹائم اور اسپیس سے آزاد ہے۔ جب کوئی مرد یا عورت روح سے واقف ہو
جاتی ہے تو اس کے اوپر سے ٹائم اور اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ ہزاروں سال
پہلے کے واقعات اور ہزاروں سال بعد کے آنے والے واقعات کو دیکھ لیتا ہے۔ چونکہ ماضی،
حال، مستقبل اس کے سامنے آ جاتا ہے اس لیے وہ اس بات سے واقف ہو جاتا ہے کہ کائنات
میں اللہ کے علاوہ کسی کی حاکمیت نہیں ہے اور جب کوئی بندہ اللہ کی حاکمیت یقین کے
ساتھ قبول کر لیتا ہے تو اس کر اندر سے غم و پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں اور وہ
سکون کے گہوارے میں محو خرام ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سعیدہ خاتون عظیمی کی اس کاوش کو عوام
الناس کے لئے مقبول بنائے اور جو لوگ اس کتاب کا مطالعہ کریں ان کے ادراک و فہم
میں جلا بخشے۔
آمین
خواجہ شمس الدین عظیمی
مرکزی مراقبہ ہال
سرجانی ٹاؤن، کراچی