Topics
جنت کی زندگی کے بارے
میں رب العالمین اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،
’’جہاں سے جی چاہے، خوش
ہو کر کھاؤ پیو،‘‘ (البقرۃ: 35)
آیت کا ہر لفظ تفکر طلب
ہے۔ ’’جہاں سے‘‘ میں زمان و مکان کی تسخیر کا قانون بیان ہوا ہے۔ ’’جی چاہے‘‘ سے
نشان دہی ہوتی ہے کہ دل اس مقام سے واقف ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ دل کیا ہے۔۔۔؟ ’’خوش
ہونا‘‘ جنت کی فضا کا ذکر ہے۔ ایسی خوشی جس میں تغیر نہیں۔ یہ اس خوشی کا تذکرہ ہے
جس میں بندہ راضی بہ رضا رہتا ہے۔ اس کے برعکس خوشی کے بعد غم اور غم کے بعد
خوشی۔۔۔ تغیر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک نوجوان نے بزرگ سے
پوچھا، دنیا قید خانہ ہے۔ یہ بتایئے قید سے رہا ئی کس طرح ممکن ہے؟ بزرگ نے
فرمایا، مرجاؤ مرنے سے پہلے۔
نوجوان نے پوچھا، مرنے
سے پہلے کوئی کیسے مر سکتا ہے، آپ موت کسے کہہ رہے ہیں؟
بزرگ نے فرمایا، موت
الٹ پلٹ زندگی ہے۔ آزاد ہونا چاہتے ہو تو اس دنیا میں رہتے ہوئے موت کی حقیقت سے
واقف ہوجاؤ، نوجوان نے حیرانی سے پوچھا، جب مرنے کے بعد کی دنیا بھی اسی دنیا میں
موجود ہے پھر یہ دنیا کس طرح قید خانہ ہے؟
بزرگ نے فرمایا، دنیا
قید خانہ نہیں۔۔۔ دیکھنے والی نگاہ محدود ہے۔ سب کچھ موجود ہے۔ گزرنے والے ادوار
اور لوگ تصور سے ذہن کی اسکرین پر مظہر بنتے ہیں۔ وہ کہاں پر ہیں کہ یاد آتے ہی
موجود ہوتے ہیں۔۔۔؟ نوجوان کی پیشانی پر شکنیں نمودار ہوئیں۔
بزرگ نے فرمایا، دریا
اور سمندر کے وجود سے بے خبر کنوئیں کا مینڈک سمجھتا ہے کہ کنواں۔۔۔ دنیا ہے۔ اسی
طرح ذہن میں لاعلمی کی پرت در پرت دیوار کھڑی ہوجائے تو نگاہ قید اور فرد کے لئے
دنیا قید خانہ بن جاتی ہے۔ باہر کی دنیا سے نا آشنا، وہ قید کو دنیا سمجھتا ہے،
دنیا میں دل لگالیتا ہے اور یہاں سے جانا نہیں چاہتا۔ جہاں تم رہتے ہو، وہاں ایک
جانور ایسی بہت سی چیزیں دیکھ لیتا ہے جو تم نہیں دیکھتے، نوجوان نے پوچھا، یہ
دنیا ہر لمحہ تبدیل ہورہی ہے اور ایک قید کے بعد دوسری قید میں داخل ہوجاتی ہے۔ اس
میں رہ کر آزادی کس طرح ممکن ہے۔۔۔؟
بزرگ نے فرمایا، الٰہی
قانون کے مطابق کائنات میں تبدیلی نہیں ہے۔ تم جوان ہو اور سمجھتے ہو کہ بچپن سے
جوانی میں داخل ہوئے ہو، بچپن گزرچکا ہے اور جوانی گزررہی ہے۔ میں تم سے کہتا ہوں
آنکھیں بند کرو اور بچپن کا تصور کرو۔
نوجوان نے آنکھیں بند
کیں۔ ابتدا میں چہرہ پر تجسس تھا کہ بزرگ کیا سمجھانا چاہ رہے ہیں۔۔۔؟ تھوڑی دیر
بعد تجسس تبسم میں تبدیل ہوا، تبسم حیرانی بن گیا، مسکراہٹ گہری ہوگئی اور چہرہ پر
خمار چھاگیا، چہرہ بتارہا تھا کہ نوجوان زمانہ حال سے بے نیاز بچپن میں لوٹ چکا
ہے۔
بزرگ نے کندھے پر ہاتھ
رکھا، نوجوان نے آنکھیں کھول دیں۔ پوچھا۔۔۔ کیا دیکھا؟
نوجوان بولا۔۔۔ اماں
اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلارہی ہے۔ ابا گھر آئے تو میں چھپ گیا اور آواز لگائی کہ
میں کہاں ہوں۔ وہ جانتے ہیں کہ پردہ کے پیچھے چھپا ہوں لیکن جان بوجھ کر ادھر ادھر
تلاش کرتے ہیں۔ ایک وقت کے بعد ان کی آہٹ محسوس نہیں ہوئی تو میں نے پردہ کو ذرا
سا سرکا کر سر باہر نکالا۔۔۔ ابا سامنے کھڑے مسکراتے ہوئے مجھے دیکھ رہے تھے اور
پھر پکڑے جانے پر ہم دونوں زور سے ہنستے ہوئے ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔
بزرگ نے پوچھا، بچپن
گزرچکا ہے تو وہ کیفیات ایک بار پھر کیسے قائم ہوگئیں اور تم اس دور میں کس طرح
داخل ہوئے۔۔۔؟ نوجوان کے پاس جواب نہیں تھا۔
بزرگ نے فرمایا، بچپن،
جوانی اور بڑھاپا جسم کا لباس ہیں اور بیک وقت موجود ہیں، بندہ جب چاہے بچپن کا
لباس پہن لیتا ہے ۔ اللہ کے نظام میں تغیر نہیں ہے، ہمیں نظر آرہا ہے۔
نوجوان کی دلچسپی بڑھ
گئی تھی۔ اس نے پوچھا، خیال میں بندہ مطلوبہ مقام پر پہنچ جاتا ہے مگر جسم وہا ں
کیوں نہیں پہنچتا۔ جسم قید میں ہے یا جسم کی وجہ سے ہم قید ہیں؟
بزرگ نے فرمایا، نگاہ
محدود ہے اس لئے جسم قید بن گیا ہے۔ ہم جو کچھ دیکھتے ہیں، یقین بن گیا ہے کہ جسم
دیکھ رہا ہے۔ خیال میں بے خیال ہونے سے سامنے موجود شے نظر نہیں آتی۔۔۔ جسم موجود
ہے لیکن خیال کہیں اور دیکھ رہا ہے۔ سوال یہ ہے دیکھا کس نے؟ مرنے کے بعد ہم کیوں
نہیں دیکھتے؟ نیند میں مادی جسم معطل ہوتا ہے مگر جذبات اور تقاضے پورے ہوتے ہیں،
غسل واجب ہوجاتا ہے۔ جسم کی حقیقت کیا ہوئی؟ مادی آنکھ بند ہوتی ہے تو اس وقت کون
دیکھتا ہے؟ جب دیکھنے کا بنیادی نظریہ درست نہیں تو ہم کیا دیکھ رہے ہیں۔۔۔؟
گہری سوچ میں گم نوجوان
نے جواب دیا، آپ ٹھیک فرماتے ہیں۔ ہم تغیر دیکھ رہے ہیں جب کہ چیزیں اصل حالت میں
موجود ہیں۔ دنیا قید خانہ نہیں، سوچ مقید ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قارئین! دنیا خوب صورت
مقام ہے۔ دل کو لبھانے اور تفکر کی جانب مائل کرتے مناظر، بلند و بالا پہاڑ،
پہاڑوں پر پھیلے بادل، قوس و قزح کے رنگ، شبنم گرنے کے بعد مٹی کی ٹھنڈی بھینی خوش
بو، پھولوں کی مہک، چرند و پرند کی تسبیح، آبشاروں کا شور، ہرے بھرے میدان، حد نگاہ
سمندر، تحقیق و تلاش میں مشغول انسان، بچہ کی معصومیت، ماں کی محبت، باپ کی شفقت
سب دنیا کا حسن ہیں، یہ اور بات ہے کہ کون کس دنیا میں رہتا ہے۔
انبیائے کرام علیہم
السلام دنیا میں تشریف لائے سب نے قوم کو کائنات میں تفکر کی طرف راغب یا اور
بتایا کہ تغیر سے نکل کر حقیقت کا مشاہدہ کرو۔ جن قوموں نے اللہ کے رسولوں کی
نافرمانی اور نعمتوں کی ناقدری کی وہ نست و نابود ہوگئیں۔ طوفان کی پیش گوئی پر
قوم نے حضرت نوحؑ کو کشتی بناتے دیکھا تو مذاق اڑایا۔ نافرمانی کا یہ عالم تھا کہ
طوفان میں گھر کر بھی بیٹے نے باپ کی طرز فکر کو قبول نہیں کیا۔
’’کشتی ان لوگوں کو لئے
چلی جا رہی تھی اور ایک ایک موج پہاڑ کی طرح اٹھ رہی تھی۔ نوحؑ کا بیٹا دور فاصلہ
پر تھا، نوحؑ نے پکار کر کہا، بیٹا ہمارے ساتھ سوار ہوجا، منکرین کے ساتھ نہ رہ۔
اس نے جواب دیا، میں ابھی ایک پہاڑ پر چڑھاجاتا ہوں جو مجھے پانی سے بچالے گا۔
نوحؑ نے کہا، آج کوئی چیز اللہ کے حکم سے بچانے والی نہیں ہے سوائے اس کے کہ اللہ
ہی کسی پر رحم فرمائے۔ اتنے میں ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہوگئی اور بیٹا بھی
ڈوبنے والوں میں شامل ہوگیا۔‘‘ (ھود،43-41 )
ایک طرف زمین پانی ابل
رہی تھی، دوسری طرف آسمان سے چالیس رات دن پانی برسا، بلند و بالا پہاڑ پانی میں
چھپ گئے اور زمین کی ہر شے غرق ہوگئی۔ عظیم طوفان نے دنیا کی ترقی یافتہ تہذیب کو
نیست و نابود کردیا، حضرت ہودؑ کی قوم ’’عاد‘‘ ہیبت ناک آندھی سے مٹی کے ذرّات میں
تبدیل ہوگئی۔ حضرت صالحؑ کی قوم کو بجلی کی دہشت ناک کڑک اور چمک نے آگھیرا، قوم
لوطؑ پر آگ اور گندھک کی بارش ہوئی۔ تباہ شدہ شہر کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ چار
ہزار سال گزرجانے کے باوود اس علاقہ کی ویرانی ختم نہیں ہوتی۔ مغضوب قوم کی ایک
نشانی بحیرہ مردار ہے جو کرہ ارض پر پست ترین علاقہ ہے۔ یہ خشک زمین تھی، سدوم اور
عمورہ کی آبادی اسی علاقہ میں تھی، اہل سدوم پر عذاب نازل ہوا تو شدید زلزلوں سے
زمین سطح سمندر سے چار سو میٹر نیچے چلی گئی اور آبادی پانی میں غرق ہوگئی ۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بحیرہ مردار کا پانی اب خشک ہورہا ہے۔ لب لباب یہ ہے
کہ نافرمان قومیں صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں لیکن تباہی کے نشانات بعد کے ادوار کے لئے
عبرت کا مقام ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علمائے باطن فرماتے ہیں
کہ زمین کی عمر دس ہزار سال ہے جس کے بعد خشکی کی جگہ پانی اور پانی کی جگہ خشکی
آجاتی ہے۔ طوفان نوحؑ سے قبل جو مقامات خشکی پر تھے، آج وہ پانی میں ہیں ۔ بتایا
جاتا ہے کہ اس عظیم طوفان کو دس ہزار سال پورے ہوچکے ہیں، دنیا ایک بار پھرطوفان،
بادوباراں، گردباد، زلزلوں، وبائی اور اخلاقی امراض کی زد میں ہے۔
* ہوا شمال سے جنوب کی
طرف چلتی ہے۔ بارش اس وقت ہوتی ہے جب ہوا بادلوں سے مخالف سمت سے ٹکراتی ہے۔ بادل
اسفنج ہیں۔ اسفنج کو پانی میں ڈالنے سے پانی اس میں جذب یا جمع ہوتا ہے۔ اسفنج کو
نچوڑنے (کمپریس) سے جمع شدہ پانی ٹپکتا ہے۔ یہی صورت بادلوں کے بننے اور بارش
برسنے کی ہے۔
* ہوا بخارات کو اوپر
اٹھاتی ہے تو تقریباً سو کلومیٹر (باسٹھ میل) کے بعد ہوا کا زور ٹوٹ جاتا ہے اور
بخارات جمع ہو کر بادل کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ ایک طرف ہوا ان بادلوں کو شمال
سے جنوب میں لے کر آتی ہے دوسری طرف جنوب سے شمال کی طرف دھکیلتی ہے۔ نتیجہ میں
بادل (اسفنج) کمپریس ہوتے ہیں اور ان میں جمع شدہ پانی بارش بن جاتا ہے۔
* اسفنج کی طرح بادل
بھی خول ہے۔ جب یہ خول بخارات سے بھر جائے لیکن مخالف سمت سے ہوا اسے کمپریس نہ کر
تو بادل اڑ جاتا ہے۔
* فضا میں بخارات کثیر
تعداد میں موجود ہوتے ہیں لیکن برستے نہیں ہیں۔
* بتایا جاتا ہے کہ
دنیا کو دس ہزار سال پورے ہوچکے ہیں۔ تاریخی مشاہدہ ہے کہ زمین کا درجہ حرارت
بڑھنے(گلوبل وارمنگ) سے ہوا کے مخالف سمت یعنی جنوب سے شمال کی طرف چلنے میں اضافہ
ہوگا اور ٹکراؤ سے بارشوں کا عمل تیز ہوجائے گا۔ گلیشئرز تیزی سے پگھلیں گے۔ گھٹن،
حبس اور گرمی بڑھ جائے گی ، آندھیاں اور بجلی کی کڑک ہوگی، چھوٹے بڑے طوفان آئیں
گے اور بالآخر طوفان نوحؑ کی طرز پر عظیم طوفان اچانک دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے
سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابدال حق حضور قلندر
بابا اولیاؒ نے فرمایا:
’’نظام کائنات صبر پر
قائم ہے۔ قدرت آخر وقت تک خرابیوں کو دور کرنے اور بقا کے تحفظ کی مہلت دیتی ہے۔
اچھائی اور برائی میں امتیاز کے لئے راہ نما بھیجتی ہے۔ فرماں برداری کے نتیجہ میں
سکون اور نافرمانی میں تنبیہ کرکے ایسی نشانیاں ظاہر کرتی ہے جس میں قومیں تباہ
ہوجاتی ہیں۔ ہر دس ہزار سال میں زمین کی بیلٹ تبدیل ہوتی ہے۔ بیلٹ تبدیل ہونے سے
مراد یہ ہے کہ جو خطہ مخلوق کے آرام و آسائش کے لئے بنایا گیا تھا اب تنگ ہوگیا
ہے۔ نافرمانی، ملاوٹ اور لالچ بڑھنے کی وجہ سے زمین کراہ رہی ہے۔ لالچ میں آدمی
چیزیں جمع کرتا ہے اور یہ نہیں دیکھتا جو وجود دنیامیں ظاہر ہوتا ہے وہ اپنے ساتھ
وسائل نہیں لاتا، وسائل کا انتظام و انصرام دنیا میں پہلے سے ہے۔ لالچ کا سمبل
خودنمائی ہے جو زروجواہرات کا پجاری بننے سے پیدا ہوتی ہے۔ سونا چاندی موجود رہتے
ہیں لیکن انا للہ واناالیہ راجعون کے مصداق آدمی دنیا سے چلاجاتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہماری
غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف فرمائیں اور ہمیں توفیق عطا فرمائیں کہ ہم اللہ کے
محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات (شریعت مطہرہ) پر عمل کریں، آمین۔
یہ بات یقیناًبروقت ہے
کہ اجتماعی طور پر ہم سب اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ استغفار کریں۔
اللہ حافظ
خواجہ شمس الدین عظیمی
خواجہ شمس الدين عظیمی
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔