Topics
نگاہ نے جب فضا میں خلا، خلا میں بادل، بادلوں میں پانی،
پانی میں رنگ، رنگ برنگ زمین ،زمین پر نباتات، زیر زمین معدنیات اور معدنیات میں
ثمرات کو دیکھا تو فاصلہ حائل تھا۔فاصلہ نہ ہو ۔۔۔۔نگاہ نہیں دیکھتی۔آپ کیا سمجھے؟
نگاہ فاصلے کا احاطہ کرتی ہے، اس کے بعد دیکھتی ہے یعنی
فاصلے کے دیکھنے کو دیکھتی ہے۔اگرحدفاصل ختم ہوجائے تو وجود سوالیہ نشان بن
جائے گا۔
زمین سے آسمان درمیان میں فاصلے کی وجہ سے نظر آتا ہے جب کہ
فاصلہ نہیں ہے اس لئے کہ آسمان و زمین کے کنارے ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ہم جب زمین
سے آسمان کو دیکھتے ہیں تو پہلے درمیان میں فاصلے کو دیکھتے ہیں، اس طرح نگاہ پر
محدودیت کا غلبہ ہو جاتا ہے اور آسمان نظر نہیں آتا کیوں کہ آسمان پر وقت کی صفات
غالب ہیں۔وقت لہروں میں سفر ہے۔پچیس سالوں میں پچیس برس کی مسافت اسپیس کا غلبہ
ہے۔ تصور میں پچیس سال کے وقفے کا غیر محسوس ہونا وقت میں سفر ہے۔
**----------------------------**
فاصلے کی وجہ سے آسمان اور زمین ، دن اور رات ، پانی اور
بادل، ذرۤہ اور پہاڑ ، بیج اور درخت ، زندگی اور موت ---موت اور زندگی غرض ہر شے میں انفرادیت ہے۔ اللہ کی شان ہے
کہ اس نے کائنات کی ساخت ان ستونوں پر استوار کی ہے جن میں فاصلہ ہے مگر فاصلہ
نہیں۔فاصلہ اسپیس کو الگ الگ دکھاتا ہے جب کہ کائنات کا نظام جس توانائی سے روشن
ہے وہ ایک ہے۔
اللہ سماوات اور ارض کا نور ہے۔ ارض و سماوات میں زندگی کے
ظاہری اور باطنی میکانزم کو خالقِ کائنات اللہ نے سورہ نور میں مثال سے سمجھایا
ہے۔
"اللہ
آسمانوں اور زمین کا نورہے۔ اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے طاق میں چراغ
ہو، چراغ قندیل میں ہوقندیل کا حال یہ ہو جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا ستارہ
، اور وہ چراغ زیتون کے ایسے مبارک درخت
کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی،جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکتا
ہوچاہے آگ اس کو نہ لگے، نور پر نور۔اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے راہ
نمائی فرماتا ہے۔وہ لوگوں کو مثالوں سے بات سمجھاتا ہے ۔اور اللہ ہر شے سے بخوبی
واقف ہے۔"(النور: ۳۵)
ظاہر: طاق
،چراغ،قندیل،موتی،ستارہ---اجسام کی ساخت ہیں اور قندیل کا ستارے کی
طرح چمکنا جسم میں کاربن کا عمل اور شعوری دنیا میں حرکت کا میکانزم ہے۔ غور طلب
ہے کہ ستارہ جھلملاتا ہے،چمک مسلسل سمٹتی اور پھیلتی ہے اس طرح گھٹنے بڑھنے کا
نظام قائم رہتا ہے۔ستارہ مخلوق کے لباس کا استعارہ ہے۔لباس کے سمٹنے اور پھیلنے سے
فاصلہ تخلیق ہوتا ہے۔ہر تخلیق رنگ و روشنی سے مرکب زمین (اسپیس ) ہے اور ہر زمین
ستارہ ہے۔
"اوریہ
جو رنگ برنگ کی اشیا اس نے زمین میں تمھارے لئے پیدا کی ہیں ان میں نشانیاں ہیں ان
لوگوں کے لئے جو غورو فکر کرتے ہیں۔" (النحل:13)
باطن: بیج میں تیل موجود
ہے۔بیج درخت بنتا ہے۔تیل نکال لیا جائے تو لکڑی برادہ بن جاتی ہے اور پتے ریزہ
ریزہ ہو جاتے ہیں۔تیل میں کاربن ہے۔کاربن کی خصوصیت جلانا ہے۔جلنے سے دھواں پیدا
ہوتا ہے اور دھواں کثیف شے ہے۔ کثافت سے شے کی بنیاد روشنی مغلوب ہوتی ہے، رنگ
(ڈائی مینشن) گہرے ہوتے ہیں، نتیجے میں حدود کا تعین ہوتا ہے اور فاصلے غالب
ہوجاتے ہیں۔اس کے برعکس لطافت میں ڈائی مینشن مغلوب اور روشنی غالب ہوتی ہے۔لطیف
شے متغیر حواس کی گرفت میں نہیں آتی۔
دائرہ بنائیے۔چار رنگ بھرئیے اس طرح کہ دائرہ چار حصوں میں تقسیم ہوجائے۔رنگ بھرنے سے چار مثلث نظر آئیں گے۔اب نگاہ دائرے کے بجائےرنگوں کو دیکھے گی۔رنگ مثلث ہیں۔مثلث میں فاصلے ہیں جب کہ دائرہ ہر سمت ایک ہے۔
قرآن کریم نے زندگی کے باطنی میکانزم یعنی نور کو زیتوں کے
تیل کی مثال سے سمجھایا ہے۔خالص زیتون کے تیل میں کاربن نہیں ہوتا ۔جب یہ تیل جلتا
ہے تو اس کا دھواں اتنا لطیف ہے کہ نظر نہیں آتا۔۔۔ہر طرف یکساں تقسیم ہوتا ہے۔ جو
شے ہر جگہ ایک ہو،محدود نگاہ کو نظر نہیں آتی ۔نگاہ اس شے کو دیکھتی ہے جس میں
تغیر ہے۔ اللہ اپنی بات مثالوں سے سمجھاتا ہے اور اصل کیا ہے۔۔۔اللہ جانتا ہے۔
**----------------------------**
آسمان و زمین بظاہر دو رنگ ہیں مگر دونوں کی بنیاد نور ہے۔
موجودات کی انفرادی حیثیت میں، کائنات فاصلوں پر مشتمل ہے مگر دوسرا رخ جس میں نور
کا غلبہ ہے، وہاں فاصلہ نہیں۔فاصلہ نہ ہونے کی وجہ سے آدمی کو نور نظر نہیں آتا جب
کہ نور ہر شے پر غالب ہےاور مخلوقات میں ربط کا زریعہ ہے۔ہم کائنات میں ربط کے
میکانزم سے واقف نہیں لہٰذا لا علمی ہمارے لئے فاصلہ بن گئی ہے۔
شعور کے لئے فاصلہ ضروری ہے ورنہ پہچان باقی نہ رہے مگر
شعور کے لئے اشیا کی بنیاد اور ان میں ربط سے واقف ہونا بھی لازم ہے۔واقفیت سے
انفرادیت ثانوی ہوجاتی ہے اور وقت میں سفر کرنے کی صلاحیت بیدار ہوتی
ہے۔کان،آنکھ،ناک،رخسار اور ہونٹ چہرے پر نمایاں نقوش ہیں۔یہ فاصلے کی وجہ سے الگ
الگ نظر آتے ہیں۔ فاصلہ ختم ہوجائے تو نقوش غائب ہوجائیں گے۔ قارئین، بتائیے کہ
اہمیت نقوش کی ہے یا فاصلے کی۔۔۔؟
جواب:۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
ہم دیوار کو دیکھتے ہیں تو دیوار اور ہمارے درمیان خلا
ہے۔ہم خلا کو دیکھ کر دیوار کو دیکھتے ہیں جس سے محدودیت غالب ہوتی ہے۔ دوسرا رخ
یہ ہے کہ نگاہ کے اندر فاصلہ تسخیر کر کے دوسرے رخ پر پہنچنے کی صلاحیت ہے مگر اس
صلاحیت کا اظہار فی الوقت غیر ارادی طورپر ہورہا ہے۔ لاشعور ہماری لا علمی میں
دیوار اور فرد کے درمیان خلا کو اس طرح ناپ لیتا ہے کہ دیوار کی روشنی ذہن سے الگ
رہتی ہے نہ ذہن کی سطح میں داخل ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم دیوار کو دیکھ سکتے ہیں۔روشنی
ذہن کی اسکرین پر بکھرتے ہوئے انفرادیت قائم رکھتی ہے۔اگر ایسا نہ ہو تو۔۔۔َ؟
----------------؟------------
جسم خلا(فاصلہ) کی وجہ سے قائم ہے۔ خلا میں روشنی دور کرتی
ہے۔۔۔روشنی لہریں ہیں۔جسم میں خلا نہ ہو تو لہریں کس طرح دور کریں گی اور وجود
کیسے قائم رہے گا۔۔۔؟
خلا میں لہروں کی گردش کا نظام رک جائے تو جسمانی عمارت گر
جاتی ہےاور کچھ وقت کے بعد نشان بے نشان ہوجاتا ہے۔
قانون: جو چیز جتنی ٹھوس
نظر آتی ہے اسی مناسبت سے اس میں خلا ہوتا ہے۔
روحانی آنکھ دیوار کی ہر اینٹ میں بڑے بڑے سوراخ اور پہاڑوں
میں بڑے بڑے غار دیکھتی ہے۔پہاڑوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ بادلوں کی طرح کوئی چیز
تیر رہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ٹھوس نظر آنے والا پہاڑ سوراخ در سوراخ خلا ہے جس نے
ضیخم وجود کو قائم رکھا ہے
محترم دوستو،" آج کی بات" میں ربط،فاصلے اور خلا
کو بیان کیا گیا ہے۔فاصلے پر نظر آنے والی ہر شے ربط کی وجہ سے ہے۔سوچئے کہ پھر
فاصلہ کیا ہے؟
خواجہ شمس الدین عظیمی
خواجہ شمس الدين عظیمی
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔