Topics
ہم
قد آدم آئینے کے سامنے کھڑے ہیں اور اپنا عکس دیکھ رہے ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ ہم
آئینے میں صورت دیکھ رہے ہیں۔ یہ تصوراتی بات ہے۔ تصوف میں طرز فکر کے اوپر تفصیلی
بحث کی جاتی ہے۔ طرز فکر کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟ طرز فکر یہ ہے کہ جب آنکھیں بند ہوجاتی ہیں
تو آدمی کچھ نہیں دیکھتا لیکن دیکھتا ہے۔ دیکھنا یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم شے کو
دیکھ رہے ہیں جب کہ آدمی شے سے ہم کلام ہو تو شے یہ کہے گی کہ میں آدمی کو دیکھ
رہی ہوں۔
احباب
کرام! اس قانون کو سمجھئے کہ آدمی شے کو دیکھ رہا ہے یا شے ہمیں دیکھ رہی ہے یعنی ہم
شے کے دیکھنے کو دیکھ رہے ہیں۔۔۔۔۔؟ اگر آئینے میں شے کا عکس نہ ہو اور آئینے
کے اندر نقش و نگار تصویر نہ بنیں تو ہم کچھ نہیں دیکھتے۔ بتائیے ہم نے کیا دیکھا
اور کس کو دیکھا۔۔۔۔۔؟ جو دیکھا،کیا وہ دیکھنا ہے۔۔۔۔؟
کھانا
پینا،سونا جاگنا،زودرنج ہونا، فراخ دل ہونا یا جن حرکات و سکنات کو زمین پر زندگی
سمجھا جاتا ہے۔۔۔ سب اسی قانون کی پابند ہیں۔ آدمی سمجھتا ہے کہ وہ کھانا کھاتا ہے
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کھانا آدمی کو کھاتا ہے کیوں کہ آدمی مر جاتا ہے، اناج اور
پانی ختم نہیں ہوتے۔ گندم ہمیں اپنے اندر جذب کرتی ہے تو وقتی طور پر بھوک کی
تسکین ہوتی ہے۔ پانی رگوں میں سرایت نہ کرے، پیاس نہیں بجھتی۔ اسی طرح آئینہ ہماری
تصویر دیکھ کر اگر اپنے اندر جذب نہ کرے تو عکس نہیں بنتا۔
**----------------------------**
کھانا
اور پینا۔۔۔دونوں تقاضے ہیں۔ہماری طرح تقاضا بھی مخلوق ہے۔ ہمیں سیرابی کی ضرورت
ہے تو پیاس بھی بجھنا چاہتی ہے۔ پانی پینے سے ہمیں سیرابی اور پیاس کو تسکین ملتی
ہے۔ہم کھانا کھاتے ہیں،پانی پیتے ہیں لیکن ہمارے اندر بھوک اور پیاس کی تصویر نہ
ہو تو کھانے پینے کی طرف رغبت نہیں ہوگی۔ ہم کہتے ہیں کہ پیاس لگی، میں بھوکا ہوں،
سردی بہت ہے، گرمی زیادہ ہے۔۔۔۔یہ سب محسوس کرنا اس بات کی ضمانت ہے کہ بھوک ایک
زندگی ہے اور یہ زندگی اپنا وجود دیکھتی ہے۔ بھوکے آدمی کو کھانا نہ ملے، وہ بے
ہوش ہوسکتا ہے اور زیادہ وقت گزر جائے تو اس دنیا سے رخصت بھی ہو جاتا ہے۔ سوال یہ
ہے:
·
زندگی کیا ہے۔۔۔؟
·
زندگی اگر حرکت ہے تو حرکت کسی بیلٹ پر
قائم ہے۔حرکت کا سورس کیا ہے۔۔۔؟
·
حرکت کا سورس مظاہرہ ہے۔شے قدم بہ قدم سفر
طے کر کے، سفر چاہے 15 سیکنڈ کا ہو، نمایاں ہوتی ہے اور وجود سامنے آجاتا ہے۔ وجود
کیا ہے۔۔۔؟
**___________________
**
پروجیکٹر
سے لہریں نکلتی ہیں، لہروں میں نقوش نظر نہیں آتے۔جب یہ اسکرین سے ٹکراتی ہیں اور
ٹکرا کر پھیلتی ہیں تو پوری تصویر سامنے آجاتی ہے۔
قارئین!
ٹھہرئیے۔غور کیجئے فلم سے ایک لہر ظاہر ہوئی،روشنی کے دوش پر رفتار کے ساتھ خلا سے
گزر کر اسکرین سے ٹکرائی۔ یہی لہر یا لہریں جب اسکرین سے ٹکراتی ہیں تو شکل و صورت
کے ساتھ مظاہرہ ہوتا ہے۔ آدمی چلتا پھرتا ہے، کھاتا پیتا ہے، ظاہر ہوتا ہے، غیب
ہوتا ہے،بچہ بوڑھا ہوجاتا ہے اور بوڑھا رخصت بھی ہو جاتا ہے۔ اس سارے عمل کے بعد
اسکرین خالی نظر آتی ہے۔وہاں تصویر ہوتی ہے نہ تصویر کے خدوخال ظاہر ہوتے ہیں۔
اس Mechanism کو
ایک با ر پھر پڑھے۔
فلم
میں تصویر کا عکس منتقل ہوا۔ عکس پر روشنی کی لہر نے مظاہرہ کیا تو لہر ایک مخصوص
فاصلےپر دائرے (سوراخ) میں سے گزری اور اس محیط دائرے سے پھیل کر باہر آگئی۔ یہ
پھیلاؤ اسکرین کے مطابق منعکس ہوا۔ ناظرین سمجھتے ہیں کہ ہم اسکرین پر چلتی پھرتی
تصویر دیکھ رہے ہیں۔تصویر کھاتی ہے، روتی ہے، خوش ہوتی ہے اور دلہن کا روپ بھی
اختیار کر لیتی ہے لیکن سارے لوازمات ہونے کےباوجود اگر بجلی (لہریں) موجود نہ ہو
اور پروجیکٹر سے شعاع نہ نکلے تو پھر اسکرین پر تصویر نظر نہیں آتی۔
کیا
آپ سمجھے یہ کس قانون کی نشان دہی ہے۔؟ سب لوازمات ہونے کے باوجود اگر شعاع نہ ہو
تو یہ سارا عمل، زندگی یا وہ لہر جس کےدوش پر جیتے مرتے، کھاتے پیتے، ظاہر ہوتے
اور غیب ہو جاتے ہیں، ہم اس لہر کو نہیں دیکھتے۔
**___________________
**
زندگی
تقاضے ہیں۔ کیا آدمی اس بات کی وضاحت کر سکتا ہے کہ
٭بھوک
کیا ہے۔؟
٭
کیا تقاضے پیدا ہونے کے باوجود ہمیں بھوک نظر آتی ہے۔؟
٭
کیا ہم پیاس کو دیکھتے ہیں اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ پیاس کہاں لگتی ہے۔؟
بھوک
اور پیاس کے تاثرات قائم ہو جاتے ہیں لیکن نظر نہیں آتے۔ قانون یہ ہے کہ جب تک کسی
شے کا خیال نہ آئے، مظاہرہ نہیں ہوتا۔ ہر آدمی پر ایسا وقت ضرور آتا ہے کہ آنکھیں
اور دماغ ہونے کے باوجود سب خالی
(blank)
ہیں۔ آنکھیں کھلی ہوئی ہیں، ہدف غائب ہے، تقاضا
موجود ہے لیکن تقاضے کی تکمیل ہونا نہ ہونا۔۔مخفی ہے۔
خواتین و حضرات! بتائیے شے موجود ہے، بھوک کا تقاضا بھی محسوس ہو رہا ہے لیکن
نظر کیوں نہیں آرہا۔۔؟ اسی طرح کھانا موجود ہے لیکن ذہن میں بھوک کی جو تصویر بن
رہی ہے وہ اتنی دھندلی ہے کہ عکس دھند کے دبیز پرتوں میں چھپ گیا ہے۔ لہذا کھانا
سامنےہوتے ہوئے بھوک کا تقاضا پیدا نہیں ہوتا۔ بے خبری کی کیفیت کے بعد جب ذہن
بھوک کی طرف مائل ہوتا ہے تو آپ کھانا کھاتے ہیں، سو جاتے ہیں، سونے کے بعد بھی
تقاضے (بھوک) موجود ہوتے ہیں اور تسکین ملتی ہے۔
**___________________
**
جب
جسم کی حرکت عارضی طور پر معطل ہوتی ہے تو شعور معنی نہیں پہناتا، آدمی کے اوپر
نیند غالب آجاتی ہے۔ جسم بظاہر بے جان نظر آتا ہے کیوں کہ جسمانی وجود کی حرکات و
سکنات متحرک (active) نہیں ہیں۔
سونا
ایسا عمل ہے کہ شعور ہونے کے باوجود شعوری سرگرمیاں نظر نہیں آتیں مگر غور کیجئے
سونے کی حالت میں اسپیس مغلوب ہو جاتی ہے، فاصلے سمٹ جاتے ہیں، ایک سال کا سفر ایک
منٹ میں پوراہو جاتا ہے، غفلت کی حالت میں ہم بہترین کھانا کھاتے ہیں، کھانے میں
مز عفر بھی ہوتا ہے۔ نیند کی دینا سے ہم بیداری کی دینا میں واپس آتے ہیں تو ہمیں یاد ہے کہ ہم نے بہت اچھا کھانا
کھایا ہے۔ غیر اختیاری طور پر ہاتھ اوپر اٹھتا ہے اور ناک خوش بو سونگھتی ہے۔
انتہا یہ ہے کہ اگر ہمارے ساتھ کوئی بیٹھا ہے اور ہم اپنی انگلیاں اس کے سامنے کر
دیں تو اسے بھی کھانے کی خوش بو آتی ہے۔
اسی
طرح نیند کی حالت میں دہشت ناک واقعہ پیش آئے تو آدمی ڈر جاتا ہے، دل کی حرکت تیز
ہو جاتی ہے،جسم پسینے میں شرابور ہو جاتا ہے، وہ گھبرا کر آنکھیں کھول دیتا ہے،گھر
والے پریشان ہو کر اس کے پاس جاتے ہیں،
پانی پلاتے ہیں، تسلی دیتے ہیں کہ کچھ نہیں ہوا تم نے خوف ناک منظر دیکھا ہے۔۔
ایسا نظارہ کیا ہے جو پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔
سوال
یہ ہے کہ جاگنے کے بعد وہ نظارے کہاں گئے اور سونے کو بعد اس عالم میں بیداری کی
دنیا یاد کیوں نہیں رہتی۔۔؟
**___________________
**
نیند
اور بیداری ایسی کیفیات ہیں کہ دونوں میں فرد تاثرات کے تحت زندگی گزارتا ہے۔ بھوک
اور پیاس کا تقاضا نظر نہیں آتا، تاثرات کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ خوشی اور غم
نظر نہیں آتے لیکن ان کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ بیداری میں نیند کی دینا کا تاثر
رہتا ہے اور نیند میں فرد بیداری کے اثرات کے تحت وقت گزارتا ہے۔ اسے رشتے یاد
نہیں ہوتے لیکن جب سامنے آتے ہیں یا ان کا خیال آتا ہے تو حافظہ بتاتا ہے کہ یہ
اماں ہیں، یہ ابا ہیں، یہ بہن بھائی، دوست احباب اور دیگر رشتہ دار ہیں۔
نیند
کی دنیا دل چسپ ہے۔اجنبی سے ملاقات ہو جس کو ہم بیداری میں نہیں جانتے تو اجنبیت محسوس
نہیں ہوتی، رشتہ داری کا خیال نہیں آتا، ہم اس سے معمول کی طرح بات کرتے ہیں مگر۔۔
جب جاگتے ہیں تو فورا کہہ دیتے ہیں کہ ایک شخص تھا، میں نہیں جانتا۔
نیند
اور بیداری میں خیال کی یاددہانی پر رشتوں کا محسوس ہونا کیا ہے۔۔؟
صوفی
شاعر خواجہ میر دردؔ ؒ فرماتے
ہیں،
وائے نادانی کہ وقتِ مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا
"آج کی بات" غور سے پڑھئے اور
بتائیے کہ قدِ آدم آئینے کے سامنے آئینے نے آپ کو کیا دکھایا اور آپ نے کیا
دیکھا۔۔۔؟ جو دیکھا اور نہیں دیکھا، لکھ کر بھیج دیجئے۔
__________
مزعفر ۔ ۔۔۔ زعفرانی زردہ
خواجہ شمس الدين عظیمی
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔