Topics
کائنات کے ظاہر یا باطن کو دیکھا جائے۔۔۔ ہر شے ایک
دوسرے سے ربط میں ہونے کے باوجود اپنی حدوں میں ہے۔ تخلیق کی بنیاد مقداروں پر
قائم ہے۔۔۔ مقداریں شے کو دوسری شے سے ممتاز کرتی ہیں جس کی وجہ سے انفرادیت کا
مظاہرہ ہوتا ہے۔ زمین کے اندر باہر نظر آنے والی اور نظر نہ آنے والی مخلوقات۔۔۔
پرت درپرت معدنیات، آبِ باراں اور زمین کے میٹھے، کڑوے، کھارے پانی کے ذخائر۔۔۔
آتش فشاں۔۔۔ سب معین مقداریں ہیں۔
دو سمندروں
۔۔ بحر اوقیانوس اور بحیرہ روم کو ایک دوسرے(strait
of Gibraltar) آب نائے جبل طارق سے
منسلک کرتی ہے مگر اس طرح کہ دونوں مل کر بھی ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ آب نائے کے
شمال میں جبل طارق اور اسپین۔۔۔ جنوب میں مراکش واقع ہے۔ گہرائی کم از کم 300 میٹر
اور لمبائی 14 کلومیٹر ہے۔ 711ء میں یہاں بنو امیہ کا جرنیل طارق بن زیاد اسپین
فتح کرنے کے لئے اترا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بحری جہاز جب اس خط مستقیم پر سے گزرتا ہے
تو پانی کے دونوں طبقات ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ جہاز جب سیاہ اور سفید کی دیوار
کو کاٹتا ہے تو سفید پانی کی لہریں پلٹ کر سفید میں اور سیاہ پانی کی لہریں سیاہ
پانی میں گرتی ہیں۔ ایک قطرہ پانی بھی کالے میں سفید اور سفید میں کالا شامل نہیں
ہوتا۔
بحیرہ روم اور بحر اوقیانوس کیمیائی اور
حیاتیاتی لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ محققین کے مطابق جبل طارق کے جنوبی
ساحلوں (مراکش) اور شمالی ساحلوں (اسپین) پر غیرمتوقع طور پر میٹھے پانی کے چشمے
ابلتے رہتے ہیں۔ یہ بہت بڑے چشمے ایک دوسرے کی طرف 45 ڈگری کے زاویہ پر تیزی سے
بڑھتے ہوئے ایک ڈیم کی طرح کنگھی کے دندانوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اس عمل کی
وجہ سے بحیرہ روم اور بحر اوقیانوس اندر سے ایک دوسرے میں خلط ملط نہیں ہوتے۔
باری تعالیٰ کا ارشاد ہے
" دو
سمندروں کو اس نے چھوڑدیا ہے کہ باہم مل جائیں پھر بھی ان کے درمیان ایک پردہ حائل
ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے۔" (الرحمن 20-19(
"مرج" کے معنی
چھوڑنا یارواں کرنا، "بحرین"۔۔۔ دو بحر یا سمندر، "یلتقیان"
۔۔۔ التقا سے نکلا ہے جس کے معنی مقابل ہونا یا ملنا کے ہیں، "برزخ" کے
معنی پردہ، آڑیا تقسیم ہے،"لا" کا مطلب نہیں اور"یبغیان" کا
مادہ بغی ہے جس کے معنی سرکشی یا حد سے گزرنا ہے۔
اس نے دو سمندر اس طرح جاری، رواں کئے یا
چھوڑدیئے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے مقابل ہوتے ہیں لیکن حد سے نہیں گزرتے۔۔۔ جو حد
قائم کردی گئی ہے اس پر قائم رہتے ہیں اس طرح کہ مل کر بھی دونوں کی انفرادی حیثیت
اور خواص برقرار ہیں۔ تجاوز نہ کرنے کی وجہ وہ تقسیم ہے جو مقداروں کی بنیاد پر
ہے۔
"پاک اور بلند مرتبہ
ہے وہ ذات جس نے تخلیق کیا مقداروں کے ساتھ اور ان مقداروں کی ہدایت بخشی۔"
( (الاعلیٰ: 3-1
(density)اورکثافت (Salinity)دونوں سمندروں کی مقداروں میں فرق ہے۔ درجۂ حرارت، شوریدگی ایک دوسرے
سے مختلف ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانی دوسرے پانی میں گرتا ہے تو آنکھ
دیکھتی ہے کہ پانی۔۔۔ پانی میں مل جاتا ہے لیکن غور کیا جائے تو عقدہ یہ کھلتا ہے
کہ مقداریں الگ ہوں توباہم ملنے کے باوجود شے کی انفرادیت برقرار رہتی ہے۔ کالے
پانی کا ایک قطرہ بھی سفید پانی میں نہیں جاتا اور سفید پانی مزاحمت کرکے کالے
پانی میں شامل نہیں ہوتا۔
نمک کو پانی میں حل کیا جائے، نمک نظر نہیں
آتا۔ اسی پانی کو پکایا جائے۔۔۔ پانی بخارات بن کر اڑجاتا ہے اور نمک باقی رہتا
ہے۔
ہر سمندر کی کیمیائی خصوصیات دوسرے سمندر
سے مختلف ہیں۔ جہاں دو مختلف سمندر آپس میں ملتے ہیں۔۔۔ دریا سمندر میں گرتا ہے،
ان کے درمیان پردہ حائل ہوتا ہے جو مخلوط ہونے کے باوجود دونوں کو علیحدہ رکھتا
ہے۔ یہ مظہر متعدد مقامات پر ظاہر ہے۔ ان میں آب نائے جبل طارق قابل ذکر ہے جہاں
دو سمندروں کی تقسیم غور و فکر کرنے والوں پر کائناتی اسرار منکشف کرتی ہے۔ اس کے
علاوہ جنوبی افریقہ میں کیپ پوائنٹ کے مقام پر جہاں بحر اوقیانوس اور بحرہند ملتے
ہیں۔۔۔ سفید پٹی واضح ہے۔
"اور وہ کون ہے جس
نے زمین کو جائے قرار بنایا اور اس کے اندر دریا رواں کئے اور اس میں میخیں گاڑدیں
اور پانی کے دو ذخیروں کے درمیان پردے حائل کردیئے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور
معبود بھی ہے؟ نہیں، بلکہ ان میں سے اکثر لوگ نادان ہیں۔" (النمل 61(
سوچئے اور بتایئے کہ سمندر میں میٹھے پانی
کے ذخائر، نمکین پانی کے اتنے بڑے ذخیرہ میں مٹھاس یا انفرادیت کیسے برقرار رکھتے
ہیں۔۔۔؟ بظاہر حد نظر نہیں آتی لیکن میٹھے اور نمکین کا نہ ملنا کیا ظاہر نہیں
کرتا کہ حد موجود ہے۔۔۔؟ ایسی حد جو مادی آنکھ سے اوجھل ہے۔
سوال یہ ہے کہ وہ کون سی خصوصیات ہیں جن کی
بنا پر دو سمندر ساتھ بہتے ہیں ایک دوسرے میں جذب نہیں ہوتے۔۔۔ بلکہ ایک دوسرے کے
لئے جگہ بناتے ہوئے اپنی حدود برقرار رکھتے ہیں اور پھر حدود کا مرحلہ سطح سمندر
پر نہیں۔۔۔ میلوں میل تہہ تک قائم رہتا ہے۔ سطح سے لے کر تہہ تک لہریں ایک دوسرے
کی حدود میں داخل نہیں ہوتیں۔
"اور وہی ہے جس نے
دو سمندروں کو ملا رکھا ہے۔ ایک لذیذ و شیریں دوسرا تلخ و شور اور دونوں کے درمیان
ایک پردہ حائل ہے۔ ایک رکاوٹ ہے جو انہیں ملنے سے روکے ہوئے ہے۔" (الفرقان:
53(
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بحراوقیانوس کے برعکس بحیرہ روم کا پانی
گرم، کھارا اور کم کثیف ہے۔ بحیرہ روم آب نائے طارق سے بحر اوقیانوس میں داخل ہوتا
ہے تو یہ بحر اوقیانوس کے دہانہ پر سے تقریباً ہزار میٹر کی گہرائی تک اپنی گرمی،
کھاراپن اور کم کثافتی خصوصیات کے ساتھ کئی سو کلومیٹر دور تک بہتا ہے۔ ان کے
درمیان موجود آڑ۔۔۔ بڑی بڑی لہروں، طاقت ور موجوں اور مدوجزر کو آپس میں یک جان
ہونے سے روکتی ہے۔۔۔ دونوں پانیوں کے خواص اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں۔
قارئین تجربہ کیجئے۔ شیشہ کے گلاس میں
کیروسین آئل اور پانی ملایئے۔ دونوں باہم مل کر بھی ایک دوسرے میں جذب نہیں ہوتے
کیونکہ ایک اپنی مقدار میں بے حد کثیف اور دوسرا کم کثیف ہے۔ کثافت شے کو بھاری
کردیتی ہے۔ عام تیل اور پانی کو ملایا جائے تو ابتدا میں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں
حل ہوگئے ہیں لیکن تھوڑی دیر بعد پانی کی سطح پر تیل جال کی صورت میں نظر آتا ہے
یہاں تک کہ سارا تیل سطح پر آجاتا ہے لیکن کیروسین آئل کی خصوصیت یہ ہے کہ پانی
میں شامل ہو کر بھی اس کے ذرات نہیں ٹوٹتے۔
خواتین گھر میں تجربہ کریں کہ کھانا پکانے
کے دوران بظاہر دکھائی دیتا ہے کہ تیل دیگچی میں موجود اجزا میں شامل یا حل ہوگیا
ہے لیکن آنچ ہلکی رکھی جائے تو تیل اوپر آجاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معین مقداریں کیا ہیں۔۔۔؟ کائنات میں ہر
تخلیق دو رخوں پر ہے۔ دو رخوں کے بغیر کوئی قالب مکمل نہیں ہوتا۔ اہم بات یہ ہے کہ
دونوں کی بنیاد روشنی ہے اور روشنی نور سے نظر آتی ہے۔ نور کیا ہے۔۔۔؟ اللہ نور السموات
والارض۔۔۔ آسمانوں اور زمین میں ہر شے اللہ کے نور سے ہے۔۔۔ نور سمتوں سے ماورا
ہے۔۔۔ مشرق کی طرف ہے نہ مغرب کی طرف بلکہ محیط ہے۔ نور سے روشنی بنتی ہے۔۔۔
خدوخال روشنی سے بنتے ہیں اور گوشت پوست کا جسم اختیار کرتے ہیں۔ روشنی اور گوشت
پوست کے خدوخال میں کوئی فرق نہیں کہ جسم کے خدوخال روشنی کے خدوخال کا عکس ہیں۔
سینما میں پروجیکٹر سے نکلنے والی لہروں کا
تجربہ کیجئے۔ لہریں اسکرین سے ٹکرانے سے پہلے خدوخال سے آزاد ہوتی ہیں۔۔۔ ٹکرانے
کے بعد خدوخال ظاہر ہوتے ہیں۔ خدوخال کی مقداریں اسکرین سے ٹکرانے سے پہلے لہروں
میں موجود ہیں اسی لئے ٹکرانے کے بعد جو مقداریں معین ہیں وہ اسکرین سے اس طرح
ٹکراتی ہیں کہ پہاڑ کی مقداریں پہاڑ، گاڑی کی مقداریں گاڑی، موبائل کی مقداریں، پھل
کی مقداریں پھل، لہلہاتے کھیت کی مقداریں کھیت اور کھیت میں سرسوں کے زرد پھولوں
کا فرش الگ الگ نظر آتا ہے۔
حضور قلندر بابا اولیاؒ فرماتے ہیں گراف
میں چھوٹے چھوٹے چوکور خانے ہوتے ہیں۔ ان چوکور خانوں کو بنیاد قرار دے کر ڈرائنگ
سکھانے والے استاد بچوں کو چیزوں، جانوروں اور آدمیوں کی تصویریں بنانا سکھاتے
ہیں۔ استاد یہ بتاتے ہیں کہ ان چھوٹے خانوں کی اتنی تعدد سے آدمی کا سر، اتنی
تعداد سے ناک، اتنی تعداد سے منہ اور اتنی تعداد سے گردن بنتی ہے۔ ان خانوں کی
پیمائش سے وہ مختلف اعضا کی ساخت کا تناسب قائم کرتے ہیں جس سے بچوں کو تصویر
بنانے میں آسانی ہوتی ہے۔ گویا یہ گراف تصویروں کی اصل ہے یا دوسرے الفاظ میں اس
گراف کو ترتیب دینے سے تصویریں بن جاتی ہیں۔ بالکل اسی طرح روشنی کی لکیروں سے
تمام مخلوقات کے خدوخال بنتے ہیں۔
مخلوق میں بنیادی حواس پانچ ہیں۔۔۔ حواس
میں معین مقداریں کام کرتی ہیں۔
اسی طرح سونا بنانے اور پانی کی تخلیق کا
فارمولا یہ ہے۔
سونا= حس زرد رنگ + سخت + چکنا+ چمک + ٹھوس
پن
پانی = حس سفید رنگ + آبی + پتلا + بکھرنے
والی + عکاس + پھیکا+ حس بو + ہلکی بھاری گوار ناگوار آواز + آرپار + سرد + گرم +
حرکت کلی + بہنا + اڑنا + چپک۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر مخلوق کا قیام معین مقداروں پر ہے۔
سماوات، ارضیات، نباتات، جمادات، حیوانات، آدمی ہو یا انسان۔۔۔ یہ سارا نظام
نورانی برقی لہروں پر قائم ہے۔
"اللہ آسمانوں اور
زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہو، چراغ
ایک فانوس میں ہو، فانوس کا حال یہ ہو جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا ۔ اور وہ
چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ
غربی ہو، جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑک پڑتا ہو چاہے آگ اس کو نہ لگے۔ روشنی پر روشنی۔
اللہ اپنے نور کی طرف سے جس کی چاہے راہ نمائی فرماتا ہے۔ وہ لوگوں کو مثالوں سے
بات سمجھاتا ہے۔ وہ ہر چیز سے خوب واقف ہے۔" (النور 35(
اللہ حافظ
خواجہ شمس الدین عظیمی
اپریل 2016
خواجہ شمس الدين عظیمی
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔