غیب ,ظاہر ,غیب - ماہنامہ قلندر شعور ۔دسمبر 2018
اندر کی دنیا میں وقت اور فاصلہ باہر کی دنیا سے الگ ہے۔ نگاہ اس وقت دیکھتی ہے جب اندر اور باہر میں فاصلہ ہو۔ اندر میں دنیا کیا ہے۔۔۔؟ وہی کچھ ہے جسے ہم باہر دیکھتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم باہر نہیں اندر دیکھتے ہیں ۔ جب تک باہر موجود شے کا عکس اندر منعکس نہ ہو۔۔۔ آنکھ نہیں دیکھتی۔ جس کو ہم باہر دیکھنا سمجھتے ہیں وہ دراصل کسی شے سے الگ ہو کر اسے دیکھنا ہے۔ شے ہمارے اندر ہے۔ فاصلہ پیدا ہوا تو ہم نے کہا کہ یہ باہر ہے۔
دیکھنا اس وقت ممکن ہے جب دو وجود ایک دوسرے سے الگ ہوں۔ دور ہونے والی شے سے وقوف میں جو وقت لگتا ہے وہ فرد کا ٹائم اور اسپیس ہے۔ تفکر کی مناسبت سے ہر فرد کے فہم کی رفتار مختلف ہے۔ وقت مشہود (جسے دیکھا جائے) کے مطابق ہو تو شاہد، مشہود اور مشاہدہ ایک ہے یعنی آدمی شے سے اس وقت واقف ہوا جب دیکھنے والا اور جس کو دیکھا جارہا ہے، ان کی مقدار ایک ہو ورنہ دیکھنا معتبر نہیں۔ ایسے میں جو دیکھا، ذہن کے دیکھنے کو دیکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذہن کے دیکھنے کو دیکھنا اور شے کو دیکھنا۔۔۔ الگ بات ہے۔
۱۔ پہلی طرز ماحول کے تابع ہے ۲۔ شے کو دیکھنا۔۔۔ ماحول سے آزاد ذہن ہے۔
* پوچھا جائے کہ’’ٹپہ‘‘ کیا ہے۔۔۔؟ پشتو سے ناواقف کے ذہن میں تصویر نہیں بنتی۔
* سوال ہو کہ ’’لیل‘‘ کسے کہتے ہیں۔۔۔؟ عربی نہ سمجھنے والے کے ذہن میں عکس نہیں بنے گا۔
* پوچھا جائے کہ "night" کیا ہے۔۔۔؟ انگریزی سے لاعلم خاموش رہتا ہے۔
* اگر کہا جائے۔۔۔ رات ! اردو سمجھنے والے کے ذہن میں اندھیرا روشن ہوگا۔
اندھیرا روشن ہونا۔۔۔ تصویر بننا ہے۔۔۔ تصویر۔۔۔تعارف کے مطابق بنتی ہے۔ وہ تعارف جو فرد کو ماحول سے منتقل ہوا ہے۔ ٹپہ، لیل اور night کی طرح جو شخص لفظ ’’رات‘‘ سے واقف ہے اس کے ذہن میں رات کا منتقل ہونے والا عکس حقیقت سے دور ہے۔ کیوں کہ جب یہی لفظ تین مختلف زبانوں میں دہرایا گیا تو ذہن کی اسکرین پر رات کی تصویر نہیں بنی۔
ہم نام سے واقف ہیں، شے سے نہیں۔ نام کی روشنی میں شے کو دیکھتے ہیں جب کہ نام ہم نے خود رکھے ہیں۔ جس شے کا نام رات یا دن رکھا گیا ہے، وہ کیا ہے ، ہمیں نہیں معلوم۔ یہی دیگر اشیا اور ان کے رکھے گئے ناموں کی حقیقت ہے۔ نام میں تغیر ہے لیکن رات اور دن حقیقت میں کیا ہیں، اس میں تغیر نہیں۔ خالق کائنات فرماتے ہیں۔
’’اللہ رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں۔۔۔ بے جان میں جان دار کو نکالتا ہے اور جان دار میں سے بے جان کو اور جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔‘‘ (آل عمران : ۲۷)
فرد حقیقت سے دور ہو تو اس کا ٹائم اور اسپیس فہم کے مطابق ہے۔ ایک وجود کے متعدد نام اور نام کو وجود سمجھنے سے ٹائم اور اسپیس فہم کے مطابق ہے۔ ایک وجود کے متعدد نام اور نام کو وجود سمجھنے سے ٹائم اور اسپیس تبدیل ہوتے ہیں جب کہ تبدیل نہیں ہوتے۔ کیوں کہ وجود بذات خود جس ٹائم اور اسپیس میں موجود ہے، وہاں تبدیلی نہیں۔ باالفاظ دیگروقت اور فاصلہ کیا ہے۔۔۔؟ ہم اس میں رہتے ہوئے بھی اس سے لاعلم ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درویش نے نظر کا قانون سمجھاتے ہوئے نوجوان سے پوچھا، ’’شے ہمیں کب نظر آتی ہے؟‘‘
عرض کیا، ’’جب وہ ہمارے سامنے ہوتی ہے۔‘‘
’’تمہارے سامنے ایسا بہت کچھ ہے جو میں دیکھ رہا ہوں لیکن تم نہیں دیکھ رہے۔ یہ میرے سوال کا جواب نہیں۔ یہ بتاؤ شے ہمیں کب نظر آتی ہے۔۔۔؟‘‘
’’جب ہم اس کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔‘‘
’’متوجہ کس وقت ہوتے ہیں؟‘‘
’’جب نظر ٹھہرتی ہے اور ذہن میں تصویر بنتی ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ تصویر کو تم نے کب دیکھا۔۔۔؟‘‘
نوجوان خاموش ہوگیا کہ ابھی تو جواب دیا تھا متوجہ ہونے سے تصویر نظر آتی ہے۔ پھر سوال دہرانے کا مطلب کیا ہے۔۔۔؟ کیا وہ بنیادی نکتہ کو نظرانداز کررہا ہے۔۔۔؟
پھر سوال ہوا، ’’کیا ہم ایک ساتھ دو اشیا دیکھ سکتے ہیں؟‘‘ نوجوان نے سر نفی میں ہلایا۔
درویش نے گمبھیر لہجے میں پوچھا، ’’کیوں نہیں دیکھ سکتے۔۔۔؟‘‘
’’جناب ! دیکھنے کے لئے نظر کا ٹھہرنا ضروری ہے۔ نظر ٹھہرجائے تو اس ایک شے میں سب نظر آجاتا ہے۔ اگر چیزوں کو ایک دوسرے سے الگ سمجھیں تو ایک وقت میں دو کو نہیں، دیکھ کو دیکھیں گے۔‘‘
درویش نے پوچھا ’’کیا سمجھے، اس میں کیا راز مخفی ہے۔۔۔؟‘‘
مؤدبانہ عرض کیا، ’’ہم ایک وقت میں ایک کو دیکھتے ہیں۔‘‘
درویش نے کتاب کی طرف اشارہ کیا، ’’جب تم نے کتاب کو دیکھا تو کیا اس وقت خود کو دیکھا؟‘‘
نوجوان نے کچھ دیر سوچنے کے بعد سر نفی میں ہلایا۔
درویش نے الفاظ پر زور دیتے ہوئے پوچھا، ’’پھر شے ہمیں کب نظر آتی ہے۔۔۔؟‘‘
گہرے غور و خوض میں گم نوجوان نے جواب دیا۔ ’’جب ہم خود کو نہیں دیکھتے۔‘‘
درویش نے مسکراتے ہوئے پوچھا، ’’دیکھنے کا قانون کیا ہوا۔۔۔؟‘‘
نوجوان نے عرض کیا، ’’ہم کسی کو اس وقت دیکھتے ہیں جب خود کو نہیں دیکھتے۔‘‘
درویش نے ٹھہرے ہوئے لہجہ میں مگر تاسف سے فرمایا، ’’دنیا میں کسی بھی شے کو دیکھنے کا یہی قانون ہے لیکن جب اللہ کا معاملہ آتا ہے تو ہم خود کو دیکھتے ہیں، اس لئے اللہ نظر نہیں آتا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک وجود کی روشنی میں دوسرے وجود کو دیکھنے سے حقیقت پس پردہ چلی جاتی ہے۔ ہم دن کو رات اور رات کو دن کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ زمین کو آسمان اور آسمان کو زمین کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک سورج کا تعارف چاند اور چاند کا سورج ہے۔ مرد کو دیکھتے ہوئے ذہن میں عورت اور عورت کو دیکھتے ہوئے ذہن میں مرد کے نقوش ابھرتے ہیں۔ روشنی کی پہچان اندھیرا اور اندھیرے کی پہچان روشنی سے ہے۔ ہم رات سے واقف ہیں نہ دن سے، زمین سے نہ آسمان سے، سورج سے نہ چاند سے، مرد سے نہ عورت سے، اندھیرے سے نہ روشنی سے، نہ خیال اور اس کے ماخذ (source) سے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہم واقف ہیں۔ ماحول نے جو علم دیا ہے، اس کی روشنی میں چیزوں کو دیکھتے ہیں۔ چیزیں خود کیا ہیں، ہمیں نہیں معلوم، کیا یہ دیکھنا حقیقت ہے۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قابل قدر دوستو! ’’آج کی بات‘‘ کا خلاصہ پڑھیے:
قانون : فاصلہ پیدا ہونا انفرادیت کا تعین ہے۔ فاصلہ نہ ہو تو شے نظر نہیں آتی،
قطرہ سمندر میں موجود لیکن مغلوب ہے۔ قطرہ کی شناخت سمندر سے باہر ہے، سمندر کے اندر وہ قطرہ نہیں۔۔۔ سمندر ہے۔ جب تک قطرہ سمندر سے جدا نہیں ہو، نظر نہیں آتا۔ جدا ہو کر بھی وہ سمندر کا حصہ ہے، اس میں سمندر کے خواص موجود ہیں لیکن ہم سمندر اور قطرہ کے درمیان اسپیس کی وجہ سے دونوں کو ایک دوسرے سے الگ سمجھتے ہیں۔
اسی طرح پتھر جب تک پہاڑ سے علیحدہ نہیں ہوتا۔۔۔ پہاڑ ہے۔ تقسیم ہوتا ہے تو ٹکڑوں کو ہم پتھر کہتے ہیں۔ جب کہ پتھر حقیقت پہاڑ اور پہاڑ کی بنیاد ذرہ ہے۔ پتھر کو اصل کے پس منظر میں دیکھیں تو پہاڑ ہے اور اصل سے توجہ ہٹا کر دیکھیں تو پتھر ہے۔
’’تم دیکھ رہے ہو کہ پہاڑ جمے ہوئے ہیں، یہ جمے ہوئے نہیں، بادلوں کی طرح اڑ رہے ہیں۔‘‘ (النمل : ۸۸)
پتھر کو دیکھ کر پہاڑ کا۔۔۔ اور پہاڑ کو دیکھ کر پتھر کا خیال نہیں آتا۔
اس ایک جملہ میں طرز فکر کے دو رخوں کا بیان ہے۔
پھول تنے کے اندر ہو تو پودا ہے، فاصلہ پیدا ہونے سے پھول بن جاتا ہے۔ فرد پودے کو الگ اور پھول کو الگ سمجھتا ہے جب کہ پھول اس وقت تک پھول ہے جب تک شاخ سے منسلک ہے۔ پھول، تنے، پتوں اور پتیوں کا نکلنا دراصل پودے کا ٹکڑوں میں ظاہر ہونا ہے۔
رنگوں کا آمیزہ خاکی ہے۔ رنگ جب تک زمین کے اندر ہیں، آنکھ ان کو نہیں دیکھتی۔ مٹی کو دیکھ کر رنگوں کی طرف ذہن نہیں جاتا اور رنگوں میں متوجہ ہونے سے مٹی کی حیثیت ثانوی ہوجاتی ہے جب کہ ایسا نہیں ہے۔ رات اور دن زمان و مکان کو سمجھنے کی دو طرزیں ہیں۔ توجہ مکان پر ہو تو دن ظاہر ہوتا ہے اور توجہ زمان پر ہو تو رات بن جاتی ہے مگر۔۔۔ زمان اور مکان تبدیل نہیں ہوتے۔ تغیر کا تعلق توجہ سے ہے۔ فرد جس شے پر یک سو ہوتا ہے ، وہ نمایاں ہوجاتی ہے۔
قانون: اصل سے وصل، شناخت کا مغلوب ہونا اور اصل سے دوری انفرادیت ہے۔
ہر شے ایک دوسرے سے ربط میں اور ہمارے اندر موجود ہے۔ جو ذرات پہاڑ میں ہیں، وہ نوع آدم، جنات، حیوانات، نباتات اور دیگر مخلوقات میں بھی ہیں اسی لئے ایک نوع کا فرد دوسری نوع کو پہچانتا ہے لیکن انفرادیت کے احساس کی وجہ سے ہم ان کو خود سے الگ سمجھتے ہیں۔ جب ’’میں‘‘ مغلوب ہوتی ہے تو حقیقت کھلتی ہے اور فرد سمندر بن جاتا ہے۔
گرامی قدر قارئین! آدمی ۔۔۔ کے اندر انسان دو راستوں الوژن (فریب نظر) اور حقیقت(reality) کا مسافر ہے۔ اداریہ میں انہی دو رخوں میں بیان کیا گیا ہے کہ تغیر۔۔۔ مسلسل تغیر۔۔۔ تغیر میں تغیر یعنی شے دو رخوں پر قائم ہے۔ غیب و شہود، ظاہر ہونا، چھپنا، پھیلنا، سمٹنا، ظاہر اور غیب ہونا، غیب سے ظاہر ہونا اور ظاہر، غیب میں چھپ جانا۔ چھپ جانے پر دنیا کا قیام ہے۔
تفکر سے اس تحریر کو سمجھئے۔ جو بات وضاحت طلب ہو، آپ ادارہ کو لکھ سکتے ہیں۔
اللہ حافظ
خواجہ شمس الدین عظیمی
دسمبر 2018