Topics

اتحاد اور سائنس ۔ستمبر 2024

 

تقریر

(آدم ڈے 2024 ء کے موقع پر محترم عظیمی صاحب کا پاکستان،  برطانیہ، کینیڈا، امریکا ، روس، متحدہ عرب       امارات       اور دیگر ممالک کے  خواتین و حضرات سے آن لائن  خطاب  )

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 باادب بانصیب بے ادب بے نصیب

معزز خواتین و حضرات السلام  علیکم ورحمۃ اللہ، 

میں آپ کا بھائی ہوں۔ میرے  پہلے والدحضرت آدم ؑ ہیں اور میری  پہلی ماں  اماں حوّؑا ہیں ۔ میرے دو بھائی ہیں جن کا نام آسمانی کتابوں نے  ہابیل اور قابیل  لکھا ہے۔  ایک بھائی نے سر کشی کی، اللہ کی نا فرمانی کی۔قانون ِ قدرت  حرکت میں آگیا۔  دوسرے  بھائی نے  عاجزی کی،    اللہ کی وحدانیت کو  مانا  تو اس کے لئے  دوسرا   حکم متعین  ہو گیا ۔ ہابیل اورقابیل نے جو کیا، یہ ان کا فعل ہے لیکن  ہر مذہب کے آدمی کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے  کہ ہم ایک باپ آدمؑ اور ایک ماں حوّاؑ کی اولاد ہیں۔ کیا کوئی اس سے انکار کرسکتا ہے؟ انکار کرنے سے دنیا کی تاریخ بدل جائے گی۔ اگر انکار کر دیا   کہ ہم آدمؑ و حوّؑا کی اولاد نہیں ہیں  تو  زندگی گمنامی بن جائے گی۔ درخت جڑ سے پہچانا جاتا  ہے۔  درخت کی جڑ کو  کاٹ دیا جائے ، درخت سوکھ جائے گا، مرجھا جائے گا ،  بے آباد ہوجائے گا یعنی پھل نہیں دے گا ۔

زندگی کا تجزیہ  ہے کہ  ہم تایا ، چچا، دادا، دادی، نانا، نانی جوبھی  ہیں،  آدمؑ و حوّؑا کی اولاد ہیں۔  جو لوگ پہاڑوں میں جا بسے،  ان  کی شکل و صورت میں فرق آگیا۔جہاں سردی زیادہ ہے، سورج کی کرنیں کم پڑتی ہیں،  وہاں کے لوگ سرخ یا  سفید ہوجاتے ہیں اور جہاں سورج کی تپش زیادہ ہے، وہاں لوگ سیاہ  ہوجاتے ہیں۔غور کیجئے   ایک آدمی  سفید اور سرخ رنگ کا ہے، وہ  دھوپ میں مزدوری کرتا ہے۔ کچھ دنوں کے بعد اس کا رنگ سیاہ  ہوجاتا ہے۔ موسمیات پر غور و فکر کرتے ہیں  تو  جن علاقوں کے لوگوں میں سیاہ رنگ زیادہ ہو، بارش وہاں بھی برستی ہے،  ٹھنڈبھی ہوتی ہے  لیکن ٹھنڈ  کا   ٹمپریچرکم اورگرمی کا زیادہ ہوتا ہے ۔  

میں آپ خواتین و حضرات سے پوچھتا ہوں کہ ٹمپریچر کیا ہے ؟  سورج کی تپش  اگر گرم ہے تو گرمی  ہے۔ سورج  نمایاں نہیں ہے، اس کےاندر کی کرنیں  ظاہر نہیں ہوئیں تو ٹھنڈ ہے۔  ٹھنڈ اورگرمی کا محسوس ہونا  کیا ہے ؟ ہم سردی میں گرم کپڑے اور گرمی میں ٹھنڈے کپڑے کیوں پہنتے ہیں ؟ آپ کہیں گے کہ سردی لگتی ہے اور دوسرے لوگ کہیں گے کہ گرمی لگتی ہے ۔ گرمی سردی کیا ہے؟  آگ سردی میں گرمی کیوں پہنچاتی ہے ؟  وہ کون سی  ایجنسی ہے جو گرمی  میں ٹھنڈ اور ٹھنڈ میں گرمی  کو محسوس کرتی ہے؟

 ایک وقت  آتا ہے  کہ ہم مرجاتے ہیں۔  دانشور بہن بھائیوں  خصوصاً  سائنس دانوں سے سوال  ہے کہ مردہ آدمی  کو گرمی سردی کیوں نہیں لگتی ؟ گرمی  ہو یا سردی، موسم خوش گوار  ہو یا نا گوار ، لُو ہو یا برف باری   سب اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق ہیں اورہمیں  متاثر کرتی ہیں۔  ہم مجبور ہیں کہ سردی  کے لئے گرمی تلاش کریں اور گرمی کے لئے  سرد موسم  کا انتظام کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 مخلوقات کی پیدائش کیسے ہوتی ہے اورتخلیق کا منصوبہ کہاں بنتا ہے؟

میں لندن میں تھا۔ بڑی تعداد میں خواتین و حضرات  تشریف لائے۔ انگریز،  ہندو، مسلمان تقریبا ً ہر ذات کے سامعین حاضر تھے ۔ان سے سوال کیا  کہ  پیدائش سے پہلے ہمارا وجود زمین پرنہیں تھا ۔  زمین پر وجود کہاں سے اورکس طرح ظاہر ہوا ؟  سائنس کہتی ہے کہ نیچر ہے تو نیچر  کی  کوئی بنیاد ہوگی ،  اصول  ہوگا،  قاعدہ ہوگا، قانون ہوگا۔ سردی بھی نیچر اورگرمی بھی نیچر ہے۔ بھوک لگنا بھی نیچر  ہے  اور بھاگنا دوڑنا بھی نیچر ہے۔  پیدا ہونا بھی نیچر ہے  ، گھٹنا بڑھنا بھی نیچر ہے اوراس دنیا سے دوسری دنیا میں منتقل ہونا بھی نیچر ہے۔

   ڈیڈ باڈی کو زمین میں رکھتے ہیں ۔  کوئی قبر بنا دیتا ہے، کوئی تابوت بنا دیتا ہے ،کوئی جلا دیتا ہے راکھ بن جاتی ہے۔ جب  قبر کھودتے ہیں تو  ڈیڈ باڈی کیوں نہیں ملتی ؟ کیا ہم قبر میں مٹی کے  ذرّات میں ڈیڈ باڈی کو تلاش کر سکتے ہیں؟ اس کی تصویر بنا کر اس میں  زندگی ڈال سکتے ہیں ؟     سب کا جواب ہوگا  نہیں ! سوچنا ضروری ہے کہ  فزیکل باڈی گھٹتی بڑھتی کیوں ہے؟ ہم کہتےہیں کہ توانائیگھٹاتی ہے، بڑھاتی ہے،  جوان کرتی ہے ، بوڑھا کرتی ہے، طاقتور کرتی ہے، پہلوان بناتی ہے لیکن  باڈی ، ڈیڈ باڈی کیوں بن جاتی ہے اور  زمین کے ذرّات میں  تبدیل ہوجاتی ہے؟  کیا نیچر زمین کی حرکت ہےیا کسی سائنس دان کی بنائی   ہوئی ساخت ہے؟ 

 دیکھئے ایک دن کا بچہ دو دن کا  ہوتا ہے تو پہلا دن غائب ہو جاتا ہے۔  آپ کہیں گے کہ اس کا قد اورجسم بدل گیا، ہاتھ پیر  بڑے ہوگئے۔ کون ہاتھ پیر بڑے اور چھوٹے کر رہا ہے،  کون جوان کررہا ہے؟   نیچر (توانائی) کررہی ہے؟  تسلیم ہے کہ نیچر ہے۔ اگر نیچر سب کررہی ہے تو نیچر کس نے بنائی ہے ؟  نیچر میں کہیں  شیر بن جاتا ہے، کہیں اونٹ بن جاتا   ہے، کہیں پہاڑ بن جاتا ہے،کہیں پانی برف بن جاتا ہے ، کہیں  پانی گرم دریا بن جاتا ہے ۔

بہت محترم  دوستو!   میرا مقصد ہرگز سائنس کی ناقدری نہیں ۔  میں اپنے شاگردوں سے کہتاہوں کہ سائنسی علوم پڑھیں اورتفکر کریں تاکہ معلوم ہو کہ پہاڑ،  زمین، لوہا، ہرقسم کے جانور ، درندے، پرندے، چرند، آدمی سب نیچر کے تابع ہیں۔   سوال  ہے کہ نیچرکیا ہے؟

نیچر کو آسمانی کتابوں نے  فطرت کہا  ہے ۔  سائنس دان اسے نیچر کہتے ہیں۔ دنیا کا نقشہ یہ ہے کہ جب کوئی شے ظاہر ہوتی ہے تو وہ ڈائی سے نکلی ہوئی  گڑیا یا گڈے کے جسم کی طرح  ہے۔ نیچر کوسمجھنے کے لئے آسمانی کتابوں  وید،  تورات، انجیل، زبور اور آخری کتاب قرآن کریم میں غوروفکر کیا جائے تو  فارمولے موجود ہیں کہ نیچر کیا ہے اور  اس  کو کس نے بنایا   ہے؟ یہاں پہ سائنس خاموش ہے  لیکن اب سائنس  واقفیت کے مقام پرپہنچ رہی ہے۔ کس نے پہنچایا؟  جس نے نیچر بنائی ہے۔ نیچر کس نے بنائی ہے  ؟

ہر آسمانی کتاب تخلیقی فارمولوں کی کتاب ہے۔ ان کتابوں کو شعور کی بجائے لاشعور سے پڑھئے۔ سائنس دان قابل ِتعریف ہیں۔ انہوں نے کارنامے انجام دیے ہیں اور انسانی  برادری کو نیچر سے روشناس کرایا کہ یہ بھی نیچرہے، یہ بھی نیچر ہے، یہ بھی نیچر ہے لیکن مجھ فقیر کا سوال ہے کہ نیچر کو کس نے بنایا ؟  نیچر اگر تخلیقی فارمولے ہیں تو یہ سب کس ہستی کی تخلیق ہے؟  الہامی کتابوں اور آخری آسمانی کتاب  قرآن کریم میں ہے ، 

’’یکسو ہوکر اپنا رخ اس طرزفکر میں مرکوز کردو، قائم ہوجاؤ اس فطرت Nature))  پر جس پر اللہ نے مخلوق کوتخلیق کیا ہے۔اللہ کی بنائی ہوئی ساخت  بدلی نہیں جاسکتی۔ ‘‘

نیچر سے آدمی بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ابا آدمؑ اور اماں حوّؑا  دونوں کو یکجا کیا۔  ایک دوسرے کے اندر  جذب کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے  ماں کو حقوق   عطا  کئے ہیں کہ  اس نے دو   کو ایک جگہ  کرکے ڈائی کی طرح تخلیقی مراحل کو  پروان چڑھایا۔  پروان چڑھانا   تب ہے جب پہلے سے  وسائل اور وسائلتخلیق کرنے والی ہستی موجود ہو۔کوئی اسے اللہ اور کوئی God کہتا ہے۔ جتنی ایجادات  ہیں، پہلے سے موجود وسائل کی مدد سے کی گئی ہیں۔ ساری آبادی، آسمان، زمین سب اللہ کی مخلوق ہیں۔ ہمارا وجود جب یہاں ظاہر ہوتا ہے  تو زمین سے نہیں، آسمانوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس میں ٹائم  کا عمل دخل ہے۔

 خاتم النبیین حضرت محمد ؐ  کا ارشاد ِ گرامی ہے،

لی مع اللہ وقت       وقت میں میرا اور اللہ کا ساتھ ہے۔ 

یہ جو آپ کے پاس وقت ہے نا جس کو آپ نے ناپ تول کر گھنٹوں میں تقسیم کیا، گھنٹوں سےمنٹوں اور منٹوں سے  سیکنڈوں میں تقسیم کیا، یہ وقت وہ نہیں ہے جس کو   آخری نبی ؐ نے   ’’لی مع اللہ وقت‘‘ فرمایا ہے۔  وقت اللہ کی صفات ہیں۔ وقت اللہ کی وہ تخلیق ہے جو ہمیں زمین پر نظر آتی ہے، آسمان پر نظر آتی ہے، پہاڑوں میں نظر آتی ہے، ہوا میں نظر آتی ہے، رنگ رنگ پرندوں میں نظر آتی ہے۔

کبھی سوچا ہے کہ گرمی  سردی کا نظام کون چلا رہا ہے؟  کیا بجلی کے پنکھے اور درخت چلا رہے  ہیں؟ درخت چلا رہے ہیں تو ہوا کس نے تخلیق کی ہے؟     ہوا  وجود ہے۔   ہواٹکراتی ہے،    بڑی بڑی آہنی عمارتیں توڑ کر اس طرح پھینک دیتی ہے کہ نظر  آتا ہے، یہاں کوئی اینٹ نہیں تھی ۔

رو حانی آنکھ  دیکھتی ہے کہ سورج  طباق کی طرح انتہائی درجہ سیاہ ہے۔ اس میں روشنی اور تپش کہاں سے آئی؟   ہم اس زمین پر رہتے ہیں۔  زمین کا نظام کون چلا رہا ہے؟  زلزلے کیوں آتے ہیں؟  زمین کے  اندر آگ  کیوں دہک رہی ہے؟ آپ کہتے ہیں کہ تیل سے دہک رہی ہے۔  تیل کس کی تخلیق ہے؟  تیل بیج میں بنتا ہے تو بیج کون بنا رہا ہے؟    دھوپ نہ ہو،  ہر   چیز مر جائے گی ۔   چاند نہ ہو، ہر چیز کڑوی  ہوجائے گی، مخلوق مٹھاس سے محروم ہوجائے گی ۔

 

 اﷲ تعالیٰ  توفیق عطا فرمائے  کہ ہم  اس دنیا میں رہتے ہوئے سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہر چیز پیدا کیوں ہوتی ہے،  پیدائش کا حکم کہاں سے وارد ہوتا  ہے ؟   پیدائش ہوتی ہے،  زندگی کے عوامل جیسے کھانا،  پینا، مرنا، بیمار ہونا، صحت مند ہونا  اور پیدائش کے الگ الگ نقشے کس کی تخلیق ہیں؟ آسمانی کتابیں بتاتی ہیں کہ   سب اللہ تعالیٰ کے نظام کے تحت ہورہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں انتہائی درجے سائنس کا قدر دان ہوں۔

  اپنے شاگردوں اور دوستوں  کو کہتا ہوں کہ  علمِ مذہب کے ساتھ ساتھ سائنس بھی پڑھو ۔ موجودہ سائنس بلا شبہ  بڑی ترقی ہے اور اس ترقی کا دارومدار  بڑےدماغوں پر ہے، سائنٹسٹ  لوگوں  کی کوششوں کا مظہر ہےلیکن یہ  سائنس اس طرف جارہی ہے جس کا انجام دنیا جانتی ہے۔ہمیں وہ سائنس چاہئے   جو لوہے کے بارے میں قرآن  کریم ، بائبل اور دوسری آسمانی کتابیں بیان کرتی ہیں ۔ لوہے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ  اس کے اندر  لوگوں کےلئے                       بے شمار فوائد ہیں۔سائنس پلُ بنائے، ریلوے لائن بچھائے، بری و بحری جہاز بنائے ۔ سائنس تباہی   کی طرف کیوں جاتی  ہے؟

سب دوستوں سے درخواست ہے کہ  اب دنیا  شدید خطرے میں ہے، پریشان ہے۔ اللہ کے لئے، Godکے لئے، بھگوان کے لئے سائنس کا رخ  تباہی سے ہٹا کر تعمیر کی طرف  کردیں ۔

ہم  کسی بھی مذہب،  رنگ ونسل سے ہوں، آدمؑ و حوّاؑ کی اولاد ہیں،  بہن بھائی ہیں۔  پیغمبروں  نے جن تعلیمات کا پرچار کیا ہے،  اسے یقین کے ساتھ قبول کرکے دنیا میں  محبت   کا ماحول پیدا کرنا چاہئے اس لئے کہ پوری انسانی برادری  ایک ماں باپ (آدم ؑو حوّاؑ) کی اولاد  ہے۔

کوشش کیجئے کہ ’’آدم ڈے‘‘کے پیغام کی فوٹو کاپی کرواکے زیادہ سے زیادہ تقسیم کریں۔ دعا ہے کہ  ہم ہتھیاروں کی جگہ وہ ایجادات کریں جن سے نوعِ آدم سمیت  مخلوقات کو  امن نصیب ہو، دنیا پرُسکون زندگی کا نہ صرف خواب دیکھے بلکہ عملاً خوش بخت زندگی کے گہوارے میں میٹھی نیند سوسکے۔ اس عمل سے آدمؑ و حوّاؑ کی اولاد ایسی زندگی سے مانوس ہوگی   جو  خوف، اضطراب، بے چینی اور بے یقینی  سے آزاد ہے۔

کائنات میں ایک دنیا نہیں، بے شمار دنیائیں ہیں۔ چاند، سورج، ستارے، آسمان ہر دنیا میں خالق کے حکم سے مخلوق کی خدمت  میں مصروف ہیں۔

سائنس ایک علم ہے جس کو ایجادات کی ماں کہتے ہیں۔  ماں کا تصور محبت، آشتی، اخوت، یک ذہنی  اور سکون و راحت کی نوید ہے۔ آدمؑ و حوّاؑ ہمارے باپ، دادا، دادی، نانا ، نانی ہیں۔ ہرماں ہر باپ چاہتا ہے کہ پیدا ہونے والی اولاد مسرت، بے فکر اور خوشی کی زندگی گزارے۔ خوش رہنے کا فارمولا یہ ہے کہ بندہ بشراس بات پر یقین رکھے کہ ہم سب  اس رشتے میں بندھے ہوئے ہیں جس رشتے  اور تعلق سے  ہر فرد  ماں باپ کے نام سے متعارف ہے۔  ماں باپ  کبھی نہیں چاہتے کہ ان کی اولاد برباد و نابود ہو۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے رشتے کو استوار کریں  کیوں کہ آدم ؑ و حوّاؑ کے تعلق کی وجہ سے   ہم سب ایک ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

* قارئین خواتین و حضرات !  نشان زدہ تحریر پر بطور ِ خاص  تفکر کریں، شکریہ۔

 

 

Topics


QSM Aaj ki Baat

خواجہ شمس الدين عظیمی

اور جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(

اللہ تعالیٰ کی مدد اور اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔

اس ماہنامہ میں انشاء اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی، ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔

دعا کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔