Topics
رات اور دن زندگی کی دو
طرزیں ہیں۔ دن میں مخلوق جاگتی ہے اور رات میں سوجاتی ہے لیکن نہیں سوتی۔ ہر مخلوق
کے رات اور دن کے اوقات الگ ہیں۔ واضح ہوتا ہے کہ جس کو ہم رات کہتے ہیں، رات وہ نہیں۔۔۔
اور جس کو ہم دن سمجھتے ہیں۔۔۔ دن نہیں ہے۔
رات اور دن۔۔۔حواس کو
پڑھنے کی دوطرزیں ہیں۔۔۔حواس ایک ہیں۔
رات سے نیند اور دن سے
بیداری منسوب ہے۔ پردہ کے اس پار جب فرد جاگتا ہے تو وہ یہ بھول جاتا ہے کہ میں
سورہا ہوں کیوں کہ بیداری کی طرح نیند میں زندگی کے تقاضے قائم رہتے ہیں اور ان
میں تعطل نہیں ہوتا۔ آدمی چلتا پھرتا ہے، باتیں کرتا ہے، سوچتا ہے، خوشی و غم کی
کیفیت سے گزرتا ہے، کھاتا پیتا ہے یہاں تک کہ خود کو سوتے ہوئے بھی دیکھتا ہے اور
اس دوران نیند کی دنیا سے پہلے کے عالمین کا مشاہدہ کرتا ہے یعنی خواب میں خواب
دیکھنا۔
توجہ طلب ہے کہ ہم نیند
کس کو کہتے ہیں اور سونے کے بعد خود کو حرکت میں دیکھنا کیا ہے۔۔۔؟
مادی دنیا میں فرد
نیندکے حقائق کو جھٹلاتا نہیں ہے، اس دوران گزرنے والی کیفیات شدت کی مناسبت سے
طاری ہوتی ہیں۔ وہ سونے کے بعد اپنی بیداری کو یقین کے مرحلہ میں قبول کرتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب فرد نیند میں داخل ہوکر بھی نہیں سویا تو پھر سونا (نیند) کیا ہے
اور خواب اور بیداری دونوں عالمین میں جاگنے والا کون ہے۔۔۔؟
زندگی دو رخوں سے مرکب
ہے ۔ جسم لباس اور روح لباس میں حرکت ہے یعنی جسم کی حیثیت کھلونے کی ہے۔ کھلونے
میں ذاتی حرکت نہیں ہوتی، اسے متحرک کرنے کے لئے توانائی درکار ہے۔ گڑیامیں چابی
بھردینے سے وہ چلتی ہے، روتی ہے، ہنستی ہے اور مسلسل حرکت کے بعدبے حرکت ہوجاتی ہے
یعنی مرجاتی ہے۔ کیا چابی کے بغیر گڑیا کی حیثیت مردہ جسم کے علاوہ کچھ ہے؟
اس سلسلہ میں چار نکات
پڑھئے۔
۱۔ گڑیا ۲۔ چابی ۳۔ گھمانا (حرکت) ۴۔ وہ جس نے چابی کو
گھمایا
* آپ نے کبھی غور کیا
ہے کہ گڑیا کیا ہے۔۔۔؟
* چابی کس کے مماثل
ہے۔۔۔؟
* حرکت کس کو کہتے
ہیں۔۔۔؟
* اور وہ کون ہے جس نے
چابی کو حرکت دی۔۔۔؟
* کیا چابی اور اسے
حرکت دینے والے کے بغیر کھلونا (آدمی) قابل تذکرہ ہے۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جسم کی ایک صفت کھنکھناتی
بجنی مٹی ہے۔ کھنکھناہٹ اور بجنی سے خلا کی نشان دہی ہوتی ہے۔ خلا اسپیس ہے جس میں
نقش و نگار ہیں اور نقش و نگارمیں حرکت سے ہر فرد حرکت میں ہے۔ غور طلب ہے کہ حرکت
نقش و نگار کی نہیں، نقش و نگار میں ہے۔ میں کے معنی ’’اندر‘‘ کے ہیں۔ اندر میں
حرکت، باہر مظاہرہ ہے۔ حقیقت سے ناواقف شخص حرکت کو نقش و نگار سے منسوب کرتا ہے
جبکہ نقش و نگار مسلسل تبدیل ہونے کے بعد اوجھل ہوجاتے ہیں۔۔۔ حرکت باقی رہتی ہے۔
نظر خدوخال پر پڑتی ہے
تو خلا سے ہٹ جاتی ہے اور جب خلا ظاہر ہوتا ہے تو خدوخال نظر نہیں آتے۔ زمین اور
آسمان کے درمیان دیکھئے۔۔۔ خلا نظر آئے گا جب کہ اس خلا میں جنات، ہوا، خوردبین سے
نظر آنے والی اور نظر نہ آنے والی مخلوقات کی لاشمار دنیائیں ہیں۔
ہم زمین اور اس میں
موجود ذرات کے ظاہری نقش و نگار کو دیکھتے ہیں مگر جس بساط (خلا) پر یہ قائم ہیں
وہ نظر نہیں آتی۔ وجہ یہ ہے کہ یہاں ہر شے مخصوص مقداروں کی مرکب ہے۔ آدمی نے
’’احسن تقویم‘‘ کی صفات کے باوجود خود کو جن مقداروں سے ہم آہنگ کرلیا ہے وہ اسی
کے مطابق دیکھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سترپوشی کے لئے لباس
اختراع ہوتا ہے۔ ہاتھ کے ساتھ آستین ہلتی ہے تو کوئی نہیں کہتا کہ آستین نے حرکت
کی۔ سب کا یقین ہے کہ آستین کے اندر ہاتھ حرکت میں ہے۔ مگر ہم جسم اور حرکت کو اس
تناظر میں نہیں دیکھتے۔ نگاہ جسم کو متحرک دیکھ کر سمجھتی ہے کہ حرکت مادی جسم کی
ہے۔ ذہن متوجہ نہیں ہوتا کہ موت کے وقت یا جب ہم سو جاتے ہیں ، جسم بے حرکت نظر
آتا ہے لیکن ہم دوسرے عالم میں خود کو زندگی کے تقاضے پورے کرتا دیکھتے ہیں۔ پھر
آدمی کی حیثیت کیا ہوئی اور دوسرے عالم میں متحرک وجود کون ہے۔۔۔؟
مادی جسم نیند کی دنیا
میں منتقل نہیں ہوتا۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ نیند میں داخل ہونے والا شخص کوئی دوسرا
ہے۔ جس جسم کو حرکت کا محرک سمجھا گیا، وہ بستر پر ہے پھر دوسری دنیا میں زندگی
گزارنے والا شخص کون ہے۔۔۔؟ کہا جاتا ہے کہ میں نے نیند میں خود کو مقامات کی سیر
کرتے، عمدہ لباس زیب تن کئے، لذیذ کھانے کھاتے اور پرنور ہستیوں کی محفل میں دیکھا
وغیرہ۔
اس جملہ کو ایک بار پھر
پڑھئے اور بتایئے کہ وہ کون ہے جس نے کھایا پیا اور سیر کی اور ’’میں‘‘ کون ہوں جس
نے یہ سب ہوتے دیکھا؟ جس کو ہم ’’میں‘‘ کہہ رہے ہیں، نیند میں اس کی حیثیت شاہد،
مشہود اور مشاہدہ کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی کائنات کے رموز
میں سے ایک رمز ہے۔ شے کی حقیقت اس کے متضاد رخ سے سمجھی جاسکتی ہے۔ موت کی طرح
نیند یہ پیغام دیتی ہے کہ حرکت پتلے کی نہیں۔۔۔ اس وجود کے سبب ہے جس نے پتلے کو
متحر ک کیا ہوا ہے۔ جب حرکت کا محرک کوئی اور ہے پھر ہم مرنے کے بعد ہی جسم کو ڈیڈ
باڈی کیوں سمجھتے ہیں۔۔۔؟
اللہ تعالیٰ کی سنت میں
تبدیلی اور تعطل نہیں ہے۔ حرکت ہر زون میں ’’وجود‘‘ ہے۔۔۔ باقی سب لباس یا میڈیم
ہیں۔ حرکت دوسرے زون میں منتقل ہوتی ہے تو ناسوت کا جسم بے حرکت ہوجاتا ہے۔۔۔ حرکت
واپس ناسوت میں آتی ہے تو وہاں کا جسم خوابیدہ حالت میں چلاجاتا ہے۔ خوابیدہ حالت
میں جانے کا مطلب ہونے کے باوجود اپنی موجودگی کے احساس سے غافل ہونا ہے۔ احساس
ہونا اور احساس کا محرک کیا ہے۔۔۔؟
میڈیم سے اس وجود کی
حرکت ظاہر ہوتی ہے جس کو براہ راست دیکھنے کی سکت مادی آنکھ میں نہیں۔ حرکت سے
واقف ہونے کے لئے فرد کو ہر طبقہ (زون) کے میڈیم سے واقف ہونا ہوگا۔ کائنات میں
صرف یہی زون نہیں ہے جس میں ہم رہتے ہیں، ہر زون میں حیات کا میڈیم وہاں کی
خصوصیات کے مطابق ہے۔ ناسوت میں مٹی، نسمہ کی دنیا میں ہیولیٰ، ہیولی ٰسے پہلے
روشنی، روشنی سے پہلے نور، نور سے پہلے تجلی کا زون۔۔۔ سب حیات کو ظاہر کرنے کے
ذرائع ہیں اور حیات خود حرکت کو ظاہر کرنے کا ذریعہ ہے۔ حرکت کیا ہے اور کس وجود
کی ہے۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رب ذوالجلال نے پتلے کے
اندر اپنی روح پھونکی اور روح کو حرکت کا ذریعہ بنایا۔
’’پھر یاد کرو اس موقع
کو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے ایک بشر
پیدا کررہا ہوں۔ جب میں اسے پورا بناچکوں اوراس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو
تم سب اس کے آگے سجدہ میں گرجانا۔‘‘ (الحجر ۲۸۔۲۹)
بڑی سے بڑی مشین میں
کرنٹ (بجلی) نہ ہو تو اس کی حیثیت لوہے سے بنے ہوئے جسم کی ہے جو توانائی کے بغیر
ڈیڈباڈی ہے۔ آدمی بھی روح کے بغیر ذرات میں تبدیل ہوجاتا ہے اور مشین بھی زنگ آلود
ہو کر مٹی بن جاتی ہے۔
مادی دنیا میں روح کو
ہم ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو ادوار کی تفہیم کے مدارج ہیں۔
زندگی ایک۔۔۔ اور وجود میں حرکت بھی ایک ہے لیکن ہم زندگی کو سمجھنے کے لئے مختلف
ادوار اور طبقات (زون) میں تقسیم کردیا ہے۔ تفہیم کے یہ مدارج قابل تفکر ہیں۔
تغیر کی نگاہ سے نظر
آتا ہے کہ آج کا دن اور رات۔۔۔ کل میں تبدیلی ہوتی ہے اور کل اور پرسوں میں تبدیل
ہوجاتا ہے لیکن جس کو ہم دن یا رات کہتے ہیں وہ تبدیل نہیں ہوتے۔ تغیر سے آزاد فرد
دن ، رات، چاند، سورج، ستاروں سمیت کسی بھی شے کو اصل حالت میں دیکھتا ہے۔
مثال: اسپرم کا سائز
0.002 انچ بتایا جاتا ہے۔ 0.002 انچ کا چھ فٹ کے آدمی میں تبدیل ہونا دراصل شعور
کے مراحل ہیں۔ باطن سے واقف شخص اسپرم میں آدمی کو چھ فٹ دیکھ لیتا ہے۔ تفکر طلب
ہے کہ پھر نشوونما کے مراحل کیا ہوئے۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سونا ہو یا جاگنا۔۔۔
تحریک دونوں میں جاری رہتی ہے۔ ایک طرز زندگی میں حواس تقسیم ہوتے ہیں اور دوسری
میں ایک نقطہ میں موجود رہتے ہیں۔ حواس کو تقسیم کرنے سے جسم کی اہمیت غالب ہوتی
ہے جب کہ نیند کی دنیا بتاتی ہے کہ حواس تقسیم نہیں ہوتے۔ کان نہیں سنتے، آنکھ
نہیں دیکھتی، ناک نہیں سونگھتی، دماغ نہیں سمجھتا اور زبان نہیں بولتی ۔۔۔ سننے،
دیکھنے، محسوس کرنے، سمجھنے اور بولنے والی حس ایک ہے۔ اگر ان میں کثرت ہوتی تو
تصادم ہوجاتا۔
آدمی نے جسم کو اہمیت
دے کر آنکھ، ناک، کان کو اولیت دے دی ہے جب کہ یہ محض میڈیم ہیں۔ اگر دیکھنا چہرہ
پر لگی دو آنکھوں کا ہے تو پھر تصور میں کون دیکھتا ہے۔۔۔؟
حواس کی تقسیم مفروضہ
ہے اور یہی مفروضہ بیداری اور نیند میں تفریق ہے۔
عاشق رسولؐ ۔۔۔ حضرت
علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں۔
تخم گل کی آنکھ زیرخاک
بھی بے خواب ہے
زندگی کا شعلہ اس دانہ
میں جو مستور ہے
سردی مرقد سے بھی
افسردہ ہوسکتا ہے
پھول بن کر اپنی تربیت
سے نکل آتا ہے یہ
ہر لحد اس قوت آشفتہ کی
شیرازہ بند
موت تجدید مذاق زندگی
کا نام ہے
کس قدر نشوونما کے
واسطہ بے تاب ہے
خودنمائی خودفزائی کے
لئے مجبور ہے
خاک میں دب کر بھی اپنا
سوز کھوسکتا نہیں
موت سے گویا قبائے
زندگی پاتا ہے یہ
ڈالتا ہے گردن گردوں
میں جو اپنی کمند
خواب کے پردہ میں
بیداری کا اک پیغام ہے
نیند اور موت۔۔۔ خول
ہیں، ان کے دونوں طرف بیداری ہے۔ خول ہر لمحہ تبدیل ہورہا ہے۔ بچپن، لڑکپن ، جوانی اور بڑھاپے کا خول۔۔۔ رشتے ناتوں کا خول۔۔۔ معاشرتی اور سماجی ذمہ داریوں میں اپنے
کردار کا خول۔۔۔ ہر جگہ وہ ایک فرد ہے لیکن ماحول تبدیل ہونے سے کردار تبدیل ہوجاتا
ہے۔ گھر میں اس کی حیثیت سربراہ کی ہے مگر آفس میں وہ ملازم ہے اور مملکت میں
بطورشہری رہتا ہے۔
قانون: کائنات میں رہنے
کے لئے مخلوق خول یا مقدار کی پابند ہے۔ مقداریں سب میں موجود لیکن خصوصیات مخصوص
ہیں۔ کائنات میں سب سے اعلیٰ مقدار۔۔۔ احسن تقویم اور سب سے ادنیٰ مقدار۔۔۔اسفل
سافلین ہے۔۔۔ اور یہ دونوں مقداریں نوع آدم سے منسوب ہیں۔
’’ہم نے انسان کو احسن
مقداروں میں تخلیق کیا ہے لیکن وہ پست سے پست درجہ میں پڑا ہوا ہے۔‘‘ (التین: ۴۔۵)
اللہ حافظ
خواجہ شمس الدین عظیمی
خلاصہ
۱۔ رات اور دن ایک حواس
کو پڑھنے کی دو طرزیں ہیں۔
۲۔ حرکت نیند اور بیداری
میں جاری ہے پھر سوتا کون اور متحرک وجود کیا ہے؟
۳۔ گڑیا، چابی، حرکت اور
چابی کا گھمانا تفکر طلب ہے۔
۴۔ کوئی نہیں کہتا کہ
آستین نے حرکت کی۔ سب کا یقین ہے کہ آستین کے اندر ہاتھ حرکت میں ہے۔
۵۔ جس کو ہم ’’میں‘‘ کہہ
رہے ہیں،نیند میں اس کی حیثیت شاہد، مشہود اور مشاہدہ کی ہے۔
۶۔ اللہ تعالیٰ نے پتلے
کے اندر اپنی روح پھونکی اور روح کو حرکت کا ذریعہ بنایا۔
۷۔ نیند کی دنیا بتاتی
ہے کہ حواس تقسیم نہیں ہوتے۔
۸۔ کائنات میں سب سے
اعلیٰ مقدار۔۔۔ احسن تقویم اور سب سے ادنیٰ مقدار۔۔۔اسفل سافلین ہے۔
* قارئین اس سلسلہ میں
اپنی رائے کا اظہار کرسکتے ہیں، شکریہ۔
جولائی 2018
خواجہ شمس الدين عظیمی
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔