Topics
کبھی سوچا ہے کہ
زندگی کیا ہے۔زندگی کا مظاہرہ حرکات و سکنات سے ہوتا ہے۔ کائنات میں ہر شے اظہارِ
خیال کرتی ہے لیکن وہ کیا کہتی ہے اور ہم کیا سمجھتے ہیں، اس میں اختلاف ہے۔ ہم
کہتے ہیں کہ یہ باغ ہے جب کہ باغ کیا ہے، ہم نہیں جانتے۔ قانون یہ ہے کہ فرد باغ
کو دیکھتا ہے تو یہ دیکھنا براہ ِ راست نہیں۔ اندر میں باغ کا عکس بنتا ہے اور وہ
عکس کے دیکھنے کو دیکھتا ہے۔ تفکر نشان دہی ہے کہ پیدائش کی طرح موت اور موت کے
بعد حرکت زندگی ہے۔ زندگی نشیب و فراز اور اطلاع پر قائم ہے۔ اطلاع شے کو مسلسل
اپنے ہونے کا احساس ، رشتے ناتے، گزرے ہوئے ماہ و سال اور ماحول سے تعلق کی یاد
دہانی کرواتی ہے۔ جس لمحے تکرار رکتی ہے ، شے ناقابلِ تذکرہ ہو جاتی ہے۔
فرد نہیں
سوچتا کہ شے کیوں نظر آتی ہے، کیوں نظر نہیں آتی ، کب نظر آتی ہے اور وہ اسے کہاں
دیکھتا ہے۔ وہ کہتا ضرور ہے کہ ذہن میں خیال آیا، میں نے تصور کیا ، بھول گیا تھا،
یا آیا، کسی نے متوجہ کیا۔۔۔۔ اس جیسے متعدد جملے زبان سے ادا ہوتے ہیں مگر کہنے
والا غور نہیں کرتا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ وہ انجانے میں اس حقیقت کو دہراتا ہے
کہ ” لاشعور میں ریکارڈ شے اطلاع کے ذریعے شعور میں داخل ہوتی ہے، میں دستک پر
متوجہ ہو کر لاشعوری یادداشت کو ذہن کی اسکرین پر دیکھتا ہوں۔“
اطلاع کیا
ہے۔۔۔؟ شے کے ہونے نہ ہونے یعنی یادداشت سے واقفیت کا ذریعہ ہے۔کائنات میں
جو کچھ ہے ، قدرت نے اس کا علم ہمارے حافظے میں محفوظ کر دیا ہے۔ لاشعور سے خبر
آتی ہے اور ذہن میں محفوظ شے کی یادداشت کو بیدار کرتی ہے ۔ ہم یاد داشت کی بنیاد
پر سنتے ہیں، چیزوں کو دیکھتے ہیں، جذبات محسوس کرتے ہیں اور ان کا اظہار ہوتا ہے۔
مفہوم یہ ہے کہ زندگی حواس پر قائم ہے اور حواس کی ساری کارکردگی یاد داشت سے ربط
ہے اور یہ ربط اطلاع ، تفکر یا فکر کے ذریعے متحرک ہے۔
ابدالِ حق
حضور قلندر بابا اولیا ؒ لکھتے ہیں کہ شہنشاہ ہفت اقلیم ۔۔۔ نانا تاج الدین ناگپوری
ؒ نے فرمایا ہے،
” نگاہ محض
ایک گونگا ہیولیٰ ہے۔ فکر ہی کے ذریعے تجربات عمل میں آتے ہیں۔ تم نگاہ کو تمام
حواس
پر
قیاس کر لو، سب کے سب گونگے ، بہرے اور اندھے ہیں۔ تفکر ہی حواس کو سماعت اور
بصارت
دیتا
ہے۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ حواس تفکر سے الگ کوئی چیز ہے حالاں کہ تفکر سے الگ ان کا
کوئی وجود
نہیں
ہے۔ انسان محض تفکر ہے، فرشتہ محض تفکر ہے، جن محض تفکر ہے۔ علیٰ ہذا القیاس ، ہر
ذی
ہوش
تفکر ہے۔۔۔“
**----------------------------**
ذہن کے
نہاں خانوں میں دیکھا جائے تو اطلاع ، یادداشت ، فکر یا تفکر ایک ہی عمل کے مختلف
نام ہیں۔ سوال یہ ہے کہ،
۱۔ جب ہر
شے ذہن میں موجود ہے پھر یاد دہانی کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟
۲۔ جب تک
وہ شے یاد نہ آئے ، اس کی موجودگی کا احساس کیوں نہیں ہوتا؟
زندگی خود
مختار نہیں، ہر معاملے میں ذاتِ باری تعالیٰ کے حکم کی پابند ہے۔ فرد نے شعور میں
انے سے پہلے زندگی لاشعور میں گزاری ہے جہاں اسے اندر موجود صلاحیتوں اور صفات کا
علم تھا۔ اس دنیا میں آنے کے بعد یہ علم پردے میں چلا گیا اور وہ اصل سے دور ہو
گیا۔ اطلاع جہاں اصل سے دوری کا اظہار ہے وہاں لاشعوری یادداشت کی بحالی کا عمل
بھی ہے۔ یادداشت بحال ہو جائے تو دوری ختم ہو جاتی ہے۔
یادداشت
پوری زندگی پر محیط ہے۔ یادداشت سے ربط کے بغیر کوئی ایک قدم نہیں اٹھا سکتا۔ فرد
تحقیق کرتا ہے تو دراصل وہ پہلے موجود شے کو تلاش کرتا ہے۔ باالفاظ دیگر وہ کائنات
میں اس شے کی یاد داشت سے ربط جوڑتا ہے۔
· تحقیق و تلاش میں سرچ انجن کی بہت اہمیت ہے۔ یہ یادداشت سے
کام لینے کا علم ہے۔ محققین نے جتنے سرچ انجن بنائے ہیں ، ذہن کے میکانزم کی نقل
ہیں۔
· اسکول کی تعلیم کا عرصہ شمار کریں تو کم و بیش 16 سال میں
فرد پائلٹ بنتا ہے۔ پائلٹ بننے کا مطلب ہے کہ 16 سال کی اطلاع ذہن میں یادداشت بن
جاتی ہے۔ اگر 16 سال بھول کے خانے میں چلے جائیں یا پائلٹ کی یادداشت کھو جائے تو
وہ جہاز نہیں اڑا سکتا۔ کیا اب ہم اس کو پائلٹ کہیں گے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو یہ
الوژن طرزِ بیان ہے کیوں کہ جس علم کی بنیاد پر وہ پائلٹ بنا ہے ، وہ علم بھول کے
خانے میں چلا گیا ہے۔
· دنیا کہتی ہے کہ خون کے رشتے گہرے ہوتے ہیں۔ قابلِ غور ہے
کہ جب حادثے میں یادداشت متاثر ہوتی ہے تو جن رشتوں کے ساتھ زندگی گزری، فرد ان کو
نہیں پہچانتا۔ پہچان کا تعلق یادداشت سے ہے۔ گھر والے واقعات یاد دلاتے ہیں، ماضی
کی تصویریں دکھاتے ہیں مگر وہ حیران نظروں سے کبھی تصویروں کو اور کبھی گھر والوں
کو دیکھتا ہے۔ یادداشت متاثر ہونے پر فرد کو رشتے یاد کیوں نہیں رہتے؟
· آدمی انتقام میں رشتوں کا لحاظ بھول جاتا ہے اور نقصان
پہنچاتا ہے۔ آگ بجھتی ہے تو سر پر خاک مل کر روتا ہے کہ مجھے رشتے یاد کیوں نہ
رہے۔
· خواب میں ہم بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ می
نے اجنبی کو دیکھا، نہیں جانتا کہ وہ کون ہے اور مجھے کیوں نظر آیا۔۔ قارئین ۔۔
فرد پوری کائنات سے ہم رشتہ ہے۔ جس کو ہم نے خواب میں دیکھا اور اجنبی کہا، وہ اسی
کائنات میں کہیں موجود ہے۔ اجنبی سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس شخص سے ہمارا تعلق
بھول کے خانے میں چلا گیا ہے۔
**----------------------------**
یادداشت کیا ہے؟ ماضی کا ریکارڈ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کُن فرمایا تو
ارادے میں موجود کائناتی پروگرام نوعوں کے حافظے میں منتقل ہو گیا۔ اطلاع کسی نئی
شے کے بارے میں نہیں ہوتی، وہ ہمارے حافظے میں موجود چیزوں کو سامنے لا کر متوجہ
کرتی ہے کہ ماضی سے رجوع کرو۔۔۔ وہ ماضی جو کائناتی ریکارڈ کی شکل میں محفوظ ہے۔
اللہ نے نوعِ آدم کو احسنِ تقویم بنایا ہے اور کُن کے مکمل پروگرام سے واقف ہونے
کی سلاحیت عطا کی ہے، جتنا اللہ نے چاہا۔ مگر نوعِ آدم کے بیش تر افراد الہامی
تعلیمات سے دوری کی وجہ سے یادداشت کھو چکے ہیں۔
ہر دن ماضی سے دوری ہے لیکن یہ دوری زیادہ
دیر برقرار نہیں رہتی۔ فرد جہاں سے آیا ہے بالآخر وہاں لوٹ جاتا ہے۔ آنے جانے
میں فرق یہ ہے کہ آتے ہوئے جو علم یادداشت میں تھا، جاتے ہوئے بھول کے خانے میں
چلا گیا ہے۔ یعنی روشنی کے جہان سے انے والا جب روشنی کے جہان میں لوٹتا ہے تو
وہاں اس کو روشنی نظر نہیں آتی، یادداشت سے ربط نہ ہونے کی وجہ سے وہ اِس جہان کی
طرح اُس جہان میں بھی کچھ نہیں دیکھتا۔
” او ر جو اس دنیا میں اندھا بن کر رہا، وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا بلکہ
راستہ پانے میں اندھے سے بھی
زیادہ ناکام۔“ (بنی اسرائیل : ۷۲)
خواتین و حضرات قارئین! قانون کی ایک شق آپ نے پڑھی۔ تلاش کیجیے کہ اس تحریر
میں قرآن کریم کی کتنی آیات کا مفہوم بیان کیا گیا ہے۔ ان کی نشاندہی کیجیئے اور
ادارے کو بھیج دیجیئے۔
اللہ
حافظ
خواجہ شمس الدين عظیمی
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔