Topics
آج کی بات
جس طر ح بجلی ایک ہے اور بلب لا کھوں ہیں اسی طر ح روح ایک
ہے اور جسم لا شما ر ہیں جو شما ریا ت سے زیا دہ پر توں کا مجمو عہ ہیں ۔ ہر پر ت کی حیثیت لبا س کی ہے ۔
لبا س صلا حیت ہے اور ہر صلا حیت ایک دنیا
ہے ۔ نو ر کی دنیا میں نو ر ، روشنی کی
دنیا میں روشنی ، پا نی کی دنیا میں پا نی ، آ گ کی دنیا میں آگ اور مٹی کی دنیا میں مٹی کی صلا حیتیں (کرنٹ)
کا م کر تی ہیں ۔ ہر پر ت (لبا س) روح کی حر کا ت کا ظا ہر کر نے کا میڈیم ہے یعنی
روح کی صفا ت لا محدود ہیں ۔ روح جب کسی لبا س کا انتخا ب کر تی ہے تو اس کے مطا بق صلا حیتیں ظا ہر ہو تی ہیں ۔
یہ ایسی با ت نہیں جس سے آدمی واقف نہ ہو ، وہ خوا ب اور بیدا ری میں اس تجر بے سے
گزرتا ہے لیکن ۔۔۔؟
۱۔ آدمی جا گنے کے بعد سوتا ہے اور سو نے کے بعد جاگتا ہے ۔
جا گتا ہے تو تازہ دم ہو تا ہے ، خا ندا ن اور معا شرے کے ساتھ وقت گزارتا ہے جس
میں تعلیم ، کھا نا پینا ، ملا زمت ، شا دی ، بچے ، سیر و تفریح ، معا شر تی ذمہ
داریا ں اور مذہبی فرا ئض شا مل ہیں ۔ جب
توانا ئی خر چ ہو کر اس سطح پر آجا تی ہے جس کے بعد جا گنا محا ل ہے تو مٹی کے
اوپر نیند کا غلبہ ہو جا تا ہے ۔
۲۔ مٹی کے جسم کے سو تے ہی آدمی کے اندر ایک اور آدمی جا
گتا ہے اور زندگی کے تقا ضے پو رے کر تا ہے ۔ کھا تا پیتا ہے ، چلتا پھر تا ہے ،
لکھتا پڑھتا ہے ، دفتر میں کا م کر تا ہے ، خو ش ہو تا ہے ، روتا ہے ، ڈرتا ہے ،
شا دی کر تا ہے ، بچے ہو تے ہیں ، میلوں میل سفر کرتا ہے اور فر د کی حیثیت سے معا شرے سے واقف ہو تاہے
۔
زندگی کے
تقا ضے بیدا ری اور خوا ب دونوں میں یکسا ں ہیں اور تسکین کا طریقِ کا ر بھی ایک
ہے مگر وقت کے جس دورانیے میں تقا ضوں کا مظا ہر ہ ہو تا ہے ۔ مختلف ہے ۔ مٹی کی
دنیا میں قد م قدم اسپیس کی پا بندی ہے جب کہ خواب کی دنیا میں اسپیس زیر ِ بحث
نہیں آتی ، خیا ل کے ساتھ سفر ہو تا ہے ۔ پیاس کا تقا ضا ابھر تے ہی سیرابی ہو جا
تی ہے یعنی پیا س لگتے ہی پا نی کا
بندوبست ہوا اور پا نی پی لیا۔ پا نی پینے کے لئے محنت نہیں کی ۔ وقت کے نا قا بل ِ تذکر ہ یو نٹ میں سیرا
بی ہو گئی ۔ اس کے بر عکس جب مٹی کی دنیا میں پیا س لگتی ہے تو پا نی ہما رے پا س
نہیں آتا، ہم قدم قدم چل کر پا نی کے پا س جا تے ہیں اور گھونٹ گونٹ پیتے ہیں ،
پیا س کی تسکین ہو جا تی ہے ۔
بیت اللہ
شر یف کے زیا رت اور روضہ ٔ رسول ؐ پر حا
ضر ہو نے کی خوا ہش سب کو ہے ۔ وسا ئل کی دستیا بی کے لئے مشقت زیرِ بحث ہے جس میں
پیسہ ، وقت اور فا صلہ تینوں شا مل ہیں ۔ خواب کی دنیا میں یہ خوا ہش نا قا بل ِ
تذ کرہ وقت میں پو ری ہو جا تی ہے اور ایک نہیں ، کئی مر تبہ یہ سعا دت نصیب ہو تی
ہے ۔ جا گنے کے بعد خو شی سے سر شا ر ہو کر گھر والوں کو بتا تے ہیں کہ ہم نے خواب
میں خو د کو کہاں دیکھا ۔ با لفا ظ دیگر ہم تسلیم کر تے ہیں کہ خوا ب میں مقا ما ت
ِ مقدسہ پر حا ضر ہو نے والا میں تھا اور مٹی کی دنیا میں جا گنے کے بعد اس کیفیت
کو بیا ن کر نے والا بھی میں ہوں۔
قا بلِ غو
ر ہے کہ خوا ب کی دنیا میں داخل ہو تے وقت مٹی کا جسم بستر پر ہو تاہے ۔ اب روح اس
لبا س کو میڈیم بنا تی ہے جو خوا ب کی دنیا کے عنا صر سے بنا ہے اور وہا ں کے ٹا
ئم اسپیس کے مطا بق ہے ۔ جب ہم مٹی کی دنیا میں واپس آتے ہیں تو خواب والا جسم
سوجا تا ہے اور مٹی کا جسم بیدار ہو تا ہے ۔
**----------------------------**
لبا س کیا
ہے ۔۔۔؟ ریشم کا لبا س ہو ، اون کا یا کم خواب کا لبا س ، دھا گے سے بنا ہے اور
دھا گا مٹی ہے ۔ ایک سال کے بچے ، دس سال کے لڑکے اور چالیس سال کے تجر بہ کا ر
شخص کا جسم لبا س کے علا وہ کچھ نہیں ۔ لبا س پیدائش سے لے کر دنیا سے واپسی تک
تبدیلی ہے ۔ یہ گھٹتا اور بڑھتا ہے ۔ گھٹنے اور بڑھنے والی شے کا ہر سطح پر الگ
الگ نا م مقر ر ہے جیسے دودھ پیتا بچہ ، دوڑتا کھیلتا بچہ ، گورا ، کالا ، سر خ
یعنی رنگ بدلتا بچہ ۔
مٹی کا لبا
س اسپر م سے بنتا ہے ۔ اسپر م میں گھٹنے بڑھنے کی صلا حیت نہ ہو تو ڈیڑھ فٹ کا بچہ
60 سال کا بوڑھا نہیں ہو گا۔ ہر قسم کا لبا س
جو بچے نے 60 سال تک پہنا ہے ، بو سید ہ ہو کر پھٹ رہا ہے
۔ تفکر کیا جا ئے تو مٹی کا لبا س جسے ہم آدمی سمجھتے ہیں ، وہ بھی کپڑے کی طر ح
بو سیدہ ہو رہا ہے ۔ گھٹنے بڑھنے کا عمل بالآخر ایسے مقا م پر لے آتا ہے کہ بچہ 60 یا 100 سال
کے بعد غا ئب ہو جا تا ہے اور مٹی سے بنا ہوا لبا س مٹی میں تبدیل ہو جا تا ہے ۔
**----------------------------**
لبا س مٹی
کا ہو یا گیس اور روشنی کا، تغیر ہے ۔ ہم چا ہے جس دنیا میں ہوں ، خود کو کھا تا پیتا دیکھتے ہیں اور کھا نے پینے کا
تعلق نشو و نما (تغیر ) سے ہے البتہ کا ئنا ت میں جتنی دنیا ئیں ہیں ، ان میں سب
سے زیا د ہ تغیر مٹی کے لبا س میں ہے ۔ مٹی میں تعفن کی وجہ سے ٹوٹ پھو ٹ کا عمل
زیا دہ ہے ۔ زمین پر جتنی مخلو قات ہیں ، ان کی تعداد لا شما ر ہے ۔ سب کا وجو د
مٹی پر کا قا ئم ہے ۔ مٹی کی تخلیق میں رنگ شا مل ہیں ۔ رنگوں کا مشا ہد ہ پودوں ،
پھولوں ، پھلوں ، پرندوں اور ساری مخلو قات میں نظر آتا ہے ۔ احسن الخا لقین اللہ
کا ارشا د ہے
"اور
ہم نے انسا ن کو مٹی کےست سے بنا یا ۔ پھر اسے ایک محفو ظ جگہ ٹپکی ہو ئی
بو ند میں تبدیل کیا ۔ پھر اس بو ند
کو لوتھڑے کی شکل دی ۔ پھر لو تھڑے کو بو ٹی بنا دیا ۔ پھر بو ٹی کی
ہڈیا ں بنا ئیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھا یا ۔ پھر ہم نے اسے نئی صورت میں بنا دیا ۔
پس اللہ بڑا با بر کت ہے جو تخلیق کر نے والوں میں بہترین خا لق ہے ۔ "
(المومنون: ۱۲۔۱۴)
مٹی کے دھا
گوں سے تیا ر ہو نے والا لباس ٹوٹ پھو ٹ کے چھ مراحل سے گزر تا ہے اور ہر مر حلہ
رنگین ہے ۔ مٹی ٹوٹتی ہے تو اس میں سے جو ہر نکلتا ہے ، جو ہر میں سے بو ند ظا ہر
ہو تی ہے ، بو ند کے خلیا ت ٹوٹنے سے لوتھڑا بنتا ہے ، لوتھڑے سے بو ٹی بنتی ہے ،
بو ٹی کھلتی ہے تو اس میں سے ہڈی ظا ہر ہو تی ہے اور ہڈی گوشت میں چھپ جا تی ہے ۔
عر ض ہے کہ جس لبا س کی بنیا د ٹوٹ پھوٹ ہے ، اس کے صلا حیتیں ایک حا لت پر قا ئم
نہیں رہتیں ۔ جب کہ اسپیس کی تسخیر کے لئے ایک مر کز پر قا ئم رہنا ضر وری ہے ۔
**----------------------------**
ہم مٹی کے
لبا س کو آدمی سمجھتے ہیں جب کہ لبا س پہننے اوڑھنے کی چیز ہے ۔ ہما ری پہچا ن
"جا ن" ہے جو لبا س پہنتی ہے اور اتا ر دیتی ہے ۔
اللہ
تعالیٰ نے نو ع ِ آدم کو فی الارض ِ خلیفہ
بنا یا ہے اور ارض (زمین) ایک نہیں ، لا
شما ر ہیں ۔ ہر زمین کے لبا س کی صلا حیت الگ ہے ۔ کسی میں کثا فت زیا دہ ہے اور
کسی میں لطا فت زیا دہ ہے ۔ جس لبا س میں لطا فت زیا دہ ہے ، وہاں ایک قدم سے
دوسرے قدم میں میلوں میل طے ہو جا تے ہیں یعنی اسپیس سمٹ جا تی ہے ۔ فی الارضِ
خلیفہ کا مطلب یہ ہے کہ نو عِ آدم کے اندر ہر زمین کا لبا س (صلا حیت) مو جو د ہے
اور وہ جب چا ہے ، اسے پہنے اور اتا رنے کی صلا حیت رکھتی ہے ۔ اس صلا حیت سے
مستفید ہو نے کے لئے فی الارض ِ خلیفہ کے علوم جا ننا ضر وری ہیں ۔ خا لقِ کا ئنا
ت اللہ کا ارشا ہے ،
"اور
یہ لوگ آپ ؐ سے
روح کی با بت سوا ل کر تے ہیں ۔ آپ جواب دیجیے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور
تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے ۔ " (بنی اسرائیل: ۸۵)
اللہ حا فظ
خواجہ شمس الدین
عظیمی
مئی 2023
خواجہ شمس الدين عظیمی
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔