Topics
رات
کو جب سب لوگ اپنے اپنے بستروں پر نیند کی آغوش میں چلے گئے۔ صندل دبے پاؤں اپنے
کمرے سے نکلی۔ اس کے ہاتھ میں جوگن والا لباس تھا۔ وہ صندل دیوی والے کمرے میں
گئی۔ پہلے اپنے رب کو سجدہ کیا۔ سجدے میں سر رکھ کر اپنی نئی زندگی کے لئے دعا
کرتی رہی۔ پھر جوگن والا لباس آنکھوں سے لگایا اور پہن کر دوبارہ سجدے میں گر گئی۔
اس کا دل صدائیں دینے لگا۔”اے پالنے والے، آج میں تیرے لئے سب کو چھوڑ رہی ہوں۔
میری رکھشا کرنا۔”اس نے زرد دوپٹے کو اپنے ارد گرد اچھی طرح لپیٹا اور خاموشی سے
گھر سے باہر آ گئی۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ عالم خواب میں چل رہی ہے۔ اور ایک
ان دیکھی قوت اسے اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔
ابھی
وہ گھر کی چاردیواری سے باہر ہی نکلی تھی کہ اسے حد نگاہ پر روشنیوں کے بیشمار
قمقمے جلتے دکھائی دیئے۔ اس کے قدم تیز ہو گئی۔ وہ اپنی دھن میں بڑھتی چلی گئی۔ اس
کے ذہن میں سوائے رب کے اور کوئی نہ تھا۔ اندر کی صدا نے اس پر باہر کی صداؤں کو
بند کر دیا۔ چلتے چلتے اچانک اس کے کانوں میں چریوں کے چہچہانے کی آواز آئی۔ وہ
محویت کے عالم سے نکلی۔ ایک لمحے کو ٹھٹک کے رہ گئی۔ عقل نے سوال کیا،”میں کہاں
ہوں؟”دل نے جواب دیا،”تم اپنے ٹھکانے پر ہو۔”اس نے ارد گرد گھوم کر دیکھا۔ چاروں
طرف گھنے جنگل کے سوا کچھ نہ تھا۔ پتوں سے چھن کر ملگجی روشنی اندر آ رہی تھی۔ ایک
لمحے کو اس کا دل کانپ اٹھا۔ اس نے بے اختیاری طور پر دونوں ہاتھ جوڑ دیئے اور
عاجزی کے ساتھ بولی۔”ماتا جی۔ باپو، مجھے معاف کر دینا۔”آنسوؤں کی دھار اس کے پھول
جیسے رخساروں کو دھونے لگی۔ مگر پھر جلد ہی اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور ایک درخت
کے نیچے کانٹے صاف کر کے بیٹھ گئی۔ پرندوں کی خوش الحان آوازوں اور نسیم سحر کے
لطیف جھونکوں نے اسے نیند کی آغوش میں پہنچا دیا۔
آنکھ
کھلی تو دن چڑھا ہوا تھا۔ اس کے ذہن سے دباؤ دور ہو چکا تھا۔ اس نے سوچا رہنے کے
لئے کوئی اچھی جگہ ہونی چاہئے۔ جہاں پانی قریب ہو۔ یہ خیال آتے ہی وہ پھر چل کھڑی
ہوئی۔ راستے میں جنگلی پھول کھائے۔ چلتے چلتے دوپہر ہو گئی۔ پیاس کے مارے اس کا
حلق سوکھ گیا۔ اتنے میں ایک ہرن جھاڑیوں سے نکل کر ایک جانب دوڑتا دکھائی دیا۔
صندل بھی اس کے پیچھے چل پڑی۔ کچھ دور جا کر اسے پانی گرنے کی آواز آئی۔ گھنے
درختوں کے پیچھے ایک پہاڑی دکھائی دی۔ جلد ہی وہ اس پہاڑ پر پہنچ گئی۔ اس پہاڑی سے
چشمہ اُبل رہا تھا۔ پہاڑی کے نیچے چشمے کا پانی ندی کی صورت میں بہہ رہا تھا۔ خوشی
کی لہر اس کے تن من میں دوڑ گئی۔ اس نے ہاتھ منہ دھو کر پانی پیا اور اِدھر اُدھر
اپنے رہنے کے لئے جگہ تلاش کرنے لگی۔ اسے پہاڑی کے اندر ایک غار دکھائی دی۔ اس کے
اندر جھانکا مگر اسے اند رکچھ دکھائی نہیں دیا۔ وہ اپنے رب کا نام لے کر اس غار
میں اتر گئی۔ گار زیادہ گہرا نہ تھا۔ اس نے درختوں کی ٹہنیاں توڑ کر اس کے اندر
بچھا دیں اور اپنے رب کے دھیان میں بیٹھ گئی۔ چند دن اسی طرح گزر گئے۔ بار بار سامنے
کبھی ماں کی تصویر آ جاتی اور کبھی باپ اور بھائیوں بھابھیوں کی۔ اسے محسوس ہوتا
وہ سب اس کی تلاش میں ہیں۔ وہ من ہی من میں انہیں پکارتی۔ باپو میرا دھیان چھوڑ
دو۔ کبھی شہباز دبے پاؤں اس کے نہاں خانے میں اتر آتا۔ وہ تڑپ جاتی ، ہجر کے نغمے
اس کے لبوں پر جاری ہو جاتے۔ وہ زیادہ وقت عبادت میں گزارتی۔ اس نے تہیہ کر لیا
تھا کہ اب اسے یہیں رہنا ہے اور اس حقیقت کو تلاش کرنا ہے جس میں اس کی آتما گم
ہے۔
دو
ماہ اسی طرح گزر گئے۔ وہ زیادہ تر وقت غار میں مراقب رہتی۔ جب بھوک لگتی تو جنگل
سے پھل توڑ لیتی۔ اسے پورے عرصے میں سلطان بابا صرف دو مرتبہ دکھائی دیئے اور
انہوں نے یہی ہدایت کی کہ تم ہر وقت اپنی توجہ اپنے رب کی جانب رکھو۔ وہ ہر روز
سلطان بابا کے کہنے کے مطابق اپنے ارد گرد حصار باندھ کر مراقبہ میں بیٹھ جاتی۔
کئی مہینوں سے عالم جنات میں بھی اس کا جانا نہیں ہوا تھا۔ کیونکہ سلطان بابا نے
اسے اب وہاں جانے سے منع کر دیا تھا۔ کہنے لگے۔”یہ بھی تمہاری تربیت کا ایک حصہ
تھا۔”
ایک
دن وہ غار میں حسب معمول مراقبہ کر رہی تھی کہ اسے کسی نے پکارا۔”صندل جی۔”پہلے تو
وہ دھیان کی گہرائی میں ہونے کی وجہ سے متوجہ نہ ہو سکی۔ مگر پھر چند بار جب تھوڑے
تھوڑے وقفے سے صندل جی ، صندل جی کی صدا کانوں میں پڑتی رہی تو وہ مراقبہ کی حالت
سے باہر آ گئی۔ آنکھیں کھول کر کیا دیکھتی ہے کہ غار کے دہانے پر پرنسپل عزا کھڑا
ہے۔ اس غیر متوقع آمد پر وہ چونک اٹھی اور اپنے آپ کو سمیٹتی ہوئی بولی۔”عزا جی،
آپ یہاں؟”
عزا
بولا۔”اتنے عرصے سے آپ کی عالم جنات میں آمد نہیں ہوئی۔ ہم سب آپ کا بے چینی سے
انتظار کر رہے ہیں۔ آپ کوکہاں کہاں نہیں ڈھونڈا۔ بڑی مشکل سے آپ کا سراغ ملا ہے۔”
صندل
بولی۔”عزا صاحب، آپ فوراً لوٹ جایئے۔ مجھے سلطان بابا نے اب کسی سے بھی ملنے کی
اجازت نہیں دی ہے۔ آپ فوراً یہاں سے چلے جائیں۔ جب بھگوان کو منظور ہو گا اور
سلطان بابا چاہیں گے تو میں عالم جنات میں پھر سے آپ لوگوں کی سیوا کے لئے آؤنگی۔
ابھی مجھے اجازت نہیں۔”
عزا
بولا۔”صندل جی، عالم جنات کے کام تو خیر و خوبی کے ساتھ چل رہے ہیں۔ میں تو آپ کو
اپنے لئے وہاں لے کر جانا چاہتا ہوں۔”صندل کے وہم و گمان میں بھی ایسی بات نہ تھی۔
وہ جانتی تھی کہ عزا اسے پسند کرتا ہے مگر اس کے ذہن میں پسند کا یہ رخ نہ تھا۔
بلکہ وہ سمجھتی تھی کہ بے پناہ عقیدت کی بنا پر عزا اس سے مخلصانہ طور پر ملتا ہے۔
اس نے اپنی حیرت کو پوری طرح چھپاتے ہوئے رعب کے ساتھ کہا۔”عزا صاحب، پرماتما نے
انسان اور جنات کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ میرا عالم جنات میں جانا
بھی پرماتما کی مہربانی اور سلطان بابا کی اجازت پر تھا۔ میں نے اپنے رب کا جوگ
لیا ہے۔ اب آپ فوراً یہاں سے چلے جائیں اور پھر کبھی یہاں آنے کی تکلیف نہ کریں۔”
عزا
نے صندل کو وزدید نگاہوں سے گھورتے ہوئے کہا۔”صندل جی، آپ کو تو علم ہے کہ جنات
میں انسانوں کی نسبت زیادہ قوت ہوتی ہے۔ میں نے آپ کو حاصل کرنے کا تہیہ کر لیا
ہے۔ اب آپ کا مجھ سے بچ کر رہنا محال ہے۔”
صندل
نے نہایت گرجدار لہجے میں جواب دیا۔”عزا صاحب، میں نے بھی تہیہ کر لیا ہے کہ آپ کے
چنگل میں ہرگز بھی نہیں آؤں گی۔ پرماتما میری حفاظت کرنے والا ہے۔ مجھے اپنے رب کی
قوت و شکتی پر بھروسہ ہے۔ وہ جانتا ہے کہ میں کمزور ہوں۔ عزا صاحب، ساری شکتی رب
کی ہے۔ مخلوق کچھ بھی نہیں ہے۔”
یہ
کہہ کر صندل نے آنکھیں بند کر لیں اور رب کے دھیان میں ڈوب گئی۔ عزا کچھ دیر تک
قریب کھڑا اندر آنے کی کوشش کرتا رہا ۔ مگر صندل کے گرد ندھے حصار کی وجہ سے وہ
اندر نہ آ سکا اور یہ کہتا ہوا چلا گیا ۔”صندل جی، میں پھر واپس آؤں گا۔”
سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی
روح کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ روح عورت یا
مرد ہوتی ہے۔ روح روح ہوتی ہے اور کیونکہ روح صرف روشنی ہوتی ہے اور روشنی کے لئے
حد بندیاں قائم نہیں کیں جا سکتیں۔ روشنی ہر جگہ ہے۔ روشنی کے لئے در و دیوار معنی
نہیں رکھتے۔ روشنی ٹائم اور اسپیس سے آزاد ہے۔ جب کوئی مرد یا عورت روح سے واقف ہو
جاتی ہے تو اس کے اوپر سے ٹائم اور اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ ہزاروں سال
پہلے کے واقعات اور ہزاروں سال بعد کے آنے والے واقعات کو دیکھ لیتا ہے۔ چونکہ ماضی،
حال، مستقبل اس کے سامنے آ جاتا ہے اس لیے وہ اس بات سے واقف ہو جاتا ہے کہ کائنات
میں اللہ کے علاوہ کسی کی حاکمیت نہیں ہے اور جب کوئی بندہ اللہ کی حاکمیت یقین کے
ساتھ قبول کر لیتا ہے تو اس کر اندر سے غم و پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں اور وہ
سکون کے گہوارے میں محو خرام ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سعیدہ خاتون عظیمی کی اس کاوش کو عوام
الناس کے لئے مقبول بنائے اور جو لوگ اس کتاب کا مطالعہ کریں ان کے ادراک و فہم
میں جلا بخشے۔
آمین
خواجہ شمس الدین عظیمی
مرکزی مراقبہ ہال
سرجانی ٹاؤن، کراچی