Topics
"اللہ وہی تو ہے جس نے زمین اور آسمانوں
کو بنایا اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعہ سے تمہاری رزق رسانی کے لئے
طرح طرح کے پھل نکالے۔" (ابراہیم 32(
جب ہم لفظ رزق لکھتے ہیں تو رزق سے مراد ہے کہ انسانی
زندگی کو، عارضی ہو یا مستقل، وسائل کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
کہ جس کو چاہے بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔
وسائل کی حفاظت اور تکمیل کے لئے رات اور دن تخلیق کئے
گئے تاکہ دن میں رزق کے حصول کے لئے وسائل فراہم ہوں
اور رات میں توانائی کے ساتھ چاند کی روکی پہلی کرنیں ان میں مٹھاس داخل کریں۔ دن
میں سورج کی تپش اور گرمی پھلوں کو اس قابل کرتی ہے کہ ہم خوش ذائقہ غذا سے
توانائی حاصل کرتے ہیں۔
عزیز دوستو! طبیعت کی ناسازی کی بنا پر
"آج کی بات" لکھنے میں ایسی دشواری پیش آئی کہ اس ماہ آپ کی خدمت میں
حاضر ہونا مشکل مرحلہ بن گیا۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں
"جو لوگ کوشش کرتے
ہیں خالصتاً ہمارے لئے، ہم ان کو اپنے راستوں کی ہدایت بخشتے ہیں۔"
(العنکبوت: 69(
اللہ کا نام لے کر "آج کی بات"
لکھوانا شروع کی، غیب کے پردوں سے بات میں سے بات ظاہر ہوتی رہی جو پیش خدمت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کائنات ایسا مانوس لفظ ہے جو ذہن پر اپنا
عکس چھوڑتا ہے کہ وسیع و عریض کائنات اتنی زیادہ پھیلی ہوئی ہے کہ اس کا کوئی سرا
نظر نہیں آتا۔ ذہن میں دریچہ کھلا، اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق جب بندہ خالصتاً
اللہ کے لئے جدوجہد اور کوشش کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس بندہ پر ہدایت کے راستے کھول
دیتا ہے۔ راستہ سے کون واقف نہیں ہے۔ راستہ اگر نہ ہو تو کسی بھی طرح زندگی بندگی
نہیں بنتی اور جب زندگی بندگی نہ ہو تو پھر کائنات سوالیہ نشان بن جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہم بات کرتے ہیں اور ہر طرف پھیلی ہوئی
کائنات پر تفکر کرتے ہیں تو ذہن کے اندرونی پردوں میں نقش ابھرتا ہے۔ یہ نقشہ از ل
سے ہے اور اللہ تعالیٰ کے چاہنے کے مطابق ابد تک قائم رہے گا۔ نقشہ میں کائنات کے
رموز، تخلیقی امور کی انجام دہی، موسموں کا تغیر، دھوپ چھاؤں، آکسیجن، سورج کی
شعاعیں، چاند کی کرنیں، جھلمل کرتی کہکشائیں۔ چھت کے بغیر آسمان، سماوات میں
شماریات سے زیادہ تخلیقات اور تخلیقات کا پھیلاؤ، زمین کے ٹھہراؤ کے لئے میخیں،
پہاڑ۔۔۔ کائنات کو وسیع تر کرنے کے لئے ایسا سسٹم جس میں تغیر نہیں ہے۔ اس قدر
مخفی راز ہیں کہ نئی نئی صورتیں جلوہ گر ہوتی ہیں، ان صورتوں میں نوعی مخلوقات،
چرند، پرند، درند، شجر و حجر، حیوانات، آدمی اور احسن تخلیق "انسان" سب
شامل ہیں۔
"پس تحقیق انسان
ہماری بہترین تخلیق ہے جو اسفل سافلین میں گری ہوئی ہے۔" (التین: 5-4(
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کائنات اللہ کے ذہن میں موجود پروگرام کا عکس ہے۔ حیی القیوم اللہ کے ارادہ میں
مخلوقات معین مقداروں سے تخلیق ہوئیں اور نظام زندگی متحرک ہوگیا۔ حیی القیوم اللہ
کی صفات ہیں جو زندگی کو متحرک اور قائم رکھتی ہیں۔۔۔ حرکت روح کے تابع ہے اور روح
اللہ کا امر ہے۔
"جب وہ کسی چیز کے
کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہو اور وہ ہوجاتی ہے۔" (یٰس: 82(
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کائنات کو کسی بھی زاویہ سے دیکھا جائے دو
رخوں پر نظر آتی ہے۔ ایک رخ خدوخال پر مشتمل ہے اور دوسرا رخ حرکت ہے۔ خدوخال مکان
اور خدوخال کا ظاہر ہونا، غائب ہونا اور پھر غائب ہونا۔۔۔ مسلسل غیب اور ظہور کا
عمل مکان اور زمان ہے۔ زمان وقت ہے جو نظر نہیں آتا لیکن چشم بینا دیکھتی ہے کہ
وجود میں حرکت موجود ہے۔ کائنات میں اللہ کی تخلیق کا کوئی رخ زمان کی حدود سے
باہر نہیں ہے۔ زمان و مکان کو دو حواس سمجھا جائے تو کائناتی نظام میں دونوں حواس
بیک وقت موجود رہتے ہیں لیکن ایک رخ غالب اور دوسرا مغلوب ہوتا ہے۔ غالب اور مغلوب
کی ترتیب سے شعور کی تعمیر ہوتی ہے۔
احوال و مقامات پر موقوف ہے سب کچھ
ہر لحظہ ہے سالک کا زماں اور مکاں اور
خالق کائنات اللہ کے ذہن میں کائنات کا ہر
فرد معین فارمولوں کے تحت شکل و صورت رکھتا ہے یعنی کائنات میں ہر شے کی شکل و
صورت ہے۔ شکل و صورت سے مراد خدوخال پر مشتمل تخلیق ہے اور قابل تفکر ہے کہ مادی
رخ، غیرمادی رخ کے تابع ہے۔ اگر شعور واقف نہ ہو تو تو مخلوق کسی شے کی جانب متوجہ
نہیں ہوتی۔
ک۔۔۔ن۔۔۔ کُن وہ ہے جس سے زمان و مکان
تخلیق ہوئے۔۔۔ مکان نظروں کے سامنے اور زمان نظروں سے اوجھل ہے۔ نظروں سے اوجھل
ہونا غیرموجود ہونا نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمان و مکان کیا ہے۔۔۔؟ ایک لمحہ کی تقسیم
در تقسیم ہے اور لمحہ کی تقسیم در تقسیم ابتدا ہے جو ہر آن لہروں کے ذریعہ دماغ کی
اسکرین پر وارد ہوتی ہے۔
زمین اسکرین ہے، ایسی اسکرین جس میں
تخلیقات ظاہر ہوتی ہیں۔ یہ نہیں کہا جارہا کہ پانی زمین میں داخل ہوتا ہے تو
نباتات و جمادات و حیوانات پیدا ہوتے ہیں۔ پیدا نہیں ہوتے بلکہ ظاہر ہوتے ہیں۔
موجود وہ پہلے سے ہیں۔ نظر اس لئے نہیں آتے کہ اسکرین پر ظاہر ہونے سے پہلے وہ جس
زون میں ہیں شعور اس سے ناواقف ہے۔
شے اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب پانی زمین میں
داخل ہوتا ہے۔ زندگی اطلاعات پر قائم رہتی ہے اور زمین کے لئے پانی اطلاع ہے۔
اطلاعات لہروں کی شکل میں نزول کرتی ہیں۔ لہروں کو شعاع یا روشنی بھی کہتے ہیں۔ جس
طرح اطلاع (روشنی) دماغ کی اسکرین پر پھیلتی ہے، اس میں پنہاں تصاویر ظاہر ہوتی
ہیں اسی طرح پانی زمین میں داخل ہوتا ہے اور پانی میں موجود مقداروں کا تصویر کے
روپ میں مظاہرہ ہوتا ہے۔ زمین ڈائی کی طرح ہے۔ پانی ڈائی میں جاکر جمتا ہے تو
تصویر بنتی ہے اطلاع پانی کی صورت میں زمین پر آتی ہے اور بھاپ بن کر صعود کرجاتی
ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواتین و حضرات ! بات کرنے کے دو زاوییے ہیں۔ کسی چیز کو
رد کرنا یا قبول کرنا۔ جس لفظ کو رد ہونے میں استعمال کیا جاتا ہے اس میں رد ہونے
کے تصورات استعمال ہوتے ہیں اور جن الفاظ کو قبولیت کے معنوں میں استعمال کیا جاتا
ہے اس میں قبولیت کے تصورات کام کرتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں الفاظ خلق (مخلوق) ہیں
کیوں کہ یہ خالی نہیں۔۔۔ تصورات سے لب ریز ہونے کے بعد وجود میں آتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ کا کُن فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ مخاطب کوئی شے
ہے۔ وہ شے لاتناہیت میں موجود ہے۔ لاتناہیت وہ مقام ہے جہاں ہر شے موجود ہے۔ جب
اللہ تعالیٰ نے لاتناہیت میں موجود شے کو صورت بخشی تو اسے لامحدودیت سے الگ کیا
اور وہ محدود ہوگئی یعنی وہ شکل و صورت میں نظر آنے لگی اور اسے اپنے ہونے کا
احساس ہوا۔ اس سے قبل وہ لامحدودیت میں گم تھی۔
اس رمز کو یہ سمجھئے۔ جب تک قطرہ سمندر میں ہے، ہر سمت
پھیلا ہوا ہے۔ لیکن جب قطرہ کو سمندر سے نکالتے ہیں قطرہ کو سمندرسے علیحدہ ایک
شناخت ملتی ہے۔ سمندرسے الگ ہونے کے باوجود قطرہ میں سمندر کے خواص ہیں اس لئے کہ
جب وہ واپس سمندر میں جاتا ہے۔۔۔ سمندر اسے قبول کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
("اور تمام جان دار چیزیں ہم نے پانی سے
بنائیں۔" (الانبیاء: 30
ہر شے کو پانی سے پیدا کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ کائنات کی
تخلیق پانی سے ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پانی کیا ہے۔۔۔؟ ابدال حق قلندر بابا اولیاؒ
کی تعلیمات راہ نمائی کرتی ہیں کہ "امر وہ مرحلہ ہے جس میں نزول ہے۔ نزول کے
معنی ہیں خلا میں تصورات کا داخل ہونا۔۔۔ جو اطلاعات خلا میں داخل ہوتی ہیں،
تصورات کہلاتی ہیں، ان تصورات کو اللہ تعالیٰ نے "ماء" کا نام دیا ہے۔
دراصل ماء یعنی پانی تصورات کا خول ہے یا وہ ایسے جوہروں کا مجموعہ ہے جس میں ہر
جوہر تصور کی حیثیت رکھتا ہے۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آسمان لاتناہیت (لاشعور، لامحدودیت) کا مقام ہے اور زمین
تناہیت (شعور، محدودیت) ہے۔ لاتناہیت وہ ہے جو ادراک میں نہ آسکے اور تناہیت وہ ہے
جو ادراک بن جائے۔ لاتناہیت سے جب اطلاع آتی ہے تو سمت کا تعین نہیں ہوتا۔۔۔ اطلاع
زمین پر جس سانچہ میں داخل ہوتی ہے، وہی رنگ و روپ اختیار کرلیتی ہے۔
ہر مخلوق تصورات کا مجموعہ ہے اور مخلوق کی مقداریں معین
ہیں۔ ادراک، فہم یا خیال کو آواز میں قید کیا جائے تو لفظ بن جاتا ہے۔ جب ہم کوئی
بات سوچتے ہیں تو وہ ہمارے ذہن میں ہے، باہر نہیں آئی۔ جب تک خیال، آواز میں داخل
نہ ہو، لفظ نہیں بنتا اور جب آواز میں داخل ہوجاتا ہے تو لفظ بن جاتا ہے۔ آواز کیا
ہے۔۔۔؟ خول ہے۔ خول میں تصورات شامل ہونے سے آواز بنتی ہے۔
مخلوق کے اندر ادراک ذہن ہے اور ذہن کی وسعت کائنات کے
ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہے۔ ایک خطہ میں رہنے والا شخص جب دوسرے خطہ میں کسی کو
یادکرتا ہے تو ذہن میں یاد کرنے والے کی تصویر بنتی ہے۔ یہی نہیں، ادراک زمین و
آسمان کے کناروں سے نکلنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ بندہ جب اللہ کو یاد کرتا ہے تو
اللہ تعالیٰ اس کی پکار سنتے ہیں،
"اللہ وہی تو ہے جس نے زمین اور آسمانوں
کو بنایا اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعہ تمہاری رزق رسانی کے لئے طرح
طرح کے پھل نکالے۔ جس نے کشتی کو تمہارے لئے مسخرکیا کہ سمندر میں اس کے حکم سے
چلے اور دریاؤں کو (تمہارے لئے مسخر
کیا۔" (ابراہیم:32
آیت کو پڑھنے کے بعد یک سوئی کے ساتھ مضمون ایک بار پھر پڑھیے۔ ذہن
کھلے گا اور الفاظ میں موجود تصورات آپ کے دماغ کی اسکرین پر پھیل کر تاریک گوشوں
کو روشن کریں گے۔ انشاء اللہ
اللہ حافظ
خواجہ شمس الدین عظیمی
مئی 2016
خواجہ شمس الدين عظیمی
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔