Topics

خیالات اجسام رکھتے ہیں۔اگست۔2024

 

 

 

کائنات میں لاکھوں کروڑوں مخلوقات ہیں۔ کچھ مخلوقات  نظر آتی ہیں اور بہت سی نظر نہیں آتیں لیکن جب ان  کے بارے میں سوچا جاتا ہے تو احساس میں داخل ہوجاتی ہیں۔  نادیدہ مخلوقات کو محسوس کرنا، ان  کی موجودگی   کی دلیل ہے کیو ں کہ ہرموجود شے شکل و صورت رکھتی ہے اسی بنا پر انفرادیت قائم ہے۔

کائنات میں لاشمار دنیائیں ہیں ۔  ہر دنیا کی مخلوق کے لباس میں مخصوص عنصر غالب ہے جیسے مٹی، آگ، ہوا اور پانی۔ہماری دنیا میں مٹی کا عنصر نمایاں ہے۔ جنات کی دنیا میں آگ کا غلبہ ہے۔کسی زمین پر لباس پانی کی طرح ٹرانسپیرنٹ ہے اورکہیں پرتخلیق گیسوں کے غلاف میں ہے تاہم یہ چاروں عناصر  ہر دنیا میں  کم و بیش مقدار کے ساتھ موجود   ہیں ۔

قارئین! مخلوقات کی طرح خیالات، جذبات ، کیفیات اور احساسات بھی سراپا* ہیں۔ یہ ہمیں متاثر کرتے ہیں کیو ں کہ  ان کا قد کاٹھ ہے،شکل و صورت  اور  جسمانی نظام ہے۔ فرد جوان ہوتا ہے تو نفرت اور محبت بھی جوان ہوتی ہے  اورمظاہرہ بھی  ہوتا ہے۔ محبت کا مظاہرہ دل میں اترتا ہے اور نفرت بوسیدہ تصویر بن جاتی ہے۔محبت اورنفرت سانس لیتی ہیں، بھوک پیاس سے گزرتی ہیں، سوتی جاگتی ہیں، افزائش ِ نسل ہوتی ہے ، بچپن اور لڑکپن سے گزرکر جوان ہوتی ہیں ، جوانی بڑھاپے  میں داخل ہوتی ہے اور بڑھاپا  آخر کار موت سے  بغل گیر ہوجاتا ہے۔ اگر محبت کی شکل و صورت نہ ہوتی تو یہ محسوس نہ ہوتی ۔ اگر نفرت کے خدوخال نہ ہوتے  تو      دنیا   امن    کا  آشیانہ ہوتی۔

تمام مخلوقات ہماری طرح سانس لیتی ہیں، کھاتی پیتی ہیں، ان کے بچے ہوتے ہیں، دنیا کے نظام اور ایکوسسٹم کو قائم رکھنے میں  کردار ادا کرتی ہیں اور زمین پر اپنے شرف سے ناواقف آدمی سے زیادہ شعور  کا مظاہرہ کرتی  ہیں۔

*   وجود ، تخلیق ، سر سے پیر تک 

۱۔پہاڑ معدنی ذخائر ہیں۔ زمین کوسمٹنے سے روکنے کے لئے میخوں کا  کام دیتے ہیں۔ آدمی سانس لیتا ہے تو پہاڑبھی سانس لیتے ہیں اور بادلوں کی طرح اڑتے ہیں لیکن ہمیں نظر نہیں آتے۔ آدمی  ہنستا بولتا ہے تو پہاڑبھی اپنے ہونے کی خبر دیتے ہیں اور دور دراز تک لہریں بھیج کر مہم جوؤں کو کوہ پیمائی کے لئے بلاتے  ہیں۔ آدمی کی طرح پہاڑ بھی موت و زیست سے گزرتے ہیں۔  پہاڑوں کی زیادہ سے زیادہ عمر دس ہزار سال ہے۔  اللہ تعالیٰ نے اپنی امانت پہاڑوں کو پیش کی تو پہاڑوں نے  معذرت کرلی اور عرض کیا کہ اگر ہم نے یہ امانت اپنے دوش پر اٹھالی تو ہم ریزہ ریزہ ہوجائیں گے

۲۔ مچھر باشعور حشرہ ہے۔جسم  کے اندر سوئی   ڈال کر سوراخ کرتا ہے، خون پیتا ہے   پھرسوراخ   پر لعاب پھیلاتا ہے۔ نتیجے میں کاٹا ہوا حصہ پھولنے سے سوراخ بند ہوجاتا ہے۔ یہ مچھرکو حاصل  قدرتی  صلاحیت  اور شعور ہے کہ غذا حاصل کرتے ہی سوراخ  بند کردیتا ہے ورنہ     خون رِستا رہے گا

۳۔  شہد  کی مکھی پھولوں پربیٹھتی ہے۔  انجکشن کی طرح رس نکال کر پیتی ہے  لیکن اس میں عقل ہے کہ خراب پھول پرنہیں بیٹھتی ۔ یہ  مستقل قانون پرعمل کرتی ہے۔جب  مکھیاں پھولوں کا رس لے کرآتی ہیں تو محل*میں داخل ہونے سے پہلے دربان اس کو سونگھتے ہیں۔ خالص رس نہ ہو  تو  ملکہ مکھی کاحکم ہے   کہ اس کو مار دیا جائے۔ قرآن کریم کے مطابق شہد کی مکھی پر وحی نازل ہوتی ہے ۔ وحی نازل  ہونے کا مطلب ہے کہ  شہد کی مکھی میں شعور ہے۔ شعور اس بات کی ضمانت ہے  کہ شہد کی مکھی میں  وحی  قبول  کرنے  کی صلاحیت ہے ۔

۴۔کتاّ آدمی کو دیکھ کر بھونکتا  کیوں ہے ؟ اس لئے کہ آدمی اس سے ڈرتا ہے۔ ڈرنے کی وجہ سے کتاّسمجھتاہے کہ یہ  نقصان پہنچائے گا، وہ  بھونک کر اپنے خوف کا مظاہرہ کرتا  ہے۔ کتاّ وفادار جانور ہے۔ اس میں اتنی فہم ہے کہ  بلا ئیں نازل  ہوں تو  روتا ہے  تا کہ آدمی  خبردار ہوجائے۔

۵۔  روحانی آنکھ اندر میں دیکھتی ہے کہ فضا  میں  قسم قسم کے  وائرس   ہیں ۔   وہ   اس طرح گھومتے ہیں جیسے کبوتر  اور مکھی اڑتی ہے۔ وائرس  اور بیکٹیریا  نظر نہیں آتے مگر سائنس دان مائیکرو اسکوپ سے دیکھ کر ان کی شکل و صورت  بتاتے ہیں۔ مختلف  اقسام کے بیکٹیریا جسم کی حفاظت کرتے ہیں اور نقصان بھی پہنچاتے ہیں۔جس طرح پرندے اڑتے ہیں،  بیکٹیریا بھی  اڑتا ہے،  کھاتا  اور بولتا ہے۔    اندر کی آنکھ یہ سب دیکھتی ہے  مگر ہم اس  آنکھ کے دیکھنے  کو نہیں دیکھتے۔ جن  حضرات و خواتین  میں عالمِ بالا   میں دیکھنے کی صلاحیت  بیدار ہے  وہ دیکھتے  ہیں ۔

۶۔ سمندر اور ہوا مخلوق ہیں۔  ہوا  سمندر کے اندرونی حصے سے  پانی کو  اچھالتی ہے ، بیس پچیس    فٹ اوپر لے جا کر   نیچے لاتی ہے۔ سوال ہے کہ لہریں اوپر جاکر نیچے آنے پر کیوں مجبور ہیں؟                 سمندر میں  جوش  ہے۔ جوش بھی سراپا ہے۔  اس  کی  وجہ سے  پانی   اوپر اٹھتا ہے  لیکن کشش ِ ثقل  اسے اپنی طرف  کھینچ لیتی  ہے۔ کشش ِثقل بھی وجود ہے اور موت  وحیات سے گزرتی  ہے۔

۷۔ زمین جاندار  ہے۔یہ پھیلتی اورسمٹتی ہے۔ دائرے میں گھومتی ہے۔  زمین کے اندر  لاشمار  نسلیں  پیدا    ہوتی ہیں ، جوان ہوتی ہیں اور  مر جاتی ہیں ۔

* شہد کی مکھی کا چھتہّ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الٰہی نظام میں تفکر سے  ظاہر ہے کہ کائنات میں خلا دیدہ   نادیدہ مخلوقات سے   آباد ہے۔ مکھی، مچھر،  وائرس ، بیکٹیریا ،   گائے ، ہاتھی، زرافہ ،  نیم، چنار،    لوہا، تانبا،  پہاڑ ، سمندر ، ندی،  ہوا، آکسیجن، کاربن  سب صورت و شکل کی مخلوق ہیں۔  ان کو بھوک     پیاس لگتی ہے،  سوتے جاگتے ہیں، ان میں  میل، فی میل  ہوتے ہیں  اور ان کی نسل  چلتی  ہے۔

 اداریہ  پڑھنے والے  خواتین  و حضرات متوجہ  ہوں  کائنات  میں کوئی  شے ایسی نہیں  جو ولادت کے عمل سے آزاد ہو۔   وائرس پیدا ہوتے ہیں، چھوٹے سے بڑے ہوتے ہیں،    ان کی شادی ہوتی ہے، نسل بڑھتی ہے،   جوان ہوتی ہے،  مرتی ہے  اور  بالآخر   عالم ِ  بالا  کی   طرف  لوٹ جاتی  ہے ۔

 جو کچھ آپ نے پڑھا ہے،  اس میں  رموز ہیں ۔ جن چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے اور جن کا تذکرہ نہیں ہوا،  سب زندہ  مخلوقات  ہیں جوعمر  گزار کر مرجاتی  ہیں لیکن اپنے پیچھے نسل چھوڑ جاتی ہیں ۔ شکل و صورت  ان کی پہچان ہے۔پہچان ظاہر ہوتی ہے، مٹتی ہے  پھر ظاہر ہوتی ہے اور مٹ جاتی ہے لیکن پہچان کا نظام  قائم رہتا ہے۔قابل ِ تفکر یہ امر ہے  کہ اللہ تعالیٰ اس نظام کو جاری رکھ کر  مخلوق سے کیا چاہتے ہیں؟  حدیث ِ قدسی ہے،

’’میں چھپا ہوا خزانہ تھا۔ میں نے محبت سے مخلوق کو پیدا کیا تاکہ میں پہچانا جاؤں۔ ‘‘

پہچاننے کے لئے  ضروری ہے کہ مخلوقات موجود ہوں،   شناخت کے لئے ان کی شکل و صورت  ہو اور شکل و صورت  ایک ہونے کے باوجود مختلف ہو۔ اللہ تعالیٰ نے کُن فرما کر ارادے میں موجود پروگرام کو ظاہر فرمایا اور ہر شے وجود میں آگئی۔ مخلوق کو اپنی موجودگی کا احساس ہوا  تو خیال آیا کہ میں کون ہوں، مجھے کس نے بنایاہے۔اس سوال سے پہچاننے کے عمل کی ابتدا ہوئی۔ ہر مخلوق اللہ کو جانتی ہے مگر پہچاننا مخفی ہے۔اﷲ تعالیٰ  کی ربوبیت  کو پہچاننا  اس طرح ہے کہ موجودات   کے غیب سے ظاہر ہونے اور ظاہر سے غیب میں لوٹنے کے نظام پر سوچ بچار کی جائے۔  چاند، سورج ،  ستارے ، کہکشانی نظام ،تشنگی کا   پیدا اور دور ہونا ، موت و حیات  اور وسائل کی   فراہمی کا  انتظام غرض  جتنی موجودات ہیں، سب اللہ کو پہچاننے کے لاشمار راستے ہیں جو ظاہر میں الگ الگ لیکن باطن میں  ایک ہیں۔  

 *خواتین و حضرات قارئین!  روحانی قانون ہے کہ آدمی اور انسان دو پرت ہیں۔  ایک پرت اللہ کی بڑائی کو یقین کے ساتھ قبول کرتا ہے اور دوسرا پرت نافرمانی کا symbol ہے اور نافرمانی کا مرتکب ہے۔ التماس ہےکہ  تحریر کو یکسو ہوکر پڑھئے اور نشاندہی کیجئے کہ لکھے ہوئے الفاظ کن رموز کی پردہ کشائی کرتے ہیں۔

اللہ حافظ 

Topics


QSM Aaj ki Baat

خواجہ شمس الدين عظیمی

اور جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(

اللہ تعالیٰ کی مدد اور اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔

اس ماہنامہ میں انشاء اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی، ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔

دعا کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔