Topics
آج کی بات
”آج کی بات“ جس
دور میں پڑھی جائے گی، یہ اُس دور کی آج کی بات ہے کیوں کہ شعور اور لاشعور کا
نصاب ہر دور میں ایک ہے۔ جیسے آسمان اور زمین کے درمیان میزان، دن اور رات کے
متعین وقفے، لہروں کا شمالا ً جنوباً سفر ، ہوا کے ذریعے میلوں میل ذرّات کی نقل و
حمل ، چاند سورج ستاروں کی اپنے اپنے مدار میں گردش ، زمین پر اجرامِ فلکی کے
اثرات، پانی سے رنگوں کی نمود اور خیال سے حیات و ممات کا مظاہرہ۔
شعور اور
لاشعور میں تبدیلی نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ کائنات کے اصول معین ہیں۔ جن کو علم حاصل
کرنے کا ذوق ہے وہ ایک بات پر تفکر کر کے ہر بات سے واقف ہونے کی کوشش کرتے ہیں
اور ہر بات میں اُس ایک بات کو تلاش کرتے ہیں۔ دوسرے لوگ وہ ہیں جو ذہنی مشقت نہیں
کرتے مگر نئی نئی تحریریں پڑھنے کی خواہش رکھتے ہیں یعنی جو کچھ لکھ دیا گیا ہے،
اس کی گہرائی میں نہیں اترتے۔ کسی تحریر میں پرانی تحریر کا رنگ ہو تو کہتے ہیں کہ
یہ تو پہلے لکھا جا چکا ہے۔ سوچتے نہیں کہ بات کیوں اور کس کے لئے دہرائی جاتی ہے۔
·
کیا ہم نے دیکھ لیا کہ شعور کس کو کہتے ہیں اور لاشعور کیا
ہے؟
·
دن کیوں طلوع ہوتا ہے اور رات کہاں سے آتی ہے؟
·
کُن سے لاشمار عالمین کیسے تخلیق ہوئے؟
·
الست بربکم سے حواس کس طرح بیدار ہوئے؟
·
کیا قالو ابلیٰ کے عہد کی تجدید ہوگئی ہے؟
·
ظاہر اور باطن کا فرق جان لیا ہے اور یہ کہ میں کون ہوں۔۔۔۔؟
دہرایا اس لئے جاتا کہ پرھنے والا پڑھ کر بھی نہیں پڑھتا،
سننے والا سن کر بھی نہیں سنتا اور دیکھنے والا دیکھ کر بھی نہیں دیکھتا۔ آواز کان
کےکان کے پردوں سے ٹکراتی ہے اور دماغ میں تصویر بنتی ہے۔ ہم اس تصویر کو دیکھ کر
آواز میں پیغام کو سمجھتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے سنا۔ یہ ہم نے سن کر دیکھایا
دیکھ کر سنا۔۔۔؟
بات اس طرح
دہرائی جاتی ہے کہ وہ ایک درجہ آگے بڑھ جاتی ہے۔ جو لوگ تفکر نہیں کرتے، وہ شارٹ
کٹ اور ایسی مشقوں کی تلاش میں رہتے ہیں جس میں اندر کی انکھ کھل جائے۔جب فرد 16
سال کی تعلیمی سند کے باوجود صحیح اور بروقت فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہوتا، مسئلہ
حل نہیں کر سکتا ، اولاد کی تربیت نہیں ہوتی، قلب بے سکون ہے، ذہن میں شک ہوتا ہے،
16 سال جو کچھ پڑھا ہے اس میں تخلیق کے راز سے پردہ نہیں اُٹھا سکتا اور خود سے
سوال بھی نہیں کرتا کہ 16سال کہاں چلے گئے۔۔۔۔۔ وہ یہ کیوں سمجھ لیتا ہے کہ مشقوں
اور باتوں سے باطن کا ادراک ہو جائے گا؟
روحانیت
یقین پر قائم ہے اور یقین باطن میں آنکھ کا مشاہدہ ہے۔ مشاہدہ نہ ہو تو وہ علم
حاصل نہیں ہوتا جو کائناتی مظاہر کی اساس ہے ۔ احسن الخالقین اللہ تعالیٰ کا ارشاد
ہے ،
”پاک
اور بلند مرتبہ ہے وہ ذات جس نے تخلیق کیا معین مقداروں سے اور ان مقداروں کی
ہدایت بخشی۔“
(الاعلیٰ
:۱۔۳)
زمانہ شعور
اور لاشعور کی دستاویزی فلم ہے۔ لاشعور غیب میں موجود مظہر ہے اور شعور اس مظہر کا
وقوف ہے یعنی تخلیقات کی باطنی طرزوں کا مشاہدہ۔ اگر مشاہدے میں تغیر ہے تو یہ
شعور نہیں بلکہ قیاس پر مبنی شعور ہے۔۔۔ ایسا شعور جو ہر بدلنے والی شے کو حقیقت
فرض کر لیتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ شے کہاں سے آتی ہے اور کہاں چلی جاتی ہے۔
اپنی مثال سامنے رکھیں تو پیدائش کے وقت سے ہماری صورت مسلسل بدل رہی ہے اور ہم ہر
صورت کو کہتے ہیں کہ یہ میں ہوں ۔ کیا ہمیں پتہ ہے کہ ہم کون ہیں۔۔۔؟
فرد جسم
اور روح سے مرکب ہے۔ پیدائش سے موت تک جسم مسلسل ردّو بدل سے گزرتا ہے مگر روح اسی
حالت میں موجود ہوتی ہے جس حالت میں جسم میں داخل ہوئی تھی۔ جسمانی ساخت میں تغیر
نظام کا حصہ ہے جس کے ذریعے کائنات میں تسلسل اور شناخت کا سلسلہ قائم ہے لیکن اس
تغیر کو اصل سمجھنا درحقیقت شعور نہ ہونا
ہے۔
آدمی زمین
کو دیکھتا ہے تو اندرونی طبقات میں مقیم حشرات، معدنیات، پانی، مٹی، چٹانیں اور ارضی
پلیٹیں نظر نہیں آتیں مگر باطنی حس ان کے اثرات کو محسوس کرتی ہیں۔ جب نگاہ آسمان
کی طرف اُٹھتی ہے تو ان اجسام کا تجربہ ہوتا ہے جو زمین کے ثقل سے کسی حد تک آزاد
ہیں۔ مکمل آزاد اس لئے نہیں کہ پھر زمین پر دن رات کا نظام سوالیہ نشان بن جائے
گا۔ آدمی کو حواس کے کسی نہ کسی درجے میں لاشعوری زندگی کا علم ہے پھر وہ قیاس پر
مبنی شعور میں گرفتار کیوں ہے؟
**----------------------------**
لاشعور سے
واقف ہونے کی کوشش ہر دور میں کی گئی ہے، چند لوگ کامیاب ہوئے، باقی وسوسوں میں
الجھ گئے۔ ان کا ذہن اس پریشانی سے آزاد نہ ہو سکا کہ چھوٹی بڑی ضرورت کیسے پوری
ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ دنیا میں آنے سے پہلے نو مہینے کی زندگی، پیدائش کے بعد
بچپن، لڑکپن اور جوانی کے مراحل میں نشونما کس نے کی؟ کسان فصل کاٹتا ہے تو ایک
ایک دانہ سمیٹ لیتا ہے اور جو دانے اس کے نزدیک ناکارہ ہیں، مویشیوں کو کھلا دیتا
ہے۔ جب ایک ایک دانہ زمین سے سمیٹ لیا تو یہ اربوں کھربوں پرندے کہاں سے دانہ چگتے
ہیں؟ ان کی غذا کا انتظام کہاں سے ہوتا ہے اور کون کرتا ہے؟
جب بندے کے
اندر یہ یقین راسخ ہو جاتا ہے کہ اللہ ہمارا کفیل ہے تو قدم وسوسوں سے نکل کر یقین
کی جانب اُٹھتے ہیں اور ذہن ہجوم سے خالی یعنی یکسو ہو جاتا ہے۔
خالی
الذہنی کے بغیر بندہ لاشعو ر میں داخل نہیں ہوتا۔
اُس دنیا
سے اِس دنیا میں آتے ہیں تو ابتدائی تین مہینوں تک دنیا نظر نہیں آتی، آواز سنائی
دیتی ہے، خوشبو محسوس ہوتی لیکن اِس دنیا کو دیکھنے کے لئے نظر بیدار کیوں نہیں
ہوتی؟ اور جب نظر بیدار ہو جاتی ہے تو پھر وہ دنیا نظر کیوں نہیں آتی؟ بات سمجھ
میں آئے نہ آئے، ادارہ کو لکھ کر بھیج دیجیئے۔ ادارہ چاہتا ہے کہ قاری کے ذہن میں
فکشن شعور کی لگائی ہوئی گرہیں کھلیں۔
**----------------------------**
آپ آٹھ سال
سے ”آج کی بات“ پڑھ رہے ہیں جس میں مختلف زاویوں اور مثالوں سے ایک ہی بات سمجھائی
جا رہی ہے کہ زندگی کیا ہے، کہاں سے آتی ہے، کہاں چلی جاتی ہے، زندگی میں خیال کا
کیا عمل دخل ہے، کائنات کا نظام جن فارمولوں پر قائم ہے، ان فارمولوں کا علم کیسے
حاصل ہو، ہم کون ہیں اور یہ کہ جس نے ہمیں پیدا کیا ہے ، وہ نظر کیوں نہیں آتا جب
کہ روزِ ازل مشاہدہ ہو چکا ہے اور ہم اقرار بھی کر چکے ہیں۔
اپنے اندر میں دیکھئے کہ ان آٹھ سالوں میں فہم کتنی بڑھی، کیا سیکھا،
تفکر کو کتنا وقت دیا اور ذہن کس حد تک پُر پیچ ہجوم سے خالی ہوا۔ آپ نے ” آج کی
بات“ کے عنوان سے اٹھانوے (98) کلاسیں پڑھیں۔ بتائیے آپ کون سی کلاس میں ہیں۔۔۔؟
اللہ
حافظ
خواجہ شمس الدين عظیمی
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔