Topics
جلد
ہی عاجل کو اسی کالج میں ٹیچر کی جاب مل گئی۔ اور وہ پھر دوبارہ وہیں چلا گیا۔ ہر
پندرہ دن میں آ کر اپنے گھر والوں سے مل جاتا۔ دو سال یونہی گزر گئے۔ ان دو سالوں
میں عاجل کے ساتھ کوئی سانحہ پیش نہ آیا۔ وہ جب بھی گاؤں آتا۔ سلطان بابا جی کی
قبر پر سلام کرنے ضرور جاتا۔ صندل پر تو بابا جی بڑے ہی مہربان تھے۔ وہ ہر روز
خادم کے ساتھ پرانی قبر پر جاتی اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ وہاں چپ چاپ بیٹھ کر مراقبہ
کرتی۔ سلطان بابا جی اسے اپنے ساتھ قبر کے اندر لے جاتے۔ وہاں جنات اور اعراف کی
روحوں سے اس کی ملاقات کراتے۔ وہاں اس بڑھیا سے بھی اس کی ملاقات ہوئی جس کا اس
حویلی میں انتقال ہوا تھا۔ رات کو وہ روزانہ صندل دیوی والے کمرے میں عبادت و
مراقبہ کرتی، دن بدن اس کی روحانی قوتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
تارا
کی شادی ابھی تک نہیں ہوئی تھی۔ وہ کندن سے دو سال بڑی تھی۔ کندن اب سولہ سال کی
ہو چکی تھی۔ اور ٹھاکر صاحب جلد از جلد اس کی شادی کر دینا چاہتے تھے۔ ویسے بھی گاؤں
کی کھلی فضا میں لڑکیاں بہت جلدی جوان ہو جاتی ہیں۔ اپنی عمر سے بڑی لگنے لگتی
ہیں۔ پھر وہ عاجل کی بھی شادی اب کر دینا چاہتے تھے۔ تا کہ اپنا گھر بسائے۔ انہیں
ابھی تک بھائی کی طرف سے فکر لگی ہوئی تھی کہ آخر تارا کو انہوں نے اب تک کیوں
بٹھا رکھا ہے۔ ان دنوں گاؤں میں کئی ایک قصے سننے میں آ رہے تھے۔ کہ نوجوان لڑکیوں
کو جنات اپنا معمول بنا لیتے ہیں۔ اور ان کو پریشان کرتے ہیں۔ ان کے ایک دوست کی
بیٹی کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ اپنی عزت کی خاطر ماں باپ نے کسی سے ذکر
نہیں کیا۔ جب تین چار مرتبہ بیٹی پر جن چڑھ آیا تو وہ یہ کہتی ہے کہ جن مجھے لے کر
اپنی دنیا میں سیر کراتا ہے اور پہلے دن وہ مجھے اپنے گھر لے گیا وہاں اور بھی
جنات تھے جو اس کے ماں باپ اور رشتہ دار تھے۔ اس نے وہاں پر مجھ سے شادی کی اور اب
تقریباً روز رات کو مجھ سے ملنے آتا ہے۔ کنواری بیٹی کا کسی دوسری مخلوق کے ساتھ
شادی ہونا ماں باپ کے لئے سخت پریشانی کا باعث تھا۔ خود لڑکی سخت خوفزدہ تھی کہ وہ
بے بس ہے۔ ٹھاکر صاحب نے اسے بھگوت گیتا سے کچھ پڑھ کر دم کرنے کو بتایا۔ دوست نے
سختی سے منع کیا تھا کہ کسی کو نہ بتانا۔ ورنہ اس سے کوئی شادی نہیں کرے گا۔ اسی
طرح چند دنوں کے اندر اندر ٹھاکر صاحب نے کئی واقعات ایسے ہی سنے اور سنجیدگی سے
سوچنے لگے کہ کس طرح ان کی مدد کرنی چاہئے۔ انہیں یہ تومعلوم تھا کہ کبھی کبھی
جنات بھی نوجوان لڑکیوں کو پسند کرتے ہیں اس میں شک نہیں ہے۔ لیکن وہ ان کے اُتار
سے واقف نہ تھے۔ رات کو ان سے سویا نہ گیا انہوں نے بہت عاجزی سے بھگوان سے دعا
مانگی کے گاؤں کی ہر بیٹی میری ہی بیٹی ہے ہر باپ کی عزت میری عزت ہے۔ لڑکیوں کو
جنات کے شر سے محفوظ رکھ۔
رات
آدھی جا چکی تھی۔ بیوی سو رہی تھی۔ وہ سجدے میں سر رکھے اپنے رب سے گاؤں کی بیٹیوں
کی حفاظت کی دعا مانگ رہے تھے۔ جب دل ہلکا ہوا تو اٹھے اور غیر ارادی طور پر صندل
کے کمرے کی طرف جا نکلے۔ دروازہ کھلا تھا۔ پلنگ پر صندل سو رہی تھی۔ اس کی گہری
گہری سانسوں کی آوازوں سے پتہ چلتا تھا کہ وہ گہری نیند میں ہے۔ ٹھاکر صاحب کے ذہن
میں خیال آیا کہ بیٹی کے اوپر چادر ڈال دیں۔ ابھی وہ دروازے سے باہر ہی تھے کہ کیا
دیکھتے ہیں۔ صندل کے اندر سے ایک اور صندل نکلی۔ یہ صندل کا بہت ہی لطیف روشنیوں
کا جسم تھا۔ نکلتے ہی یہ صندل سامنے دیوار کی طرف بڑھی اور پھر دیوار میں سے گزر
کر غائب ہو گئی۔
ٹھاکر
صاحب ٹھٹک کر رہ گئے۔ ان کے قدم وہیں پر جم گئے۔ ان کے دماغ میں دادا کی آواز
گونجنے لگی۔ جب ہم سوتے ہیں۔ تو ہماری آتما بیدار ہو جاتی ہے۔ اور وہ اپنا کام
کرتی ہے، جس طرح ہم اپنے جسم کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ انہوں نے بیٹی کو جگانا مناسب
نہ سمجھا۔ دبے پاؤں اپنے کمرے کی طرف آئے اور آہستہ سے بستر پر دراز ہو گئے۔ نیند
ان سے کوسوں دور جا چکی تھی۔ ان کا ذہن مسلسل صندل کی طرف تھا۔ دل ہی دل میں دعا
کئے جا تے تھے کہ بھگوان میری صندل کو ہر قسم کے حادثوں سے محفوظ رکھنا۔ کوئی ڈیڑھ
دو گھنٹے کروٹیں بدلنے کے بعد وہ اٹھ بیٹھے کہ صندل کیا کر رہی ہے۔ دیکھا تو وہ
اسی طرح سو رہی تھی۔ چند منٹ چپ چاپ کھڑے اسے تکتے رہے کہ اتنے میں اسی دیوار سے
صندل کا پرت اندر داخل ہوا۔ وہ صندل کے اندر سما گیا۔ ٹھاکر صاحب پھر یہ سب کچھ
دیکھ کر واپس لوٹ آئے۔ اور پھر بستر پر لیٹتے ہی انہیں نیند آ گئی۔ صبح فجر کے وقت
بیوی نے جگایا تو اٹھ بیٹھے۔ اٹھتے ہی صندل کی طرف توجہ گئی۔ اور رات کا سارا
واقعہ انہیں یاد آ گیا۔ انہوں نے بیوی سے پوچھا۔”صندل کیا کر رہی ہے؟”بولیں۔”ابھی
تو وہ سو رہی ہو گی۔ میں تو ابھی جاگی ہوں۔ کیا بات ہے؟”کہنے لگے۔”کچھ نہیں”اور
منہ ہاتھ دھو کر بھگوان کے نام کی پرارتھنا کرنے لگے۔ بیوی بھی صبح کی عبادت میں
لگ گئی۔ اس کام سے فارغ ہوئے تو صندل آ گئی۔ آتے ہی باپ کے پہلو میں بیٹھ کر کہنے
لگی۔”باپو رات بڑا عجیب واقعہ پیش آیا۔ باپو وہ خواب تو ہے مگر خواب نہیں بھی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ ضرور ایسا ہوا ہے”۔ باپ نے اسے پیار سے تھپتھپاتے ہوئے پوچھا۔”کیا
ہوا ہے بیٹی؟ بتاؤ تو ذرا شاید ہم کچھ بتا سکیں۔”صندل بولی۔”باپو، میں نے دیکھا کہ
میں پلنگ پر گہری نیند سو رہی ہوں۔ اتنے میں سلطان بابا آتے ہیں، کہتے ہیں صندل
ایک جن نے بہت سی لڑکیوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ وہ لڑکیوں سے زبردستی شادی کر کے
انہیں اپنی ہوس کا شکار بنا کر ان کے انسانی جذبات کو مجروح کر رہا ہے۔ شریف اور
سیدھے سادھے ماں باپ اپنی عزت کی وجہ سے سخت پریشان ہیں کہ اگر لڑکی کی یہ بات کھل
گئی تو اس سے شادی کون کرے گا۔ سلطان بابا کہنے لگے، صندل جاؤ ہم نے تمہیں جنات سے
لڑنے کی قوت بخشی ہے۔ تم اپنی روحانی قوت سے اس جن سے لڑکیوں کو چھڑا دو۔ تو پھر
باپو، پھر کیا ہوا میرے اندر سے ایک اور صندل نکلی جو ہلکی پھلکی تھی اور روشنیوں
کی بنی ہوئی تھی۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ یہ میں ہوں۔ میں دیوار کے آر پار گزر کر
آناً فاناً باہر آ گئی۔ باپو مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ میں کہاں جا رہی ہوں۔ میں
سیدھی رحمان چچا کے یہاں پہنچی۔ وہاں پر ان کی لڑکی کی چیخنے کی آوازیں آ رہی
تھیں، میں سیدھی اس کے کمرے میں گئی۔ تو دیکھا کہ ایک جن اسے پریشان کر رہا ہے۔ وہ
سخت خوفزدہ تھی۔ میرے ہاتھ میں ایک بڑی پستول تھی۔ میں نے اسے للکارا۔ مجھے دیکھ
کر وہ چونک اٹھا میں نے اسے پستول دکھائی تو وہ بدتمیزی پر اتر آیا۔ کہنے لگا تم
مجھے نہیں مار سکتیں۔ میں اس لڑکی کو نہیں چھوڑوں گا۔ میں نے کہا تم جنوں کو چھوڑ
کر انسانوں کے پاس کیوں آئے ہو؟ کہنے لگا۔ میں انسان سے جدا ہوا ہی کب تھا۔ باپو
اتنا سننا تھا کہ ایک دم مجھے جلال آ گیا۔ میں نے اس پر یہ کہہ کر بندوق داغ دی کہ
تم تو پورے شیطان ہو۔ پستول کے اندر سے آگ کا ایک تیز گولا نکلا اور وہ اسی وقت جل
کر موم کی طرح پگھل گیا اور آناً فاناً وہاں سے غائب ہو گیا۔ رحمان چاچا کی بیٹی
پلنگ سے اٹھ کر میرے پاس آئی اور روتے ہوئے کہنے لگی۔ صندل بہن میں آپ کا یہ احسان
کبھی نہیں بھولوں گی۔ اس کے ماں باپ سخت پریشان حالت میں کھڑے دیکھ رہے تھے لیکن
جب اس نے صندل بہن کہا تو وہ دونوں چونک گئے۔ رحمان چچا بولے، بیٹی صندل بہن کون؟
وہ روتے ہوئے بولی۔ باپو، یہ صندل بہن نے ہی تو اس مردود کو پستول سے جلایا ہے۔
پھر باپو میں نے اسے سلام کیا اور باہر نکل آئی، باہر آتے ہی خودبخود میرے قدم
موہن دادا کے گھر کی طرف اٹھ گئے۔ باپو وہاں رادھیکا بری طرح زمین پر لوٹ رہی تھی۔
اس کے سارے کپڑے تار تار تھے۔ میں نے دیکھا کہ اسی ٹولے کا ایک جن یہاں بھی اپنی
خباثت میں مشغول ہے۔ گھر کے لوگ بے بس ہیں۔ وہ کسی کو لڑکے کے قریب جانے نہیں دیتا۔
وہ اپنے اوپر چھائے ہوئے جن کو کسی طرح ہٹا نہیں پا رہی تھی۔ میں نے جیسے ہی اسے
دیکھا۔ میرے اندر ایک دم سے جلالی قوت محسوس ہوئی اور میں اس پراوم شکتی اوم کہہ
کر ایک دم سے حملہ کر بیٹھی پھر میں نے اسے کوئی موقع نہ دیا۔ اسے اٹھا اٹھا کر
فرش پر پٹختی رہی۔ رادھیکا مجھے دیکھ رہی تھی وہ بار بار کہتی صندل دیوی اسے اور
مارو۔ اور مارو۔ یہاں تک کہ وہ جن ادھ موا ہو گیا اور توبہ کرتا ہوا بھاگ نکلا۔
رادھیکا میرے قدموں میں گر گئی، بولی۔صندل دیوی پر ماتما تمہاری شکتی کو اور
بڑھائے۔باپو جانتے ہو اس وقت اس نے مجھے صندل دیوی کہا تو میں نے اپنے آپ کو آئینے
کے عکس کی طرح پورے کا پورا دیکھا۔ میرے ماتھے پر تلک تھا اور میں دیوی کی طرح کے
لباس میں تھی اور میرے سر پر دیوی کی طرح تاج بھی تھا۔ رادھیکا سے صندل دیوی کا
نام سن کر اور یہ جان کر کہ جن کو میں نے بھگایا ہے، موہن دادا بولے۔ جے کرشنا، آج
تو صندل دیوی ہمارے گھر آئی ہے۔ باپو میں نے اسے تسلی دی اور باہر نکل آئی۔
باہر
سڑک پر آتے ہی پھر میرے قدم خود بخود بڑے باپو کے گھر کی طرف اٹھ گئے۔ جیسے ہی میں
نے ان کے گھر قدم رکھا کیا دیکھتی ہوں کہ تارا کے بال کھلے ہوئے ہیں۔ اس کے بازوؤں
پر ناخنوں سے نوچی ہوئی لمبی لمبی لکیریں ہیں جن سے خون رس رہا ہے اور اس کے گال
پر بھی ناخن سے نوچنے کے نشان ہیں۔ ایک جن اسے بری طرح اپنے شکنجے میں لینے کی
کوشش کر رہا ہے۔ ایک طرف سے ہمزاد تارا کو پکڑے ہوئے ہے اور ساتھ ساتھ جن کو بھی
مار رہا ہے۔ دوسری جانب سے جن گرفت بھی تارا پر سخت ہے۔ اس کے جسم پر نشان پڑتے جا
رہے ہیں اور وہ بری طرح چیخ رہی ہے۔ جیسے ہی میں گئی تارا کی یہ حالت دیکھ کر میرے
اندر کا جلال حرکت میں آ گیا۔ میں نے ایک دم سے یا سلطان بابا کہہ کر اس جن پر
چھلانگ لگا دی۔ باپو ہمزاد مجھے دیکھ کر فوراً الگ ہو گیا۔ میں نے جن کو بالوں سے
پکڑ ا اور پوری طاقت سے اسے فضا میں گول گھما کر زمین پر پٹخ دیا۔ تارا حیرت سے
مجھے دیکھنے لگی وہ بالکل ہکا بکا تھی۔ زمین پر گرتے ہی وہ شیطان جن پھر اٹھ کر
کھڑا ہو گیا۔ اب کے میں نے اپنے ہاتھوں کے ناخن اس کے چہرے پر گاڑ دیئے۔ باپو میرے
ناخن شیر کی طرح نوکیلے اور لمبے تھے۔ اس کا سارا چہرہ لہولہان ہو گیا۔ اور اس کی
دونوں آنکھوں سے خون بہنے لگا۔ وہ بری طرح چلایا۔ میری آنکھیں پھوڑ دیں۔ میری
آنکھیں پھوڑ دیں۔ پھر میں نے اسے خوب للکارا اور اس سے معافی منگوائیں۔ اور دوبارہ
نہ آنے کا وعدہ لے کر اسے بھاگ جانے کو کہا۔ تار ابہتر ہوئی تو وہ میرے پاؤں پر گر
پڑی۔ بولی۔ صندل بہن، تم نہ آتیں تو میں زندہ نہ بچتی۔ باپو میرا نام سنتے ہی بڑی
ماں ایک دم چونک اٹھیں۔ فوراً بولیں ، میں نہ کہتی تھی کہ یہ سب انہیں کا کیا دھرا
ہے۔ تارا بولی۔ صندل نے ہی میری جان بچائی ہے، وہ کمبخت ہمزاد بھی کچھ نہ کر سکا۔
وہ بلک بلک کر رونے لگی۔ اس منحوس نے میرا سارا بدن چھیل ڈالا۔ اب تایا تائی تارا
کے پاس آ کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ تارا سب کچھ بتا رہی تھی کہ کس طرح میں
نے جن کی آنکھیں پھوڑ ڈالیں۔ وہ برابر یہی کہے جا رہی تھی، ماں صندل فرشتہ ہے، یہ
نہ ہوتی تو میں نہ بچتی۔ میں نے چپ چاپ اشارے سے تارا کو سلام کیا اور چلی آئی۔”
ٹھاکر
صاحب اور ان کی بیگم حیرت سے یہ عجیب و غریب قصہ سن رہے تھے۔ ٹھاکر صاحب بولے۔”بیٹی،
اگر میں نے تمہارے اندر سے ایک اور صندل کو نکلتے نہ دیکھا ہوتا تو میں یہ سب کچھ
ایک طویل خواب سے زیادہ نہ سمجھتا۔ بیٹی روحانی قوت تمہارے جسم کا روپ دھار کر
لوگوں کی مدد کر رہی ہے۔ بھگوان تمہیں سلامت رکھے۔”پھر ایک دو منٹ تک کچھ سوچتے
رہے۔ اور پھر کہنے لگے۔”صندل، آج شام تمہارے تایا کے یہاں جا کر تارا سے مل آئیں
گے۔ تم اور میں چلیں گے۔ تم کہہ دینا تارا کی خیریت معلوم کرنے آئی ہوں۔”صندل کہنے
لگی۔”ٹھیک ہے باپو، اسے دیکھ آئیں گے۔ اس طرح آپ کو بھی میری باتوں کی صداقت پر
یقین آ جائے گا۔ “ ٹھاکر صاحب نے شفقت سے بیٹی کو گلے لگایا، اس کا ماتھا چوما اور
بولے۔”ایسی بات نہیں ہے بیٹی۔ تم تو میری جان ہو۔ تمہاری ہر بات پر مجھے اعتبار
ہے۔ میں اپنے بھائی کے نظریات جاننا چاہتا ہوں کہ وہ اس معاملے میں کیا کہتے ہیں۔
پھر یہ اچھا موقعہ ہے تارا کے رشتے سے جان چھڑانے کا۔”چودھرائن فوراً بولیں۔”ہاں،
اب کی نا تم نے عقل کی بات۔”وہ اور ٹھاکر صاحب دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی
روح کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ روح عورت یا
مرد ہوتی ہے۔ روح روح ہوتی ہے اور کیونکہ روح صرف روشنی ہوتی ہے اور روشنی کے لئے
حد بندیاں قائم نہیں کیں جا سکتیں۔ روشنی ہر جگہ ہے۔ روشنی کے لئے در و دیوار معنی
نہیں رکھتے۔ روشنی ٹائم اور اسپیس سے آزاد ہے۔ جب کوئی مرد یا عورت روح سے واقف ہو
جاتی ہے تو اس کے اوپر سے ٹائم اور اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ ہزاروں سال
پہلے کے واقعات اور ہزاروں سال بعد کے آنے والے واقعات کو دیکھ لیتا ہے۔ چونکہ ماضی،
حال، مستقبل اس کے سامنے آ جاتا ہے اس لیے وہ اس بات سے واقف ہو جاتا ہے کہ کائنات
میں اللہ کے علاوہ کسی کی حاکمیت نہیں ہے اور جب کوئی بندہ اللہ کی حاکمیت یقین کے
ساتھ قبول کر لیتا ہے تو اس کر اندر سے غم و پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں اور وہ
سکون کے گہوارے میں محو خرام ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سعیدہ خاتون عظیمی کی اس کاوش کو عوام
الناس کے لئے مقبول بنائے اور جو لوگ اس کتاب کا مطالعہ کریں ان کے ادراک و فہم
میں جلا بخشے۔
آمین
خواجہ شمس الدین عظیمی
مرکزی مراقبہ ہال
سرجانی ٹاؤن، کراچی