Topics
کیا سمجھے کہ دنیا کیا
ہے۔۔۔؟
دنیا عجائبات کی دنیاؤں
کا اور عجائبات کے اظہار کا پلیٹ فارم ہے۔ دنیا کا مظاہرہ ایک ہوتا ہے لیکن ہر رخ
جداگانہ ہے۔ ایک ہی شکل و صورت ڈائی میں ڈھل کر مختلف نظر آتی ہے۔ نقش و نگار
مختلف ہونے کے باوجود ایک نام سے اپنا تعارف کراتے ہیں۔ زمین میں درخت اُگتے ہیں۔
باغات ہیں، پہاڑ ہیں، نخلستان ہیں، نباتات ہیں، پھول ہیں، پھولوں کا رس چوسنے والی
شہد کی مکھیاں ہیں، تتلیاں ہیں، پرندے ہیں، حشرات الارض ہیں، چوپائے ہیں، کھیتیاں
ہیں، کھیتیاں پکانے والا سورج ہے، پھلوں میں مٹھاس پیدا کرنے والی چاندنی ہے، پانی
ہے، ہوا ہے، سمندر ہے، سمندر کی مخلوق ہے، دریا ہیں، نہریں ہیں، تالاب ہیں، سماوات
ہیں، زمین کو روشن کرنے والی قندیل چاند ہے، بروج ہیں، ستارے ہیں، سیارے ہیں،
کہکشانی نظام ہیں، فرشتے ہیں، جنات ہیں، آدمی ہیں۔۔۔اور انسان ہیں۔
آگ، ہوا، مٹی اور پانی
سے نئی نئی مخلوقات وجود کے عالم میں آرہی ہیں۔ مخلوقات میں زندگی کا اہم عنصر
پانی ہے۔
بے شمار مخلوقات ،
لاشمار زمینوں پر موجود ہیں۔ الگ الگ شکل و صورت ہونے کے باوجود اعمال و حرکات،
نشوونما اور زندگی کے تقاضے پورے کرنے کے لئے نوعیں اشتراک رکھتی ہیں۔ دو پیروں پر
چلنے والا آدمی، چار پیروں پر چلنے والے چوپائے، دو پروں سے اڑنے والے پرندے، ایک
پیر پر کھڑے ہونے والی مخلوق درخت، رینگنے والے کیڑے مکوڑے، خورد بین سے نظر آنے
والی اور نظر نہ آنے والی۔۔۔ اوپر نیچے۔۔۔ دائیں بائیں۔۔۔ آگے پیچھے مخلوقات زمین
پر موجود ہیں۔ ہر نوع مخلوق ہے۔ جسمانی اعتبار سے، صورت کے اعتبار سے، چلنے، اڑنے
اور رینگنے کے اعتبار سے ہر مخلوق منفرد حیثیت رکھتی ہے جبکہ میکانزم ایک ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی دو رخوں پر حاضر
غیب۔۔۔ غیب حاضر اور بالآخر غیب ہے۔ ایک رخ مادی ہے اور دوسرا رخ اس مادی وجود کی
حفاظت کرنے والا سلطان ہے۔
"اے گروہ جنات و
انسان! اگر تم طاقت رکھتے ہو یہ کہ نکل جاؤ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے۔۔۔ تو
نکل جاؤ۔۔۔ تم نہیں نکل سکتے مگر سلطان سے۔" (33:55(
زمین پر موجود مخلوق
نظر آتی ہے لیکن سلطان نظر نہیں آتا۔ ہر شخص وقوف رکھتا ہے اور تجربہ میں ہے کہ
ظاہر وجود کی حرکات و سکنات سلطان کے تابع ہیں۔
تخلیقات دو رخوں پر
قائم ہیں۔۔۔ ایک رخ ظاہر ہے اور دوسرا رخ چھپا ہوا ہے۔ ظاہر میں حرکت کے معنی یہ
ہیں کہ باطنی رخ سلطان کے تابع ہے۔ ظاہر وجود میں ہر قسم کی حرکات و سکنات سونا،
جاگنا، پینا، سانس لینا، غور و فکر کرنا، خوش یا غمگین ہونا، تقاضے پورے کرنا،
باطن کے تابع ہے۔ باطن کا رشتہ جب ظاہر سے ٹوٹ جاتا ہے تو ظاہری وجود کی حرکات و
سکنات ختم ہوجاتی ہیں اور نتیجہ میں جسم کا ہر عضو بکھر کر مٹی کے ذرات میں تبدیل
ہوجاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عالم گیر سوال یہ ہے
۔۔۔ اگر زندگی خیالات کے تابع ہے جبکہ خیالات کے تابع ہے تو خیال کس کے تابع ہے۔۔۔
قارئین خواتین و حضرات سے سوال یہ ہے کہ:
1۔خیالات کا چھپنا، مظہر
بننا اور مسلسل خیال در خیال آنا کیا ہے۔۔۔؟ اگر خیال کی کارفرمائی تھم جائے تو
کیا ہم زندگی کا کسی بھی
عنوان سے تذکرہ کرسکتے ہیں۔۔۔؟
2۔آدمی ہو، حیوانات ہوں،
نباتات ہوں جب موجود جسمانی اعضاء میں حرکت نہیں رہتی تو پھر۔۔۔؟
یہ سب جانتے ہیں کہ
اعضاء کی حرکت بند ہونے کے بعد جسمانی وجود گوشت کے لوتھڑے، ہڈیوں کے پنجرہ، اعصاب
کی بناوٹ بدستور موجود ہونے کے باوجود بھوک، پیاس نہیں لگتی، گرمی سردی کا احساس
نہیں ہوتا، گوار اور ناگوار بات سے خوشی اور رنج کا کوئی عمل دخل نظر نہیں آتا،
عمل یا ردعمل نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم خواتین و حضرات
قارئین بتائیں کہ جسم کا سن ہونا کیا ہے۔۔۔؟ جس کی وجہ سے جسم کی حرکات و سکنات
مفلوج ہوجاتی ہیں۔ جواب یہ ہے کہ جن انوار او روشنیوں نے جسم کو سنبھالا ہوا تھا
انہوں نے مادی جسم سے اپنا رشتہ توڑدیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حرکت سلطان کے تابع ہے۔
حرکت سے مراد پوری زندگی۔ مثال یہ ہے کیا مادی جسمانی خول کو (موت کے بعد) بھوک
پیاس لگتی ہے۔ راحت و تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔۔۔ کیوں احساس نہیں ہوتا۔۔۔ اس لئے
نہیں ہوتا کہ کھلونے آدمی میں فٹ مشین میں چابی ختم ہوگئی۔ اگر ایسا ہے۔۔۔ جبکہ
ایسا ہی ہے۔۔۔ تو مادی جسم کی حیثیت اس کھلونے سے زیادہ نہیں ہے جس کی چابی ختم
ہوگئی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الحمدللہ! اطمینان قلب
کی نوید ہے کہ ہم چھوٹے بڑے یہ سمجھ گئے کہ روح (سلطان) کے بغیر۔۔۔ جسم چابی کے
بغیر کھلونا ہے۔
روحانی اسکول میں استاد
جب علوم کی تعلیم دیتا ہے سب سے پہلے شاگردوں کو بتاتا ہے زندگی
دراصل پھیلنے سکڑنے یا
ظاہر ہونے اور غائب ہوجانے کے دو کرداروں پر قائم ہے۔ جب ہم ہستی پر غو رکرتے ہیں
بالآخر اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں۔ گھٹنے بڑھنے اور بڑھنے گھٹنے کا عمل زندگی ہے اور
یہ زندگی چابی سے چلنے والی گڑیا کے علاوہ نظر نہیں آتی۔
پہلے آدمی غیب سے ظاہر
ہوتا ہے۔ ظاہر غیب میں چھپ جاتا ہے۔ غیب پھر ظاہر ہوتا ہے اور چھپ جاتا ہے یعنی
آدمی ظاہر غیب کی بیلٹ پر سفر کررہا ہے۔ پھیلنے،سمٹنے ظاہر اور غیب ہونے کا عمل
ماں کے پیٹ میں پہلے دن سے شروع ہوجاتا ہے اور جس طرح یہ عمل غیب سے شروع ہوا تھا
ماہ و سال کی منزلیں طے کرکے غیب ہوجاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہم نے انسان کو
مٹی کے ست (خلاصہ) سے بنایا۔ پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند (نطفہ) میں
تبدیل کیا۔ پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی پھر لوتھڑے کو بوٹی بنادیا پھر بوٹی
کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا۔ پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کر
کھڑا کیا۔ پس بڑا ہی برکت والا ہے اللہ سب کاریگروں سے اچھا کاریگر۔" (12-14:23)
اسی طرح سائنس نے بھی
جنین کے مراحل بڑی تفصیل سے بیان کئے ہیں۔ پہلے اسپرم بیضہ سے مل کرزائی گوٹ بناتا
ہے جو ایک نقطہ کی مانند ہوتا ہے جسامت محض 80 مائیکرو میٹر ہوتی ہے۔۔۔ نقطہ تقسیم
در تقسیم ہو
کر بلاسٹوسسٹ
blastocyst بناتا ہے۔ یعنی لوتھڑا
جو رحم کی دیوار سے لٹک جاتا ہے اسی لئے قرآن نے اسے علقہ یعنی جونک کا نام دیا ہے۔ اس کے بعد یہ
لوتھڑا اگلے مرحلہ میں داخل ہوتا ہے جسے قرآن گوشت کی بوٹی (مضفہ) کا نام دیتا ہے
اس لفظ کے لغوی معنی چبائی ہوئی چیز کے ہیں۔ سائنس اسے ایمبریانک پلیٹ کہتی ہے۔
استقرار حمل کو جب دو
ماہ گزرجاتے ہیں تو جنین اگلے مرحلہ نیرولا nerula میں داخل ہوتا ہے جہاں اعصاب، ہڈیاں اور اعضا بنتے ہیں۔ چار ماہ
گزرنے پر جنین کے نقش و نگار مکمل ہوجاتے ہیں اور وہ ایک ننھے منے آدمی کا روپ
دھارلیتا ہے جبکہ جسامت محض چند سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ یہ ننھا منا آدمی مزید پانچ
ماہ پروان چڑھتا ہے اور نوزائیدہ بچہ کے برابر ہوجاتا ہے اور پیدائش کے بعد نئی
زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں پتا ہم کہاں تھے
جب نہیں پتا تو ہم غیب میں تھے۔ غیب سے ظاہر ہونا ظاہر غیب میں چھپ گیا۔ پھیلنے،
سمٹنے ، ظاہر ہونے ، غائب ہونے کا عمل پیدائش کے پہلے دن سے شروع ہوجاتا ہے اور
بالآخر زندگی چھپ جاتی ہے۔
"وہ کون ہے جو
ہمیں دوبارہ زندہ کرے گا، آپؐ کہہ دیجئے وہی جس نے ہمیں پہلے زندہ کیا تھا۔" (78-79:36)
اللہ حافظ
خواجہ شمس الدین عظیمی
اکتوبر 2015
خواجہ شمس الدين عظیمی
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔