Topics
منزل
مراد کی فکر تخیل کا روپ دھار کر اس کے دل میں اتر آئی۔ فکر کے ایک سرے پر شہباز
اس کی نظروں میں سمایا رہتا۔ تنہائی میں اس کی آنکھیں چھلک جاتیں۔ ایک دن وہ سلطان
بابا کی قبر پر گئی۔دل بے اختیار ہو گیا۔ آنسو قبر کی مٹی کو بھگونے لگے۔ شدت غم
میں وقت کا احساس مٹ گیا۔ کسی نے بازوؤں سے پکڑ کر اس کے مٹی میں جھکے ہوئے چہرے
کو اٹھایا۔ بھیگی آنکھوں کے سامنے شہباز کا چہرہ آ گیا۔ وہ گھٹنوں کے بل جھکا اس
کے سامنے بیٹھا تھا۔ اس کے ہاتھ ابھی تک صندل کے شانوں پر تھے۔ آنسو پلکوں پر رک
گئے۔ اس کا ذہن ہر خیال سے خالی ہو گیا۔ بھیگی آنکھیں شہباز پر چہرے پر ٹک کررہ
گئیں۔ دوسری جانب بھی یہی حال تھا۔ وقت جیسے تھم کر رہ گیا۔ دید کے خالی خالی
پیمانے دیدار کے امرت سے لبریز ہو گئے۔ صندل گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی، شہباز بھی
سنبھل گیا۔ کہنے لگا۔”میرا آپ کا بندھن روح کی ڈور سے بندھا ہے۔ اسے دنیا کا کوئی
جھٹکا نہیں توڑ سکتا ہے۔ پھر یہ آنسو کیسے؟”صندل نے ایک نظر اس کی جانب دیکھا اور
خاموشی سے چل پڑی۔
اس
دن کے بعد اس کی حالت ہی بدل گئی۔ اس کے اندر ایک قرار آ گیا تھا۔ وہ جب بھی
آنکھیں بند کرتی۔ بند آنکھوں کے سامنے اس کی آتما جوگن کے روپ میں آ جاتی۔ جو ہاتھوں
میں عشق کی شمع لئے آڑھے ترچھے راستوں پر شمع کی لو کو ہواؤں کے جھونکوں سے بچاتی
ہوئی سنبھل سنبھل کر چلتی دکھائی دیتی۔ ایک سال اسی حالت میں گزر گیا۔ اس دوران
صرف ایک بار شہباز کو اس نے دور سے دیکھا تھا۔ کندن ایک بیٹی کی ماں بن چکی تھی
اور اب پھر دوبارہ صندل کی شادی کے تذکرے گھر میں چل پڑے۔
چودھرائن
نے مالا اور کاجل پر زور ڈالا کہ صندل کابرتلاش کریں۔ مالا اور کاجل نے گاؤں کا
کوئی رشتہ بتایا۔ چودھرائن نے مالا اور کاجل کو اپنے طور پر وہاں بھیجا۔ کہ ذرا
دیکھ آؤ اور باتوں باتوں میں پوچھ لینا کہ لڑکے کا رشتہ کہیں اور تو طے نہیں ہوا
ہے۔ شام کو مالا اور کاجل نے وہاں سے آ کر چودھرائن کے بتایا کہ لڑکا بہت اچھا ہے۔
اور بھی اس کی سگائی نہیں ہوئی ہے۔ چودھرائن بولی،”آج رات کو صندل کے باپو سے اس
کا تذکرہ کروں گی۔ بس اگلے ہفتے منگنی کر دیں گے۔”رات کو جب چودھرائن نے ٹھاکر
صاحب سے اس کا ذکر کیا تو ٹھاکر صاحب پریشان ہو کر بولے۔”تم نے صندل سے پوچھا؟”چودھرائن
بولی، “اے ہے۔ اب اس سے پوچھنے کا کیا وقت ہے۔ خیر سے سترہ سال کی ہو چکی ہے۔ رشتہ
اچھا ہے۔ اب سگائی ہونی ہی چاہئے۔”
ٹھاکر
صاحب کے ذہن میں ملنگ بابا کے الفاظ گونجنے لگے۔”جوگن کا فیصلہ ہو چکا ہے۔”وہ اندر
ہی اندر کسی انجانے خوف سے لرز گئے۔ پھر ذرا اونچی آواز میں بولے۔”نہیں نہیں، صندل
کا بیاہ اس سے پوچھے بغیر نہ کرنا۔”چودھرائن ذرا خفا ہو کر بولی،”تو پھر بلاؤ اسے۔
پوچھ لو۔ اسے کیا انکار ہو سکتا ہے۔”۔”تو پھر بلاؤ اسے۔ پوچھ لو۔ اسے کیا انکار ہو
سکتا ہے۔”ٹھاکرصاحب نے خادم کو آواز دی کہ صندل کو کمرے میں بھجوا دے۔ صندل آئی
اور اپنے باپو کے پہلو سے لگ کر بیٹھ گئی بولی،”باپو کوئی کام ہے۔”باپو نے بیٹی کے
سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔”بیٹی تیری ماں کو تیرے بیاہ کی فکر ہے۔”یہ سنتے ہی
صندل کا رنگ اڑ گیا۔ اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں ہو گئے۔ وہ فوراً بولی،”ماں
میں نے تم سے کہا تھا کہ میں بیاہ نہیں کروں گی۔”چودھرائن تیز ہو کر بولی۔”آخربیاہ
کیوں نہیں کرے گی؟کیا وجہ ہے؟”صندل بولی،”ماں میں بھگوان کے چرنوں میں اپنی ساری
عمر بتانا چاہتی ہوں۔”ماں نے طنزیہ لہجے میں کہا،”لو اور سنو پجارن بننا چاہتی ہے۔”پھر
وہ ٹھاکرصاحب پر برس پڑیں۔”تم نے اسے لاڈ میں نڈر بنا دیا ہے۔ بھلا ایسے بھی زندگی
گزرتی ہے؟”ٹھاکر صاحب نے صندل کو اپنے سینے سے لگا لیا اور بولے۔”بیٹی، ابھی تم
بہت کمسن ہو۔ جوانی اور خوبصورتی کبھی کبھی راستے کا کانٹا بن جاتی ہے۔”صندل بولی،”باپو
مجھے بیاہ نہیں کرنا۔”
اب
چودھرائن واقعی پریشان ہو گئی۔ فکر مند لہجے میں بولی،”بیٹی اس کی کوئی وجہ بھی تو
بتاؤ۔”صندل بولی،”میں اپنی آتما کو پہچاننا چاہتی ہوں۔”ماں بولی،”بیٹی یہ تو شادی
کے بعد بھی ہو سکتا ہے۔”صندل بولی، “ماں سلطان بابا مجھے سکھا رہے ہیں۔”چودھرائن
سخت پریشان ہو کر کہنے لگی۔”بیٹی میں پہلے بھی تیرے قبر پر جانے سے ذرا فکر مند
تھی۔ سلطان بابا بہت بڑے بزرگ ہیں۔ مگر ان کی دنیا اور تیری دنیا میں زمین آسمان
کا فرق ہے۔”صندل بولی،”ماں مجھے مجبور نہ کرو۔”ٹھاکر صاحب نے بیگم کو اشارہ کیا،
وہ خاموش ہو گئی۔ ٹھاکرصاحب نے صندل سے کہا،”جاؤ بیٹی! اپنے کمرے میں جاؤ۔”
کچھ
دن خاموشی میں گزر گئے مگر ہر آنے جانے والا صندل کو دیکھ کر اس کے بیاہ کا ذکر
ضرور کرتا۔ صندل معاشرے میں اپنے ماں باپ کی حیثیت جانتی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہ
آتا تھا کہ وہ کیا کرے۔ پھر اس نے فیصلہ کیا کہ سلطان بابا اس کے بارے میں جو حکم
بھی دیں گے وہ اس پر کار بند ہو جائے گی۔ اس رات عبادت والے کمرے میں اس نے دھیان
سلطان بابا پر لگایا۔ اور ان سے اپنی آئندہ زندگی کے متعلق دریافت کیا۔ سلطان بابا
فرمانے لگے،”صندل تیرا راستہ اور لوگوں سے ہٹ کر ہے۔”
صندل
بولی،”سلطان بابا، مجھے اس راستے پر لگا دیجئے۔”سلطان بابا نے محبت سے اس کے سر پر
ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔”بھگوان تجھے شکتی دے۔ کل ہماری قبر پر حاضری دینا۔”
دوسرے
دن سہ پہر کو صندل سہیلی کا بہانہ بنا کر سلطان بابا کی قبر پر چل دی۔ اسے معلوم
تھا کہ اگر اس نے اجازت لی تو ہرگز بھی نہیں ملے گی۔ کیونکہ ماں نے پہلے ہی پریشان
ہو کر سختی سے اسے قبر پر جانے سے منع کیا تھا۔ قبر پر جا کر وہ چپ چاپ دو زانوں
ہو کر بیٹھ گئی اور سلطان بابا کے تصور میں مراقب ہو گئی۔ اس نے دیکھا کہ سلطان
بابا آسمانوں پر ایک روشنی کے عالم میں موجود ہیں۔ صندل ان کے پاس جاتی ہے اور ان
سے اپنا مدعا بیان کرتی ہے۔ سلطان بابا اسے ایک لباس دیتے ہیں اور کہتے ہیں۔”اس کو
پہن لے۔”صندل وہ لباس پہنتی ہے۔ سلطان بابا اس کا ہاتھ تھام کر ایک راستے پر چلنے
لگتے ہیں۔ چند قدم ساتھ چل کر سلطان بابا غائب ہو جاتے ہیں۔ اب صندل اپنے آپ کو
جوگن کے روپ میں گھنے جنگلوں سے گزرتا ہوا دیکھتی ہے۔ سارا وقت وہ یہی دیکھتی رہی
کہ وہ گھنے درختوں میں راستہ بناتی ہوئی گزرتی چلی جا رہی ہے۔ اس کی نظریں کسی کو
ڈھونڈ رہی ہیں۔ وہ بہت دیر تک اپنی روح کو رب کی تلاش میں سرگرداں دیکھتی رہی۔ اس
کے پاؤں کے چھالے اس کے دل کی لگن کے ضامن تھے۔
اسے
جنگلوں میں پھرتے ہوئے ایک مدت گزر گئی۔ کہیں زہریلے ناگ اس کا راستہ روک لیتے اور
کہیں جنگلی درندوں کی خوفناک آوازیں اس کا دل ہلا دیتیں وہ سب سے بچتی بچاتی جنگل
کی پرپیچ راہوں پر چلتی رہی۔ محبوب سے ملنے کی لگن اس کے پاؤں کی شکتی بن گئی۔ بڑی
دیر بعد اس کے اوپر سے بے خودی کا غلبہ ٹوٹا اس نے آنکھیں کھولیں۔ ارد گرد نظر
ڈالتے ہی اسے یاد آیا کہ وہ تو مراقبہ میں تھی۔ یہ یاد آتے ہی اسے گھر کی فکر ہو
گئی اور وہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔ اگلے چند روز میں اسے اندازہ ہوا کہ ماں اور
دونوں بھاوجیں اس لڑکے کے گھر رشتے کی بات بھی کر آئی ہیں اور اب پنڈت سے مہورت
نکلوانے کی دیر ہے۔ اس نے پھر ماں اور دونوں بھاوجوں کو سمجھایا مگر بھاوجیں ہنس
کر کہنے لگیں۔”پگلی ابھی تو نادان ہے۔ شادی ہو جائے گی تو خود ہی عقل آ جائے گی۔
شادی تو دھرم ہے۔ یہ تو زندگی کو سورگ بنا دیتی ہے۔”صندل جان گئی کہ اب ان لوگوں
کو سمجھانا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ رات کو جب سب سو گئے تو صندل اپنے عبادت کے
کمرے میں آگئی۔ آتے ہی اس نے اپنا سر ان دیکھے خدا کے قدموں میں جھکا دیا۔ آج اس
کا دل بری طرح سے تڑپ رہا تھا۔ سجدے میں اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ اس کا دل تڑپ تڑپ
کر صدائیں دے رہا تھا۔”پربھو! مجھے اپنے چرنوں میں رکھ لو۔ میں کسی اور کی بننا
نہیں چاہتی۔”
دوسرے
دن شام کو پنڈت شادی کی مہورت نکالنے کو آیا۔ سارا گھر اس کے آس پاس بیٹھ گیا۔ صرف
ٹھاکر صاحب اپنے کمرے میں گم سم بیٹھے رہے۔ ایک طرف تو وہ صندل کی غیر معمولی
روحانی صلاحیتوں کے معترف تھے۔ اس کے ساتھ ہی صندل کی پیدائش پر ملنگ بابا اور
بڑھیا کے کہے ہوئے الفاظ بھی ابھی تک ان کے دل پر نقش تھے۔ انہوں نے چودھرائن کو سمجھانے
کی بڑی کوشش کی کہ صندل کو شادی کے معاملے میں آزاد چھوڑ دیا جائے۔ جب بھگوان چاہے
گا سگائی بھی ہو جائے گی۔ مگر چودھرائن کسی طرح یہ بات ماننے کو تیار نہ تھیں۔ ان
کا کہنا تھا کہ برادری اور محلہ پڑوس میں آتے جاتے لوگ صندل کی شادی کا تذکرہ کرتے
ہیں۔ جوان لڑکی کو ہم کب تک گھر میں بٹھا کر رکھیں گے۔ اچھے رشتے کو گھر سے
موڑدینا عقلمندی نہیں ہوتی۔ جب تک اپنے گھر کی نہیں ہوتی وہ پریوار پر بوجھ ہوتی
ہے۔ بھگوان اس پر مہربان ہے۔ وہ شادی کے بعد بھی اس پر کرپا کریں گے۔
ٹھاکر
صاحب کا دماغ سوچتے سوچتے ماؤف ہو چکا تھا۔ صندل انہیں دل و جان سے پیاری تھی۔ نہ
چاہتے ہوئے بھی ان کا دل بے شمار اندیشوں کی آماجگاہ بن گیا۔ ایک نوجوان اور
خوبصورت لڑکی جوگن بن کر اکیلی کیسے رہے گی۔ فکروں میں گھرا ہوا دل اپنی بیٹی کے
لئے دعائیں کرنے لگا۔ اتنے میں خادم آیا کہ چودھرائن آپ کو بلا رہی ہیں۔ ٹھاکرصاحب
بوجھل قدموں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ پنڈت صاحب قشقہ لگائے آنکھیں موندے آسن جمائے بیٹھے
تھے۔ ان کے سامنے صندل سنگ مر مر کی مورتی کی طرح بیٹھی تھی۔ اسے دیکھتے ہی
ٹھاکرصاحب کے دل سے دعا نکلی اے بھگوان میری صندل پر کرپا کرنا۔ پنڈت مہورت کے
حساب کتاب کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد وہ بولا،”ٹھاکر تیرے گھر تو جوگن پیدا ہوئی ہے۔
اس کی کنڈلی اس لڑکے سے نہیں ملتی۔ اس کو بھگوان نے اپنے کام کے لئے چن لیا ہے۔ اس
کی شادی کا خیال دل سے نکال دے۔”
چودھرائن
فوراً بولی۔”پنڈت جی! ذرا غور سے دیکھو۔ اس وقت نہ سہی کچھ دنوں بعد مہورت نکلوا
لیں گے۔”
پنڈت
بولا۔”ماتا جی! ہاتھ کی ریکھائیں تو یہی کہتی ہیں۔ تم اپنی تسلی چاہو تو کر لینا۔”صندل
نے ایک گہرا سانس لیا اور چپ چاپ اٹھ کھڑی ہوئی۔
چودھرائن
نے پنڈت کو اس کا معاوضہ دیا اور چپ چاپ اپنے کمرے میں جا بیٹھی۔ اس کے چہرے پر
فکر مندی کے آثار نمایاں تھے۔ ٹھاکر صاحب کے چہرے پر اطمینان چھلکنے لگا۔ تا ہم وہ
ابھی بھی خیالات میں گھرے ہوئے تھے۔ سارے گھر پر سناٹا چھا گیا۔ چند دن اسی طرح
گزر گئے۔ گھر میں ہر وقت صندل کی شادی موضوع سخن بنی ہوئی تھی۔ چودھرائن اور دونوں
بھاوجیں دن بھر اسی موضوع پر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتی رہتیں۔ مالا کی تجویز
تھی کہ کسی اور پنڈت سے بھی مہورت نکلوانی چاہئے۔ اس صورتحال نے صندل کو جیسے جکڑ
لیا۔ اس کا جی چاہا وہ اس دنیا سے دور کسی جنگل میں چلی جائے جہاں وہ سکون کے ساتھ
اپنے رب کو یاد کرتی رہے۔ اسی تذبذب میں وہ سلطان بابا کی قبر پر پہنچی۔ اب تو
سلطان بابا کی قبر پر حاضری دینااس کے لئے ایک مسئلہ بن گیا تھا۔ اسے کوئی نہ کوئی
جھوٹا بہانہ بنا کر یہاں آنا پڑتا۔ اس دن بھی اس نے اپنی سہیلی کا بہانہ کیا کہ وہ
اس سے ملنے جا رہی ہے۔
سلطان
بابا کی قبر پر پہنچ کر اس نے اپنا سر قبر پر ٹکا دیا اور آنکھیں ساون بھادوں
برسانے لگیں۔ کچھ دیر بعد دل ذرا ہلکا ہوا تو اس نے دیکھا۔ سلطان بابا نے اس کا
ہاتھ کھینچ کر اسے قبر کے اندر اتار دیا اور دل میں اتر جانے والی آواز میں فرمانے
لگے۔
“صندل!
رب نے تجھے اپنے کام کے لئے چن لیا ہے۔ اب تیری تپسیا کی کٹھن گھڑیاں شروع ہونے
والی ہیں۔ گھبرانا مت۔ تو میرے دل کا نور ہے۔ ہر قدم پر تجھے میری راہنمائی حاصل
رہے گی۔”سلطان بابا نے پھر اس کے سر پر ہاتھ رکھا تو اسے محسوس ہوا کہ اس کے سارے
بدن میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے۔ وہ نہایت پیار سے بولے۔
“بیٹی
! اپنے رب سے ملنے کے لئے نفس کے جنگل سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ تو جوگن ہے۔ جس کی
منزل اس کے رب کے سوا اور کوئی نہیں۔ جا اور اپنے نئے سفر کا آغاز کر۔ بیٹی تیرے
نئے سفر کا آغاز ہو رہا ہے۔”
اتنے
میں اس کے قریب سے آواز آئی۔”صندل جی! آپ کا نیا سفر شروع ہونے والا ہے۔ رب آپ کو
اپنی حفاظت میں رکھے۔”صندل نے چونک کر مڑ کے دیکھا تو شہباز بالکل اس کے پاس کھڑ ا
تھا۔ اس کے ہاتھوں میں کپڑے تھے۔ اس نے صندل کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔”صندل جی ،
یہ لباس سلطان بابا کی جانب سے ہے۔”صندل نے وہ لباس لے کر دیکھا۔ یہ ایک جوگن کا
لباس تھا۔ اس نے اسے عقیدت سے اپنی آنکھوں سے لگایا اور ایک نئے عزم کے ساتھ اٹھ
کر کھڑی ہوئی۔ شہباز کی آنکھوں سے اضطراب جھلک رہا تھا۔ صندل نے ایک نظر اس پر
ڈالی اور خدا حافظ کہہ کر گھر کی جانب روانہ ہو گئی۔ وہ لباس اس نے اپنی اوڑھنی
میں چھپا لیا۔
شام
کو جب سب لوگ کھانے پر جمع ہوئے تو پھر ایک بار وہی شادی کا تذکرہ چل نکلا۔ کاجل
بولی۔”ماں میں نے ایک اور پنڈت سے بات کر لی ہے۔ وہ جنم پتری اور کنڈلیاں بنانے
میں ماہر ہے۔ کل شام کو وہ شادی کا مہورت نکالنے کے لئے آئے گا۔ چودھرائن خوش ہو
کر بولی،”بیٹی ، بھگوان تجھے سدا سکھی رکھے۔ تو نے میرے من کی بات جان لی۔"
ٹھاکر صاحب فوراً بول پڑے۔"ہوتا وہی ہے جو بھگوان کو منظور ہوتا ہے۔"
سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی
روح کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ روح عورت یا
مرد ہوتی ہے۔ روح روح ہوتی ہے اور کیونکہ روح صرف روشنی ہوتی ہے اور روشنی کے لئے
حد بندیاں قائم نہیں کیں جا سکتیں۔ روشنی ہر جگہ ہے۔ روشنی کے لئے در و دیوار معنی
نہیں رکھتے۔ روشنی ٹائم اور اسپیس سے آزاد ہے۔ جب کوئی مرد یا عورت روح سے واقف ہو
جاتی ہے تو اس کے اوپر سے ٹائم اور اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ ہزاروں سال
پہلے کے واقعات اور ہزاروں سال بعد کے آنے والے واقعات کو دیکھ لیتا ہے۔ چونکہ ماضی،
حال، مستقبل اس کے سامنے آ جاتا ہے اس لیے وہ اس بات سے واقف ہو جاتا ہے کہ کائنات
میں اللہ کے علاوہ کسی کی حاکمیت نہیں ہے اور جب کوئی بندہ اللہ کی حاکمیت یقین کے
ساتھ قبول کر لیتا ہے تو اس کر اندر سے غم و پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں اور وہ
سکون کے گہوارے میں محو خرام ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سعیدہ خاتون عظیمی کی اس کاوش کو عوام
الناس کے لئے مقبول بنائے اور جو لوگ اس کتاب کا مطالعہ کریں ان کے ادراک و فہم
میں جلا بخشے۔
آمین
خواجہ شمس الدین عظیمی
مرکزی مراقبہ ہال
سرجانی ٹاؤن، کراچی