Topics
آدمی نے جب سے آنکھ کھولی ہے، زمانے کے نشیب و فراز میں گم ہے۔ وہ زمانے کے جس حصے سے گزرتا ہے، اسے حال کہتا
ہے۔ حال حافظے کے خانے میں چلا جاتا ہے تو اسے ماضی کا نام دیتا ہے اور جن محسوسات کا
مشاہدہ نہیں ہوا، ان کومستقبل کہہ دیتا
ہے۔ زمانے کی تین ادوار میں تقسیم کی وجہ
matter (مادہ)سے
منسلک خصوصیات ہیں جو نگاہ کو ایک زاویے تک محدود کردیتی ہیں۔اس دنیا میں مادے کی
ہیئت مٹی ہے اورمٹی کی ظاہری صفت گھٹنا
بڑھنا ہے لہٰذا اس زاویے
میں دیکھنے سے ہر شے گھٹتی، بڑھتی
اورگھٹتی نظر آتی ہے اور بالآخر عارضی طور پر غائب ہوجاتی ہے۔
اگرآدمی کی نظر میں لمحہ ٔ موجودکا نام حا ل ہے تو غور طلب ہے کہ دماغ کی
اسکرین پر ماضی کے نقوش حسب ِ
استطاعت حال کی طرح روشن ہوتے ہیں
جن کو وہ دیکھتا اور سنتا ہے اور ان میں
کیفیات کو ایسے محسوس کرتا ہے جیسے ابھی
وارد ہوئی ہوں۔مستقبل کی تصویریں وہ خواب
میں دیکھ لیتا ہے اور تصویروں میں مخفی
احساسات سے گزرتا ہے۔
مثال : خاتون نے خواب میں دیکھا کہ ان کا
خاندان عمرے کے لئے جارہا ہے اور وہ
اس منظر نامے میں نہیں ہیں لیکن اگلے منظر میں وہ گھر والوں
کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کررہی تھیں ۔
جذبات وہی تھے جو مقامات ِ مقدسہ
کی زیارت کے وقت ہوتے ہیں اور احساسات بھی وہی تھے جن سے دورانِ طواف روح سرشار ہوتی ہے۔
یہ خواب تھا۔ خاتون کے مالی حالات ایسے نہیں
کہ خاندان کے ہمراہ عمرے کے لئے جاسکیں لیکن خواب کے نقوش بتاتے ہیں کہ بے حساب رزق عطا کرنے
والی ذات اللہ کی رحمت سے عمرے پر جانے کے حالات و اسباب پیدا ہوں گے۔
توجیہہ: یہ مستقبل کی مثال ہے جو خواب میں حال
بن گئی، جاگنے کے بعد خواب ماضی
میں چلا گیا اور اس کی تعبیر پوری ہونے کا
وقت شعوری طرز ِ بیاں کے مطابق مستقبل ہے۔
قارئین کرام ! سوال یہ ہے کہ اگر صرف موجودہ لمحہ حال ہے تو پھر گزرے ہوئے اور آنے والے وقت کو موجودہ لمحے میں محسوس کرنا کیا ہے— ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی ایک ہے اور زمانے کی بیلٹ بھی
ایک ہے۔ہم conveyor beltکے مختلف حصوں پرموجود ہیں۔ جو ہم سے
آگے ہے، وہ ہمارے لئے ماضی ہے، جو ہمارے ساتھ ہے، وہ ہمارے لئے حال ہے اور جو ہم
سے پیچھے آرہا ہے، وہ ہمارے لئے مستقبل ہے۔
دوسرے فردکے زاویے سے دیکھیں تو جوشخص ہم سے آگے (پہلے) ہے، اس کے لئے ہم
مستقبل ہیں اور جو ہم سے پیچھے ہے، اس کے
لئے ہم ماضی ہیں۔ ہم بیلٹ کے ایسے حصے پرکھڑے ہیں جو ہم سے پیچھے والوں کے خیال
میں گزر چکی ہے اور— ہم بیلٹ کے ایسے حصے پر
حاضر ہیں، ہم سے آگے لوگوں کے خیال میں جس کا گزرنا ابھی باقی ہے جب
کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم تینوں بیک وقت ایک
ہی بیلٹ پر موجود ہیں جو
رواں ہے۔
*حال کیا ہے — ؟ *کیا یہ ماضی سے الگ ہے؟
*مستقبل کی حیثیت کیا ہے— ؟
شعور کے آئینے میں دنیا سے جانے والے لوگ ہمارے لئے ماضی ہیں اورجن کو دنیا
میں آنا ہے، وہ مستقبل ہیں۔ اعراف* میں مقیم رشتہ دار خیال میں آکر
یا خواب کے ذریعے رابطہ کرتا ہے تو نگاہ
کے سامنے منظر روشن ہوجاتا ہے کہ وہ وہاں
کس حال میں ہے، خوش ہے یا ناخوش ہے، ہم
سوال کرتے ہیں، وہ جواب دیتا ہے، اس کی آواز سنتے ہیں اور کیفیات کو محسوس کرتے ہیں۔ اگر وہ ماضی بن چکا ہے اور ہم حال میں ہیں تو وہ ہم سے
کس طرح مخاطب ہے اور ہمارے احساس کی دنیا
میں داخل ہوکر اپنے حال سے مطلع کرنا کیا ہے —؟
یہ اِس دنیا میں وقت گزار کر ہماری
نگاہوں سے اوجھل ہونے والوں کا ذکر ہے۔
اب اُن کا حال پڑھئے جن کو ابھی آنا
ہے۔
کچھ لوگوں کو خواب میں اولاد کی خوش
خبری ملتی ہے اور بچے کے اوصاف کی جھلک
نظر آتی ہے۔ جو بچہ دنیا میں نہیں آیا اور جس کے مادی خدوخال کا ماں کے بطن میں ابھی مظاہرہ
نہیں ہوا، اس کی آمد اور صلاحیتوں کی خبر ملنا کیا ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|
۱۔مرحومین کے
حالات خوشی یا پریشانی کی صورت میں دماغ میں اسکرین پرمحسوس ہونا
کیا ان کی موجودگی نہیں ؟
۲۔ سونے کی حالت
میں آئندہ پیش آنے والے واقعات کو دیکھ لینا کون سا زمانہ
ہے ؟
زمانہ احساس سے متصل ہے۔ احساس ماضی
کا ہوسکتا ہے اور مستقبل کا بھی ۔ جو منظر
احساس میں داخل ہوجائے، وہ حال ہے، جو احساس سے گزر جائے یا اس میں داخل نہ ہوا
ہو، اسے کوئی بھی نام دیں لیکن جیسے ہی وہ
احساس میں داخل ہوتا ہے، حال بن جاتا ہے۔
حال کیا ہے —؟ ریکارڈ ہے۔ روحانی
اصطلاح میں ریکارڈ کو’’ماضی ‘‘کہتے ہیں۔
رب العالمین اللہ نے قرآن کریم میں
فرمایا ہے،
’’ہر گز نہیں، بے شک بد کاروں کا نامہ
ٔاعمال سجینّ میں ہے اورتمہیں کیا معلوم کہ سجینّ کیا ہے ؟ ایک کتاب ہے لکھی ہو ئی ۔‘‘ (المطففین: ۷۔۹)
’’ہر گز نہیں، بے شک نیک آدمیوں کا نامہ ٔاعمال علیین میں ہے۔ اور تمہیں کیا خبر
کہ علیین کیا ہے؟ ایک لکھی ہو ئی کتاب
ہے جسے مقربین دیکھتے ہیں۔‘‘ (المطففین : ۱۸۔۲۱)
خاتم النبیین حضرت محمدؐ کا
ارشاد ہے،
’’جو کچھ ہونے والا ہے،قلم اس کو لکھ کر خشک ہوگیا۔ ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمین کی تاریخ پر غور کریں تو ہر دَور
نے خود کو دہرایا ہے۔ عروج و زوال کی داستان اور کردار و واقعات یکساں ہیں۔ شکلیں
بدل جاتی ہیں جس سے زمانے کے بدلنے کا مغالطہ ہوتا ہے۔ زمانہ لامحدود ہے۔
محدود نگاہ، لامحدود کا احاطہ نہیں کرتی اس لئے اس کو
عنوانات اور ادوار میں تقسیم کرتی ہے جب کہ تجربہ یہ ہے کہ جس زمانے کو یاد کیا
جاتا ہے، دماغ میں اس کی تصویر بن جاتی ہے — یاد میں گہرائی پیدا ہو
تو فرد اس میں داخل ہوتا ہے اور خود کواُن لمحات میں چلتے پھرتے دیکھتا اور بات چیت کرتا ہے۔
’’آج کی بات‘‘کے عنوان سے آپ یہ پڑھ چکے ہیں کہ ہمارے ذہن میں ماضی کا تصور
گزر جانے والا طویل زمانہ ہے جب کہ ماضی طویل نہیں۔ آنکھیں بند کرکے بچپن کا تصور
کرنے سے کھلونے سے کھیلتے یا یونیفارم میں
اسکول جانے کی تصویرنظر آتی ہے۔ ادراک ہوتا ہے کہ وہ دنیا گزر جانے کے باوجود
موجود اور سفرمیں ہے۔ذہن ان مناظر کو دیکھنے میں یکسو ہوتا ہے تو مناظر کے مطابق نئی نئی کیفیات کا ادراک ہوتا ہے۔
طرزِ فہم نے زمانے کو متغیرسمجھ لیا ہے جب کہ زمانہ غیر متغیر ہے، حدیث ِ
مبارکؐ ہے،
’’زمانے کو برا نہ کہو، زمانہ اللہ ہے۔ ‘‘
جب کچھ نہیں تھا تو اللہ تھا ، ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔ اللہ نے چاہا
کہ میں پہچانا جاؤں۔ پہچان کے لئے ارادے میں موجود پروگرام کو حکم دیا
اور کائنات ظاہر ہوگئی۔
قرآن کریم میں زمانے کے بارے میں فرمان ِ الٰہی ہے ،
’’انسان پر زمانے میں ایک وقت ایسا گزرا ہے جب وہ ناقابل ِتذکرہ تھا۔
ہم نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لئے ہم نے اسے
سننے اور دیکھنے والا بنایا۔‘‘
(الدّھر: ۱۔۲)
زمانہ اللہ کے حکم سے ظاہر ہے اور اپنی حالت
پر قائم ہے۔آدمی محدود نگاہ کی وجہ
سے ہونے اور نہ ہونے کے احساس سے گزر رہا ہے اورتغیر میں مبتلا ہے۔
جو چیز اس کی نظر سے اوجھل ہوتی ہے، اسے غائب سمجھتا ہے جب کہ وہ موجودہے۔
مثال کنویئر بیلٹ ہے ۔ دراصل نگاہ میں اتنی وسعت نہیں کہ پردے کے پیچھے
یا ایک حد کے بعد دیکھ سکے لیکن دیکھنے کی
صلاحیت موجود ہے اور علم ِ رویا* اس کی مثال ہے۔ جب مناظر نگاہ کی رینج میں نہیں آتے، آدمی
انہیں ماضی یا مستقبل کا نام دیتا ہے یا غائب سمجھ لیتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر شے کو نوعِ آدم کے لئے حاضر کردیا ہے۔
’’کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں تمہارے لئے
مسخرکردی ہیں اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تمام کردی ہیں؟ ‘‘
(لقمٰن: ۲۰)
اللہ حافظ
خواجہ
شمس الدین عظیمی
* خواب کا علم |
خواجہ شمس الدين عظیمی
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔