عمل اور رد عمل۔ ماہنامہ قلندر شعور ۔فروری 2016
زندگی۔۔۔زندگی۔۔۔
آخر زندگی ہے کیا؟۔۔۔؟ حواس کا مجموعہ حیات ہے۔۔۔ بھوک پیاس، شفقت و محبت، نفرت و
حقارت، سخاوت و بخل، سننا دیکھنا، دیکھنے میں نقوش کا ظاہر و غیب، قوت گویائی،
احساسات و تصورات، وہم اور خیالات۔۔۔ "تانے بانے" پر قائم ہیں۔
"تانے بانے" کا مفہوم دو دھاگوں کا اس طرح
یکجا ہونا ہے کہ آپس میں فاصلہ
space) (نہ ہو۔۔۔
لیکن فاصلہ ہے۔ کپڑا یا کینوس، تانے بانے سے بنا ہوا ہے۔۔۔ اس پر
تصویر بنائی جاتی ہے یا تصویر نظر آتی ہے۔ خود تصویر۔۔۔ خدوخال، رنگ و روپ سے مزین
ایسی تصویر ہے جو بولتی ہے، سنتی ہے اور مکمل طور پر خاموش ہوجاتی ہے۔۔۔ لیکن وہ
بولتی اور سنتی ہے اس پیرا گراف کو تین بار پڑھیئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے ثبات دنیا۔۔۔ بے ثباتی سے مراد ہے کہ
ظاہر دنیا کا ہونا اور غائب ہوجانا مسلسل عمل اور ردعمل ہے۔ واضح طور پر اس بات کو
بیان کرنا اس لئے مشکل ہے کہ لاکھوں الفاظ میں کوئی لفظ ایسا نظر نہیں آتا جس کے
تعاون سے یہ بات بیان ہوجائے۔ مثال سے مشکل سے مشکل بات کسی نہ کسی حد تک واضح
ہوجاتی ہے۔
مرحلہ وار زندگی کا کھوج لگایا جائے تو یہ
فارمولا (Equation)بنتا ہے۔
پانی+ مٹی= کیچڑ یا گارا انسان
"اور بلاشبہ ہم نے انسان کو مٹی کے ست
(سللتہ) سے بنایا۔ پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند (نطفہ) میں تبدیل کیا پھر
اس بوند کو لوتھڑے (علقہ) کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنادیا۔ پھر ہڈیاں
بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر ہم نے اسے نئی صورت میں بنادیا۔ پس اللہ
بڑا بابرکت ہے جو تخلیق کرنے والوں میں بہترین خالق ہے۔" (12-14:23)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سللتہ کے معنی خلاصہ یا نچوڑ
کے ہیں۔ حمل قرار پانے کے لئے لاکھوں خلیات نطفہ میں سے صرف ایک تخم درکار ہوتا
ہے۔ قرآن کریم نے اس تخم کو سللتہ کہا ہے۔ زمین رحم مادر ہے۔ اس میں نطفہ، بوند یا
اسپرم جہاں جذب ہوتا ہے اسے قرار مکین کہا گیا ہے۔ ریڑھ کی ہڈی اور اس سے منسلک
پٹھے ماں کے رحم کو محفوظ بناتے ہیں۔ مزید حفاظت کے لئے اس کے گرد مخصوص مائع سے
بھری تھیلی ہوتی ہے۔ اس طرح اسپرم کو محفوظ مسکن ملتا ہے۔ جذب ہو کر بوند (اسپرم)
جمتی ہے تو علقہ بنتا ہے۔ علقہ جمے ہوئے خون کے ٹکڑے کو کہتے ہیں۔ جمنے کے لئے جذب
ہونا اور جذب ہونے کے لئے زمین ضروری ہے۔ قطرہ یا نطفہ چمٹنے والی چیز (علقہ) بن
جاتا ہے۔ علقہ میں بننے والی شکل جونک سے مشابہت رکھتی ہے۔ علقہ۔۔۔ جونک کی طرح
رحم مادر میں خون کی فراہمی کے لیے عارضی طور پر قائم عضو Placenta
سے خون چوستا ہے۔ "علق" کامرحلہ تیسرے اور چوتھے ہفتہ پر
مشتمل ہے۔ اس کے بعد "علق" تبدیل ہو کر" مضغتہ "بنتا ہے۔
مضغتہ گوشت کے ٹکڑے یا بوٹی کو کہتے ہیں جس پر ایسے نشانات ہوں جیسے کسی چیز کو
چبانے کے بعد دانتوں کے نشانات نظر آتے ہیں۔ یہ ریڑھ کی ہڈی کی ابتدائی شکل ہے،
مضغتہ یعنی گوشت کا ٹکڑا ہڈیوں میں تبدیل ہوتا ہے۔ حفاظت کے لئے ہڈیوں پر گوشت
چڑھایا جاتا ہے اور کم و بیش چھتیس یا چالیس ہفتوں میں قطرہ بچہ میں تبدیل ہوجاتا
ہے۔
آدم کی تخلیق نطفہ یعنی
اسپرم سے ہوتی ہے اور اسپرم آدمی کی تخلیق ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسپرم کیسے بنا۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرار مکین جہاں جسم کی تخلیق
اور نشوونما ہوتی ہے۔۔۔ ماں کا درجہ رکھتا ہے اس لئے زمین ہماری ماں ہے۔ زندہ رہنے
کے لئے وسائل درکار ہیں۔۔۔ وسیلہ زمین ہے۔ کسان بیج بوتا ہے۔ رحم مادر مٹی، کسی
بھی وجہ سے بیج کو قبول نہ کرے تو جذب ہونے کی صلاحیت کے باوجود بیج تناور درخت
نہیں بنتا۔ اسی طرح خراب بیج زرخیز زمین میں ڈالا جائے تو زمین بیج کو جذب نہیں
کرتی۔ بیج مٹی میں فنا ہوتا ہے اور مٹی بیج بنتی ہے تو زمین کے اندر موجود وسائل
کا ذخیرہ پرت در پرت ظاہر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
"وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش
بنایا اور اس میں تمہارے چلنے کو راستے بنائے اور اوپر سے پانی برسایا، پھر اس کے
ذریعہ سے مختلف اقسا م کی پیداوار نکالیں۔ کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی چراؤ،
یقیناًاس میں بہت سی نشانیاں ہیں عقل رکھنے والوں کے لئے۔ اسی زمین سے ہم نے تم کو
پیدا کیا ہے، اسی میں ہم تمہیں( (53-55:20واپس
لے جائیں گے اور اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے۔
غذا جو دسترخوان تک پہنچتی
ہے۔۔۔ تبدیل شدہ مٹی ہے۔ غذا سے خون۔۔۔ خون سے اسپرم اور اسپرم بالآخر ہر آن مٹی
ہے۔ اس بات کو اس طرح سمجھئے کہ مخلوق جو غذا کھاتی ہے وہ مٹی بن جاتی ہے۔ مٹی کے
ذرات پھل پھول اناج اور دیگر نباتات میں تبدیل ہوتے ہیں تو مٹی مغلوب ہو کر غیب
میں چلی جاتی ہے اور سیب، انار، مولی، گاجر، گندم وغیرہ ظاہر ہوجاتے ہیں۔ وقت
مقررہ کے بعد ظاہر باطن اور مٹی غالب ہوجاتی ہے۔
یہ سب کس طرح ہوا۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمین کا نظر آنے والا رخ
ظاہر اور نظر نہ آنے والا رخ باطن ہے۔ بیج کا زمین کی سطح سے باہر آنا غیب سے ظاہر
ہوتا ہے۔ بیج جب پودے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے تو پودے کا ربط زمین میں موجود بیج
سے قائم رہتا ہے۔ اللہ کے نظام میں ہر شے اعتدال اور معین مقداروں کے ساتھ قائم
ہے۔ اعتدال کے لئے ضروری ہے کہ درخت جتنا اونچا ہے اسی مناسبت سے زمین میں پھیلا
ہوا ہو۔ اس لئے کہ ظاہر باطن کا عکس ہے۔۔۔ فاصلہ چاہے جتنا ہو، شے کا مرکز سے رشتہ
برقرار رہتا ہے۔۔۔ مرکز لائف لائن ہے۔
قارئین آپ نے مٹی کے بارے
میں پڑھا۔ آپ کیا سمجھے مٹی کی فطرت کیا ہے۔۔۔؟ غیب ہے۔ اس لئے کہ ماں کے پیٹ میں
مسلسل ردوبدل ہے۔ سڑے ہوئے پانی سے نرم و نازک پھول جیسے بچہ کی پیدائش کے مراحل
کو غیب کے علاوہ دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا، نشوونما کے مراحل غیب سے ظاہر ہونے
اور ظاہر ہونے کے بعد غیب ہیں۔ فارمولا یہ بنا کہ ہر شے تین رخوں پر متحرک ہے۔۔۔
غیب+ ظاہر + غیب
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
"اسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا ہے،
اسی میں ہم تمہیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے۔ "
(55:20(
اس طرح ایک یونٹ بنا۔۔۔
زندگی کا ہر لمحہ اس یونٹ سے تعبیر ہے۔ بچپن ، جوانی، بڑھاپا۔۔۔ سانس کا اندر باہر
آنا جانا۔۔۔ ایک دن کا دوسرے دن میں داخل ہو کر پہلا دن غائب ہونا۔۔۔ سورج کا طلوع
ہو کر غروب ہونا غیب ظاہر غیب کی مثالیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی کیا ہے۔۔۔ سمجھئے
ڈراما نویس ڈراما لکھتا ہے
تو معاشرہ کی خوبیوں اور خامیوں کو قلمبند کرتا ہے۔ جب وہ کہانی لکھتا ہے تو رویوں
کو بنیاد بنا کرکسی کو جانب دار کردار دیتا ہے اور کوئی کردار غیرجانب دار ہوتا
ہے۔ کہانی ڈرامے کی ہو یا کسی گھر کی۔۔۔ بظاہر الگ الگ ہونے کے باوجود زندگی کا
حاصل یہ ہے کہ کہانی ایک ہے لیکن بات کو پیش کرنے کا زاویہ بدلتا رہتا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں
کوئی بات نئی بات نہیں۔ کرداروں پر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ کہانی
ڈرامے کی ہو یا زندگی کی، رویوں سے بنتی ہے۔۔۔ رویے کہانی بناتے ہیں۔ سوچنا یہ ہے
کہ رویے کیا ہیں۔۔۔ اگر عمل کے نتیجے میں ردعمل کو رویہ کہتے ہیں تو ردعمل کیا
ہے۔۔۔ ردعمل کی بنیاد عمل ہے تو پھر عمل کیا ہے۔۔۔؟
رویوں کی گتھی کے بارے میں
ایک دن شاگرد نے استاد سے پوچھا: عمل کو کیسے سمجھا جائے اور ردعمل کی تعریف کیا
ہے۔۔۔؟
شفیق استاد نے جواب دیا: عمل
کو رد کرنا۔۔۔ ردعمل ہے اور اگر رد نہ کرو تو جو باقی رہ جاتا ہے اسے عمل کہتے
ہیں۔ بات مشکل ہے اور مشکل حل کرنے سے آسان ہوتی ہے۔ ندی کنارے سرس کا درخت تھا۔
طغیانی آئی تو درخت جڑ سے اکھڑ کر بہہ گیا۔ بہتے ہوئے اس نے دیکھا کہ نرسل کا درخت
قائم ہے۔ حیران ہوا اور پوچھا۔ سینکڑوں سال پرانے مضبوط درخت طغیانی میں اکھڑ گئے،
تو کیسے کھڑا رہ گیا۔۔۔ وہ کون سا راز ہے جو تجھے معلوم ہے، ہمیں نہیں۔۔۔؟
نرسل بولا، آؤ میں تمہیں وہ
راز بتاتا ہوں جو مجھے دشمن سے محفوظ رکھتا ہے۔ میں کسی سے جھگڑتا نہیں۔۔۔ طاقت ور
کے سامنے اکڑتا نہیں۔۔۔ اپنی بات منواتا ہوں نا کسی بات کو انا کا مسئلہ بناتا ہوں
۔۔۔ دشمن درپے ہوجائیں تو جھک کر جان بچالیتا ہوں۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے
"اور وہ لوگ جو غصہ کھاتے ہیں اور لوگوں
کو معاف کرتے ہیں اللہ ایسے احسان کرنے والے بندوں سے محبت کرتا ہے۔" ( 134:3(
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قارئین ! آپ نے آج کی بات
پڑھی۔ آپ کیا سمجھے آج کی بات کا مفہوم کیا ہے۔۔۔؟ اگر مفہوم یہ لیا جائے کہ بات
سے بات نکلتی رہی۔۔۔ جن جن الفاظ کا فضا میں ارتعاش ہوا وہ سماعت کے لئے ناگوار یا
گوارا محسوس ہوئے۔۔۔؟
مفہوم یہ نہیں ہے۔ لکھنے
والے کے دماغ میں جو کمپیوٹر (ذہن) مسلسل بول رہا ہے، غور نہ کیا جائے تو سماعت
قبول نہیں کرتی۔ آواز دراصل لہروں کے اتار چڑھاؤ کی تخلیق ہے۔ لہریں تیز آواز میں
ناگوار اور ہلکی آواز میں سحر انگیز ہوتی ہیں۔ اسی طرح تحریر معنی و مفہوم کے
اعتبار سے بھاری، ہلکی، پسند ناپسند۔۔۔ مختلف زاویوں کا مجموعہ ہے۔
آج کی بات پڑھ کر آپ کیا
سجھے۔۔۔ اور کیا نہیں سمجھے۔۔۔ لکھ کر بھیجئے ۔ شکریہ
اللہ حافظ