Topics
ابدالِ حق
حضور قلندر با با اولیا ءؒ
کن ê
ê
ê
فیکون
جس وقت اللہ تعالیٰ نے لفظ کن کہا تو ازل سے ابد تک جو کچھ
جس طر ح اور جس ترتیب کے ساتھ وقو ع میں آنا تھا ، آگیا۔ ازل سے ابد تک ہر ذرہ،
اس کی تما م حر کا ت و سکنا ت مو جو د ہو گئیں۔ کسی زما نہ میں بھی انہی حر کا ت
کا مظا ہر ہ ممکن ہے کیوں کہ کو ئی غیر مو جو د ، مو جود نہیں ہو سکتا۔ یعنی کا
ئنا ت میں کو ئی ایسی چیز مو جو د نہیں ہو سکتی جو پہلے سے وجو د نہ رکھتی ہو ۔
انسا ن جب
کسی زاویہ کو صحیح طو ر پ رسمجھنا چا ہتا ہے تو اس کی حیثیت غیر جا نب دار یا عدا
لت کی ہو تی ہے اور وہ بحیثیت عدا لت کبھی فریق نہیں ہو تا۔ عدا لت کو مدعی اور مد
عا علیہ کے معا ملا ت کو صحیح طو ر سمجھنے کے لئے عدا لت ہی کا طرزِ ذہن استعما ل
کر نا ہوتا ہے ۔ اس کے معنی یہ ہو ئے کہ ایک طر ز ِ ذہن فریق کا ہے اور ایک طر ز ِ
ذہن عدالت کا ہے ۔
ہر شخص کو
طر ز ِ فکر کے دو زاویے حا صل ہیں ۔ ایک
زا ویہ بحیثیت اہل ِ معا ملہ اور دوسرا زاویہ بحیثیت غیر جا نب دار ۔ جب انسا ن
بحیثیت غیر جا نب دار تجسس کر تا ہے تو اس پر حقا ئق منکشف ہو جا تے ہیں ۔ تجسس کی
یہ صلا حیت ہر فر د کو ودیعت کی گئی ہے تا کہ دنیا کو کو ئی طبقہ معا ملا ت کی
تفہیم اور صحیح فیصلوں سے محروم نہ رہ جا ئے ۔
انسا ن کسی
غیر جانب دار زاویہ سے حقا ئق کو سمجھنے کی کو شش کرے تو قا نو نِ لوحِ محفوط کے
تحت انسا نی شعو ر ، لا شعو ر اور تحت ِشعو ر کا انطبا عیہ * نقش معلو م کر نے میں کا
میا ب ہو جا تا ہے ۔ انطبا ع و ہ نقش ہے جو بصورتِ حکم اور بشکل* لو ح ِ محفوظ (سطحِ کلیا ت ) پر کندہ ہے ۔ اس ہی کی تعمیل من و عن
اپنے وقت پر ظہو ر میں آتی ہے ۔
شعو ر کا
یہ قا نو ن ہے کہ اس دنیا میں انسا ن جتنا ہو ش سنبھا لتا جا تا ہے ، اتنا ہی اپنے
ما حو ل کی چیزوں میں انہما ک پیدا کر تا جا تا ہے ۔ اس کے ذہن میں ما حو ل کی تما
م چیزیں اپنی اپنی تعریف اور نو عیت کے ساتھ اس طر ح محفوظ رہتی ہیں کہ جب اسے ان
چیزوں میں سے کسی چیز کی ضرورت پیش آتی ہے تو بہت آسا نی سے اپنی مفید مطلب چیز
تلا س کرلیتا ہے ۔ معلو م ہوا کہ انسا نی شعو ر میں ترتیب کے ساتھ زندگی کے مختلف
شعبو ں کے استعما ل کی چیزیں اور حر کا ت مو جو د رہتی ہیں ۔ گو یا ما حو ل کا ہجو
م انسا نی ذہن میں پیوست ہے ۔ ذہن کو اتنی مہلت نہیں ملتی کہ شعو ر کی حد سے نکل
کر لا شعو ر کی حد میں قدم رکھ سکے۔
یہا ں ایک
اصول وضع ہو تا ہے کہ جب انسا ن یہ چا ہے کہ میرا ذہن لا شعو ر کی حدوں میں داخل
ہو جا ئے تو اس ہجو م کی گرفت سے آزا د ہو نے کی کو شش کرے ۔ انسا نی ذہن مو حو ل
سے آزا دی حا صل کرلینے کے بعد، شعو ر کی دنیا سے ہٹ کر لا شعو ر کی دنیا میں داخل ہو جا تا ہے ۔
ذہن کے اس
عمل کا نا م استغنا ہے ۔ یہ استغنا اللہ تعالیٰ کی صفت ِصمدیت کا عکس ہے ۔ جس کو
عرف ِ عا م میں انخلا ئے ذہنی* کہتے ہیں ۔ اگر
کو ئی شخص اس کی مشق کر نا چا ہے تو اس کے لیے کتنے ہی ذرائع اور طریقے ایسے مو جو
د ہیں جو مذہبی فرا ئض کا درجہ رکھتے ہیں ۔ ان فرائض کو ادا کرکے انسا ن خا لی
الذہن ہو نے کی مہا رت حا صل کر سکتا ہے۔
سلو ک کی راہوں میں جتنے اسبا ق پرھا ئے جا تے ہیں ،
ان سب کا مقصد بھی انسا ن کو خا لی الذہن بنا نا ہے ۔ وہ کسی وقت بھی ارادہ کر کے
خا لی الذہن ہو نے کا مرا قبہ* کرسکتا ہے ۔
مراقبہ ایک ایسے تصور کا نا م ہے جو آنکھیں بند کر کے کیا جا تا ہے ۔ مثلاً انسا ن
جب اپنی فنا کا مراقبہ کر نا چاہے تو یہ تصور کر ے گا کہ میری زندگی کے تما م آثا
ر فنا ہو چکے ہیں اور اب میں ایک نقطۂ روشنی کی صورت میں مو جو د ہوں ۔ یعنی
آنکھیں بند کر کے یہ تصور کر ے کہ اب میں اپنی ذات کی دنیا سے بالکل آزاد ہوں ۔ صر
ف اُس دنیا سے میرا تعلق با قی ہے جس کے
احا طہ میں ازل سے ابد تک کی تما م سرگرمیاں مو جو دہیں ۔ چنا چہ کو ئی انسا ن
جتنی مشق کر تا جا تا ہے ، اتنی ہی لو حِ محفوط کی انطبا عیت اس کے ذہن پر منکشف
ہو تی جا تی ہے ۔ رفتہ رفتہ وہ محسو س کر نے لگتا ہے کہ غیب کے نقو ش اس اس طر ح
واقع ہیں اور ان نقو ش کا مفہوم اس کے شعو ر میں منتقل ہو نے لگتا ہے ۔ انطبا عیت
کا مطا لعہ کر نے کےلیے صر ف چند روزہ مراقبہ کا فی ہے ۔
**----------------------------**
"جُو"* تصوف کی زبا ن
میں مو جودا ت کا ایسا مجمو عہ ہے جو اللہ تعالی ٰ کی صفا ت کے خدو خا ل پر مشتمل
ہے ۔ "جُو " لو حِ دوئم کہلا تی ہے اس لئے کہ وہ لوحِ اول یعنی لو حِ محفوظ کے متن کی تفصیل ہے ۔
لو حِ محفوظ
کا ئنا ت کی تخلیق سے متعلق اللہ تعالیٰ کے احکا ما ت کا مجمو عہ ٔ تصا ویر ہے ۔
کا ئنا ت کے اندر جو بھی حر کت واقع ہو نے والی ہے ، اس کی تصویر من و عن لو حِ
محفوط پر نقش ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسا ن کو ارادہ کا اختیار عطا کیا ہے ۔ جب انسا
نی ارادوں کی تصا ویر لو حِ محفوظ کی تصا
ویر میں شا مل ہو جا تی ہیں، اس وقت لو حِ اول، لو حِ دوئم کی شکل اختیا ر کر لیتی
ہے ۔ اس ہی لو حِ دوئم کو صوفیا اپنی زبا ن میں "جُو" کہتے ہیں یعنی لو
حِ محفو ظ پہلا عالمِ تمثا ل ہے اور جُو دوسراعالمِ تمثا ل ہے جس میں انسا نی
ارادے بھی شامل ہیں۔
پہلے اللہ
تعالیٰ کی وہ تعریف بیا ن کر نا ضروری ہے
جو قر آن پا ک میں کی گئی ہے :
قل ھواللہ احد o اللہ الصمد o لم یلد ولم یولد o ولم یکن لہ کفوااحد o
-
ترجمہ -
اے پیغمبرؐ ! کہہ
دیجئیے اللہ ایک ہے ۔ بے نیا ز ہے ۔ نہ کسی نے اس کو جنا نہ ا س نے کسی کو جنا ۔
اور نہ اس کا کو ئی خا ندا ن ہے ۔
یہا ں اللہ
تعالیٰ کی پا نچ صفا ت بیا ن ہو ئی ہیں ۔ پہلی صفت وحد ت یعنی وہ کثرت نہیں۔ دوسری
صفت بے نیا زی یعنی وہ کسی کا محتاج نہیں
۔ تیسری صفت یہ کہ وہ کسی کا با پ نہیں ۔ چوتھی صفت یہ کہ وہ کسی کا بیٹا نہیں ۔
پا نچویں صفت یہ کہ اس کا کو ئی خا ندا ن نہیں۔
یہ تعریف خا
لق کی ہے اور خا لق کی جو بھی تعریف ہو گی ، مخلوق کی تعریف کے بر عکس ہو گی ۔ یا
مخلوق کی جو بھی تعریف ہو گی ، خا لق کی تعریف کے بر عکس ہو گی ۔ اگر ہم خا لق کی
تعریفاتی حدوں کو چھو ڑ کر مخلو ق کی تعریف بیا ن کریں تو اِس طر ح کہیں گے کہ خا
لق وحد ت ہے تو مخلو ق کثرت ہے ۔ خا لق بے نیاز ہے تو مخلو ق محتا ج ہے ۔ خا لق با
پ نہیں رکھتا تو مخلو ق با پ رکھتی ہے ۔ خالق کا کو ئی بیٹا نہیں لیکن مخلو ق کا
بیٹا ہو تا ہے ۔ خا لق کا کو ئی خا ندا ن نہیں لیکن مخلوق کا خا ندا ن ہو نا ضروری
ہے ۔
*انطبا عیہ (کسی
چیز کا معنی و مفہو م اور تصویر ذہن میں آنا )
*تمثال (کسی چیز کو مثال کے ذریعے ٹکڑوں میں بیا ن کرنا )
*انخلا ئے ذہنی ( ذہن کا illusion خیا لا ت سے خا
لی ہو نا )
*مراقبہ (Concentration)
*جُو (روحا نیت کی ایک اصطلا ح ہے ۔ اس میں وہ حقا ئق بیا ن
کئے جا تے ہیں جو تخلیق سے متعقلق ہیں ۔ )
**----------------------------**
خواجہ شمس الدين عظیمی
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔