Topics
ابدالِ حق قلندر بابا
اولیاؒ کے عرس کے موقع پر حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا خطاب
بِسْمِ اﷲالرَّحمٰنِ
الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ ِ ﷲِرَبِّ
الْعٰلَمِیْنَ O الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ O مٰلِکِ
یَوْمِ الدِّیْنِ O اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ O
آپ خواتین و حضرات کئی
سالوں سے ابدال حق قلندر بابا اولیاؒ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے دور دراز سے
بسوں،ریل گاڑیوں، ہوائی جہاز اور مختلف ذرائع سے عروس البلاد کراچی تشریف لاتے
ہیں۔ حضور قلندر بابا اولیاؒ کی تعلیمات، ملفوظات اور روحانی طرزِ فکر سے واقفیت
کے لئے ہر سال عرس کا انعقاد ہوتا ہے۔ آپ سب قلندر بابا اولیاؒ کے مہمان ہیں اور
ہمیں اللہ نے آپ کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ بلاشبہ سفر کی صعوبتیں بہت
زیادہ ہیں، یہ بھی ایک جہاد اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کے اندر برداشت کی
صلاحیت کا اظہار ہے۔
وَالَّذیْنَ جَاھَدُوْ
افِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھمْ سُبُلَنَا (العنکبوت69: )
حضورقلندر بابا اولیاؒ
فرماتے ہیں کہ ’’فینا کا ترجمہ ’’مجھ میں‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو لوگ
جدوجہد کرتے ہیں، ایثار کرتے ہیں، رات کو، دن کو، سردی میں، گرمی میں، میری بارگاہ
میں حاضر ہوتے ہیں، میں نے طے کرلیا ہے کہ ایسے لوگوں کو ضرور ہدایت عطا کروں گا۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ۔۔۔ فینا۔۔۔مجھ میں۔۔۔ میرے علاوہ اور کوئی غرض نہ ہو
یعنی صرف میں مقصد زندگی ہوں۔ میں نے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے کہ میں ہدایت کے
راستے کھولوں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم حاضرین! مجھے
ہدایت دی گئی ہے اور ہدایت کو تین دفعہ دہرایا گیا ہے کہ جو حضرات و خواتین تشریف
لائے ہیں ان کی خدمت میں عرض کیا جائے کہ آپ صاحبان کو روحانیت کے بارے میں جو بات
سمجھ میں نہیں آتی یا ایسی کوئی بات جو آپ سمجھنا چاہتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے
بھروسے پر سب کو اجازت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قربت، رسول اللہؐ کی تعلیمات، روحانیت،
ماورائی مخلوق، ماورائی دنیا، غیب و شہود کے بارے میں مجھ عاجز بندہ سے سوال
کرسکتے ہیں۔ اللہ کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ انشاء اللہ اس کا حل، جواب اور مشورہ
بھی پیش کروں گا۔
زائرہ: باباجی ، دنیا
کی کشش ہمیں اپنی طرف کیوں کھینچتی ہے۔ نیک کام کے برعکس برا کام کرنا زیادہ آسان
لگتا ہے۔ نیکی کے لئے جہاد کیوں کرنا پڑتا ہے۔۔۔؟
اچھائی اور برائی دو رخ
ہیں۔ اچھائی سے اللہ تعالیٰ، اللہ کے رسولؐ اور تمام انبیائے کرام خوش ہوتے ہیں
اور ان کے پیغام پر عمل ہوتا ہے۔ دوسرا رخ رحمانی تعلیمات کے خلاف ہے جس سے شیطان
خوش ہوتا ہے۔ ایک راستہ صاف ستھرا ہے، اس میں سکون اور اطمینانِ قلب ہے، سڑک کے اطراف
درخت، پھل پھول ہیں۔ دوسرا راستہ ناہموار ہے جس میں ڈر، خوف، حشرات الارض، سانپ،
بچھو اور کن کھجورے ہیں۔ ہمیں کون سا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔۔۔؟ یہ بھی سوچنا ہے
کہ گناہ اور ثواب کیا ہے۔۔۔؟ ایک آدمی محنت مزدوری کرکے روٹی کھاتا ہے، دوسرا چوری
کرتا ہے۔ پیٹ چوری کی روٹی سے بھی بھرتا ہے اور محنت مزدوری سے بھی۔ ایک کام کا رخ
شیطان کی طرف اور دوسرے کا اللہ رب العزت کی طرف ہے۔ آپ کون سا راستہ اختیار کریں
گے؟
زائرہ: محنت مزدوری
کرکے روٹی کھانے والا۔
O کیا چوری اور محنت
مزدوری کرکے روٹی کھانے میں فرق ہے؟
زائرہ: محنت کرکے روٹی
کھانے والے کے پاس سکون ہے جب کہ چوری کرکے کھانے والا بے سکون ہوگا۔
کیا یہاں موجود ہزاروں
افراد میں کوئی شخص کھڑا ہو کر یہ کہے گا کہ مجھے غم چاہئے، پریشانی چاہئے، الجھن
چاہئے، بیماریاں چاہئیں۔۔۔؟ اللہ تعالیٰ نے ہر شے کے دو رخ متعین کئے ہیں۔ وَمِنْ
کُلِّ شَئی خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ ۔ ایک آدمی اللہ کے لئے نماز پڑھتا ہے اور دوسرا
دکھاوے کے لئے کہ لوگ مجھے نیک سمجھیں۔ انصاف کیا کہتا ہے عدل کس کو ملنا چاہئے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زائر: علم الاسما کا
حامل انسان غلطی کیوں کرتا ہے، حقیقت اس پر روشن ہے پھر اپنے سے کم مرتبہ کی مخلوق
کے وسوسہ میں کیوں آگیا اور غلطی سرزد ہوگئی؟
O دیکھئے صرف انبیاء کرام
اور فرشتوں سے غلطی نہیں ہوتی۔ اولیاء اللہ سے بھی غلطی ہوتی ہے لیکن ان کا ضمیر
اتنا روشن ہوتا ہے کہ انہیں غلطی سے روک دیتا ہے۔ غلطی ہوجائے تو وہ روکر عاجزی سے
اللہ سے معافی مانگتے ہیں۔ ایک شخص چوری کرتا ہے اور اپنے عمل کو جائز ثابت کرنے
کے لئے کہتا ہے کہ کھانے کو نہیں ہے، میں غریب ہوں،جس کے یہاں چوری کی اس کے پاس
لاکھوں روپے ہیں، میری چوری سے اسے کیا فرق پڑا؟ سوال یہ ہے کہ چوری کرنے والے کے
گھر میں چوری ہوجائے تو کیا وہ اسے قبول کرے گا۔۔۔؟
زائر: قبول نہیں کرے
گا۔
O مطلب یہ ہوا کہ تابع
داری اور نافرمانی دو رخ ہیں۔ نافرمانی شیطانی طرزِ فکر ہے جب کہ فرماں برداری
اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کا طریقہ کار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زائرہ: آپ نے فرمایا کہ
آپ کو ہدایت دی گئی کہ آج کی نشست سوال و جواب پر مشتمل ہو۔ اس کی وضاحت
فرمادیجئے۔۔۔؟
O اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
کہ ہدایت میں دیتا ہوں۔
یَھْدِی اﷲُ
لِنُُوْرِہٖ مَنْ یَّشاءُ (النور: 35)
آدمی اللہ کی ہدایت سے
دیکھتا اور سنتا ہے۔ رب کائنات نے فرمایا ہے کہ شیطان مردود،ملعون اور باغی ہے، اس
کے اوپر ہم نے جتنی نعمتیں نازل کیں، اس نے سب کا کفران کیا۔
زائرہ: باباجی، شیطان
بھی تو اپنی ڈیوٹی کررہا ہے۔
O ٹھیک ہے چور بھی اپنی
ڈیوٹی کرتا ہے اسے سزا کیوں دیتے ہیں؟ ڈاکو قتل کردیتا ہے اس کو پھانسی کیوں دیتے
ہیں۔۔۔؟ زائرہ : تاکہ وہ برائی نہ پھیلائے۔
o کسی اور کے یہاں چوری
کی حیثیت آپ کے لئے خبر کی ہے۔ وہ تکلیف نہیں ہوتی جو اپنے گھر میں چوری سے ہوتی
ہے۔ مطلب یہ ہے کہ پیغمبروں کی تعلیمات کی انسپائریشن قبول کی جائے تو یہ اللہ کا
پسندیدہ راستہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زائر: میرا سوال یہ ہے
کہ آدمی اور انسان میں کیا فرق ہے؟
O سوال یہ ہے کہ آدمی اور
کتے میں کیا فرق ہے؟ کتے کو بھوک لگتی ہے کھانا کھاتا ہے، کتے رفع حاجت کرتے ہیں
اور آدمی بھی۔ کتا سوتا ہے، جاگتا ہے، کتے کو سکھایا جائے تو وہ سیکھ جاتا ہے۔
آدمی کو سکھایا نہ جائے، آدمی بھی نہیں سیکھتا۔ کتا پیدا ہوتا ہے، ہماری طرح جوان
ہوتا ہے، نسل پروان چڑھتی ہے اور مر بھی جاتا ہے۔ ہم میں اور کتے میں کوئی تو فرق
ہونا چاہئے نا۔۔۔؟
آدمی اور کتے میں کوئی
فرق نہیں ہے۔ آدمی کی ایک کیٹگری الگ ہے جس کو انسان کہتے ہیں۔ انسان کیٹگری
فرشتوں میں بھی نہیں ملتی۔ رب کائنات فرماتے ہیں،
’’انسان
ہماری بہترین صناعی ہے لیکن وہ اسفل سافلین میں پڑا ہوا ہے۔‘‘ (التین: 5-4)
آدمی کی فضیلت آدمی کی
وجہ سے نہیں۔۔۔ انسان ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اور انسانیت کیا ہے؟ انسانیت یہ ہے
کہ اللہ نے انبیائے کرام کے ذریعے زندگی کے جو اصول متعین کئے ہیں ہم اس کے مطابق
زندگی گزاریں۔ مثلاً تجارت بلیک مارکیٹنگ سے پاک ہو تو یہ انسانی اقدار کے مطابق
ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زائرہ: بتایا جاتا ہے
کہ روحانیت کی 23کلاسیں ہیں۔ پہلی، دوسری اور تیسری کلاس کے بارے میں راہ نمائی
فرمادیں؟
O پہلی کلاس ذہنی یک سوئی
حاصل کرنا ہے یعنی اِدھر اُدھر کے خیالات نہ آئیں۔ تجربہ یہ ہے کہ نماز میں خیالات
کی یلغار اتنی ہوتی ہے کہ ہم اللہ کے لئے یک سو نہیں ہوتے۔۔۔ ساری نماز ادا کرلیتے
ہیں اور السلام علیکم ورحمتہ اللہ۔ یاد نہیں ہوتا کہ ہم نے کیا پڑھا۔ اگر اسکول کا
سبق اس طرح پڑھیں تو کتنی دفعہ پاس یا فیل ہوں گے؟ زائرہ: پاس نہیں ہوں گے۔
O مطلب یہ ہے کہ زندگی کے
دو رخ ہیں۔ ایک رخ ذہنی یک سوئی کے ساتھ کوئی کام کرنا ہے۔ نماز پڑھتے وقت مقصد
اللہ کے حضور حاضری کے علاوہ کچھ نہ ہو۔ دوسرا شخص نماز میں حساب کتاب کررہا ہے،
گھر بنارہا ہے، غیبت کررہا ہے۔ یہ شیطانی طرز فکر ہوئی یا رحمانی؟
زائرہ: شیطانی طرزِ
فکر۔
O ماشاء اللہ کئی ہزار
خواتین و حضرات پنڈال میں موجود ہیں، کوئی ایک کھڑا ہوجائے کہ میں نماز پڑھتا ہوں
اور مجھے خیال نہیں آتا۔ پورے مجمع میں سے ایک فرد کھڑا ہوجائے۔
(خاموشی طاری تھی۔
ہزاروں افراد میں سے کوئی ایک شخص بھی کھڑا نہیں ہوا۔)
نیت کرتے ہیں کہ اللہ
اکبر۔۔۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اب اس کے علاوہ جو بھی خیال آئے گا، کیا خیال کو ترجیح
نہیں دی گئی ہے۔۔۔؟
زائرہ: بلاشبہ اللہ بڑا
ہے لیکن بدقسمتی سے ہم دانستہ یا نادانستہ دنیا کے خیال کو ترجیح دیتے ہیں۔
O جب ہم دفتر میں بیٹھے
ہیں، حساب کتاب کرتے ہیں، ڈرافٹ بناتے ہیں، اس وقت بے خیال کیوں نہیں ہوتے۔۔۔؟ اس
لئے کہ تنخواہ کٹ جائے گی، ملازمت سے نکال دیا جائے گا، خدانخواستہ بھوکا نہ مر
جاؤں۔ ماں کے پیٹ میں نو مہینے غذا ملتی ہے یا نہیں ملتی؟ اس کے بعد دودھ کا مرحلہ
آتا ہے۔ کیا تین سال بچہ کو ماں کے ذریعے کھانا نہیں ملتا۔۔۔؟
زائرہ: جی ہاں بچوں کو
کھانا ملتا ہے۔
O تین سال تک دودھ کی شکل
میں غذا نہ ملے کیا بچہ جوان ہوگا؟ زائرہ: نہیں ہوسکتا۔
O شادی کرے گا؟ زائرہ: جی
نہیں۔
O تین سال نشوونما کی
بنیاد ہیں اس میں ہمیں رزق ملا، بیس سال میں چار لفظ پڑھ کر ہم حساب کتاب کرتے ہیں
کہ پڑھیں گے نہیں تو روٹی کہاں سے کھائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں
فرمادیا ہے کہ ہم بے حساب رزق عطا فرماتے ہیں۔ کوئی حساب کرسکتا ہے کہ ہم کتنا
پانی پیتے ہیں، ہوا، آکسیجن، فروٹ، سبزی، دودھ ، گوشت کتنا استعمال ہوتا ہے۔۔۔؟
بارہ سال تک اللہ نے
بغیر مشقت کے روٹی دی، پانی دے کر تناور درخت بنایا۔۔۔ لیکن معاش کے حصول کے لئے
جدوجہد ضروری ہے۔ اگر معاش کا کام نہ ہو تو اعضا منجمد ہوجائیں گے۔ دماغ استعمال
نہیں ہوگا تو۔۔۔؟ بچہ سے بات نہ کریں، کیا وہ بات کرنا سیکھے گا؟ اس لئے نہیں بولے
گا کہ اللہ نے بولنے کی جو صلاحیت دی ہے اس کی نشوونما نہیں ہوئی۔ چلنا، پھرنا،
ورزش، محنت مزدوری کرنا اس سے روٹی نہیں ملتی۔ محنت مزدوری سے روٹی ملتی تو اربوں،
کھربوں جانور، بکریاں، بھیڑیں، گائے، بھینسیں، درخت، چوپائے، پرندے، حشرات الارض،
ایسی مخلوق جو نظر نہیں آتی جیسے بیکٹیریا ایک منٹ میں کئی ہزار اور ایک گھنٹے میں
لاکھوں بیکٹیریا پیدا ہوجاتے ہیں، ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ان کی پیدائش کس طرح
ہورہی ہے، سب کو غذا کہاں سے مل رہی ہے؟ مینڈک، مچھلیاں، پانی اور خشکی کی مخلوق،
فضائی اور زمین کے اندر کی مخلوق۔۔۔ اللہ ان سب کو بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔
روایت ہے کہ حضرت
سلیمانؑ نے اللہ تعالیٰ سے اجازت لے کر مخلوق کی دعوت کی۔ لاکھوں دیگیں تیار
ہوئیں۔ ایک مچھلی دعوت میں شریک ہونے کے لئے پانی سے نکلی۔ کھانا پیش کیا گیا،
جتنا کھانا پکایا گیا تھا مچھلی سب کھاگئی اور دیگر مہمانوں کے لئے کچھ نہیں بچا۔
حضرت سلیمانؑ نے پوچھا، کیا تیری اتنی خوراک ہے؟ مچھلی نے کہا، اللہ تعالیٰ مجھے
روز تین وقت کھلاتا ہے۔
دنیا میں محنت کی وجہ
جسم کو حرکت میں رکھنا ہے ورنہ جوڑ جم جاتے ہیں اور آدمی معذورہوجاتا ہے۔ جسم مشین
ہے، مشین نہ چلے تو زنگ آلود ہوجاتی ہے۔ تیل اور گریس ڈالنے سے مشین چلتی ہے۔
ہماری محنت اور حرکت جسم کے لئے گریس کے قائم مقام ہے۔
عظیمی صاحب نے مجمع میں
خواتین و حضرات ڈاکٹر صاحبان کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا،
ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ جائے
آپ نے ٹانگ اونچی کرکے باندھ دی۔ پٹی نہ باندھی جائے تو کیا وہ شخص چل سکتا ہے؟ ڈاکٹر
صاحب: وہ نہیں چلے گا۔
O چلنے سے زندگی میں
اضافہ ہوتا ہے۔ پانی کے بغیر کوئی کتنی دیر تک زندہ رہ سکتا ہے؟ کیا وینٹیلیٹر پر
رکھنے سے مریض کا زندہ ہونا ضروری ہے؟ کئی آوازیں ہال میں گونجیں۔۔۔ نہیں نہیں!
O وہ پھول کر سوج جاتا
ہے۔ بول وہ نہیں سکتا، سن وہ نہیں سکتا۔ سمجھ وہ نہیں سکتا، تکلیف کا اظہار وہ
نہیں کرسکتا، بالآخر وہ سانس قبول ہی نہیں کرتا۔
قادر مطلق اللہ نے ایک
نظام بنایا ہے۔ زمین کو اتنا نرم نہیں بنایا کہ پیر دھنس جائیں، اتنا سخت نہیں
بنایا کہ ٹھوکر کھا کر گریں۔۔۔ یہ سب اس لئے بنایا گیا ہے تاکہ مٹیریل باڈی
(زندگی) کو توانائی ملتی رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زائر: قرآن کریم میں
ارشاد ہے کہ اللہ کے دوستوں کو خوف اور غم نہیں ہوتا۔ تفکر سے میں نے یہ سمجھا ہے
کہ انجانے میں نقصان کے ڈر کو خوف کہتے ہیں اور اگر نقصان ہوجائے تو دکھ اور افسوس
کو غم کہتے ہیں۔ آپ اس بارے میں کیافرماتے ہیں؟
O قرآن کریم میں ارشاد
ہے، اللہ کے دوستوں کو نہ خوف ہوتا ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔ آیت کے مطابق جن لوگوں کو غم اور خوف ہے، کیا وہ اللہ
کے دوست ہیں؟ الا ان اولیاء اللہ۔۔۔ پس تحقیق اللہ کے دوست۔۔۔ لاخوف علیہم۔۔۔ خوف
نہیں ہوتا۔۔۔ ولا ھم یحزنون۔۔۔ اور نہ ان کو غم ہوتا ہے۔ یہاں کی اوسط زندگی اب 60
سال سے بھی کم ہوگئی ہے۔ اعراف کی زندگی کتنی ہے۔۔۔؟ ہابیل قابیل کے قصہ کو کتنے
لاکھوں سال ہوگئے، نہیں معلوم! زمانے گزرگئے ایک بھائی تکلیف میں ہے اور دوسرا
راحت میں۔ اگر آپ آگ میں ہاتھ ڈالیں گے تو کیا ہاتھ نہیں جلے گا۔۔۔؟ ہاتھ نہیں
ڈالیں گے تو آگ فائدہ پہنچائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال و جواب کے سلسلہ
کے بعد عظیمی صاحب نے زائرین سے فرمایا،
آپ دور دراز سے تشریف
لاتے ہیں، سال کے سال ملاقات کے بعد آپ خواتین و حضرات اپنے گھر میں بھی کتنے خوش
رہتے ہیں۔ جو کچھ یہاں بتایا جاتا ہے، اللہ رسول کے لئے اس پر عمل کرنے سے دنیا
بھی سنور جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے علوم کی طرف ذہن بھی متوجہ ہوجاتا ہے۔ اللہ
تعالیٰ نے رزق کا وعدہ خود فرمایا ہے۔ آپ کے پاس کروڑوں روپے ہوں لیکن گندم نہ
اگے، چاول نہ ہو، ہوا بند ہوجائے، آکسیجن ختم ہوجائے، سورج نہ نکلے، چاند کی
چاندنی نہ ہو تو کیا حشر ہوگا۔۔۔؟ رب العالمین کے انعامات کا شکریہ ہے کہ آدمی
اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے اصولوں پر عمل کرے۔ حدیث قدسی ہے:
’’میں چھپا ہوا خزانہ
تھا، میں نے محبت سے مخلوق کو تخلیق کیا تاکہ میں پہچانا جاؤں۔‘‘
خالق و مالک اللہ چاہتے
ہیں کہ میں نے محبت کے ساتھ مخلوق کو پیدا کیا ہے، اس کے اندر خود کو، ماحول،
چاند، سورج کو پہچاننے کی صلاحیت عطا فرمائی، اپنا دیدار کرایا پھر دنیا میں
بھیجا۔ اللہ تعالیٰ کو آپ نے جن آنکھوں سے دیکھا کیا وہ مادی آنکھ ہے۔۔۔؟ جو آنکھ
اللہ تعالیٰ کو دیکھتی ہے وہ کون سی ہے۔۔۔؟ رب العالمین فرماتے ہیں،
’’دل نے جو دیکھا جھوٹ
نہیں دیکھا۔‘‘ (النجم: 11)
دل سب سے اچھی آنکھ ہے
جو اللہ کو دیکھتی ہے۔ دل کی صفائی اس میں ہے کہ کوشش کی جائے زندگی کا ہر عمل
اللہ تعالیٰ اور رسول اللہؐ کے تابع ہو۔ غلطی پر اللہ سے معافی مانگ لی جائے۔ ہم
جس مقصد کے لئے یہاں آتے ہیں اللہ تعالیٰ اس مقصد کو پورا کرنے کی توفیق
عطافرمائے۔ اسباق کی پابندی کریں، مراقبہ کریں، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے وضو،
بغیر وضو یا حیی یا قیوم کا ورد کریں۔ مراقبہ کے لئے صبح کا وقت بہتر ہے اس وقت
ذہن یک سو ہوتا ہے۔ یک سوئی کے بغیر دنیا میں کوئی کام نہیں ہوتا۔ آپ تمام خواتین
و حضرات تشریف لائے، سفر کی صعوبتیں برداشت کیں، اللہ تعالیٰ آپ کو اجر عظیم عطا
فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مارچ 2018
خواجہ شمس الدين عظیمی
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔