Topics
"قسم ہے
زمانے کی، انسان خسارے اور نقصان میں ہے مگر وہ لوگ اس سے مستثنٰی ہیں جورسالتﷺ
اور قرآن کی تعلیمات کو اپنا کر اس پر عمل کرتے ہیں۔"
پیدائش کے بعد
انسان کا تعلق تین نظاموں سے ہے۔
۱۔ پہلا
نظام جہاں اس نے خالق حقیقی کو دیکھ کر اس کے منشا کو پورا کرنے کا عہد کیا۔
۲۔
دوسرا نظام عالم ناسوت، دارالعمل یا امتحان گاہ ہے۔
۳۔
تیسرے نظام میں انسان کو امتحان کی کامیابی یا ناکامی سے باخبر کیا جاتا ہے۔
کامیابی کا
دارومدار اس پر ہے کہ بندہ یہ جان کر کہ اس نے اللہ کے سامنے عہد کیا ہے کہ اللہ
اس کا خالق اوررب ہے۔علما ئے باطن فرماتے ہیں کہ انسان ستر ہزار پرت کا مجموعہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق انسان جب عالم ناسوت میں آتا ہے تو اس
کے اوپر ایک پرت ایسا غالب آجاتا ہے جس میں سرکشی، بغاوت، عدم تحفظ، عدم تعمیل،
کفران نعمت، ناشکری، جلدبازی،شک،بے یقینی اور وسوسوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ یہی وہ ارضی
زندگی ہے جس کو قرآن کریم نے اسفل السافلین کہا ہے۔
انبیائے کرام کی
تعلیمات ہیں کہ پوری کائنات میں دو طرزیں کام کر رہی ہیں۔ ایک طرز اللہ کے لئے
پسندیدہ ہے اور دوسری طرزاللہ کے لئے نا پسندیدہ ہے۔ناپسندیدہ طرز بندے کو اللہ سے
دور کرتی ہے اس کا نام ابلیسیت ہے اور پسندیدہ طرز فکر جو بندے کواللہ سے قریب
کرتی ہے، رحمت ہے۔
……………………
روحانیت کے راستے
پر چلنے والے مبتدی کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوتی ہے کہ انسان کا کردار اس کی طرز
فکر سے تعمیر ہوتا ہے۔
طرز فکر میں اگر
پیچ ہے تو آدمی کا کردار بھی پُر پیچ بن جاتا ہے۔ طرز فکر الٰہی قانون کے مطابق
راست ہے تو بندے کی زندگی میں سادگی اور راست بازی کار فرما ہوتی ہے۔ طرز فکر اگر
سطحی ہے تو بندہ سطحی طریقے پر سوچتا ہے۔ طرز فکر میں گہرائی ہے تو بندہ شئے کی حقیقت
جاننے کے لئے تفکر کرتا ہے۔ حقیقت پسندانہ طرز فکر ہر آدمی کے اندر موجود ہے لیکن
ہر آدمی اسے استعمال نہیں کرتا۔ آدمی دیکھتے اور سمجھتے ہوئے بھی غیر حقیقی
باتوں کو اصل اور حقیقی سمجھتا ہے۔
سالک جب راہ سلوک
میں قدم بڑھاتا ہے تو والدین اور معاشرے سے ملی ہوئی غیر حقیقی طرز فکر تبدیل ہو
جاتی ہے۔جس قسم کا ماحول ہوتا ہے اس طرز کے نقوش کم وبیش ذہن میں نقش ہو جاتے
ہیں۔جس حد تک یہ نقوش گہرے ہوتے ہیں اسی مناسبت سے انسانی زندگی میں طرز فکر بنتی
ہے۔ ماحول اگر ایسے کرداروں سے بنا ہے جو ذہنی پیچیدگی، بے یقینی، بددیانتی،تخریب اور
ناپسندیدہ اعمال کا مظاہرہ کرتے ہیں تو فرد کی زندگی امتلا میں مبتلا ہو جاتی ہے۔
ماحول میں اگر راست بازی اور اعلیٰ اخلاقی قدریں موجود ہیں تو ایسے ماحول میں
پروان چڑھنے والا فرد پاکیزہ نفس اور حقیقت آشنا ہوتا ہے۔ مادری زبان سیکھنے کے
لئے بچے کو قاعدہ پڑھنا نہیں پڑتا۔۔۔ شک اور بے یقینی کا پیٹرن جس طرح بچے کے اندر
ماحول سے خود بخود منتقل ہوجاتا ہے اسی طرح پاکیزہ ماحول اور روحانی استاد کی قربت
سے سالک کے اندر یقین کا پیٹرن بن جاتا ہے۔ جتنے بھی پیغمبر تشریف لائے سب کی طرز
فکر یہ تھی کہ ماورائی ہستی کے ساتھ ہمارا رشتہ قائم ہے۔ یہی روحانی طرز فکر ہے
اور یہی رشتہ کائنات کی رگ جاں ہے۔
……………………
روحانی طرز فکر
مسلسل عمل ہے۔جو سالک کے اندر خون کی طرح دور کرتا ہے۔ اس عمل میں بڑی رکاوٹ صدیوں
پُرانی وہ روایات ہیں جن کا مطمع نظر مادیت ہے۔ آدمی جس ماحول میں جوان ہوتا ہے
وہ ماحول خاندان اور قبیلوں کی روایات بن
جاتی ہیں۔ روایات کے امین والدین، بھائی بہن، کنبہ برادری کے لوگ اور قرابت دار
ہوتے ہیں۔ انسانی برادری میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔
۱۔ جو
خاندانی روایات میں زندہ رہتے ہیں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ دنیا میں کیا ہو
رہاہے اور اگر ہو رہا ہے تو کیوں ہو رہاہے۔ ان کے لئے اتنا کافی ہے کہ ہمارے باپ
دادا اس طرح کرتے تھے۔
۲۔
دوسرا گروہ سوچتا ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے ۔ کیا صحیح اور کیا غلط ہے۔
مشرکین مکہ باوجود
یہ کہ جانتے تھے کہ 360 بت ہمارے جیسے آدمیوں نے پتھروں سے تراشے ہیں، یہ آدمیوں
کی طرح بول نہیں سکتے، سن نہیں سکتے۔۔۔ لیکن خاندانی روایات کا اتنا غلبہ تھا کہ
وہ ان بے جان پتھروں کے مجسم ٹکڑوں کو خدا کا درجہ دیتے تھے۔ نہ صرف خود خدا مانتے
تھے بلکہ کوئی اس حقیقت کو بیان کرتا تھا کہ تمہارے پتھروں کے بے جان مجسمے ہیں تو
اس کے درپے آزار ہو جاتے تھے۔ شرمناک حد تک سزائیں دینا ان کے نزدیک بہترین عمل
تھا۔صدیوں پُرانی روایات اور جہالت کی گرد سے اٹا ہوا ماحول آدمی کے اندر سے فہم
کا چشمہ خشک کر دیتا ہے۔
…………………
ہمارے سامنے ہمارے
بچوں کی مثال ہے۔ ہم جب بچوں کو جہالت سے معمور ماحول سے الگ کر کر کے علمی ما حول
میں داخل کرتے ہیں تو۔۔۔ دراصل جہالت کے خلاف اعلان بغاوت کرتے ہیں۔ بچے اسکول
(جاہلانہ ماحول سے آزادماحول) میں داخل کرتے ہیں۔میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے میں دس
سال لگ جاتے ہیں۔ ایک سال کا وقفہ شمار کیا جائے تو ساڑھے تین ہزار گھنٹے صرف کر
کے بچہ اس قابل ہوتا ہے کہ وہ 100 تک گنتی یاد کر لیتا ہے۔ میٹرک تک تعلیم حاصل
کرنے میں 35ہزار گھنٹوں کا وقت اور ہزاروں روپے صرف ہوتے ہیں۔ ان 35ہزار گھنٹوں
میں
٭ ماں کی کوشش ہوتی ہے کہ بچہ پڑھائی میں لگا رہے۔
٭ باپ بھی اس طرف توجہ دیتا ہے کہ بچے کی
تعلیم میں کوتاہی نہ ہو۔
٭ بھائی بھی کتابیں لے کر ساتھ بیٹھ جاتا ہے۔
٭ بہن بھی پڑھنے کی تلقین کرتی ہے۔
گھر کے سب افراد
توجہ دیتے ہیں تب سیکنڈری سطح کی تعلیم حاصل ہوتی ہے۔اعلیٰ تعلیم ابھی شروع نہیں
ہوئی۔ میٹرک کے بعد راستہ کھلتا ہے کہ کس شعبہ میں آگے بڑھنا ہے۔ ڈاکٹر بنناہے،
انجینئربننا ہے، اکاؤنٹنٹ بننا ہے، جہاز اُڑانا ہے، مشین بنانی ہے وغیرہ وغیرہ۔دس
سال میں آدمی عالم نہیں بن جاتا۔ قابل ذکر علوم کےحصول کے لئے ذہنی طور پر تیار
ہوتا ہے۔ یہ تذکرہ دنیاوی تعلیم کا ہے۔
………………
دوسری طرف روحانی
تعلیم حاصل کرنے کے لئے آدمی ہفتے میں ایک گھنٹہ پڑھتا ہے۔ اس تناسب سے ایک ماہ
میں چارگھنٹے اور ایک سال میں 48گھنٹے بنتے ہیں۔دیگر معمولات بھی جاری رہتے ہیں۔
کاروبار بھی ہوتا رہتا ہے۔ملازمت کی پابندی کی جاتی ہے۔شادی بیاہ اور دیگر امور
بھی انجام دیے جاتے ہیں اور صدیوں پُرانی روایات اور ماحول سے بھی آدمی ذہنی طور
پر وابستہ رہتا ہے۔ ایک سال میں صرف 48 گھنٹے صرف کر کے اگر یہ سوچا جائے کہ کچھ
حاصل نہیں ہوا، میں کشف کی لذت سے آشنا نہیں ہوا، مافوق الفطرت باتیں سامنے نہیں
آئیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ روحانیت کی اہمیت دنیاوی علوم کی ابتدائی کلاسوں سے
بھی کم کر دی گئی ہے۔دس سال تک ہر سال ساڑھے تین ہزار گھنٹے صرف کرنے کے بعد طالب
علم اس قابل ہوتا ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم کےکسی شعبے کا انتخاب کرے تو 35ہزار گھنٹوں
میں سے 480 گھنٹے کا وقت دے کر وہ کس طرح کہتا ہے کہ روحانی علوم حاصل نہیں ہوئے۔۔؟
………………
خالص دنیاوی ماحول
میں رائج طرز فکر سے روحانی استاد کی طرز فکر منفرد ہوتی ہے۔ روحانی استاد میں
توکل اور استغناہوتا ہے، دنیا طلبی نہیں ہوتی۔ اس کی مرکزیت "توحید" ہے۔
روحانی علوم سیکھنے کے لئے طالبات اور طلباء کے لئے ضروری ہےکہ ان کے اندرمنفی
روایات سے بغاوت کرنے کا حوصلہ اور جذبہ ہو۔صراطِ مستقیم پر چلنے اور مستقل مزاجی
سے آگے بڑھنے کا عزم ہو۔سیدنا حضور علیہ اصلوٰۃ والسلام کے نقشِ قدم پر قائم رہنے
اور اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کرنے کے لئے طاغوتی طاقتوں اورنفس کی ہر سر کشی سے
ٹکرانے اور انہیں زیر کرنے کی ہمت ہو۔ سیدنا حضور علیہ صلوٰۃ والسلام کے لئے مثبت
طرزِ فکر کو فروغ دینے میں شر کے
نمائندوں کی طرف سے قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ توحید کے راستے میں ان
رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئےحضور علیہ صلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اور
ذہنی اذیتوں میں گزر گئی اور بالآخر وہ اللہ کا پیغام پہنچانے میں کامیاب وکامران
ہوئے۔وہ اللہ سے راضی ہوگئے اور اللہ ان سے راضی ہوگیا۔
…………………
خواتین و حضرات !
حضور علیہ صلوٰۃ والسلام کی حیاتِ طیبہ کا مطالعہ کریں اور سیرتِ طیبہ کو بار بار
پڑھیں اور اس بات پر
غور کریں کہ حضور علیہ صلوٰۃ والسلام نے الٰہی مشن کو پھیلانے وحدانیت کا پرچار
کرنے اور کفار کو حلقہء توحید میں لانےکے لئے کیسی کیسی تکالیف برداشت کی ہیں۔ ہم
جب حضور پاک ﷺ کی سیرتِ طیبہ کو حرزِ جان بنا لیں گے تو روحانی علوم کوفروغ دینے
اور ان علوم کو نوع انسانی تک پہنچانے میں ہر ہر قدم پر اللہ اور اس کے رسول حضرت
محمد ﷺ کا تعاون ملتا ہے۔
بلاشبہ ہم دنیا
میں کامران اور آخرت میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے سرخرو ہوں گے۔ جرأت مندانہ اقدام
کرنے، دل شکن حالات سے گزرنے اور لوگوں کی الزام تراشیوں کو نظر انداز ہمارے اندر
حوصلہ پیدا ہوگا۔
"اللہ کی رسی کو
مضبوط پکڑو اور آپس میں تفرقہ میں نہ پڑو۔" ( سورۃ ٰال عمران:103)
ہم سب خواتین و
حضرات جن کے شانوں پر رسول اللہ ﷺ کی روحانی تعلیمات عام کرنے کی ذمہ داری ہے بلاشبہ
خوش بخت اور سعید ہیں۔ اس سعادت اور خوش بختی کی حفاظت کے لئے اور اس سعادت اور
خوش بختی کا شکر ادا کرنے کے لئےہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم سیدنا حضور علیہ صلوٰۃ
والسلام کی تاریخ ساز سیرت کا بار بار مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،
"قسم ہے زمانے کی،
انسان خسارے اور نقصان میں ہے مگر وہ لوگ اس سے مستثنٰی ہیں جو رسالت ﷺ اور قرآن کی تعلیمات کو
اپنا کر اس پر عمل کرتے ہیں۔"
اللہ حافظ
خواجہ شمس الدین عظیمی
خواجہ شمس الدين عظیمی
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔