Topics
بدال حق قلندر با با
اولیا ء
دنیا ئے طلسما ت ہے ساری دنیا
"اللہ آسما نو ں اور زمین کا نو رہے ۔ "(النور :
۳۵)
اس آیت پر
زور دے کر میں آپ سے کہنا چا ہتا ہوں کہ اسپیس کی تین اقسا م ہیں ۔
· ایک قسم وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نور ارضی کہا ہے ۔
· دوسری قسم وہ ہے کہ جب نور ارضی کو روشنی کے طور پر دیکھا
جا ئے ۔ یہ نور جسے میں نے روشنی کہا ہے ، ایک بر قی جسم ہو تا ہے جو انسا ن کے چا روں طر ف غلا ف کی طر ح قائم
ہو تا ہے ۔ یہ غلا ف تقریباً ایک فٹ مو ٹا ہو تا ہے ۔
· تیسر ی قسم وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے روح کہا ہے ۔ ہم اسے
دیکھ نہیں سکتے ، چھو نہیں سکتے ۔
اللہ تعالیٰ نے اس
آیت کے آخر میں فرما یا ہے کہ " یہ روشنی نہ شر قی ہے نہ غر بی ۔ "
معنی یہ ہو ئے کہ اسپیس کے ڈائی مینشن میں کو ئی سمت نہیں ۔ اگر ہم کسی چیز کو
دیکھتے ہیں تو بر قی جسم کے ذریعے دیکھتے ہیں یعنی برقی جسم ہما ری نظر اور چیز کے
بیچ میں رکا وٹ ہے ۔
ہما ری نظر ایک طر ف
روح کی ، دوسری طر ف بر قی جسم کی اور تیسری طر ف اس چیز کی نما ئندگی کر تی ہے
جسے ہم دیکھ رہے ہیں ۔ اس سے ظا ہر ہو تا ہے کہ اسپیس کے ڈائی مینشنز میں تین چیز
یں شا مل ہیں ۔ روح ، برقی جسم اور وہ چیز جسے اللہ نے ارض فرما یا ہے ۔
ارض کو ئی بھی چیز ہو
سکتی ہے ۔ بڑی بھی ہو سکتی ہے ، چھو ٹی بھی ہو سکتی ہے ، ارض درخت بھی ہو سکتی ہے
، ارض کو ئی فر د بھی ہو سکتی ہے ، ارض زمین بھی ہو سکتی ہے ۔ ہم ارض کو چھو تے
بھی ہیں ، دیکھتے بھی ہیں ، سونگھتے بھی ہیں ، سنتے بھی ہیں ، چکھتے بھی ہیں اور
سمجھتے بھی ہیں۔ ہما ری سمجھ کے مطا بق یہ ارض کبھی ہما رے سامنے پھول کی شکل میں
آتی ہے ، کبھی تتلی کی شکل میں ، کبھی پھل کی شکل میں۔
قابل تفکر ہے کہ بر
قی رو جو ہما رے چا روں طر ف غلا ف کا کام کر تی ہے ، وہی نظر کے لیے منشو ر (prism۔ پرزم) بن جا
تی ہے اور ہم سے وہ حقیقت چھپا لیتی ہے جو ہما رے اوپر ظا ہر ہو نی چا ئیے ۔ اس
لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں صا ف صاف بتا دیا
ہے کہ " میرے ہا دی آپ کے پاس آئیں گے ، اگر آپ ان کی با ت مانیں گے ، ان
کے کہنے کے مطا بق عمل کریں گے ، ان کا اتبا ع کریں گے تو آپ کو آپ کے آبا
واجدادکا وطن واپس مل جا ئے گا۔ "
معنی ہو ئے کہ اعلیٰ
اسپیس سے ادنیٰ اسپیس میں آنے پر نا فرما نی نے ہمیں غلط خیالوں میں اور فریب نظر
میں ڈال دیا ہے اور ہم اس میں پھنس گئے ہیں ۔ یعنی پرزم نے ہمیں غلط دکھا نا شروع
کر دیا ۔ نیتجے میں روح ہما ری آنکھوں سے اوجھل ہو گئی اور الوژن تصورات آنکھوں
کے سامنے آنے لگے ۔ درحقیقت یہ پرزم کا اثر تھا جو جسم پر بر قی غلا ف کی شکل میں
چڑھا ہوا تھا ۔ آنکھوں کے سامنے آنے کع معنی یہ ہیں کہ انہوں نے ہما رے دما غ پر
قبضہ کرلیا۔ پہلے ہم نے ان کو توہم میں دیکھا۔ پھر پرزم نے ایسی حر کت کی کہ توہما
ت ہما رے سامنے صورت بن کر آگئے ۔ جتنا وہ قریب آتے گئے ، ہم حقیقت سے دور ہو تے
گئے ۔
پرز م کی وجہ سے ہم
کسی چیز کو چھو ٹی سے بڑی ہو تی ہو ئی دیکھتے ہیں ، ختم ہو تی دیکھتے ہیں ، جو چیز
واہمہ میں ہو، اسے آہستہ آہستہ صورت میں دیکھتے ہیں ۔ ہم اس چیز کو اپنی کوششوں
کا نتیجہ سمجھنے میں فر ق نہیں کرتے ۔ میں آپ کو اس کی مثا لیں دے رہا ہوں۔
جس نے ٹیلی فون ایجا
د کیا، وہ چا ہے ایک فرد ہو یا زیا دہ ، اس نے آہستہ آہستہ ترقی کی اور خیا لا ت
کو عمل شکل دی ۔ نتیجے میں ٹیلی فو ن سامنے آگیا ۔ یہ وہی پر زم کا اثر تھا جس نے
ہما رے امیج یا عکس کو مختلف تجر بوں اور مرا حل سے گزار کر ٹیلی فون بنا دیا ۔
یہی معاملہ ٹیلی ویژن اور ہوا ئی جہا ز کا ہے ۔ یہی با ت ایٹم کے با رے میں ہے ۔
تاریخ اس پرز م کی
وجہ سے ہی بدلتی رہتی ہے ۔ ایک طر ف پرزم ہمیں جسم کے با ر ے میں بتا تا ہے ،
ہڈیوں کو سخت بتاتا ہے ، گوشت میں خا ص قسم کی لچک بتا تا ہے ۔ دوسری طر ف یہی
پرزم بتاتا ہے کہ ہر چیز مٹی ہے اور مٹی سے مختلف شکلیں پیدا ہو تی ہیں ۔ ایک طر ف
وہ خیا ل کو کچھ اہمیت نہیں دیتا اور دوسری طر ف خیال سے دس سال، بیس سال ، تیس
سال ، ہزار سال کی شکل بنا لیتا ہے ۔ جیسا کہ میں نے ابھی کہا تاریخ ، جغرافیہ
وغیر ہ سب علو م اس کی شا خیں ہیں ۔ یہ میں نے قرآن کی رو سے لکھا ہے ۔ میں اپنی
طر ف سے نہ کو ئی با ت لکھ سکتا ہوں ، نہ لکھنا چا ہتا ہوں ۔
اللہ تعالیٰ نے قر
آن پا ک میں ارشا د فرما یا ہے کہ میں آدم کو علم الا سما ء سکھا یا ۔ اللہ
تعالیٰ نے یہ ارشا د نہیں فرما یا کہ آدم
کو زمین دی یا درخت دیئے یا پہاڑ دیئے یا دریادیئے۔ صرف یہی فرما یا ہے کہ میں
آدم کا پتلا مٹی سے بنا یا اور اس میں ، میں نے روح پھونکی اور آدم کو علم
الاسما ء سکھا یا ۔ سورۃ یٰسٓ کی آخری آیت میں ارشا د ہے '
"اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ ارادہ
کر تا ہے کسی چیز کا تو کہتا ہے ہو جا اور وہ ہو جا تی ہے ۔"
ارادہ سے کس طر ح ہو
جا تی ہے ؟ آخر کو ئی طریقہ ایسا ہے جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہے مگر ہما رے
سامنے نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے با ر با ر فرما یا ہے کہ تفکر کر و ، تدبر کرو۔ اس کے
معنی یہ ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے ارادے کو علم الاسما ء سے ملا نا (جوڑنا) ہے ۔
یہ سب پرزم کی بدولت ہوتا ہے جو ہما رے اوپر غلاف (خول) کی طرح ڈھکا ہوا ہے ۔ واضح
معنی یہ ہو ئے کہ ہما ری روح کے اوپر یہ پرزم خول کی شکل رکھتا ہے ۔ ہم اسی پرزم
کے ذریعے دیکھتے ہیں ، چھوتے ہیں ، جانتے ہیں اور حرکت کر تے ہیں۔
ہر مخلو ق پرزم کے
اندر ہے ۔ اگر پرزم کے با ہر نکل جا ئے تو اس کی ہستی نہیں ملتی ۔ زمین سے جتنے لو
گ خلا میں گئے ، پریشر شوٹ کے بغیر نہیں جا سکے یعنی پرزم ان پر مسلط تھا ۔ اگر وہ
آکسیجن نہ ہو نے کا بہا نہ کریں تو اس پر مجھے بحث نہیں کر نا ہے ۔ وہ اگر چا ہیں
تو آکسیجن اپنے ساتھ لے جا ئیں ۔ میں ایک ہی با ت کہنا چا ہتا ہوں کہ وہ پرزم میں ہی تھے ۔ مگر یہ با ت بھی واضح
ہے کہ جو خلا با ز کھو گئے ، وہ اس پرزم کے با ہر نکلے گئے تھے اور نتیجے میں ان
کی ہستی مٹ گئی یا وہ ایسی جگہ چلے گئے جس کا نا م نہیں جا نتے۔
جو کچھ بھی اس پرزم
کے اندر ہے قدرت نے اس پر کچھ حدیں لگا دی ہیں ، وہ حدیں توڑی نہیں جاسکتیں اور نہ
ان سے با ہر نکلا جا سکتا ہے ۔ مصنو عی سیارے انہی حدود کے اندر ٹوٹتے ہیں اور ٹوٹ
کر گر تے ہیں ۔ ان کی نشا نیا ں بھی مل جا تی ہیں ۔
یہ تفصیل اس با ت کی
تھی کہ پرزم کا ئنا ت کو کم از کم دوحصوں میں تقسیم کر تا ہے ۔ ایک وجو د جو ہما رے
نزدیک ہے ، اسے کہتا ہے کہ یہ سب مٹی ہے اور جو ہم سے دور ہے ، اسے آنکھیں روشنی
یا چمکتی شکل میں دیکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ فرما یا ہے ۔
"آپ پہا ڑ کو
دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ قا ئم ہے (حالا نکہ وہ قا ئم نہیں )"۔
یہ بھی پرزم کی تفصیل
ہے ۔ اسی پرزم کے ذریعے مستقبل میں ایسی ایسی ایجا دیں ہو ں گی جو انسانوں کو تعجب
میں ڈالیں گیں۔
دنیا ئے طلسما ت ہے ساری دنیا
کیا کہئے کہ ہے کیا یہ
ہما ری دنیا
مٹی کا کھلونا ہے ہما ری تخلیق
مٹی کا کھلونا ہے یہ ساری دنیا
خواجہ شمس الدين عظیمی
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔